غربت اور اس کے اعداد و شمار ۔شاداب مرتضی

ورلڈ بینک کے مطابق 1990 سے 2015 کے عرصے میں دنیا میں موجود غربت پہلے کے مقابلے میں آدھی رہ گئی ہے۔ عالمی غربت کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ غربت 47 فیصد کی سابقہ شرح سے کم ہو کر 24 فیصد پر آگئی ہے۔ ورلڈ بینک کی اس تحقیق کو پاکستانی معیشت دانوں کی ایک  تحقیق نے مسترد کیا ہے۔ پاکستانی محققین کے مطابق 1990 سے 2010 تک عالمی غربت میں محض معمولی (چار فیصد) “کمی” ہوئی ہے۔ پہلے یہ 35 فیصد تھی اور اب کم ہو کر 31 فیصد رہ گئی ہے۔

سو، ان تحقیقوں کے درمیان اختلاف اس بات پر نہیں کہ غربت بڑھ رہی ہے یا نہیں بلکہ اختلاف اس بات پر ہے کہ غربت میں اوسطاً  کتنی کمی ہوئی ہے۔ غربت کم ہو رہی ہے، یعنی دنیا زیادہ خوشحال ہو رہی ہے، دنیا میں پہلے سے زیادہ لوگ  ترقی کر رہے ہیں، اس بات پر دونوں تحقیقیں متفق ہیں۔ غربت کی کمی کی شرح پر اختلاف ہے۔ دونوں تحقیقیں اس نکتہِ نظر کو تقویت دیتی ہیں کہ موجودہ سرمایہ دارانہ معیشت (اپنے نیوکالونیل نظام کے ساتھ) دنیا کو، دنیا کے لوگوں کو ترقی دے رہی ہے اور غربت کو کم کر رہی ہے۔

دنیا سے غربت میں کمی پر دونوں تحقیقوں کے اس اتفاق کے علاوہ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا واقعی دنیا بھر میں غربت میں کمی آرہی ہے اور دنیا بھر کے لوگوں کی ترقی اور خوشحالی میں اضافہ ہورہا ہے یا نہیں؟ اور ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ نیو لبرل اکنامک پالیسی پر استوار معاشی نظام میں جس کا دعوی دنیا کی خوشحالی، ترقی اور انسانی برابری کا ہے اس میں وسیع پیمانے کی  غربت کیوں موجود ہے اور مستقل اور شدید تر  اقتصادی بحرانوں کے ہوتے ہوئے جو سرمایہ دارانہ معیشت کا لازمی عنصر ہیں، غربت کا خاتمہ یا اس میں کمی لانا کس طرح ممکن ہے؟

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق عالمی لیبر مارکیٹ کا حال یہ ہے کہ قریباً  آدھی ملازمتیں یا روزگار عارضی ہیں۔ 1400 ملین لوگ ایسے روزگار سے وابستہ ہیں جو عارضی ہے اور کبھی بھی ختم ہو سکتا ہے۔ ان لوگوں کے پاس روزگار کی ضمانت یا تحفظ نام کی کوئی چیز نہیں۔ ان کی اجرتیں معمولی ہیں۔ 2018 میں ترقی پذیر  دنیا میں نہ صرف بیروزگاری بڑھے گی بلکہ عارضی روزگار کی شرح میں ہر سال 11 ملین کے حساب سے اضافہ ہوگا۔ بیروزگاری اور عارضی روزگار کی موجودگی اور ان میں اضافہ بھی اگر غربت اور نابرابری کے اشاریے نہیں تو اور کیا ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ غربت اور نابرابری کے بنیادی اشارہے ہی یہ ہیں۔ بیروزگار، عارضی روزگار کرنے یا معمولی اجرت کمانے والے کسی خاندان کا معیارِ  زندگی کیسے بہتر یا بلند ہو سکتا ہے؟

ترقی یافتہ دنیا کے بارے میں آئی ایل او کی رپورٹ کہتی ہے کہ وہاں، خصوصاً  یورپ میں روزگار میں اضافہ ہو گا۔ لیکن 2008 کے اقتصادی بحران کے نتیجے میں یورپ میں کفایت شعاری کے نام پر عوامی فلاح و بہبود کے اور سماجی تحفظ کے بجٹ میں کٹوتیاں کرنے کی جو پالیسی اپنائی گئی اس کا نتیجہ غربت میں عوامی سطح پر اضافہ نہیں تو کیا ہو گا؟ جب تعلیم پرائیوٹ ہو گی، علاج پرائیوٹ ہوگا، رہائش پرائیوٹ ہو گی، پنشن کم ہو جائے گی، روزگار کا تحفظ نہیں ہو گا، اجرتیں کم ہوں گی، اشیائے صرف مہنگی تر ہوں گی، عوامی ٹیکس میں اضافہ ہو گا تو عوام کی غربت اور معاشی نابرابری بڑھے گی یا کم ہو گی؟ ایک طرف دنیا میں بیروزگاری، عارضی روزگار کی شرح میں یعنی غربت میں اور نابرابری میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب دنیا کی زیادہ سے زیادہ دولت کم سے کم افراد کی جیب میں جا رہی ہے۔ ایک طرف دولت کا ارتکاز  بڑھ رہا ہے دوسری طرف غربت اور نابرابری بڑھ رہی ہے۔

دنیا کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ لیکن دنیا کے ان نوجوانوں کے لیے سرمایہ دارانہ معیشت کے پاس مستقل اور پائیدار روزگار نہیں ہے! یہ نوجوان روزگار کے بغیر زندگی کیسے گزاریں گے، سرمایہ دارانہ معیشت کے پاس اس سوال کا جواب دینے کے لیے صرف ترقی کے جھوٹے وعدے ہیں اور ایک کے بعد دوسرا زیادہ شدید اقتصادی بحران ہے۔ تعلیم جیسے بنیادی انسانی حق کے حصول کے لیے یورپ کے طلباء کو استحصالی شرح منافع پر قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ اعلی تعلیم کو سرکاری بنانے کے بجائے تعلیم مہنگی تر کی جا رہی ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں بھی تعلیم کی نجکاری زور و شور سے جاری ہے اور تعلیم مہنگی تر ہوتی جا رہی ہے جبکہ تنخواہوں میں اضافہ مہنگائی میں اضافے کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔ اس سے زیادہ شرمناک بات کیا ہو گی کہ جدید، مہذب اور ترقی یافتہ یورپ میں  جہاں کی عورت کی آزادی کی مثالیں ہمارے یہاں عام ہیں وہاں غریب گھرانے کی لڑکیوں کو اپنے  تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے جسم فروشی تک کرنا پڑ رہی ہے؟

غربت کی کمی پر متفق ان تحقیقوں کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ غربت کی کوئی تعریف متعین نہیں۔ گویا غربت کیا ہے یہ تو طے نہیں لیکن غربت میں کمی آرہی ہے یہ واضح ہے! سرمایہ دارانہ سماجی سائنس میں کسی بھی مظہر کی تعریف پر اتفاق مشکل سے ملے گا۔ جتنے محقق اتنی تعریفیں۔

گزشتہ سال انگلینڈ میں آئی ایم ایف کے محققین نے ایک پیپر میں کہا کہ نیو لبرل معیشت غربت اور نابرابری میں کمی لانے کے بجائے اس میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ جب سے انگلینڈ نے نیولبرل اکنامک پالیسی اختیار کی ہے اس کی معیشت کے بحرانوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آزاد منڈی، پبلک فنڈ میں کمی، پرائیوٹائزیشن اور ڈی ریگولیشن پر مبنی آسٹیریٹی پالیسی سے عالمی غربت اور نابرابری میں مزید اضافہ ہو گا۔

نیو لبرل سرمایہ دارانہ معیشت کا ایک دعوی عالمی امن قائم کرنے کا بھی ہے۔ ایک رائے تو یہاں تک ہے کہ سرمایہ دار طبقہ امن پسند بن گیا ہے کیونکہ سرمایہ داروں کو  یہ  بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں جنگ سب کو تباہ کر دے گی۔ سرد جنگ کے خاتمے یعنی سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سے یہ کہا جا رہا تھا کہ اب دنیا میں جنگ کا امکان ختم ہو گیا ہے۔ لیکن ایشیاء اور مشرقِ وسطی میں جاری جنگیں، امریکی اور یورپی سامراجی طاقتوں کی پروردہ عالمی دہشت گرد تنظیمیں اور ان کے علاقائی گروہ، دہشت گردی کی منظم تحریک اور کمزور ملکوں پر ان سامراجی ملکوں کے براہِ راست فوجی قبضے سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے دنیا سے جنگوں کے مکمل خاتمے اور عالمی امن کے پائیدار قیام کی بچکانہ خام خیالی کی نفی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جدید، ترقی یافتہ اور خوشحال سمجھے جانے والے یورپ میں رجعتی اور تشدد پرست سیاسی، سماجی اور ثقافتی تحریکوں کا ابھار سرمایہ دارانہ شعور اور ثقافت کی غربت اور زوال پذیری کی نشانی کے طور پر سامنے آرہا ہے۔

غربت اور نابرابری کے سرکاری اعداد و شمار خواہ کچھ بھی کہیں لیکن غربت اور نابرابری کی بنیاد پر استوار سرمایہ دارانہ سماج میں تمام انسان نہ ہی معاشی طور پر خوشحال اور سماجی طور پر  برابر ہو سکتے ہیں اور نہ دنیا امن و سکون کے ساتھ ترقی کرسکتی ہے. سرمایہ دارانہ معاشرے کی بنیاد میں چند سرمایہ دار افراد کی خوشحالی اور ترقی کے لیے محنت کش عوام کی غربت اور نابرابری ضروری ہے اور اس معاشرے کو قائم رکھنے کے لیے ہر قسم کا تشدد، طاقت کا استعمال اور خطرناک ہتھیاروں کی موجودگی سرمایہ دار طبقے کی ضرورت ہے.

Leave a Comment