بینکوں کو قومیانا کیوں ضروری ہے؟
تحریر: ولادیمیر لینن
مترجم: شاداب مرتضی
بینک، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، جدید معاشی زندگی کا مرکزہ ہیں، پورے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا بنیادی اعصابی مرکزہ۔ “معاشی زندگی کو ریگولیٹ ” کرنے کی بات کرنا مگر بینکوں کو قومیانے کے سوال سے بچنا، اس کا مطلب یا تو گہری جہالت ہے یا پھر ان وعدوں کو پورا نہ کرنے کی دانستہ نیت سے “عام لوگوں” کو خوشنما الفاظ اور شاندار وعدوں سے دھوکہ دینا ہے۔
بینک کے کاموں کو کنٹرول اور ریگولیٹ کیے بغیر، اناج کی ترسیل، یا عام طور پر اشیا کی پیداوار اور تقسیم کو کنٹرول اور ریگولیٹ کرنا مضحکہ خیز بات ہے۔ یہ چند پیسوں پر جھپٹنے کی کوشش کرنے مگر کروڑوں روپوں کی طرف سے آنکھ بند کرلینےجیسا ہے۔ بینک آج کل تجارت (اناج اور ہر چیز میں) اور صنعت کے ساتھ اس قدر قریبی اور گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں کہ بینکوں پر “ہاتھ ڈالے” بغیر کوئی قابل قدر چیز، کوئی”انقلابی جمہوری” چیز حاصل نہیں کی جا سکتی۔
لیکن شاید ریاست کے لیے بینکوں پر “ہاتھ ڈالنا” بہت مشکل اور پیچیدہ آپریشن ہے؟ سرمایہ دارعام طور پر اسی خیال کا سہارا لے کر تنگ نظر لوگوں کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ان کے فائدے میں ہے۔
تاہم، حقیقت میں، بینکوں کو قومیانے سے (بینک میں رکھی رقم کا) کوئی ایک بھی “مالک” ایک روپے سے بھی محروم نہیں ہو گا۔ یہ کام قطعی طور پر کوئی تکنیکی یا ثقافتی دشواری پیش نہیں کرتا۔ اس کام میں، خاص طور پر، معمولی مٹھی بھر امیر لوگوں کے ناپاک لالچ کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے۔ اگر بینکوں کو قومیانے کے اقدام کو اکثروبیشتر یہ کہہ کر الجھایا جاتا ہے کہ اس میں نجی ملکیت کو ضبط کر لیا جائے گا تو یہ سرمایہ دارانہ پریس کا کام ہے جو عوام کو دھوکہ دینے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ یہی اس وسیع پیمانے کی الجھن کی ذمہ دار ہے۔
بینکوں کے ذریعہ چلنے والے اور ان میں مرکوز سرمائے کی ملکیت پرنٹ شدہ اور تحریری سرٹیفکیٹس کے ذریعہ تصدیق شدہ ہے جسے شیئرز، بانڈز، بلز، رسیدیں وغیرہ کہتے ہیں۔ اگر بینکوں کو قومیا لیا جائے، یعنی اگر تمام بینک ایک ہی اسٹیٹ بینک میں ضم ہوجائیں توان میں سے کسی ایک بھی سرٹیفکیٹ کو ختم یا تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ جس کے پاس سیونگ اکاؤنٹ میں پندرہ روبل ہوں گے وہ بینکوں کے قومیانے کے بعدبھی پندرہ روبل کا مالک رہے گا؛اور جس کے پاس پندرہ ملین روبل تھے وہ بھی بینکوں کے قومیانے کے بعد پندرہ ملین روبل کا مالک ہی رہے گا جو شیئرز، بانڈز، بلز، کمرشل سرٹیفکیٹس وغیرہ کی شکل میں جاری رہیں گے۔
تو پھر بینکوں کو قومیانے کی کیا اہمیت ہے؟
یہ اہمیت اس بات میں ہے کہ انفرادی بینکوں اوران کے کاموں پر کسی بھی قسم کا کوئی موثر کنٹرول ممکن نہیں ہے (چاہے تجارتی رازداری وغیرہ کو ختم کر دیا گیا ہو) کیونکہ ان انتہائی پیچیدہ، گہری اور چالاک چالوں پر نظر رکھنا ناممکن ہے جو بیلنس شیٹیں تیار کرنے میں، فرضی کاروباری ادارے اور ذیلی ادارے بنانے میں، فگر ہیڈز(ادارے کے رسمی رہنما یا قائد) کی خدمات کی فہرست بنانے وغیرہ میں استعمال کی جاتی ہیں۔ صرف تمام بینکوں کا ایک بینک میں ضم ہونا، جس کا مطلب ملکیت کے حوالے سے کوئی بھی تبدیلی نہیں ہوگی، اور جو، ہم دہراتے ہیں، کسی بھی مالک کو ایک کوپیک سے بھی محروم نہیں کرے گا، حقیقی کنٹرول کا استعمال ممکن بنائے گا، بشرطیکہ، اوپر بتائے گئے دیگر تمام اقدامات اٹھائے گئے ہوں۔ صرف بینکوں کو قومیانے سے ہی ریاست یہ جاننے کے قابل ہو سکتی ہے کہ لاکھوں اور اربوں روپے کہاں اور کیسے، کہاں اور کب جا رہے ہیں۔ اور صرف بینکوں پر، مرکز پر، سرمایہ دارانہ گردش کے محور اور بنیادی طریقہ کار پر کنٹرول ہی تمام معاشی زندگی پر، بنیادی اشیا کی پیداوار اور تقسیم پر فرضی نہیں بلکہ حقیقی کنٹرول کو منظم کرنا ممکن بنائے گا، اور اس “معاشی زندگی کی ریگولیشن” کو منظم کرے گا جو بصورت دیگرعام لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک ناگزیر وزارتی جملہ ہی رہتی ہے۔ صرف بینکنگ آپریشن پر کنٹرول، بشرطیکہ وہ ایک ہی ریاستی بینک میں مرتکز ہو، اس بات کو ممکن کرے گا، اگر کچھ اور آسان قابل عمل اقدامات اختیار کیے جائیں ، کہ انکم ٹیکس کی مؤثر وصولی کو اس طرح منظم کیا جائے کہ جائیداد اورآمدنی کو چھپائے رکھنا ممکن نہ ہو؛ کیونکہ اس وقت تو انکم ٹیکس بہت حد تک بس ایک افسانہ ہے۔
بینکوں کو قومیانے کا صرف فرمان جاری ہونا ہے اور یہ کام ڈائریکٹر اور ملازمین خود کرلیں گے۔ اس کام کے لیے ریاست کی طرف سے کسی خاص مشینری کی، تیاری کے خاص اقدامات کی ،ضرورت نہیں ہوگی،کیونکہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو ایک حکم نامے سے، ’’ایک ہی ضرب سے‘‘ نافذ کیا جا سکتا ہے۔اس کام کو معاشی طورپرسرمایہ داری نے خود اس وقت سے ممکن بنا دیا ہے جب یہ بلوں، حصص، بانڈز اور اسی طرح کے مرحلے تک ترقی کر چکی تھی ۔ اس کے لیے صرف اکاؤنٹنگ کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اگر انقلابی جمہوری حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ فوری طور پر، ٹیلی گراف کے ذریعے، منیجروں اور ملازمین کی میٹنگیں ہر شہر میں بلائی جائیں، اور ہر علاقے اور پورے ملک میں کانفرنسیں کی جائیں، تاکہ تمام بینکوں کو فوری طور پرایک واحد ریاستی بینک میں ضم کر دیا جائے،تو یہ اصلاح چند ہفتوں میں ہو جائے گی۔ یقیناً یہ منیجر اور بینک کے اعلیٰ افسران ہی ہوں گے جو اس کام میں مزاحمت کریں گے، جو ریاست کو دھوکہ دینے کی کوشش کریں گے، معاملات میں تاخیر کریں گے، وغیرہ، کیونکہ یہ حضرات اپنے اعلیٰ معاوضے والے عہدوں اور دھوکہ دہی والے انتہائی منافع بخش کام کرنے کا موقع کھو دیں گے۔یہی سارے مسئلے کی جڑ ہے۔ لیکن بینکوں کے انضمام کی راہ میں زرا سی بھی تکنیکی دشواری نہیں ہے؛ اور اگر ریاست کی طاقت صرف لفظوں میں انقلابی نہیں (یعنی اگر اسےکاہلی اور معمول پسندی (روٹین)کو ختم کرنے کا خوف نہ ہو)، اوراگر وہ صرف لفظوں میں جمہوری نہیں (یعنی اگر اس نے مٹھی بھرامیرلوگوں کے بجائے اکثریت کے مفاد میں کام کیا)، تو یہ کافی ہوگا کہ ان منیجروں، بورڈ ممبران اور بڑے شیئر ہولڈروں کے لیے معمولی تاخیر یا دستاویزات اور اکاؤنٹس کو چھپانے کی کوشش کرنے پر جرمانے کے طور پر جائیداد کی ضبطی اور قید کا حکم دیا جائے۔ مثال کے طور پر یہ کافی ہو گا کہ بینکوں کے غریب تر ملازمین کو الگ سے منظم کیا جائے اور بینکوں کو قومیانے کے کام کو ہموار اورتیزتر بنانے کے لیے امیروں کی جانب سے دھوکہ دہی اور تاخیر کا پتہ لگانے کے لیے انھیں انعام دیا جائے ۔
بینکوں کے قومیانے سے سب لوگوں کو حاصل ہونے والے فوائد خاص طور پر مزدوروں کے لیے نہیں (کیونکہ مزدوروں کا بینکوں سے بہت کم تعلق ہے) بلکہ کسانوں اور چھوٹے صنعت کاروں کے لیے بہت زیادہ ہوں گے۔ مزدوری میں بچت بہت زیادہ ہوگی، اور یہ فرض کرتے ہوئے کہ ریاست بینک ملازمین کی سابقہ تعداد کو برقرار رکھے گی، نیشنلائزیشن بینکوں کے استعمال کو آفاقی بنانے، ان کی شاخوں کی تعداد بڑھانے، ان کے آپریشنوں کو آگے بڑھانے کی جانب ایک انتہائی اہم قدم ہوگا جوان تک رسائی کو آسان تربنائے گا، وغیرہ، وغیرہ۔ چھوٹے مالکان، کسانوں وغیرہ کے لیے آسان شرائط پر قرض کی دستیابی میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ جہاں تک ریاست کا تعلق ہے، یہ پہلی بار اس پوزیشن میں ہوگی کہ پہلے ان تمام اہم مالیاتی آپریشنوں کا جائزہ لے، جو کہ غیر پوشیدہ ہوں گے،اور پھر ان پر قابو پائے، پھر معاشی زندگی کو منظم کرے، اور بالآخر، سرمایہ دار حضرات کو ان کی “خدمات” کے بدلے نہایت خطیر “کمیشن” ادا کیے بغیر، بڑے ریاستی لین دین کے لیے کروڑوں اور اربوں روپے حاصل کرے ۔ یہی وہ واحد وجہ ہے کہ تمام سرمایہ دار، تمام سرمایہ دارپروفیسر، سارا سرمایہ دارطبقہ، اور تمام پلیخانوفی، پوتریسوفی حضرات، جو ان کی خدمت کرتے ہیں، وہ بینکوں کو قومیانے کے خلاف سخت لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں اور یہ انتہائی آسان اور نہایت ضروری اقدام اٹھانے سے روکنے کی خاطرہزاروں بہانے ایجاد کرتے ہیں حالانکہ ملک کے “دفاع” کے نقطہ نظر سے، یعنی فوجی نقطہ نظر سے، یہ اقدام ایک بہت بڑا فائدہ فراہم کرے گا اورملک کی “فوجی طاقت” میں زبردست اضافہ کرے گا۔
تاہم، اس بات پریہ مندرجہ ذیل اعتراض کیا جا سکتا ہے: جرمنی اور امریکہ جیسی ترقی یافتہ ریاستیں بینکوں کو قومیانے کے بارے میں سوچے بغیر اتنے شاندار طریقے سے “معاشی زندگی کو منظم” کیوں کرپاتی ہیں؟
ہم جواب دیتے ہیں کہ یہ دونوں ریاستیں محض سرمایہ دارانہ نہیں ہیں بلکہ سامراجی ریاستیں بھی ہیں، حالانکہ ان میں سے ایک بادشاہت ہے اور دوسری جمہوریہ۔ اس طرح، وہ اپنی ضرورت کی اصلاحات “رجعتی-بیوروکریٹک” طریقوں سے کرتی ہیں، جب کہ ہم یہاں “انقلابی-جمہوری” طریقوں کی بات کر رہے ہیں۔
یہ “معمولی فرق” بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ زیادہ تر معاملات میں اس کے بارے میں سوچنے کا”رواج نہیں ہے” ۔ “انقلابی جمہوریت” کی اصطلاح ہمارے ہاں (خاص طور پر سوشلسٹ-انقلابیوں اور منشویکوں کے درمیان) تقریباً ایک روایتی فقرہ بن چکی ہے، جیسے کہ “خدا کا شکر”اداکرنا، جسے وہ لوگ بھی استعمال کرتے ہیں جو اتنے لاعلم نہیں کہ خدا پر یقین کریں؛ یا لفظ”معزز شہری”کی طرح، جو کبھی کبھی ڈاین یا یڈینستو کے عملے کے ارکان کو مخاطب کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، حالانکہ تقریباً ہر کسی کو اندازہ ہے کہ یہ اخبارات سرمایہ داروں کے مفادکے لیے قائم کیے گئے ہیں اور ان کی سرپرستی بھی سرمایہ داروں کے مفاد میں ہی کی جاتی ہے ، اوراس لیے ان اخباروں میں حصہ ڈالنے والے جعلی سوشلسٹوں کے بارے میں کوئی چیز”معزز”نہیں ہے۔
اگر ہم “انقلابی جمہوریت” کے جملے کو ایک دقیانوسی رسمی فقرے کے طور پر، ایک روایتی تشبیہ کے طور پر، استعمال نہیں کرتے، بلکہ اس کے مفہوم پر غور کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت پسند ہونے کا مطلب حقیقت میں یہ ہے کہ اقلیت کے نہیں بلکہ عوام کی اکثریت کے مفادات کو مدنظر رکھنا ہے ، اور انقلابی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر نقصان دہ اور متروک چیزکو انتہائی پرعزم اور بے رحم طریقے سے تباہ کر دیا جائے۔
نہ تو امریکہ میں اور نہ ہی جرمنی میں، جہاں تک ہم جانتے ہیں، حکومت یا حکمران طبقات کی طرف سے “انقلابی جمہوریت” کے نام کا کوئی دعویٰ کیا گیا ہے جس کے دعویدار ہمارے سوشلسٹ انقلابی اور منشویک ہیں (اور جس کی وہ جسم فروشی کرتے ہیں)۔
جرمنی میں قومی اہمیت کے صرف چار بہت بڑے نجی بینک ہیں۔ امریکہ میں صرف دو ہیں۔ ان بینکوں کے مالیاتی سربراہوں کے لیے یہ آسان، زیادہ باسہولت، زیادہ منافع بخش بات ہے کہ وہ نجی طور پر، خفیہ طور پر، رجعتی اور غیرانقلابی طریقے سے، بیوروکریٹک اورغیر جمہوری طریقے سے، سرکاری افسروں کو رشوت دے کر منظم ہو جائیں (امریکہ اورجرمنی دونوں میں یہ قاعدہ عام ہے)، اور بینک کے آپریشنوں کی رازداری کو برقرار رکھنے کے لیے بینکوں کے نجی(پرائیوٹ) کردار کو محفوظ رکھیں تاکہ “خطیرمنافعے” کے طورپرریاست سےکروڑوں روپے بٹوریں اور مالیاتی فراڈ کو ممکن بنائیں۔
امریکہ اور جرمنی دونوں ہی اس طرح”معاشی زندگی کو منظم “کرتے ہیں کہ مزدوروں (اور جزوی طور پر کسانوں) کے لیے جنگ کے زمانے میں جبری بھرتی کے حالات پیدا ہوتے ہیں جبکہ بینکاروں اور سرمایہ داروں کو”جنت (بہت بڑے منافعے)” کمانے کا موقع ملتا ہے۔ ان کا ضابطہ محنت کشوں کو فاقہ کشی تک “نچوڑنے” پر مشتمل ہے، جب کہ سرمایہ داروں کو جنگ سے پہلے کے مقابلے میں(خفیہ طورپر،رجعتی-بیوروکریٹک طریقے سے) زیادہ منافع کمانے کی ضمانت دی جاتی ہے۔
ایسا راستہ ریپبلکن سامراجی روس میں بھی کافی حد تک ممکن ہے۔ درحقیقت، یہ وہ طریقہ ہے جس کی پیروی نہ صرف ملیوکوف اور شنگریف کے حامیوں کے ذریعے کی جا رہی ہے، بلکہ کیرنسکی نے بھی تیریشینکو، نیکراسوف، برناٹسکی، پروکوپووچ حضرات کے ساتھ حصے داری کی ہے، جو رجعتی-بیوروکریٹک انداز سے، بینکوں کے “ناقابل تنسیخ” ہونے اور خطیر منافع کمانے کے ان کے مقدس حق کو بھی برقراررکھتے ہیں۔ تو بہتر یہ ہے کہ ہم سچ بولیں، یعنی یہ کہ ریپبلکن روس میں وہ معاشی زندگی کو رجعتی بیوروکریٹک انداز میں ریگولیٹ کرنا چاہتے ہیں، لیکن “اکثر” ایسا کرنا “سوویتوں(مزدوروں، کسانوں اورسپاہیوں کی پنچایتوں)” کی موجودگی سے مشکل ہو جاتا ہے، جنہیں کورنیلوف نمبر1ختم نہیں کرسکا، لیکن جسے کورنیلوف نمبر 2 ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔(کورنیلوف ایک شاہ پرست اورسامراج نواز فوجی جرنیل جس نے روس میں سوشلسٹ تحریک کو کچلنے کی کوشش کی ۔)
یہی سچ ہوگا۔ اور یہ سادہ مگر کڑوا سچ عوام کی روشن خیالی کے لیے “ہماری”، “عظیم”، “انقلابی” جمہوریت کے بارے میں میٹھے جھوٹوں سے زیادہ مفید ہے۔
بینکوں کو قومیانے سے انشورنس کے کاروبار کو بیک وقت قومیانے میں بہت سہولت ملے گی، یعنی تمام انشورنس کمپنیوں کو ایک کمپنی میں ضم کرنا، ان کے کاموں کو مرکزی بنانا، اور ان پر ریاستی کنٹرول قائم کرنا۔ یہاں بھی انشورنس کمپنی کے ملازمین کی کانگریس اس اتحاد کو فوری طور پر اور کسی بڑی کوشش کے بغیر انجام دے سکتی تھی، بشرطیکہ ایک انقلابی جمہوری حکومت اس کا حکم دے اور ڈائریکٹروں اور بڑے شیئر ہولڈروں کو بغیر کسی تاخیر کے انضمام کو نافذ کرنے کا حکم دے اور ان میں سے ہر ایک کو سختی سےاس کے لئے جوابدہ بنائے۔ سرمایہ داروں نے انشورنس کے کاروبار میں کروڑوں روبل کی سرمایہ کاری کی ہے؛تمام کام ملازمین کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس کاروبار کے ضم ہونے سے بیمہ کے پریمیم کم ہوں گے، بیمہ کرنے والوں کے لیے بہت ساری سہولیات اور آسانیاں پیدا ہوں گی اورسرگرمیوں اور فنڈکے اخراجات میں اضافہ کیے بغیر ان کی تعدادبڑھانا ممکن ہوگا۔ معاوضے دار ملازمتوں کے حامل مٹھی بھر افراد کی کاہلی، معمول پرستی اور خود غرضی کے سوا کچھ بھی نہیں جس کی وجہ سے اس اصلاح میں تاخیر ہو رہی ہے، جو کہ دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ، قومی محنت کو کم کر کے ملک کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرے گی اور “معاشی زندگی کو ریگولیٹ” کرنے کے لیے، صرف لفظی طورپرنہیں بلکہ عملی طورپر، بہت سے انتہائی اہم مواقع پیدا کرے گی۔
حوالیہ:لینن کی تصنیف”قریب آتی تباہی اوراس کا مقابلہ کیسا کیا جائے؟(اکتوبر19ٍ17ء)” کے سیکشن”بینکوں کو قومیانا” کا ترجمہ