مضامینِ سبطِ حسن: سجاد ظہیر (دوسرا مضمون)

حیات اور موت کا رشتہ ابدی ہے اور ہم سب جو زندہ ہیں، وہ ہر لمحہ موت ہی کی طرف سفر کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم یہ سفر کیسے کرتے ہیں۔ حیات بخش، قوتوں سے رابطہ رکھ کریا موت کی قوتوں کے سایے میں۔ کیونکہ جینے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی جب تک زندہ رہے زمین کا بوجھ بنا رہے اور لوگ اس سے پناہ مانگتے رہیں حتیٰ کہ اس کا جنازہ بھی وبال دوش ہو۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان جب تک زندہ رہے دوسروں کی زندگی کا سہارا بنا رہے اور مرتے وقت نہ اپنی ذات سے نادم ہو نہ دنیا والوں سے شرمندہ۔

سجاد ظہیر صاحب جن کا سوگ منانے کے لئے ہم آج یہاں جمع ہوئے ہیں، بڑی آن بان سے جیے اور بڑی شان سے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ تمام عمر زندگی، سچائی، انصاف اور انسانیت کی قوتوں کا ساتھ دیا اور بدی، بے انصافی، انسان دشمنی، ذہنی اور مادی غلامی، غرض یہ کہ ان تمام قوتوں سے لڑتے رہے جو موت اور زوال کی نشانیاں ہیں۔

سجاد ظہیر نیکی اور صداقت تھے، اسی لئے ان کے ساتھ رفاقت کا رشتہ جوڑنا بہت آسان تھا۔ ان کا دل بقول غالب مہر و وفا کا باب تھا۔ اس دروازے پر نہ کوئی حاجب و دربان تھا اور نہ شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی تھی۔ اسی لئے پاکستان کیا، اس شہر میں بھی آپ کو ایسے لوگوں کی کافی تعداد ملے گی جو ان کی شرافت، خلوص، انسان دوستی کے معترف ہوں گے۔ یہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے ان کےساتھ مل کر ادبی یا سیاسی کام کیا ہے۔ اگر میں کچھ ایسی باتیں کہوں جس میں خودنمائی کی جھلک نظرآئے توآپ لوگ مجھے معاف کر دیں کیونکہ ان کی ذات سے وابستگی میں عام طور سے من و تو کے جحابات اٹھ جاتے تھے اور ہر شخص یہی محسوس کرتا تھا کہ میری ذات سجاد ظہیر کی ذات کا ایک جزو ہے۔

سجاد ظہیر کی ادبی زندگی کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ترقی پسند ادب کی تحریک کی بنیاد ڈالنے اور اس تحریک کو آگے بڑھانے میں انہوں نے بڑا تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ان کی تحریروں نے ادیبوں کے طرز فکر و احساس پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ چنانچہ ان کی ادبی خدمات کبھی بھلائی نہیں جا سکتیں۔ لیکن ان کی شخصیت کا سیاسی پہلو ابھی زیادہ اجاگر نہیں ہوا ہے۔ وہ طالب علمی کے زمانے میں کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ہوئے اور مرتے دم تک اس سے وابستہ رہے۔ وہ ایک نہایت خوش حال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی اعلیٰ تعلیم کے باعث بڑی آسانی سے نہایت آسودہ اور پر چشم زندگی بسر کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے انقلابی جد و جہد کی پرخار وادی میں قدم جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر رکھا تھا۔ انہوں نے کبھی پیچھے مڑکر نہ دیکھا کہ اس آبلہ پائی نے کتنے کانٹوں کو گلنار بنایا ہے۔ وہ آگے ہی بڑھتے رہے۔

جو لوگ سجاد ظہیر کے مزاج کی نرمی، مٹھاس اور نفاست سے واقف تھے اور فنون لطیفہ سے ان کی والہانہ محبت سے آگاہ تھے، ان کو سجاد ظہیر کی سیاسی مصروفیتوں پر کبھی کبھی بڑی حیرت ہوتی تھی۔ کیونکہ کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لینا یا پارٹی کی تنظیم کے لئے دوڑ بھاگ کرنا بظاہر بڑا غیرشاعرانہ فعل معلوم ہوتا ہے۔ وہ سوچتے تھے کہ اتنا نازک مزاج شخص بھلا مزدوروں اور کسانوں میں گھل مل کرکسی طرح کام کر سکتا ہے۔ ادب اور پارٹی کی سیاست ان کو دومتضاد چیزیں نظر آتی تھیں مگرسجاد ظہیر کواس بات پرحیرت ہوتی تھی کہ وہ لوگ جوخود کو روشن خیال اور ترقی پسند کہتے ہیں، کمیونسٹ کیوں نہیں ہو جاتے۔ وہ کہتے تھے کہ میں ترقی پسند ادیب اسی لئے ہوں کہ کمیونسٹ ہوں اور کمیونسٹ اسی لئے ہوں کہ ترقی پسند ادیب ہوں۔ وہ ان دونوں حقیقتوں کو ایک دوسرے کی ضد نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک کو دوسرے کا منطقی نتیجہ تصور کرتے تھے۔

انہوں نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری کا عہدہ بڑے پریشان کن حالات میں سنبھالا تھا۔ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے صوبائی دفتر لاہور، کراچی اور پشاور میں موجود تھے۔ لیکن سب سے فعال صوبائی پارٹی صوبہ پنجاب کی تھی۔ البتہ اس پارٹی کے بیشتر رہنما سکھ یا ہندو تھے۔ سردار سوہن سنگھ جوش، سردار تیجا سنگھ سوتنتر، سردارکرم سنگھ مان وغیرہ۔ ان میں سے بعض کا تعلق غدر پارٹی سے رہ چکا تھا۔ بعض مولانا عبید اللہ سندھی اور مولوی برکت اللہ مرحوم کے ساتھ کام کر چکے تھے اور دس دس پندرہ پندرہ سال قید رہے تھے۔ ملک تقسیم ہوا تو ان سب لوگوں کو بھی ہندوستان جانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں کی پارٹی کا شیرازہ بکھر گیا۔ سجاد ظہیر کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے تین سال کی مختصر مدت میں کمیونسٹ پارٹی کے نہ صرف بکھرے ہوئے تاروں کو از سر نو جوڑا بلکہ نئے کارکنوں کی سیاسی تربیت کر کے اس نوزائیدہ پارٹی کو ایک نہایت باعمل اور منظم جماعت میں تبدیل کر دیا۔

سجاد ظہیر کو پاکستان کے حالات کا مطالعہ کرنے کا بہت کم موقع ملا تھا۔ روپوشی کی وجہ سے وہ عام لوگوں سے کیا، خود پارٹی کے کارکنوں اور ہمدردوں سے بھی آزادی سے نہ مل سکتے تھے۔ اس کے باوجود ان کی شخصیت میں اس بلا کی کشش تھی کہ پارٹی کا ہر رکن ان سے ذاتی طور پر ایک یگانگت اور اپنائیت محسوس کرتا تھا۔ ہر شخص کو ان پر اور ان کے طریقہ کار پر پورا پورا بھروسہ تھا۔ یہی وہ اوصاف تھے جن کی بدولت وہ پارٹی کے اندرفکر وعمل کی وحدت کو فروغ دینے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت کمیونسٹ پارٹی سیسہ کی ایک دیوار تھی جس میں گروہ بندیوں اورباہمی رقابتوں کے شگاف نہیں تھے۔

سجاد ظہیر بنیادی طور پر ایک آرٹسٹ تھے۔ چنانچہ وہ انقلابی سرگرمیوں کو بھی ایک آرٹسٹ کی نظر سے دیکھتے اور برتتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انقلاب بھی تو ساز ہستی کا ایک حیات بخش نغمہ ہے، لہذا ہر انقلابی کا رکن کا فرض ہے کہ جس طرح ایک موسیقار ستار کے مختلف تاروں کو حرکت دے کر ان کی آوازوں میں ایک آہنگ اور حسن پیدا کرتا ہے یا ایک پیانو بجانے والا پیانو کی پتیوں پر اپنی انگلیوں کی جنبش سے نئی نئی دھنیں بناتا ہے تاکہ لوگوں کا جمالیاتی ذوق نکھرے اوران میں زندہ رہنے اورزندگی کوحسین بنانے کا ولولہ پیدا ہو، اسی طرح ہم انقلابیوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے عمل سے لوگوں میں زندگی سے محبت کرنے، زندگی کے سچے اور حیات بخش اقدار کو ترقی دینے، زندگی کوزیادہ آسودہ، آزاد اورباشعور بنانے اور ان قوتوں سے نبردآزما ہونے کی صلاحیتیں ابھارے جو انسانیت کے لئے ایک جان لیوا روگ بن گئی ہیں۔

سجاد ظہیر نے تحریک پاکستان کی حمایت اس وقت کی جب مسلم لیگ ایک جماعت تھی اور بر صغیر کی تمام سیاسی جماعتیں تحریک پاکستان کے خلاف تھیں۔ انہوں نے قوموں کے حق خودارادیت کی تشریح میں جو مضامین لکھے یا تقریریں کیں ان کی بدولت بہت سے مسلم لیگی رہنماؤں کوپہلی بارقوموں کے حق خودارادیت کا علم ہوا۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار نے اسی شخص کو قابل گردن زدنی ٹھہرایا۔

چنانچہ ان کے پاکستان میں قدم رکھنے سے پیشتر ہی ان کی گرفتاری کا پروانہ جاری ہوگیا تھا۔ وہ جب تک پاکستان میں رہے روپوش رہے یا پھر گرفتار، اور جب وہ رہا ہوئے توانہیں دو دن کے اندر ملک بدر کر دیا گیا۔ اس نیک سلوک کے باوجود سجاد ظہیر جب تک زندہ رہے، پاکستان اور یہاں کے لوگوں سے محبت کرتے رہے۔ ان کی برابر یہ کوشش رہی کہ پاکستان اورہندوستان کے درمیان دوستی اورمحبت کے رشتے قائم ہو جائیں۔ اپنے مضامین میں اور تقریروں میں وہ ہمیشہ اسی بات پر زور دیتے تھے۔ حال ہی میں انہوں نے نئی دہلی کے ایک ہفتہ وار اخبار میں پاکستانی ادب پر بڑی ہمدردی سے ایک مضمون لکھا تھا۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’پاکستانی ادب پرایک چھوٹا سا مضمون میں نے حال ہی میں ایک ہندوستانی ہفتہ وار کے لئے لکھا تھا۔ ہندوستان میں پاکستانی کتابیں بڑی مشکل سے یا بالکل نہیں ملتیں۔ پاکستان کے پرانے رسالوں کے بل پر اور پرانی کتابوں کی بنیاد پر جو کچھ ہوسکا میں نے وہ لکھا۔ پھر بھی ہندوستان کے موجودہ حالات میں شاید یہ بھی غنیمت تھا۔‘‘

ایک اور خط میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ کیسی غیر فطری صورتحال ہے کہ دوست عزیز تک ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے اور نہ ایک ملک سے دوسرے ملک آ جا سکتے ہیں۔ دہلی سے ماسکو یا لندن جانا آسان ہے، امرتسر سے لاہور ناممکن ہے۔ یورپ والے آپس میں بڑی بڑی خوفناک لڑائیاں لڑتے رہے ہیں۔ فرانس اور جرمنی تو شارلیمین کے زمانے سے یعنی ہزار سال سے ہر صدی میں دو چار لڑائیاں لڑ لیتے ہیں۔ لیکن لڑائی بند ہوئی اور آنا جانا تجارت لین دین سب شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن ہماری دشمنیاں اتنی مجنونانہ ہیں کہ اپنا بھلا اور انسانیت کا بھلا دونوں بھول جاتے ہیں۔ آج اسلام آباد میں گفتگو ہو رہی ہے، میرا خیال ہے کہ اس بار کوئی مثبت نتیجہ ضرور نکلے گا۔ لیکن کتنا مثبت کہ ہرمرتبہ جب ملتے ہیں تو گاڑی آگے بڑھتی ہے لیکن کچھ دور چل کر پھر دل دل میں پھنس جاتی ہے، میاں دعا کرو کہ ہماری ساری زندگی میں کم از کم یہ صورت تو ختم ہو۔‘‘ (24جولائی1973ء لندن)

افسوس ہے کہ ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔ انہوں نے لندن میں میاں ممتاز دولتانہ سے ملاقات کی تھی تاکہ وہ سجاد ظہیر کو اخبار نویس کی حیثیت سے پاکستان آنے کی اجازت دلوا دیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں سے واپس جانے کے بعد وہ جومضامین لکھتے، ان کا اثران ہندوستانی اخبار نویسوں کی تحریروں سے زیادہ ہوتا جواب تک یہاں آ چکے ہیں۔

سجاد ظہیر تمام عمر اس راہ پرچلتے رہے جو انسانی معاشرے کے نجات کی راہ ہے۔ شعور ذات، تحصیل ذات اور تکمیل ذات کا راستہ بھی یہی ہے۔ سجاد ظہیر اب زندہ نہیں ہیں لیکن ان کے کارنامے تو زندہ اور تابندہ ہیں۔ اب یہ نوجوانوں کا کام ہے کہ اس روشنی سے کسب فیض کریں اور آزادی اور جمہوریت کا جو پیغام سجاد ظہیر لے کر چلے تھے اس کو اپنے ہم وطنوں تک پہنچائیں۔
ہر لحظہ نیا طور، نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے

Leave a Comment