قصص الانبیاء کا مصنف نمرود کی خدائی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ نمرود کنعان بن آدم بن سام بن نوحؑ کا بیٹا تھا اورزبان اس کی عربی تھی۔ اس نے اپنے لشکر کی مدد سے ملک شام اور ترکستان کو فتح کیا۔ بعدمیں وہ ہندوستان اور روم کو بھی قبضہ میں لایا اور مشرق سے مغرب تک تمام جہاں پر اس کی حکومت تھی اور بابل اس کا دارالسلطنت تھا۔ اس نے ایک ہزار سات سو برس بادشاہت کی۔ وہ بڑا متکبر تھا اور کہتا تھا کہ میں خدا ہوں۔ آسمان کا خدا کیا چیز ہے۔ تب خدا نے حضرت ابراہیمؐ کو پیدا کیا اورحضرت ابراہیم نے نمرود کو خدائے واحد پر ایمان لانے کی دعوت دی مگر نمرود نے یہ دعوت ٹھکرا دی۔
“کیا تم نہیں جانتے کہ اس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں بحث کی، وہی جس نے اس کو بادشاہت عطا کی تھی۔ جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو حیات اور موت دیتا ہے تو اس نے کہا کہ میں بھی حیات اور موت دیتا ہوں۔” (سورہ بقرہ257)
جب حضرت ابراہیم کی بت شکنی کا چرچا ہوا اور نمرود کو خبر پہنچی کہ ابراہیم دیوتاؤں کی پرستش کی مخالفت کرتا ہے تو وہ بہت برہم ہوا اوراس کے مصاحبوں نے اس کو مشورہ دیا کہ “اگر تو کچھ کرنا چاہتا ہے تو ابراہیم کو آگ میں جلا دے اور اپنے خداؤں کی نصرت کر۔”(سورہ انبیاء68)
اور نمرود نے حکم دیا کہ ایک چہار دیواری ایسی بناؤ کہ احاطہ اس کا بارہ کوس کا ہو، اونچائی اس کی سو گز کی اور منادی کروا دی کہ جتنے ہمارے دوست ہیں وہ لکڑی کاٹ کر لائیں اور اس احاطہ میں ڈال دیں اور احاطہ لکڑیوں سے بھر گیا تو نمرود نے ان میں آگ لگوا دی اور جب آگ کے شعلے آسمان تک پہنچنے لگے توحضرت ابراہیم کو گوپھن میں رکھ آگ میں پھینک دیا گیا۔ مگر اسی وقت غیب سے آواز آئی۔” ہم نے کہا کہ اے آگ ٹھنڈی ہو جا ابراہیم پر” اور وہ آگ حضرت ابراہیم کے لئے گلشن حیات بن گئی۔ تب نمرود نے ابراہیم کے خدا سے آسمان پر لڑنے کا عزم کیا۔ طبری کہتا ہے کہ نمرود نے گدھ کے چار بچے پالے اور جب وہ گوشت اور شراب پی پی کرخوب موٹے ہو گئے تو ان کو اپنے تخت کے چاروں پایوں سے باندھا اور چاروں کونوں پر ایک ایک نیزہ نصب کیا اور نیزے کی انی پر گوشت لپیٹ دیا تاکہ گدھ گوشت کے لالچ میں اوپر ہی کی طرف پرواز کرتے رہیں اور خود تیر کمان لے کر تخت پر بیٹھا اور گدھ نمرود کو لے کرآسمان کی طرف اڑنے لگے اور نمرود اتنی اونچائی پر پہنچ گیا کہ پہاڑ مٹی کا ڈھیر نظر آنے لگے۔ اور کرہ ارض سمندر میں جہاز کی مانند دکھائی دینے لگا۔ تب نمرود نے آسمان پر تیر چلایا لیکن تیر واپس آ گیا اورنمرود اپنے ارادے میں ناکام رہا۔ آخر کار خدا کے حکم سے ایک کیڑا اس کی ناک میں گھس گیا اور نمرود چار سو برس تک اذیت اٹھاتا رہا اور ہلاک ہوا۔
قرآن شریف میں خدائی دعوی کرنے والے اس بادشاہ کا نام نہیں آتا البتہ انجیل کے پرانے عہدنامے میں نمرود کا ذکر موجود ہے (کتاب پیدائش باب 10) اور یہود کی ابتدائی کتابوں میں بھی نمرود کے قصے تفصیل سے ملتے ہیں۔ عرب مفسر اور مؤرخ غالبا ان روایتوں سے واقف تھے۔ چنانچہ انہوں نے خدائی کا دعوی کرنے والے بادشاہ کو متفقہ طور پر نمرود لکھا ہے اور قرآن شریف کی آیتوں کی تشریح میں اس بادشاہ سے وہ سب داستانیں منسوب کردی ہیں جو یہود میں رائج تھیں لیکن عراق کے آثار قدیمہ سے اب تک ایسی کوئی لوح برآمد نہیں ہوئی ہے جس سے ان روایتوں کی تصدیق ہوتی ہو۔ حتی کہ بادشاہوں کی جو فہرستیں دستیاب ہوئی ہیں ان میں بھی نمرود نام کے کسی آدمی کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ہاں موصل سے 22 میل کے فاصلے پر اشور نصیر پال (883۔ 59 ق۔ م) نے جس مقام پر اپنا محل اور نیا دارالسلطنت تعمیر کیا تھا اسے ضرور نمرود کہتے ہیں۔ اشور نصیر پال بڑا جنگجو اور فاتح فرماں روا گزرا ہے۔ عین ممکن ہے کہ شہرنمیرود کے اس بادشاہ کی (یا اس کے جانشینوں کی جنہوں نے یہودیوں کو اسیر کیا تھا) داستانیں یہودی روایتوں میں منتقل ہو کرنمرود بادشاہ کی داستانیں بن گئی ہوں۔
گو نمرود کی شخصیت کا اب تک سراغ نہیں مل سکا ہے لیکن گدھ کی پیٹھ پر بیٹھ کر آسمان پر جانے کا قصہ قدیم بابلی (بیسویں صدی قبل مسیح) اشوری اور نواشوری عہد کے کئی نوشتوں میں ملا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گدھ کی داستان بہت پرانی ہے۔ سومیر کی فہرست شاہان میں کیش کے ایک بادشاہ اتانا کا ذکر آیا ہے جو گڈریا تھا اور آسمان پر گیا تھا۔ قدیم عکادی عہد کی ایسی کارتوسی مہریں بھی ملی ہیں جن پر ایک گڈریے کی تصویر کندہ ہے اور وہ گدھ کی پیٹھ پر بیٹھ کر آسمان پر پرواز کر رہا ہے، البتہ اتانا کی داستان میں سفر کے جو محرکات درج ہیں وہ نمرود کے سفر سے بالکل مختلف ہیں۔ اتانا بے چارہ تو لا ولد تھا اس لئے وہ آسمان پر شجر تولید لانے گیا تھا نہ کہ خدائے عرش کا مقابلہ کرنے۔
کہتے ہیں کہ اتانا بڑا طاقتور بادشاہ تھا۔ اس کا خزانہ ہیرے جواہرات سے بھرا تھا لیکن اس کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لئے وہ بہت مغموم رہتا تھا۔ ایک دن وہ شہر سے دور جنگلوں میں گھوم رہا تھا کہ اس نے کسی پرندے کے کراہنے کی آواز سنی۔ بادشاہ آواز کی سمت چل پڑا اور جب آواز کے قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک زخمی گدھ کنویں کے اندر پڑا کراہ رہا ہے۔ اتانا نے پرندے سے پوچھا کہ اے پرند تو اس کنویں میں کیسے گرا اور تجھے کس نے زخمی کیا۔ گدھ نے کہا کہ اے بادشاہ میں بڑا پاپی ہوں۔ ایک سانپ میرا دوست تھا۔ میں نے اس کے ساتھ بد عہدی کی۔ سزا بھگت رہا ہوں۔ اے اتانا اگر تو مجھے اس قید سے رہائی دلوائے تو میں تیرے دل کی مراد پوری کردوں اور تیری ملکہ کی گود نو مہینے میں ہری ہو جائے۔ بادشاہ نے گدھ کو کنویں سے نکالا اور جب اس کے پرسوکھ گئے تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ تو میری پیٹھ پر بیٹھ جا۔ میں تجھے اڑا کر وہاں لے جاؤں گا جہاں شجر تولید اگتا ہے لیکن خبردار راستے میں آنکھیں نہ کھولنا۔ بادشاہ نے گدھ کی ہدایتوں پرعمل کیا اور گدھ کی مدد سے شجر تولید حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔
قدیم داستان گو نے تمہید میں خدائےعرش انو کے دربار کا نقشہ کھینچا ہے اور بتایا ہے کہ یہ قصہ اتنا پرانا ہے کہ اس وقت تک عراق میں بادشاہت بھی نازل نہیں ہوئی تھی۔
گدھ کی کہانی
عظیم دیوتا انو اپنے تخت پر بیٹھا تھا۔
وہی جو قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔
اور دوسرے دیوتاؤں سے زمین کے بارے میں مشورہ کر رہا تھا۔
ان دیوتاؤں سے جنہوں نے چاروں کونے پیدا کئے۔
وہ سب انسان کے خلاف تھے۔
پس انہوں نے انسان کے لئے وقت مقرر کر دیا تھا۔
اس وقت تک کالے بال والوں نے کسی کو بادشاہ نہیں بنایا تھا۔
اس وقت تک کسی کے سر پر تاج بھی نہیں رکھا گیا تھا۔
نہ کلغی باندھی گئی تھی۔
اور نہ عصائے شاہی میں لاجوردی کا جڑاؤ کام بنا تھا۔
دیوتاؤں کے مندر بھی تعمیر نہیں ہوئے تھے۔
ساتوں دیوتاؤں نے آباد کاروں پر پھاٹک بند کر دیے تھے۔
اورعصائے شاہی، تاج، کلغی اور گڈریئے کا آنکر۔
(بادشاہت کی تمام علامتیں)
سب عرش پر انو کے پاس جمع تھے۔
کیونکہ اس وقت تک زمین کے باشندو ں کے بارے میں دیوتاؤں نے کوئی مشورہ نہیں کیا تھا۔
تب بادشاہت آسمان سے اتری۔
اس تمہید کے بعد قصے کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایک گدھ کسی پیڑ پر رہتا تھا۔ وہیں ایک سانپ نے بھی اپنی بل بنا رکھی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد سانپ اور گدھ میں دوستی ہوگئی اور انہوں نے عہد کیا کہ ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے کام آئیں گے۔
انہوں نے بہادر شمس کے روبرو قسم کھائی کہ
جو کوئی اپنے عہد کی خلاف ورزی کرے۔
شمس اسے جلاد کے حوالے کر دے۔
اور وہ راستہ بھول کر بھٹکتا پھرے۔
اور پہاڑ اپنے دروں کو اس پر بند کردے۔
اور شمس کا جال اسے پکڑ لے اور گرا دے۔
جب گدھ جنگلی بیل یا جنگلی گدھے کا شکار کرتا ہے۔
تو سانپ اس میں حصہ لگاتا اور کھا کراپنے بچوں کو بھرانے چلا جاتا۔
جب سانپ پہاڑی بکرے یا ہرن کو مارتا۔
تو گدھ اس میں حصہ لگانے آجاتا اور کھا کر اپنے بچوں کو بھرانے چلا جاتا۔
اس طرح بہت دن گزر گئے۔
اور گدھ کے بچے عمر اور وزن میں خوب بڑھ گئے۔
تب گدھ کے دل میں بدی نے گھر کیا۔
اور اس نے اپنے دوست کے چھوٹے بچوں کو کھانے کا تہیہ کیا۔
اس نے منہ کھولا اور اپنے بچے سے کہا
میں سنپولوں کو کھاؤں گا۔
اور آسمان پر اڑ جاؤں گا۔
اور درخت کی چوٹی پر اتر کر اس کے پھل سے پیٹ بھر لیا کروں گا۔
مگر اس کا بچہ بڑا ہوشیار تھا۔ اس نے باپ سے کہا۔
باپ۔ ایسا ہرگز نہ کرنا۔
ورنہ شمس کا جال تجھے پکڑ لے گا۔
شمس کا سراپ تجھے ہلاک کر دے گا۔
لیکن گدھ نے بیٹے کی بات نہ مانی۔
وہ نیچے اتر کر اور سنپولوں کو کھا گیا۔
دوپہر میں جب سانپ اپنے بچوں کے لئے کھانا لے کر لوٹا اور بل میں گیا تواس کے بچے غائب تھے۔ اس نے ہر جگہ ڈھونڈا مگر بچوں کو نہ پایا۔
تب وہ شمس کے روبرو گیا۔
اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
اور اس نے رو رو کر شمس سے فریاد کی!
بہادر شمس میں نے تجھ پر بھروسہ کیا۔
میں نے گدھ کو اپنا دوست بنایا اور اس کی خدمت کی۔
لیکن گدھ آیا اورمیرے بچوں کو کھا گیا۔
اب میرا گھونسلہ ویران ہے۔
میرے بچے مرچکے ہیں۔
او شمس! گدھ نے میرے ساتھ جو بدی کی ہے۔
اس سے آگاہ ہو۔
او شمس! بے شک تیرا جال پوری زمین پر پھیلا ہوا ہے۔
اور آسمان بھی اس کے پھندے میں اسیر ہے۔
پس گدھ تیرے جال سے بچ کر جانے نہ پائے۔
بدکار ہےجو دوستوں کے ساتھ برائی کرتا ہے۔”
جب شمس نے سانپ کی فریاد سنی تو اس نے اپنا منہ کھولا اور سانپ سے کہا!
تو یہاں سے روانہ ہو جا۔ پہاڑ کو عبور کر۔
وہاں میں تیرے لئے ایک جنگلی بیل کو باندھ دوں گا۔
تواس کا پیٹ پھاڑنا اور اس کے اندرچھپ کر بیٹھ جانا۔
تب ہر قسم کے پرندے آسمان سے بیل کا گوشت کھانے نیچے آئیں گے۔
اور گدھ بھی آئے گا۔
کیونکہ اس کو اپنا خراب انجام معلوم نہیں ہے۔
مگر وہ بڑی احتیاط سے آئے گا۔
اور پیٹ کے اندر گوشت تلاش کرے گا۔
جب وہ اندر داخل ہو تو اسے پکڑ لینا۔
اور اس کے پنکھ اورچونچ توڑ دینا۔
اور اسے ایک گڑھے میں پھینک دینا۔
جہاں وہ بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرجائے گا۔
شمس کے حکم کے مطابق سانپ نے پہاڑعبور کیا۔
اور جب وہ بیل کے پاس پہنچا۔
تو اس نے بیل کا پیٹ چاک کیا۔
اور اس کے اندراپنا بسیرا بنایا۔
اور ہرطرح کے پرند گوشت کھانے آسمان سے نیچے آئے۔
اگر گدھ کو اپنا انجام معلوم ہوتا تو وہ دوسرےپرندوں کے ساتھ گوشت کھانے کبھی نہ آتا۔
گدھ نے منہ کھولا اور اپنے بچے سے کہا،
آؤ بچے بیل کا گوشت کھانے چلیں۔
لیکن بچہ بہت ہوشیار تھا۔ اس نے باپ سے کہا،
باپ نیچے مت اترو۔ شاید بیل کے اندر سانپ چھپا بیٹھا ہو۔
مگر گدھ نہ مانا۔ اس نے کہا،
میں تو نیچے گوشت کھانے ضرور جاؤں گا۔
سانپ بھلا مجھے کیسے کھا سکتا ہے۔
اور وہ نیچے اترا اور بیل کے پاس گیا۔
اس نے بیل کا اگلا حصہ غور سے دیکھا۔
اس نے بیل کا پچھلا حصہ غور سے دیکھا۔
پھر اس نے بیل کے پیٹ میں جھانک کر دیکھا۔
اور جب وہ اندر داخل ہوا تو سانپ نے اسے پروں سے پکڑ لیا۔
گدھ نے اپنا منہ کھولا اور سانپ سے کہا،
مجھ پر رحم کھا۔ میں تجھے ایسا تحفہ دوں گا
جوشادی میں دولہا کو دیا جاتا ہے۔
سانپ نے اپنا منہ کھولا اور گدھ سے کہا،
اگر میں تجھے چھوڑ دوں تو شمس کو کیا جواب دوں گا۔
وہ الٹا مجھی کو سزا دے گا۔
پس اس نے گدھ کے پنکھ اور چونچ توڑ ڈالے اور اس کے پر نوچ لئے۔ اور اسے گڑھے میں پھینک دیا۔
تاکہ وہ بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر جائے۔
اور گدھ روز شمس سے فریاد کرتا،
کیا میں گڑھے میں پڑا پڑا جان دے دوں
خداوند میری جان بخشی کر دے۔
میں ابد تک تیرے گن گاتا رہوں گا۔
شمس نے اپنا منہ کھولا اور گدھ سے کہا،
تو بدکار ہے اور تونے مجھے بہت دکھ دیا ہے
دیوتاؤں نے جس چیز کو منع کیا تھا
تو نے وہ چیز کھائی
اب تو لاکھ وعدے کرے
میں تیرے پاس نہ آؤں گا
البتہ میں تیرے پاس ایک آدمی بھیجوں گا
وہ تیرا ہاتھ پکڑے گا۔
اتانا شمس سے روز التجا کرتا۔
شمس دیوتا! میں نے اپنی سب سے موٹی بھیڑیں تجھے کھلائیں۔
زمین میرے ہلوانوں کا خون پیتی ہے۔
میں دیوتاؤں کی عزت کرتا ہوں
ندائے غیب کی محافظ دیوداسیوں نے ہر طرح کی مدد کی
خداوند۔ اب تو اپنے منہ سے مژدہ سنا۔
مجھے شجر تولید کی زیارت نصیب کر۔
میرا بوجھ ہلکا کر اور میرا ایک نام لیواپیدا کر۔
شمس نے اپنا منہ کھولا اور اتانا سے کہا۔
تو سفر پر روانہ ہو اور پہاڑ کو عبور کر۔
وہاں تجھے ایک گڑھا ملے گا۔
گڑھے کے اندر جھانک کر دیکھ۔
وہاں ایک گدھ زخمی پڑا ہے۔
وہی تجھے شجر تولید کی زیارت کروائے گا۔
اتانا شمس کے حکم سے سفر پر روانہ ہوا۔
اس نے پہاڑ عبور کیا۔
اور جب وہ گڑھے کے پاس پہنچا۔
اور اس کے اندر جھانکا۔
تو وہاں ایک گدھ پھنسا پڑا تھا۔
گدھ نے اپنا منہ کھولا اور اتانا سے کہا،
بتا تویہاں کیوں آیا ہے۔
اتانا نے منہ کھولا اور کہا،
میرے دوست مجھے شجر تولید کا راستہ دکھا۔
مجھے شجر تولید بخش دے۔
میرا بوجھ ہلکا کردے تاکہ دنیا میں میرا نام چلے۔
گدھ نے اتانا کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور کہا،
تو بے شک اتانا ہے۔
تو مجھے اس گڑھے سے نکال،
پھر میں تجھے اولاد دوں گا۔
اور ابد تک تیرے گن گاتا رہوں گا۔
اتانا نے بڑی مشکل سے گدھ کوگڑھے سے نکالا۔ تب گدھ نے اتانا سے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں اور تم خداوند انو، ان لیل اور آیا کے محل کے پھاٹک کے سامنے کھڑے ہیں اور ہم نے تعظیم سے اپنے سر جھکا لئے ہیں۔ پھر ہم قمر، شمس، اداد اورعشتار کے پھاٹک پر پہنچے ہیں۔ میں نے پھاٹک کھولا اور ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو مجھے ایک سنہرے تخت پرعشتار بیٹھی ہوئی دکھائی دی۔ وہ چمکیلے زیورات سے لدی ہوئی تھی اور اس کے تخت کے پایوں کے پاس شیر لیٹے سو رہے تھے۔ میں تخت کے قریب پہنچا تو شیر جاگ اٹھے اور خوف سے میری آنکھ کھل گئی۔ عشتار کی زیارت اس بات کی علامت تھی کہ اتانا کی آرزو پوری ہوگی۔ اس تمہید کے بعد گدھ نے اتانا سے کہا کہ
میں تجھے انو کے دربار میں لے جاؤں گا۔
تو میرے سینے پر اپنا سینہ رکھ لے۔
اورمیرے پروں کو اپنے ہاتھوں سے مضبوط پکڑ لے۔
اور اپنے بازو میرے بدن کے گرد حمائل کر دے۔
چنانچہ اتانا نے ایسا ہی کیا اور گدھ اتانا کو لے کر عرش کی جانب پرواز کرنے لگا۔
جب وہ ایک کوس اوپر اڑ چکے۔
تو گدھ نے اتانا سے کہا،
میرے دوست ذرا زمین کی طرف دیکھو اور بتاؤ وہ کیسی نظر آتی ہے اور سمندر اور ایکو پہاڑ پر بھی نظر ڈالو۔
اتانا نے جواب دیا کہ زمین ایک پہاڑی کی مانند ہے۔
اور سمندر پانی کا تالاب معلوم ہوتا ہے۔
اور جب دو کوس اوپر اڑ چکے تو گدھ نے پھر وہی سوال کیا۔
اور اتانا نے کہا کہ اب زمین ایک کھیت کی مانند ہے۔
اورسمندر روٹی کی ٹوکری معلوم ہوتا ہے۔
اورجب وہ تین کوس اڑ چکے تو گدھ نے پھر وہی سوال کیا۔
اوراتانا نے کہا کہ اب تو مالی کے کنویں کے مانند نظرآتی ہے۔
اور اتانا ڈر گیا اور اس نے گدھ سے کہا کہ میرے دوست میں اس سفر سے باز آیا۔ تم مجھے واپس لے چلو۔ مگر گدھ نے دلاسا دیا اور اتانا کی ڈھارس بندھائی۔ وہ انو کے عرش پر پہنچے اور انو، ان لیل، اور آیا کے پھاٹک میں داخل ہوئے۔ اور انہوں نے دیوتاؤں کے روبرو تعظیم سے اپنے سرجھکائے۔
بالآخر اتانا شجر تولید حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور گدھ کی پیٹھ پر بیٹھ کر وطن واپس آیا اور اس کے اولاد ہوئی اور اس کا نام دنیا میں باقی رہا۔
عجیب بات ہے کہ عکادی اور اشوری نوشتوں میں کسی ایسے بادشاہ کا تذکرہ نہیں ملتا جس نے خدائی کا دعوی کیا ہو یا جسے رعایا دیوتا سمجھ کر پوجتی رہی ہو۔ بلکہ عکادی اور اشوری فرماں روا تو دیوتاؤں کی خدمت کرنا اور ان کے لئے عالیشان معبد تعمیر کرنا اپنا فرض منصبی خیال کرتے تھے۔ وادی دجلہ و فرات کی داستانوں میں فقط ایک ہیرو۔۔۔ گل گامش۔۔۔ ایسا گزرا ہے جس کی خداوندی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر وہ بھی فقط “تین چوتھائی دیوتا تھا اور ایک چوتھائی انسان کیونکہ حیات ابدی اس کی قسمت میں نہیں لکھی تھی۔”