یہ ایک قسم کی انقلابی نرگسیت ہے کہ اگر سماج کے مختلف طبقے اور پرتیں بعض جمہوری مطالبات پر متفق ہوں تو انہیں سیاسی اور تنظیمی طور پر بھی “یکساں” سمجھنا شروع کردیا جائے۔ عمومی جمہوری سیاسی تحریک میں مجموعی سیاسی قوتوں کے درمیان کوئی “دیوارِ چین” حائل نہیں ہوتی۔ عمومی جمہوری تحریک کے بہت سے مطالبات ایسے ہوتے ہیں جو تمام جمہوری قوتوں کے درمیان یکساں ہوتے ہیں۔ اسی نرگسیت کی وجہ سے کچھ لوگ واضح انداز سے فوج کی سیاست سے بیدخلی کے عمومی جمہوری مطالبے کی مخصوص حمایت نہیں کر رہے بلکہ بہانے بازی سے کام لے رہے ہیں اور یہ قطعی غلط تاثر پیدا کر رہے ہیں کہ اس مطالبے کی حمایت کا مطلب سرمایہ داروں کا دم چھلہ بن جانا ہے۔ ان کی منطق وہی ہے کہ اگر آپ نواز لیگ پر تنقید کریں تو یوتھیے ہیں اور اگر تحریک انصاف پر تنقید کریں تو پٹواری! اور اسی لیے اگر اپ فوج کی سیاست سے بیدخلی کی حمایت کر رہے ہیں تو آپ سرمایہ داروں کے سیاسی “ایجنٹ” بن گئے ہیں کیونکہ یہ تو سرمایہ داروں کا مطالبہ ہے۔ مزدوروں کسانوں کی پارٹی اگر یہ مطالبہ کرتی ہے کہ فوج سیاست سے الگ ہو تو جو لوگ اس سے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ اس کا مطلب سرمایہ داروں کا ایجنڈہ اپنا لینا ہے دراصل وہ لوگ نہایت کنفیوز ہیں۔ وہ یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ پی ڈی ایم میں “متحد” ہونے کے باوجود اس میں شامل ہر سیاسی پارٹی کی اپنی سیاسی شناخت، تنظیم اور سیاسی پروگرام اپنی جگہ برقرار ہے۔ پیپلز پارٹی، نواز لیگ، جے یو ائی ایف پی ڈی ایم میں “متحد” ہو کر کسی ایک واحد سیاسی پارٹی میں “ضم” نہیں ہو گئے ہیں! اسی طرح لیفٹ بھی پی ڈی ایم کا حصہ بن کر، یعنی اس کے جمہوری مطالبات کی حمایت کر کے بھی اپنی تنظیمی، سیاسی شناخت برقرار رکھ سکتا ہے اور اپنے سیاسی پروگرام کے مطابق اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے۔ یا لیفٹ فوری جمہوری مسائل کے حل کے لیے علیحدہ پلیٹ فارم بنا کر موجودہ سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے اپنا متبادل سیاسی پروگرام پیش کر سکتا ہے۔ اس علیحدہ لیفٹ اتحاد میں شامل لیٍفٹ کی مختلف سیاسی پارٹیاں اور گروہ بھی اس لیفٹ اتحاد کا حصہ بن کر، یعنی اس کے عبوری سیاسی پروگرام سے متفق ہونے اور اس کی حمایت کرنے کے “باوجود” اپنی تنظیمی اور سیاسی شناخت برقرار رکھ سکتے ہیں اور اپنے مختلف سیاسی پروگرام کے مطابق اپنا کام خود مختاری کے ساتھ جاری رکھ سکتے ہیں۔ اگر لیفٹ کھل کر فوج کی سیاست سے بیدخلی کا “سیاسی” مطالبہ اس لیے نہیں کرتا کہ اس سے اسے سرمایہ داروں کا دم چھلہ سمجھا جائے گا کیونکہ کچھ نام نہاد انقلابی احمق ایسا سمجھتے ہیں یا وہ موجودہ سیاسی بحران میں اپنا کوئی علیحدہ پلیٹ فارم نہیں بناتا اور اس سے فوج کی سیاست سے بیدخلی اور فوری جمہوری مطالبات اور ان کے حصول کی حکمتِ عملی عوام کے سامنے نہیں رکھتا تو اس نام نہاد “غیر جانبداری” اور “انقلابی خالص پن” کا سارا فائدہ جرنیل شاہی کو پہنچے گا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مارکسزم کے مطابق طبقاتی سماج میں غیرجانبداری منافقت کا دوسرا نام ہے! فوجی اور سول سرمایہ داروں کے درمیان تضاد سے “غیر جانبدار” رہنا اور اس سیاسی منافقت کو چھپانے کے لیے انقلابی لفاظی کرنا مارکسزم لینن ازم سے انحراف اور موقع پرستی ہے۔ لیفٹ کی کوئی بھی پارٹی جو موجودہ سیاسی بحران میں واضح انداز سے جرنیل شاہی کے خلاف کھڑی نہیں ہوتی اور سیاست سے فوج کی بیدخلی کا واضح اور دوٹوک مطالبہ نہیں کرتی وہ سیاسی بحران کے منفی نتائج میں برابر کی ذمہ دار ہوگی۔ اس کی غیر جانبداری، علیحدگی پسندی اور لاتعلقی اسے اس الزام سے بری نہیں کر سکتی بلکہ اس کے خلاف دراصل ایک چارج شیٹ کا کام کرے گی۔Share