روسی انقلاب میں بالشویک پارٹی کا کردار ۔۔ شاداب مرتضی

روس کی انقلابی تحریک کی ابتدائی قیادت روس کے نچلے متوسط طبقے کے پاس تھی جو نرودنک کے نام سے جانا جاتا تھا۔ نرودنکوں کا خیال تھا کہ یہ مزدور طبقہ نہیں بلکہ کسان طبقہ ہے جو روس سے بادشاہت اور جاگیرداروں کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے کسان طبقے کو بغاوت پر آمادہ کرنے کی تحریک چلائی لیکن اس میں ناکام ہوجانے کے بعد وہ خفیہ تنظیم کے  ذریعے انفرادی دہشت گردی کے طریقہ کار کو اپنا کر کسان عوام سے علیحدہ رہ کر بادشاہ اور زمینداروں کو قتل کرنے کے منصوبے بناتے رہے۔ روسی شہنشاہ نے ان کی تنظیم کو بزور طاقت ختم کر دیا لیکن ان کے خیالات کافی عرصے تک انقلابی تحریک پر اثر انداز رہے۔ بعد میں نرودنک زارشاہی حکومت اور خصوصاً  دیہی سرمایہ دار طبقے کے حامی بن گئے۔تاہم، 1870 کی دہائی سے روس میں صنعتی سرمایہ داری کے پھیلاؤ سے اور کمیونسٹ لیگ کی بین الاقوامی مزدور جدوجہد سے روس کے صنعتی مزدور طبقے کی معاشی جدوجہد کا آغاز ہوا اور مزدور یونینیں قائم ہونے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی روس میں مارکس اور اینگلز کی تصانیف کے ترجمے کے  ذریعے مارکسزم متعارف ہوا۔ 1883 میں پلیخانوف کی قیادت میں “مزدوروں کی نجات” کے نام سے ایک مارکسی  حلقہ وجود میں آیا جس نے نرودازم کے خلاف نظریاتی جدوجہد کے مقابلے کے لیے مارکسزم کو اپنا نظریاتی رہنما بنایا۔ اس حلقے نے روس میں مزدور طبقے کی انقلابی سیاسی جدوجہد کے لیے مزدوروں کی سیاسی جماعت کی تشکیل کا بیڑا اٹھایا لیکن نظریاتی ناپختگی کے سبب اس سے اہم غلطیاں سرزد ہوئیں جن کی وجہ سے یہ حلقہ مزدوروں کی سیاسی جماعت کی تشکیل کی جانب نہ بڑھ سکا۔روس میں مزدور طبقے کی انقلابی سیاسی جماعت کی تشکیل کے عمل کا آغاز اکتوبر انقلاب کے عظیم رہنما ولادیمیر لینن اور ان کے قیادت میں روسی کمیونسٹوں نے کیا۔ انہوں نے 1895 میں سینٹ پیٹرسبرگ میں مزدوروں میں کام کرنے والے مارکسی حلقوں کے اشتراک سے “مزدوروں کی نجات کی جدوجہد کی انجمن” کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن کی قیادت میں 1896 میں پیٹرسبرگ کے 30 ہزار پارچہ بافی کے مزدوروں نے ہڑتال کی اور کام کے گھنٹوں میں کمی کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں بادشاہ نے قانون کے  ذریعے ساڑھے گیارہ گھنٹے یومیہ سے زیادہ کام لینے پر پابندی لگا دی۔اس انجمن کی کامیابیوں سے حوصلہ پا کر روس کے دیگر علاقوں میں مثلاً  ماورائے قفقاز، ماسکو، سائیبیریا وغیرہ میں بھی مزدوروں کی مارکسی انجمنیں قائم ہونے لگیں۔ یہی تحریک آگے چل کر روسی سوشل ڈیموکریٹک مزدور پارٹی میں ڈھلی اور 1898 میں اس پارٹی کی پہلی کانگریس منعقد ہوئی۔ 1903 میں اس کی دوسری کانگریس کے دوران روسی مزدوروں کی یہ سیاسی جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی جس میں سے اکثریتی حصہ بالشویک اور اقلیتی حصہ منشویک کہلایا جانے لگا۔ منشویک دھڑے سے تعلق رکھنے والے انقلابی آہستہ آہستہ انقلابی تحریک سے سرکتے ہوئے اصلاح پسندی یا سرمایہ داری سے سمجھوتے بازی کے رجحان کا شکار ہوگئے۔ بالشویک حصے کے انقلابی، البتہ ولادیمیر لینن اور ان کے ساتھیوں خصوصا کامریڈ اسٹالن کی مدد کے ساتھ، مزدور طبقے کی انقلابی جدوجہد کے راستے پر آگے بڑھتے رہے۔ اسی عمل کے دوران آگے چل کر بالشویک مارکسیوں نے وضاحت سے یہ ثابت کیا کہ مزدوروں کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایک پارٹی نہیں بلکہ دو بالکل مختلف نظریے اور حکمتِ عملی رکھنے والی مخالف سیاسی جماعتیں ہیں۔ منشویکوں کے برخلاف بالشویکوں نے اپنی انقلابی پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے روسی مزدوروں کی حقیقی انقلابی مارکسی سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی۔بالشویک پارٹی کے رہنماؤں خصوصاً  ولادیمیر لینن اور جوزف اسٹالن اور دیگر بالشویک انقلابیوں نے روس کی انقلابی تحریک کو مارکسزم کے  ذریعے سائنسی بنیادوں پر استوار کیا۔ انہوں نے روس کی انقلابی سیاسی تحریک کو اس کی جدید اور حقیقی مارکسی طبقاتی شکل فراہم کی۔ مارکسی تھیوری کو بنیاد بناتے ہوئے بالشویکوں نے روس میں مزدور طبقے کی آمریت کے  ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے روس کی فیکٹریوں، کارخانوں اور صنعتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو منظم کیا اور ان کی سیاسی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں جمہوری ریاست کے قیام کی جدوجہد میں شہنشاہیت کے مدمقابل لا کھڑا کیا۔روس میں 1905 کی انقلابی تحریک کی ابتداء ماورائے قفقاز میں دسمبر 1904 میں باکو کے تیل کے چشموں کے مزدوروں کی جدوجہد سے ہوئی جسے باکو میں بالشویک پارٹی کی شاخ نے منظم کیا تھا۔ بالشویک پارٹی نے جنوری 1905 میں  سینٹ پیٹرسبرگ کے سب سے بڑے کارخانے پتی لوف ورکس کے مزدوروں کی ہڑتالی تحریک جس سے 1905 کے انقلاب کا آغاز ہوا اس میں بھی جمہوری مطالبات شامل کرائے اور جب روسی شہنشاہ نے سرما محل کے سامنے ان چالیس ہزار مزدور مرد، عورتوں اور بچوں پر گولیاں چلوائیں تو اس میں کئی بالشویک بھی جان سے گئے۔  خونی اتوار کے نام سے جانے جانے والے مزدوروں کے اس قتلِ عام کے خلاف  پورے  روس  میں  مزدوروں کی ہڑتالیں ہوئیں اور زار شاہی کے خاتمے کی تحریک روس کے طول و عرض میں پھیل گئی۔اس صورتحال میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی تنظیمی اور سیاسی حکمتِ عملی کو طے کرنے کے لیے بالشویکوں نے پارٹی کی تیسری کانگریس بلانے کو کوشش کی لیکن  منشویکوں  نے  کانگریس منعقد کرنے سے اختلاف کیا۔ بہرحال، بالشویکوں نے اس عدم تعاون کے نتیجے میں اپریل 1905 میں لندن میں بالشویک پارٹی کی کانگریس منعقد کی۔ جواب میں منشویکوں نے اسی دوران جنیوا میں الگ سے اپنی کانفرنس منعقد کی۔ ان اجلاسوں میں 1905 کے انقلاب کے بارے میں مارکسیوں کی کیا حکمتِ عملی ہونی چاہیے اور کیوں ان سوالوں پر بحث مباحثہ ہوا۔ بالشویک پارٹی کا نکتہ نظر یہ تھا کہ 1905 کا انقلاب اپنے جوہر میں سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب تھا۔ اگر مزدور طبقہ حقیقی معنی میں جمہوری حقوق حاصل کرنا چاہتا تھا تو اس انقلاب کی قیادت خود مزدور طبقے کو کرنا چاہیے تھی اور کسان طبقے کو اپنا اتحادی بنانا چاہیے تھا تاکہ سرمایہ دار طبقے کو مکمل جمہوری ریاست کے قیام کے لیے دباؤ میں رکھا جا سکے کیونکہ سرمایہ دار طبقہ مزدوروں اور کسانوں کو حد میں رکھنے کے لیے یعنی مکمل جمہوریت کا راستہ روکنے کے لیے شہنشاہ سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے برعکس منشویکوں کا نکتہ نظر یہ تھا کہ سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کی قیادت سرمایہ داروں کو ہی کرنا چاہیے کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب ہے۔  مزدوروں کو سرمایہ داروں کی قیادت قبول کرنا چاہیے کیونکہ اگر مزدوروں نے انقلاب کی قیادت کی کوشش کی تو سرمایہ دار طبقہ ان کی قیادت کے خوف سے شہنشاہ سے سمجھوتہ کر لے گا۔ بالشویک اس جمہوری انقلاب کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ضروری سمجھتے تھے کہ اس انقلاب کی قیادت روس کا مزدور طبقہ کرے جبکہ منشویک اس کے برعکس یہ چاہتے تھے کہ انقلاب کی قیادت سرمایہ دار طبقہ کرے اور مزدور طبقہ اس کی پیروی کرے۔ ٹراٹسکی کے نزدیک 1905 کا انقلاب اپنی نوعیت میں سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب نہیں بلکہ سوشلسٹ انقلاب تھا۔ ٹراٹسکی کا نعرہ تھا: “زارشاہی نہیں مزدور حکومت”! وہ اس بات کا بھی حامی نہیں تھا کہ مزدور طبقے کو انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے کسان طبقے کے ساتھ اتحاد کی ضرورت تھی۔ وہ کسان طبقے کو مزدور طبقے کا طبقاتی حریف سمجھتا تھا۔گو 1905 کا انقلاب اپنا ہدف کو تو حاصل نہ کر سکا لیکن اس کے نتیجے میں روس کی تاریخ میں پہلی بار پارلیمنٹ کا ادارہ وجود میں آیا اور مزدور طبقے کو جزوی طور پر سیاسی اور جمہوری حقوق حاصل ہوئے۔ روسی مزدور طبقے کے انقلابی تجربے میں اور بالشویک پارٹی کی سیاسی بصیرت اور اثر و رسوخ میں بہت اضافہ ہوا۔ اسی انقلاب کے دوران مزدوروں اور سپاہیوں کی انقلابی سیاسی انجمنیں (سوویتیں) وجود میں آئیں اور کسانوں کی انقلابی سیاسی تنظیمیں قائم ہوئیں۔ اس انقلاب نے روس کے مزدور، کسان اور سپاہیوں کے انقلابی اور طبقاتی شعور کو پختہ کیا اور زارشاہی کے خلاف جمہوری سیاسی تحریک کی وسعت اور پذ یرائی میں اضافہ کیا۔ چنانچہ 1905 کے انقلاب کو مکمل طور پر ناکام قرار نہیں دیا جا سکتا۔روس کی انقلابی تحریک کے دوسرے مرحلے کی  ابتداء 1912 میں لینا کی سونے کی کانوں میں مزدوروں کے قتلِ عام کے خلاف احتجاجی تحریک سے ہوئی۔ اس انقلابی تحریک میں بھی بالشویک پارٹی کا مقصد سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کو مکمل کرنا تھا۔ 1905 کے انقلاب میں روس میں شہنشاہیت کا خاتمہ نہیں ہو سکا تھا اور روس جمہوری ریاست نہیں بن سکا تھا۔ یہ ہدف فروری 1917 کے انقلاب نے پورا کیا۔ بالشویک پارٹی نے 1905 کے انقلابی ابھار کے تھم جانے کے بعد کے دور یعنی 1908 سے 1911 تک مزدوروں کی تنظیم کاری اور سیاسی و نظریاتی تربیت کا کام جاری رکھا جبکہ منشویک اور ٹراٹسکی بالشویک پارٹی کے مقاصد کے خلاف اپنی مہمیں چلاتے رہے جن میں انہوں نے بالشویک پارٹی کو تحلیل کرنے کی اور شہنشاہیت اور سرمایہ داروں کے ساتھ مزدوروں کی مصالحت کی کوشش کی۔ بالشویک پارٹی مزدوروں کو جمہوری انقلاب کے لیے دوبارہ منظم کرنے میں مصروف رہی جبکہ منشویک اور ٹراٹسکی مزدور طبقے میں انقلاب اور بالشویک پارٹی کے خلاف کام کرتے رہے۔ اپریل 1912 میں لینا کی سونے کی کانوں میں بدترین حالاتِ کار کے خلاف احتجاج کرنے والے مزدوروں میں سے 500 مزدوروں کو گولیاں مار کر ہلاک کیے جانے کے خلاف روسی شہنشایت کے خاتمے کے لیے ابھرنے والی کل روسی مزدور تحریک کو منشویکوں اور ٹراٹسکی نے ایک عرضداشت پر دستخطی مہم کے  ذریعے سبوتاژ کرنے کی اسی طرح کوشش کی جس طرح پادری گپون نے 1905 میں کی تھی۔ لیکن منشویک اور ٹراٹسکی بری طرح ناکام ہوئے۔ روسی شہنشاہیت کی بربریت کے خلاف سراپا احتجاج اور مشتعل لاکھوں روسی مزدوروں میں سے وہ اپنی غلامانہ عرضداشت پر صرف 1300 مزدوروں کے دستخط حاصل کر سکے۔ فروری 1917 کے انقلاب کا آغاز پہلی عالمی جنگ کے جلو میں ہوا جس میں ہونے والے وسیع جانی و مالی نقصان اور روسی فوج کی پے در پے شکستوں نے روسی شہنشاہ کی حاکمیت کی بنیادیں ہلا ڈالیں۔ جنگ کے سبب روسی مزدوروں کے حالات زندگی بدترین ہو چکے تھے۔ جنگ کے لیے جبری بھرتیوں، شہروں میں خوراک اور ایندھن کی سخت قلت اور جنگی سازوسامان کی تیاری کے لیے بدترین حالات اور کوڑیوں جتنی اجرت کے عوض 15 گھنٹے یومیہ کی کمر توڑ محنت نے روسی مزدوروں کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا اور 1917 کے آغاز کے ساتھ شہنشاہیت کے خاتمے کے لیے مزدوروں کی ہڑتالیں، احتجاج اور جلوس زور پکڑ گئے۔ فروری 1917 میں عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر بالشویک پارٹی کی پیٹروگراڈ کمیٹی کی آواز پر مزدور عورتیں فاقہ کشی، جنگ اور روسی شہنشاہ کی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرتی ہوئی سڑکوں پر نکل آئیں۔  مزدوروں کا یہ احتجاج ایک عام سیاسی ہڑتال بن گیا اور پھر اس نے شہنشاہ کے خلاف بغاوت کی شکل اختیار کر لی۔ روسی شہنشاہ نے اس بغاوت کو پولیس اور فوج کے  ذریعے کچلنے کی کوشش کی۔ بالشویک پارٹی کی پیٹروگراڈ کمیٹی نے مزدوروں کو بغاوت کو مسلح بنانے کی اور عارضی انقلابی حکومت قائم کرنے کی ہدایت کی۔ بغاوت بڑھتے بڑھتے سپاہیوں تک پھیل گئی اور زارشاہی فوج کے باغی سپاہی وزیروں اور جرنیلوں کو گرفتار کرنے لگے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے لگے۔ پیٹروگراڈ کی بغاوت کی خبر جب روس کے دوسرے علاقوں میں پہنچی تو ہر جگہ مزدور اور سپاہیوں نے شہنشاہ کے سرکاری  افسروں کو برطرف کرنا شروع کر دیا۔ روسی شہنشاہ کے جبر و استبداد کی کمر ٹوٹ گئی۔ فروری انقلاب نے جمہوری انقلاب کا مقصد حاصل کر لیا۔ روس سے شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا اور سرمایہ داروں اور مزدوروں پر مشتمل مخلوط عارضی حکومت قائم ہوئی۔تاہم یہ عارضی حکومت اپنے وعدوں کے برعکس مزدوروں، کسانوں اور سپاہیوں کے 8گھنٹے کام، زمینوں کی تقسیم اور جنگ کے خاتمے کے مطالبات پورے کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ منشویکوں اور سوشلسٹ انقلابیوں کو بالشویک پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کے سبب یہ موقع ملا کہ انہوں نے مزدوروں اور کسانوں کی انجمنوں کی اکثریت سے سرمایہ داروں سے طبقاتی مصالحت کی اپنی پالیسی منظور کروالی۔ لیکن بالشویک پارٹی نے اس عبوری انقلابی مرحلے سے آگے بڑھ کر سوشلسٹ انقلاب تک پیش قدمی  کی جدوجہد جاری رکھی اور مستقل مزاجی کے ساتھ مزدوروں، سپاہیوں اور کسانوں کو سرمایہ داروں، منشویکوں اور سوشلسٹ انقلابیوں کے انقلاب مخالف اقدامات سے آگاہ کرتی رہی۔ اپریل 1917 میں پیٹروگراڈ میں بالشویک پارٹی کی کانفرنس نے روس میں سوشلسٹ انقلاب کے لیے اپنی حکمتِ عملی تیار کی اور اس کے تحت کام کرتے ہوئے عوام کے سامنے منشویکوں اور سوشلسٹ انقلابیوں کی اعتدال پسند پالیسی کی قلعی کھولی تاکہ مزدوروں اور سپاہیوں کی انجمنوں کو سوشلسٹ انقلاب کے لیے تیار کیا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں روس کے کئی شہروں میں مزدوروں کی انجمنوں نے نئے چناؤ کیے اور منشویکوں اور سوشلسٹ انقلابیوں کو باہر نکال کر بالشویک پارٹی کے نمائندوں کو منتخب کیا۔ اس دوران عارضی حکومت اپنی سامراجی پالیسی پر کاربند رہی اور اس نے جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ جون 1917 میں برطانیہ اور فرانس پر حملے میں روسی فوج کی ناکامی نے دارالحکومت پیٹروگراڈ کے مزدوروں اور فوجیوں میں عبوری حکومت کے خلاف غصے کی آگ بھڑکا دی۔ پیٹروگراڈ میں حکومت مخالف مسلح مظاہرے شروع ہوگئے۔ بالشویک پارٹی کی آواز پر پیٹروگراڈ کے لاکھوں مزدور اور سپاہی ایک جلوس کی صورت میں کل روس سوویتوں کی انتظامیہ کمیٹیوں کے صدر دفتر تک گئے اور مطالبہ کیا کہ مزدوروں اور سپاہیوں کی انجمنیں حکومتی اقتدار اپنے ہاتھ میں لیں۔ تاہم مزدوروں کے جلوس پر عارضی حکومت کے مسلح دستوں نے حملہ کیا اور بالشویک مزدوروں اور سپاہیوں کا قتلِ عام ہوا۔ بالشویک پارٹی کے اخبار “پراودا” کا دفتر منہدم کر دیا گیا۔ اس کا چھاپہ خانہ مسمار کر دیا گیا۔ اس کے کئی رہنما اور اراکین گرفتار کر لیے گئے اور بالشویک پارٹی کے قائد لینن پر غداری کا مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ان حالات میں بالشویک پارٹی نے جولائی-اگست 2017 میں اپنی چھٹی کانگریس جوزف اسٹالن کی رہنمائی میں خفیہ طور پر منعقد کی۔ اس کانگریس کے موقع پر لیون ٹراٹسکی نے 1913 سے پیٹروگراڈ میں قائم ایک چھوٹے سے جتھے میزرایونتسی کے ساتھ مل کر بالشویک پارٹی سے ہر معاملے پر اتفاق کا اعلان کیا اور بالشویک پارٹی میں شمولیت کی درخواست دی جسے منظور کر لیا گیا۔ لیون ٹراٹسکی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی 1903 میں منعقدہ دوسری کانگریس میں بالشویک گروہ کے خلاف منشویک اقلیت کا حصہ بن گیا تھا اور گزشتہ 14 سال سے وہ بالشویک پارٹی اور لینن کا سخت مخالف تھا۔ چھٹی کانگریس کے دوران ٹراٹسکی اور اس کے ہمنواؤں نے اپنے اس اعلان کے بالکل برعکس کہ وہ بالشویک پارٹی سے ہر معاملے پر اتفاق کرتے ہیں یہ تجاویز دیں کہ روس سوشلزم کی طرف صرف اسی صورت میں بڑھ سکتا ہے جب مغربی ملکوں میں بھی مزدور انقلاب شروع ہو جائے اور اس لیے جب تک مغربی ملکوں میں مزدور انقلاب شروع نہ ہو تب تک روس میں بھی مزدور انقلاب کی کوشش نہ کی جائے، کہ کسان سرمایہ داروں کے ساتھ ہیں اس لیے مزدور ان سے اتحاد نہ کریں اور یہ بھی کہ لینن کو عبوری حکومت کو اپنی گرفتاری دے دینا چاہیے اور بغاوت کے مقدمے کا سامنا کرنا چاہیے۔ اسٹالن نے ان تجاویز کی مخالفت کی اور کہا کہ ہمیں یہ پرانا خیال چھوڑ دینا چاہیے کہ صرف یورپ ہی ہمیں راستہ دکھا سکتا ہے۔ غریب کسان مزدوروں سے اتحاد چاہتے ہیں اور وہ انقلاب کے لیے جدوجہد میں ان کی مدد کریں گے۔ اسٹالن نے لینن کی گرفتاری دینے کی بھی پرزور مخالفت کی۔ کانگریس نے ٹراٹسکی کے ہم خیالوں کی تجاویز مسترد کردیں اور لینن کے اس اصول پر زور دیا کہ مزدوروں اور غریب کسانوں کا اتحاد انقلاب کے لیے ضروری ہے اور لینن نے اگر گرفتاری دی تو عبوری حکومت مزدوروں کے انقلابی رہنما لینن کو سزائے موت دے دے گی۔ چھٹی کانگریس نے عبوری حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا فیصلہ کیا۔عبوری حکومت نے بالشویک پارٹی کو سوشلسٹ انقلاب سے روکنے کے لیے فوجی سربراہ جرنیل کورنیلوف کو انقلابی بغاوت کو بزور طاقت کچلنے کی ذمہ داری سونپی۔ تاہم بالشویک سپاہیوں کے دستوں نے کورنیلوف کے سپاہیوں کی بڑی تعداد کو اس کی مہم کے عوام دشمن مقاصد سے آگاہ کر کے ان کی پیش قدمی کو روک دیا اور نتیجتاً  جرنیل کورنیلوف کی مہم ہوا میں تحلیل ہوگئی۔  مزدوروں اور سپاہیوں کی انجمنوں میں بالشویک پارٹی کے بڑھتے ہوئے اثر کی وجہ سے یہ ممکن ہو گیا کہ بالشویک پارٹی کے مطالبے پر مزدوروں اور سپاہیوں کی انجمنوں کی کل روس کانگریس اکتوبر کے آخر میں طلب کی جائے اور اس کے  ذریعے سوشلسٹ حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ 10 اکتوبر کو بالشویک پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں انقلاب کے لیے مسلح بغاوت کی ضرورت پر لینن کی قرارداد کثرتِ رائے سے منظور ہوئی۔ مرکزی کمیٹی کے دو اراکین، کامینیف اور زینوویف نے مسلح بغاوت کی مخالفت کی۔ ٹراٹسکی نے مسلح بغاوت کو سوویتوں کی دوسری کانگریس سے پہلے نہ کرنے کی تجویز دی تاکہ مسلح بغاوت کو ٹالا جا سکے اور عارضی حکومت بغاوت سے نپٹنے کے لیے تیاری کر سکے۔ اس دوران عبوری حکومت نے کوشش کی کہ روسی دارالحکومت پیٹروگراڈ سے ماسکو منتقل کردیا جائے تاکہ بغاوت شروع ہونے سے پہلے ہی پیٹروگراڈ پر جرمن فوج قابض ہو جائے۔ تاہم عوامی احتجاج کے نتیجے میں عبوری حکومت کی یہ چال ناکام رہی۔ 16 اکتوبر 1917 کو بالشویک پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے انقلابی بغاوت کی رہنمائی کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جس کی قیادت جوزف اسٹالن کے سپرد کی گئی۔ اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی مسلح بغاوت کی رہنمائی اسی کمیٹی نے کی۔ تاہم، کامینیف اور زینوویف نے بالشویک پارٹی کے انقلابی بغاوت کے منصوبے کی تفصیلات کو بالشویک پارٹی کی حریف منشویک پارٹی کے اخبار نووایا ژیژن میں بغاوت کے خلاف اپنے مضامین میں افشاء کر دیا۔ اس کے علاوہ ٹراٹسکی نے بھی پیٹروگراڈ سوویت کے ایک جلسے میں شیخی میں آکر بغاوت کی تاریخ کا انکشاف کردیا جس کے نتیجے میں بالشویک پارٹی کو مقررہ تاریخ سے پہلے ہی انقلابی بغاوت کا آغاز کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔عبوری حکومت نے 24 اکتوبر کو مسلح بغاوت کچلنے کے لیے کارروائی کا آغاز کر دیا اور بالشویک پارٹی کے اداروں پر حملے شروع ہوگئے۔ تاہم، بالشویک پارٹی کی انقلابی کمیٹی نے عبوری حکومت کی تمام کوششوں کو ناکام کردیا اور عوام کو عبوری حکومت کا تختہ الٹنے کی ہدایت کی۔ انقلابی کمیٹی کی ہدایات پر مسلح مزدوروں اور سپاہیوں نے ریاستی اداروں کو اپنے قبضے میں لے لیا اور عبوری حکومت کی پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا۔  اگلے دن انقلابی دستوں نے شہنشاہ کے سرما محل میں انقلاب مخالف فوجی افسروں اور منتخب فوجی دستوں کی پناہ میں موجود عبوری حکومت کے نمائندوں کو گرفتار کر لیا۔ اسی رات سوویتوں کی دوسری کل روس کانگریس منعقد ہوئی جس میں بالشویک پارٹی کے نمائندو. کو کثیر اکثریت حاصل تھی۔ منشویک اور اشتراکی انقلابیوں نے اس کانگریس کا بائیکاٹ کیا اور اسے  “فوجی سازش” قرار دیا۔ کانگریس نے اعلان کیا کہ روسی اقتدار سوویتوں کو منتقل ہو چکا ہے۔ یوں روس کے مزدوروں نے سپاہیوں اور کسانوں کے انقلابی اشتراک سے عبوری حکومت کا خاتمہ کیا اور روس میں۔سوشلسٹ اقتدار کی بنیاد رکھی۔

Leave a Comment