سرمایہ داری اچھی بات ہے۔ اس سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ سرمایہ کاری نہیں ہوگی تو روزگار کیسے پیدا ہوگا؟ یہ دلیل ایسی ہی ہے کہ بیماری اچھی چیز کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کو صحت و علاج کی سہولیات ملتی ہیں۔ لوگ بیمار نہیں ہوں گے تو علاج کیسے ہوگا؟ یہ مغالطہ بار بار دوہرایا جاتا ہے۔ اس کی ایک شکل یہ ہے کہ معیشت کے لیے سرمایہ دار اور مزدور لازم و ملزوم ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا خاتمہ معاشی نظام کو ہی ختم کر دے گا۔روزگار کے لیے سرمایہ داری یا سرمایہ کاری ضروری نہیں۔ سوشلزم میں سرمایہ داری اور سرمایہ دار نہیں ہوتے لیکن سب کو روزگار ملتا ہے۔ سرمایہ نہ درختوں پر اگتا ہے نہ زمین سے نکلتا ہے اور نہ آسمان سے برستا ہے۔ سرمایہ وہ مجموعی دولت ہے جو سرمایہ دار طبقہ مزدوروں کی مجموعی محنت کی مجموعی اجرت سے ہتھیا لیتا ہے۔ ہزاروں، لاکھوں مزدوروں کی آدھی اجرت ایک سرمایہ دار کی جیب میں “منافع” کی صورت میں چلی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے یہ دولت سرمایہ داروں کی ذاتی ملکیت بننے کے بجائے مزدوروں اور محنت کشوں کی یعنی سماج کی ملکیت بن جائے گی اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ترقی اور خوشحالی بھی صرف سرمایہ دار طبقے کے گھر کی لونڈی نہیں رہے گی بلکہ پورے سماج میں پھیل جائے گی۔ اس لیے سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ داروں کے خاتمے سے معاشی نظام ختم ہونے کے بجائے اپنے تضاد اور نزاع سےآزاد ہو کر سماجی ترقی اور خوشحالی کا حقیقی پہیہ بن جائے گا۔فیکٹری بھی مزدور تعمیر کرتے ہیں، مشینیں بھی مزدور بباتے ہیں اور انہیں چلاتے بھی وہی ہیں۔ خام مال مزدور نکالتے ہیں۔ ان کی ٹرانسپورٹ مزدور کرتے ہیں اور ان سے پروڈکٹ بھی مزدور ہی بناتے ہیں۔ ہھر اس کی مارکیٹ تک ترسیل بھی مزدور کرتے ہیں اور مزدور ہی پیداوار کو خریدنے والے سب سے زیادہ گاہک ہوتے ہیں۔ اس لیے پیداوار اور اس کی ترسیل کا سارا عمل مزدور کے زریعے ہوتا ہے اور اسے صرف کرنے والے گایکوں کی سب سے بڑی تعداد بھی مزدور اور محنت کشوں کی ہوتی ہے۔ مزدور محنت نہ کرے تو سرمایہ دار ایک ٹکہ نہیں کما سکتا۔ سو، معاشی نظام کے لیے مزدور لازم ہے سرمایہ دار صرف ایک ایسا اضافی حصہ ہے جو جونک کی طرح معاشی نظام سے لپٹ کر مزدوروں کا خون چوستا ہے۔ جب ریاست پر محنت کشوں کا اقتدار ہوگا تو مزدور کی محنت سے پیدا ہونے والی دولت محنت کش عوام پر ہی لگے گی۔سرمایہ داری میں دولت کی فراوانی ہوتی لیکن بیروزگاری کی بہتات ہوتی ہے۔ سوویت یونین میں سرمایہ داری نہیں تھی لیکن سب کو روزگار ملتا تھا۔ کیوبا اور شمالی کوریا میں سرمایہ داری نہیں ہے لیکن لوگوں کے پاس روزگار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سماج میں محنت کرنے والے اور اپنی محنت سے معاشی نظام کو چلانے والے محنت کشوں کی محنت سے جو دولت پیدا ہوتی ہے وہ چند افراد کی ذاتی ملکیت بننے کے بجائے عوام کی ترقی اور خوشحالی میں صرف ہوتی ہے۔سرمایہ دار لوگوں کو روزگار دینے کے لیے کاروبار نہیں کرتے۔ اگر ایسا ہوتا تو سرمائے کے انبار اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے کوئی بیروزگار نہیں ہوتا اور پیٹ کی خاطر سستی ترین اجرت پر دوگنا کام نہیں کرتا۔ سرمایہ دارانہ نظام جان بوجھ کر بیروزگاری، یعنی بیروزگاروں کی فوج، پیدا کرتا ہے تاکہ اس کا فائدہ اٹھا کر لوگوں سے آدھی اجرت پر دوگنا کام لے سکے۔ لوگ بھی آدھی اجرت پر دوگنا کام کرنے پر اس لیے مجبور ہوتے ہیں کہ لیبر مارکیٹ میں بیروزگاروں کی فوج ہوتی ہے۔سرمایہ کاری سے بیروزگار لوگوں کو روزگار ملتا ہے لیکن بیروزگاروں کی فوج ختم ہونے کے بجائے بڑھتی جاتی ہے۔ اس لیے کہ ہمیں کسی ایک کارخانے، کسی ایک کاروبار، کسی ایک شعبے، کسی ایک ملک یا علاقے میں صرف وہ چند لوگ نظر آرہے ہوتے ہیں جنہیں روزگار ملا ہے لیکن بیروزگاروں کی فوج، بیروزگار افراد کی مجموعی تعداد، ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔پوری انسانی تاریخ میں اس قدر وسیع بیروزگاری اور غربت پہلے کبھی نہیں تھی حالانکہ پوری انسانی تاریخ میں دنیا اس قدر جدید، علمی، سائنسی اور تیکینکی سہولتوں سے مالا مال بھی نہیں تھی۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا جس قدر ترقی کرتی جا رہی ہے اسی قدر دنیا میں بیروزگاری، غربت اور سماجی نابرابری بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں محنت و پورا سماج کرتا ہے لیکن اس محنت کا سارا پھل سرمایہ داروں کی ذاتی دولت بن جاتا ہے۔ آج دنیا کے صرف 26 سرمایہ داروں کی دولت 3.8 ارب لوگوں کے اثاثوں کے برابر ہے۔ صرف 8 سرمایہ داروں کے اثاثے دنیا کے 50 فیصد غریب ترین افراد کے اثاثوں کے برابر ہیں۔جب ہم سرمایہ داری، روزگار اور بیروزگاری کو انفرادی، محدود اور سطحی انداز سے دیکھنے کے بجائے انہیں سماجی، ، وسیع اور مجموعی انداز سے دیکھیں گے تو نظر آئے گا کہ سرمایہ داری اور بیروزگاری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سرمایہ داری نظام سے قبل تاریخ میں منظم اور وسیع بیروزگاری کا وجود ہی نہیں تھا۔ سرمایہ داری لمحاتی اور عارضی طور پر کسی ایک یا دوسرے شعبے میں یا کسی ایک یا دوسرے ملک، خطے یا علاقے میں محدود پیمانے پر روزگار میں اضافہ کرتی ہے لیکن مستقل، پائیدار اور وسیع پیمانے پر یہ بحیثیت مجموعی بیروزگاری، غربت اور سماجی نابرابری کی لعنتیں پیدا کرنے والی مہیب مشین ہے۔ابھی کل تک ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ کبھی فلاں ملک زبردست معاشی ترقی کر رہا ہے اور کبھی فلاں ملک معاشی ترقی کے ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ کبھی مصر کو معاشی ٹائیگر بتایا جا رہا تھا تو کبھی چلی کو۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان ملکوں میں اور دنیا کے کئی ملکوں میں معاشی بحران، مہنگائی، بیروزگاری، غربت، ٹیکسوں میں اضافے اور عوام کی گرتی ہوئی قوت خرید کی وجہ سے آئی، ایم، ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کے زریعے مسلط کی گئی سرمایہ دارانہ نیو لبرل معاشی پالیسی کے خلاف وسیع عوامی بغاوتیں پھوٹ پڑی ہیں۔معاشی اور سماجی ترقی کے اپنے مستقل دعووں کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام خواہ اس کا ماڈل کچھ بھی ہو مسلسل معاشی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کو جنم دے رہا ہے۔ بحران اس کی دائمی صفت ہے۔ جس معاشی نظام میں محنت سماجی ہوگی لیکن اس سے پیدا ہونے والی دولت ذاتی ملکیت بن جائے گی اس میں سماجی نابرابری اور بحران لازمی ہوں گے۔ بیروزگاری کے خاتمے کا مستقل اور پائیدار حل صرف یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کر کے معیشت کو سوشلسٹ بنیادوں پر استوار کیا جائے۔