ابھی تازہ تازہ ہی پاکستان کے سیاسی سینما میں نئی سیاسی تھرلر مووی کا آخری شو ختم ہوا ہے جس نے “قومی” میڈیا کے باکس آفس پر ایک اور ریکارڈ بزنس کیا ہے. ملک کے اسٹیج پر ہونے والے دیگر واقعات اس سیاسی تھرلر مووی کے سامنے بری طرح فلاپ ہو گئے. شو ختم ہونے کے بعد بھی لوگ اس کے فسوں خیز اثراتِ مابعد میں مسحور پائے جاتے ہیں اور مابعدِ دھرنہ تحریک تبصروں, تجزیوں اور چٹکلوں کا سلسلہ جاری ہے.
اسی دوران یکم نومبر کو حب میں واقع گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں ایک دلدوز سانحہ برپا ہوا ہے جس کے سنگین نتائج اب تک سامنے آرہے ہیں. لیکن جس طرح مصالحہ دار فلم کے سامنے آرٹ مووی پٹ جاتی ہے, اسی طرح یہ واقعہ بھی ملک کے طول و عرض میں بیشتر حاضرین و ناظرین, قارئین و مصنفین, تجزیہ نگارو مبصرین اور دانشورانِ کرام وغیرہ کی ریٹنگ لسٹ پر پانچ ستارے نہیں پا سکا. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں یہ تاثر کس قدر درست ہے کہ یہ لوگوں کی ذہن سازی, رائے سازی اور سیاسی و سماجی ترجیحات کے تعین میں بے حد اثر انداز ہوتا ہے.
پندرہ دن قبل گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں ایک پرانا جاپانی تیل بردار جہاز توڑنے کے لیے 132 پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ نمبر 54 پر لایا گیا تھا. قریبا 250 مزدوروں کو پرسوں اس جہاز کو توڑنے کے کام پر مامور کیا گیا. جہاز توڑنے کی اس قدر جلدی تھی کہ اس میں موجود بچے کھچے ایندھن کو خارج کیے بغیر جہاز توڑنے کا کام شروع کروا دیا گیا. اس کام کے لیے گیس ویلڈنگ کو استعمال کیا جاتا ہے. جب مزدوروں نے گیس ویلڈنگ سے جہاز کو کاٹنا شروع کیا تو اس میں موجود ایندھن اور آگ کے تعامل سے زوردار دھماکا ہوا جو اس قدر شدید تھا کہ جہاز پر موجود آہنی چادریں اور دیگر سامان اڑ کر دو کلومیٹر دور تک گئے. واقعے پر موجود ایک عینی شاہد کے مطابق دھماکے سے ایک مزدور کا جسم بھی تقریبا نصف کلومیٹر دور زمین پر جا کر گرا.
اس دردناک واقعے میں آخری اطلاعات تک تقریبا 19 مزدور جل کر ہلاک ہو چکے تھے اور پچاس کے قریب شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں زیرِ علاج تھے جن میں سے تقریبا نصف کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے. انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ قریبا 150 مزدور اب بھی جہاز میں پھنسے ہوئے بتائے جاتے ہیں جبکہ جہاز میں جلتی آگ پر بھی اطلاعات کے مطابق قابو نہیں پایا جا سکا ہے. اطلاعات ہیں کہ اس کام کو انجام دینے میں فائر بریگیڈ قریبا ناکام ہو چکا ہے جبکہ بحریہ سے آگ بجھانے کے لیے طلب کیا گیا جہاز دو دن سے چلنے کے باوجود جائے وقوعہ تک نہیں پہنچ پایا ہے!
اس اندوہناک واقعہ کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ کہنے میں کوئی غلطی نہیں کہ اس کی ذمہ داری حکومت, مالکان, ٹھیکیدار, لیبر ڈیپارٹمنٹ اور پولیس کے سر جاتی ہے جنہیں یہاں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق و سہولیات کی فراہمی اور تحفظ سے کوئی دلچسپی نہیں. ملکی خزانے کو سوا سات ارب روپے ٹیکس دینے والے اس ادارے میں مزدوروں کے تحفظ اور سہولیات کی رتی برابر سہولیات بھی آج تک مہیا نہیں کی گئی ہیں. قریبا پچاس سال سے یہاں جہاز توڑنے کا کام کیا جا رہا ہے لیکن آج تک یہاں کام کرنے والے 9 ہزار سے زیادہ مزدوروں کے لیے پینے کے صاف پانی, بیت الخلاء اور ہسپتال تک کی سہولیات کا انتظام نہیں کیا گیا. حالانکہ مزدور دہائیوں سے ان سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن حکام اور انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی. مزدوروں کے ان بدترین حالات کی ترجمانی کرتے ہوئے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کا کہنا ہے کہ یہ شپ بریکنگ یارڈ صرف جہازوں کا نہیں بلکہ مزدوروں کا بھی قبرستان ہے جہاں جہازوں سے زیادہ مزدوروں کی موت واقع ہوتی ہے.
ایک رپورٹ کے مطابق سال 2000 سے اب تک یہاں ایک 109 کے قریب مزدور کام کے دوران پیش آنے والے حادثوں میں جان کی بازی ہار چکے ہیں. مالکان, حکام اورٹھیکیداروں کو اپنی محنت سے کڑوڑ پتی و ارب پتی بنا دینے والے مزدوروں کے کام کے دوران ہلاک ہوجانے والے مردہ جسم کی قیمت پہلے صرف 15 ہزار روپے تھی. بعد میں اسے بڑھا کر 50 ہزار اور پھر مزدوروں کی تحریک کے سبب 3 لاکھ کر دیا گیا لیکن اب بھی پچاس کے قریب ہلاک شدہ مزدور ایسے ہیں جن کے لواحقین کو کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا ہے.
اس سے قبل, سال 2012 میں, اسی طرز کا ایک زیادہ سنگین واقعہ کراچی , بلدیہ ٹاؤن میں واقع علی انٹر پرائز نامی ایک گارمنٹ فیکٹری میں ہوا تھا جہاں 250 کے لگ بھگ مزدوروں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا تھا. اس قتلِ عام میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کے لواحقین اب تک انصاف کے منتظر ہیں جب کہ اس میں ملوث مجرم آزاد گھوم رہے ہیں. اسی طرح پاکستان اسٹیل ملز کا معاملہ ہے جو گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے بند پڑی ہے. اس کے ہزاروں مزدوروں کی تنخواہیں مہینوں سے واجب الادا ہیں جبکہ سینکڑوں ریٹائرڈ ملازمین اپنے واجبات کے حصول کے منتظر ہیں. ظلم کی انتہا یہ ہے کہ مزدوروں کو جب کبھی جزوی تنخواہ ادا کی جاتی ہے تو بجلی کے بلوں کی مد میں ان کی تنخواہوں سے 20 سے 21 ہزار روپے کاٹ لیے جاتے ہیں جب کہ یہ مزدور اسٹیل مل کے اپنے رہائشی کوارٹرز میں رہتے ہیں!
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے لاکھوں مزدور اور محنت کش خاندان مزدور دشمن حکومتی پالیسیوں, بدعنوان افسر شاہی, رشوت خور انتظامیہ اور کورچشم عدلیہ, الغرض شعوری ریاستی ظلم و جبر کی چکی میں سفاکی سے پیسے جا رہے ہیں. ان کے حقوق, سہولیات اور مراعات, ان کے لیے زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی ریاستی اداروں اور سرمایہ دار حکومتوں کی ترجیحات میں کہیں موجود نہیں.
پاکستان کی کسی بھی ملک گیر سرمایہ دار سیاسی جماعت کو ملک کے مزدوروں اور دیگر محنت کشوں کو جن کی محنت کے بل پر اس ملک کی معیشت اور زراعت قائم ہے اور جو اس ملک کے “جمہور ہیں ان کے مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں. ان کی سیاست کا محور مختلف حیلوں اور بہانوں سے صرف اور صرف اقتدار کا حصول اور اپنی گروہی دولت میں اضافہ ہے. ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ تعلیم کے لیے یا صحت کے لیے, روزگار کے لیے یا مہنگائی پر قابو کے لیے, یا عوامی ٹیکسوں میں کمی یا کارپوریٹ سیکٹر پر ٹیکس میں اضافے کے لیے, یا مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے لیے مسلم لیگ, تحریکِ انصاف, جماعتِ اسلامی, جمعیت علمائے اسلام, پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم وغیرہ نے کوئی لانگ مارچ کی ہو یا حکومت کے خلاف دھرنہ تحریک چلائی ہو.
ملکی میڈیا بھی عموعی طور پر ان نام نہاد سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کی اس رسہ کشی کو ملک کا حقیقی مسئلہ بنا کر پیش کرتا ہے اور ملک کے حقیقی مسائل یعنی مزدوروں اور محنت کشوں کی زندگی میں بہتری, عوامی سہولیات بشمول تعلیم, صحت, روزگار اور رہائش کی فراہمی اور مہنگائی پر قابو جیسے حقیقی مسائل سے عوام میں, دانشوروں میں اور قلم کاروں میں لاتعلقی پیدا کرتا ہے. عوام دوست قوتوں کو چاہیے کہ وہ نام نہاد سیاست کے اس طلسمِ ہوشربا کا پردہ چاک کریں اور عوام کے حقیقی مسائل کو ابھار کر سامنے لائیں.