مشعال خان، انتہا پسندی اور طلبہ اتحاد شاداب مرتضٰی

مشعال خان، انتہا پسندی اور طلبہ اتحاد
\\


انتہا پسند طالب علموں کے متشدد غول کے ہاتھوں ولی خان یونیورسٹی مردان کے طالب علم رفیق، مشعال خان کے وحشیانہ قتل اور لاش کی بے حرمتی نے “نئے پاکستان” کو کھلے عام سولی پر چڑھا دیا ہے اور ملک کے ہر درمند، حساس اور باشعور شخص کو بری طرح سے جھنجوڑ ڈالا ہے۔ مشعال کہتا تھا کہ ہمارا کلچر پھٹے ہوئے کپڑے پہنی عورت کے لباس میں اس کی غربت کے بجائے اس کا جسم دیکھتا ہے۔ مشتعل ہجوم نے اس کے جسم کو اپنی درندگی کا نشانہ بناتے وقت اس کی پاکیزہ اور شفاف روح نہیں دیکھی۔ وہ بالکل غیرمتعصب، نہایت مہذب، روشن خیال، ترقی پسند اور بائیں بازو کے افکار رکھنے والا نوجوان تھا۔ مارکس، لینن اور باچا خان کے افکار کے راہرو ایک حساس ذہن اور انسان دوستی سے سرشار جذبات رکھنے والے کو محض ایک مبہم الزام لگا کر سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
وہ اپنے ساتھی طلباء کے ساتھ خیبرپختونخوا میں جہاں محکمہِ تعلیم جماعتِ اسلامی کے ذمے ہے وہاں اپنی یونیورسٹی میں مہنگی فیس اور دیگر مسائل کے حوالے سے احتجاجی سرگرمیاں بھی کر رہا تھا جس کے بارے میں اس نے دو دن قبل ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو بھی دیا تھا۔ سوشل میڈیا میں اس پر لگائے گئے توہینِ رسالت کے الزام کا اب تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آسکا۔ البتہ ایسے بہت سے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے وہ رسالت، نبوت اور خدا پر یقین رکھنے والا ایک مسلمان ثابت ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس کے خلاف الزامات کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ سوشل میڈیا پر دھڑلے سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے انتہا پسند عناصر انسانیت، مذہبی اخلاقیات اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اس کے بہیمانہ قتل کو جائز قرار دے کر خوشیاں منا رہے ہیں اور اس مذموم مجرمانہ عمل کا دفاع کر رہے ہیں۔
مشعال خان کے مجرم، ان کے ذہن ساز اور سہولت کار کون ہیں؟ انتہا پسند سیاسی و سماجی تنظیمیں، انتہا پسند ٹی وی اینکرز یا انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کو اور شہریوں کے خلاف کفر و توہین کے فتوے جاری کر کے لوگوں کو قتلِ عام اور تشدد پر اکسانے والے افراد کو الیکٹرانک میڈیا پر پرائم ٹائم دینے والے یا سوشل میڈیا پر تشہیر کی اجازت دینے والے یا انہیں نظر انداز کرنے والے متعلقہ ریاستی ادارے اور ان کے حکام؟ اس بات کا تعین ہمارا جانبدار نظام انصاف شاید کبھی نہ کر سکے لیکن یہ واضح ہے کہ اس کے پیچھے کارفرما سوچ مذہبی انتہا پسندی ہے جو گزشتہ چار دہائیوں سے اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ تاہم یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ بعض علماء اور کثیر تعداد روشن خیال مسلمان شہریوں نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

یہ اس قدر مہلک اور انصاف شکن رجحان ہے کہ محض الزام تراشی پر ہی کسی معصوم و بے گناہ انسان کی زندگی نہایت سفاکی سے چھین لی جاتی ہے خواہ وہ شخص مسلمان ہی کیوں نہ ہو! کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ الزام کے تحت کسی کی جان لے۔ اس ملک کے قوانین اسلامی ہیں۔ اس میں شرعی عدالتیں بھی موجود ہیں اور اس ملک کی کثیر آبادی بھی مسلمان ہے اور اس کے ساتھ توہینِ رسالت کی سزا کا قانون بھی موجود ہے اور توہینِ رسالت کے مقدموں میں لوگ نہ صرف قید ہیں بلکہ سزا بھی پا چکے ہیں۔ یہ عدالتوں کا کام ہے کہ اگر ملزم پر لگایا گیا الزام ثابت ہو جائے تو وہ اسے قانون کے مطابق سزا دیں۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والے لاقانونیت پسند عناصر کے ساتھ ریاست کو سختی سے پیش آنا چاہیے۔ لیکن انصاف کے ان بنیادی اصولوں پر انتہا پسند ملائیت کے ساتھ ریاست کی سمجھوتہ بازی جاری ہے اور اس کا خمیازہ معصوم و بے گناہ شہری بھگت رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ جمہوریت پسند، ترقی پسند، انسان دوست اور پر امن طلباء غیر منظم اور غیر متحد ہونے کے سبب اس قدر کمزور ہیں کہ انتہا پسند جنونیوں کا ریوڑ جب چاہے جہاں چاہے ان میں سے کسی کو بھی اس طرح دبوچ لیتا ہے جس طرح بھیڑیوں کا غول بھیڑوں کے گروہ سے الگ رہ جانے والی کسی بھیڑ کو دبوچ کر اسے چیر پھاڑ ڈالتا ہے۔ دوسری طرف اس ملک کے مقتدر طبقوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے طلباء کو طاقت، اسلحہ اور مخصوص ریاستی پشت پناہی دے کر انہیں علم و دانش، فکر و تدبر، دلیل و مکالمے کے بجائے طاقت کا اسیر بنا دیا ہے جس سے ان کی مجرمانہ ذہنیت کی تشکیل ہوئی ہے اور وہ اپنی کم عقلی اور جذباتیت میں ان مقتدر طبقوں کے سماج دشمن مقاصد کا آلہِ کار بن رہے ہیں۔


اس سے ان تمام موقع پرست سیاسی پارٹیوں کی مفاد پرستانہ روش کا پردہ بھی فاش ہوتا ہے جو پاکستان میں طلباء کی یونین سازی کے حق پر پابندی کے خلاف چپ سادھے بیٹھی ہیں اور انتہا پسندی اور طبقاتی نظام کے خلاف اپنی طلباء تنظیموں کی نظریاتی اور سیاسی تربیت سے یکسر غافل ہو کر انہیں صرف اپنے ووٹ بینک اور سیاسی پریشر گروپس کے طور پر استعمال کرنے تک محدود ہیں۔ انہوں نے اپنے غیر طبقاتی، اصلاح پسندانہ اور مفاد پرستانہ معاشی-سیاسی مفادات کے لیے طلباء کو حقیقی طبقاتی مسائل کے گرد مجتمع کرنے کے بجائے عصبیتی، لسانی، گروہی اور فروعی معاملات میں الجھا کر گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور ان کے اجتماعی شعور اور قوت کو منتشر کر دیا ہے۔


امریکی ڈالر، برطانوی پاؤنڈ اور سعودی ریال کے عوض غریب، متوسط اور محنت کش مسلمان عوام اور ہم وطن شہریوں کے دشمن مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ دار قوتوں کے استحصال کو آسان بنانے اور اسے چھپانے کے لیے مذہب کو سیاست میں استعمال کرنے والے ملاؤں نے بقول اقبال “دینِ ملاء فی سبیل اللہ فساد”کی جو سیاہ آندھی اس ملک پر اب تک مسلط کیے رکھی ہے اس نے مشعل خان جیسے ایک روشن دیئے کی روشنی نگل لی ہے۔


مشعل خان کی طرح عقل و خرد، انسانیت اور محبت، امن اور سلامتی، ہم آہنگی، برداشت اور بھائی چارے کے متمنی تمام طالبِ علم جو انتہا پسند ملائیت کی انتہا پسندی، تنگ نظری اور عقل و خرد سے دشمنی کی اس سیاہ آندھی میں اپنے افکار کی روشنی سے دیا جلانا چاہتے ہیں اور پاکستان کو اپنے لیے اور تمام ہم وطنوں کے لیے تعلیم یافتہ، باشعور اور خوشحال ملک بنانے کا خواب دیکھتے ہیں وہ سب طالبِ علم اور نوجوان اس انتہا پسندی کی زد پر ہیں۔ اگر وہ انتہا پسند قوتوں کے مذموم ہتھکنڈوں کے خلاف منظم اور متحد نہیں ہوتے تو اسی طرح یا تو چن چن کر مارے جائیں گے یا اپنے پاکیزہ، انسان دوست اور ملکی و سماجی ترقی کے خواب، جذبات، احساسات اور خیالات کا گلا گھونٹنے پر مجبور ہو کر ملائیت کی مسلط کردہ ذہنی غلامی کی زنجیریں پہن لیں گے۔
:اب دو ہی راستے ہیں
تنظیم، اتحاد اور جدوجہد یا ازلی غلامی اور بے بس موت!

Leave a Comment