نوٹ: 1973ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے روح رواں سید سجاد ظہیر کے انتقال پر سبط حسن صاحب نے زیر نظر دو مضامین سپرد قلم کئے۔ پہلا مضمون انگریزی روزنامہ ڈان کراچی میں شائع ہوا جبکہ دوسرا مضمون انہوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین، ادارہ یادگار غالب اور ینگ رائٹرز فورم کے زیراہتمام تعزیتی جلسے منعقدہ غالب لائبریری میں پڑھا۔ انگریزی مضمون کا ترجمہ اور تعزیتی جلسہ میں پڑھا جانے والا مضمون ماہنامہ ’’طلوع افکار‘‘ کراچی کے سجاد ظہیر نمبر (نومبر1973ء) میں شائع ہوئے۔ (مرتب)
انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانی سجاد ظہیر کی اچانک موت نے ایک ایسی پیاری شخصیت کو ہمارے درمیان اور اردو ادب کے میدان سے اٹھا لیا ہے جس کی خدمات جدید اردو ادب کی نشوونما کے سلسلے میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ ان کا انتقال ایسے وقت میں ہوا جب وہ افریقی اور ایشیائی ادیبوں کی کانفرنس (منعقدہ الماآتا) میں شرکت کر رہے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ افریقہ اور ایشیا کے ادیبوں کا اتحاد اور ان کی یکجہتی سجاد ظہیر کو ہمیشہ بے حد عزیز تھی۔
گزشتہ ایک سال سے وہ بر صغیر کے اردو کے اولین اور فارسی کے اہم اور منفرد شاعر امیر خسرو کی زندگی اور ان کی شاعری کے بارے میں لندن، برلن، ماسکو، تاشقند، کابل اور ہندوستان کے کونے کونے سے مواد جمع کر رہے تھے۔ اس لئے کہ امیر خسرو کی چھٹی صد سالہ برسی پوری دنیا میں 1975ء میں منائی جائے گی۔
سجاد ظہہیر لکھنؤ چیف کورٹ کے چیف جج سر سید وزیر حسن کے چوتھے بیٹے تھے۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا اور 1935ء میں بیرسٹر بن گئے، مگر انہوں نے نہ کبھی وکالت کی اور نہ کوئی ملازمت بلکہ اپنا تمام وقت سیاسی اور ادبی سرگرمیوں کی نذر کر دیا۔ 1937ء میں ان کی شادی اردوکی مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار رضیہ سجاد ظہیر سے ہوئی۔
انگلستان کے قیام کے دوران میں انہوں نے سامرا جیت کے خلاف تحریکوں میں کھل کرحصہ لیا اور سوشلزم سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ سجاد ظہیر بنیادی طور پر ادبی مزاج رکھتے تھے، چنانچہ لندن میں ان کے تعلقات آڈن، لوئس، میکنیس، اسٹیفن اسپینڈر، رالف فوکس، جیک لنسے، ڈیوٹ گیسٹ، گنٹورتھ اور ملک راج آنند ایسے اہم ادیبوں اور شاعروں سے ہو گئے تھے جو ان دنوں ترقی پسند رجحانات کے لئے مشہور تھے۔ سجاد ظہیر فرانسیسی اور انگریزی زبانوں پر پورا عبور رکھتے تھے۔ لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنے خیالات کا اظہار اردو ہی میں کیا۔ اس لئے کہ انہیں اردو سے بڑا گہرا جذباتی لگاؤ تھا۔ لندن ہی میں انہوں نے اپنا مشہور و معروف ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ لکھ لیا تھا۔ جو آج بھی ویسا ہی تازہ اور مقبول ہے جیسا کہ اپنے ابتدائی دور میں تھا۔ اس ناول کے بعد انہوں نے کئی ایک بہت عمدہ افسانے بھی لکھے۔
ان کا دوسرا بڑا معرکہ آرا کام کہانیوں کے اس مجموعے کی ترتیب اور اشاعت تھا جسے ’’انگارے‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس مجموعے میں پروفیسر احمدعلی، ڈاکٹر رشید جہاں اور ان کے شوہر محمود الظفر کی کہانیاں بھی شامل تھیں۔ شائع ہوتے ہی اس کتاب نے پورے ملک میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا۔ یہ کہانیاں آج کے دور میں تو بڑی بے ضرر سی معلوم ہوتی ہیں لیکن جس زمانے میں یہ کتاب چھپ کر سامنے آئی تھی اس وقت کے اردو پڑھنے والے ہمارے سماجی اور اخلاقی دوغلے پن کے متعلق ایسی کھری اور سخت تنقید پڑھنے کے عادی نہیں تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس کتاب پر روایت پرستوں نے بڑی لے دے کی، یہاں تک کہ اس کتاب کے کہانی لکھنے والوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔ بالآخر یوپی گورنمنٹ نے اس کتاب کو ضط کر لیا۔
یہ دور پوری دنیا میں سیاسی، اخلاقی اور فکری اعتبار سے شدید بحران کا وقت تھا۔ ہٹلر انہی دنوں تازہ تازہ جرمنی کی مسند اقتدار پر آیا تھا اور اسپین کی جمہوری اور منتخب حکومت کا تختہ جرنل فرانکو اور اس کے حواریوں نے جرمنی کے نازی اور اٹلی کی فاشسٹ قوتوں کی مدد سے الٹ دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یورپ اور ایشیا کے آزادی اور جمہوریت پسند فطری طور پر اس شخصی اقتدار کی پھیلتی ہوئی وبا سے سخت مضطرب تھے، چنانچہ انہوں نے دنیابھر کی ترقی پسند ادبی قوتوں کومنظم کیا تاکہ فرد کی آزادی اوراس کے جمہوری حقوق کاعلم بلند رکھا جا سکے۔ اس پس منظر میں سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں نے ایسے ادیبوں کی ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی جو انسانیت کی مادی اور عقلی سربلندی کے حق میں نبردآزما ہو سکتے تھے۔
1936ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین قائم کرنے سے پہلے سجاد ظہیر بر صغیر کے تقریباً تمام ممتاز اہل علم اور ادیبوں اور شاعروں سے ملے اور ان سے اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا۔ ان کے اس خیال کوعلامہ اقبال، رابندرناتھ ٹیگور، مولوی عبد الحق، منشی پریم چند، قاضی عبد الغفار، مسزسروجنی نائیڈو، میاں بشیراحمد، مولانا عبد الحمید سالک، مولاناغلام رسول مہر، صوفی غلام مصطفے تبسم، مولانا حسرت موہانی، مولانا چراغ حسن حسرت، جوش ملیح آبادی اوربہت سے دوسرے ادیبوں نے بے حد سراہا۔ ان کے اپنے ہم عمر اور ہم عصروں مثلاً فیض احمد فیض، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، پروفیسر مجنوں گورکھپوری، پروفیسر احمد علی، پروفیسر فراق گورکھپوری، اختر شیرانی اور احمد ندیم قاسمی وغیرنے ان کی بھرپور حمایت کی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس لکھنؤ میں 1936ء میں اردو کے عظیم ناول نویس اور افسانہ نگارمنشی پریم چندکی صدارت میں ہوئی۔ اس اجلاس میں سجاد ظہیر کو انجمن کا جنرل سکریٹری منتخب کیا گیا اور بہت ہی مختصر عرصے میں انجمن نے اپنے آپ کو ایک حرکی قوت کے طور پر ثابت کر دیا اور ہمارے ادب میں نئی اقدار کی آبیاری شروع کردی۔
1939ء تا 1942ء نظربندی کے دوران میں سجاد ظہیر نے سراج مبین کے نام سے بہت سے ادبی مضامین لکھے جو انجمن ترقی پسند مصنفین کے ترجمان رسالے ’’نیا ادب‘‘ میں شائع ہوئے۔ رہائی کے بعد وہ بمبئی چلے گئے جہاں انہوں نے ’’قومی جنگ‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ اسی دوران میں وہ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔ سجاد ظہیر نے اپنی سیاسی مصروفیتوں کے باوجود کبھی اردو ادب اور زبان کی خدمت سے غفلت نہیں برتی۔ یہ خدمت انہوں نے شروع ہی سے خود عائد کردہ فرض کے طور پر اپنائی تھی اور آخر تک وہ یہ فرض نہایت ذمہ داری اورلگن کے ساتھ پورا کرتے رہے۔
انہوں نے بمبئی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یوم غالب کا انتظام کیا اور بڑی شان سے منایا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد انہوں نے اسی طرح یوم شبلی بھی منایا۔ ان دونوں تقریبات میں مختلف مدرسہ فکر کے ادیبوں نے شرکت کی۔ واقعہ یہ ہے کہ فن اور ادب کے بارے میں سجاد ظہیر کے جذبات نہایت گہرے اور نازک تھے۔ ادیبوں کے بارے میں وہ ہمیشہ اتنے پرخلوص اور گرم جوش رہے کہ وہ ادیب بھی جو ان کے سیاسی مسلک سے شدید اختلاف رکھتے تھے، نہ صرف ان کی دوستی اور ان کی رفاقت کا دم بھرتے تھے بلکہ ہمیشہ ان کے ادبی مقاصد کے بارے میں دست تعاون دراز کرتے تھے۔
1947ء کے آخر میں سجاد ظہیر پاکستان چلے آئے تھے لیکن 1951ء میں انہیں راولپنڈی سازش کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ حیدرآباد اور مچھ جیل کی مشقت آمیز نظربندی کے دوران میں سجاد ظہیر نے دو نہایت وقیع اور پائدار ادبی اہمیت کی کتابیں لکھیں جن میں سے ایک فارسی کے عظیم شاعر حافظ شیرازی کی زندگی اور شاعری کا جائزہ اور تنقیدی مطالعہ ہے۔ اس کتا ب کا نام ’’ذکر حافظ‘‘ ہے۔ دوسری کتاب ’’روشنائی‘‘ ہے، جو ترقی پسند مصنفین کی تحریک کی ابتدا اور اس کے پھیلاؤ کی تاریخ بھی ہے اور ان بے سر و پا الزامات کی مدلل تردید بھی جو اس تحریک پر تھوڑے تھوڑے وقفے سے عائد کئے جاتے رہے ہیں۔
جیل میں نظر بندی کے عرصے میں انہوں نے کچھ نظمیں بھی لکھی تھیں جو حال ہی میں دہلی میں ’’نیلم‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ کی شکل میں شائع ہوئی ہیں۔ ان نظموں کی اکثریت ان نظموں کی ہے جنہیں آج کل تجریدی شاعری کہا جاتا ہے۔ ’’نیلم‘‘ کے دیباچے میں سجاد ظہیر نے نئی نسل کے جدید شعراء کے مسائل اور روایت پسندانہ اشاریت اور ڈکشن کی محدود نوعیت پر بڑی اہم تنقیدی بحثیں اٹھائی ہیں۔ اس لئے ان کے خیال میں آج کل کے نوجوان شاعراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بالعلوم روایتی سمبلز اور ڈکشن کوعہد جدید کی روح کی گرفت اور احاطہ نہ کرنے کے شاکی نظر آتے ہیں۔
سجاد ظہیر کو 1955ء میں مچھ جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ لیکن فورا ًہی انہیں ہندوستان بھجوا دیا گیا۔ وہ عمر بھر پاکستان اور اس کے عوام کے لئے اپنے دل میں نیک خواہشات بسائے رہے اور دونوں ملکوں کے درمیان دوستی اور خوشگوار تعلقات کے لئے سر توڑ کوشش کرتے رہے۔ وہ دہلی کے ایک روزنامے (حیات) کے مدیر تھے اور ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے پچھلے دنوں پاکستان آنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے کوشش کر رہے تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے آکسفورڈ کے اپنے پرانے ہم سبق اور آج کل لندن میں پاکستان کے سفیر میاں ممتاز دولتانہ سے ملاقات بھی کی تھی اور دولتانہ صاحب نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو اس بارے میں لکھا بھی تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ بھٹو صاحب کا جواب یہاں سے جاتا، سجاد ظہیر اس دنیا سے ہی رخصت ہوگئے۔
سجاد ظہیر کوئی پرنویس قسم کے ادیب نہیں تھے۔ اپنے 35 سالہ ادبی کیریئر میں انہوں نے صرف ایک ناول، چند کہانیاں اور ڈرامے اور جدلی مادیت پر ایک کتابچہ، حافظ شیرازی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ، ترقی پسند تحریک کی تاریخ، نظموں کا ایک مجموعہ اور دو درجن سے زائد مضامین لکھے لیکن جو کچھ بھی انہوں نے لکھا، جدید اردو ادب پر اس کے بڑے گہرے اثرات پڑے ہیں۔
انہوں نے اپنا ادبی کیریئر بحیثیت افسانہ نگار کے شروع کیا لیکن جلد ہی وہ تنقید کی طرف نکل آئے اور بلاشبہ ان کے افکار اور خیالات کی ترجمانی کا یہی سب سے اچھا ذریعہ ثابت ہوا۔ اردو تنقید کی تاریخ میں ان کے تنقیدی مضامین سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے مضامین سے کلاسیکی اور جدید ادب کی تعبیر اور تنقید کے لئے نئی سمتیں کھلی ہیں۔ جو سادگی ان کی شخصیت کا جزو تھی وہی ان کے ادبی اسلوب کی خصوصیت بھی ہے انہوں نے ادب کی سکہ بند ترکیبیں اور بھاری بھرکم الفاظ، اپنے پڑھنے والوں کو متاثر اور خوف زدہ کرنے کے لئے کبھی استعمال نہیں کئے۔ وہ کسی سے اپنی ذہنی برتری منوانے کے قائل ہی نہیں تھے۔ وہ دلائل سے آدمی کوقائل ضرور کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی روایتی علمی اکڑفوں نہیں دکھائی۔ بحث و مباحثے وہ بڑے شان سے کرتےتھے اور اپنی ساری علمی قوت صرف کر دیتے تھے، لیکن انہوں نے کبھی کسی کے جذبات کو مجروح نہیں کیا۔ وہ تنقید بہت سخت کرتے تھے لیکن نہ ان کے دل میں کسی کی طرف سے میل ہوتا تھا نہ کبھی نجی حملے کرتے تھے۔ نہ کبھی اپنے مخالف کے بارے میں سرپرستانہ رویہ اختیار کرتے تھے۔
فطرت نے انہیں بڑا میٹھا مزاج دیا تھا۔ امرواقعہ یہ ہے کہ وہ ہمارے دور کی سب سے زیادہ پسندیدہ اور پیار کی جانے والی شخصیت تھے۔ لوگوں سے ملنے جلنے کا انہیں بے حد شوق تھا اور خاص طورسے نوجوان لکھنے والوں اورذکی اورذہین نوجوانوں سے وہ بڑے خلوص سے ملتے تھے۔ نہ صرف ان کو بڑی کشادہ پیشانی اور خوش دلی کے ساتھ خوش آمدید کہتے تھے، بلکہ ان کے مسائل پر بڑی توجہ اور گرم جوشی سے تبادلہ خیال کرتے تھے۔ وہ بھی ایک مخلص دوست اور ان کے برابر کے ساتھی کی حیثیت میں، نہ کہ کسی فتوے بازمفتی کی طرح۔ وہ بڑے صبر سکون کے ساتھ دوسروں کی گفتگو سنتے اور کبھی کسی ملاقاتی کو انہوں نے ہراساں کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر ملاقاتی انہیں بڑے پیار سے بنے بھائی کہتا تھا۔
سجاد ظہیر کے اندر ادبی تقریبات کی تنظیم اور ترتیب کی بڑی صلاحیتیں تھیں۔ مثلاً اس صدی کی ربعہ اول میں ڈھاکہ سے پشاور اور دہلی سے مدراس تک کا سفر کرنا اور ان مختلف زبانوں اور نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کوایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور پھر ان کو ایک بڑی تنظیم کی لڑی میں پرودینا بڑا جان جوکھوں کامرحلہ تھا لیکن سجادظہیر نے یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے اور ہنستے کھیلتے کر دکھایا۔ اس دوران میں نہ انہوں نے کبھی عجلت پسندی دکھائی اور نہ کبھی کسی پرغصہ کیا اور نہ ہی ان کے چہرے پرکبھی بیزاری، تھکاوٹ اور ناگواری کے اثرات دیکھنے میں آئے۔
سجاد ظہیر ادب اور سیاست دونوں کے بارے میں سخت جانب دارتھے۔ وہ عمر بھر اپنے مقصد نظرکے لئے رزم آرا رہے اور اس راہ میں انہوں نے بلاشبہ بہت بڑی قربانیاں دیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود انہوں نے اپنے دوستوں اور عزیزوں پر کبھی اپنے نظریات تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ بڑے روشن دماغ انسان ہونے کے ساتھ ساتھ صحیح معنی میں صاحب ذوق اور جمال پسندانسان تھے، اس لئے کہ زندگی کے ہرحسن سے انہیں شدید پیارتھا، چاہے وہ کسی روپ میں کیوں نہ ہو، اور اسی شدت کے ساتھ وہ لوگوں کی غربت، بدحالی اور ذہن پر پہرے بٹھا دینے سے نفرت کرتے تھے۔ وہ مشرقی اور مغربی موسیقی کے بڑے دلدادہ تھے اور فارسی، اردو اور ہندی شاعری کو بے پسند کرتے تھے۔
وہ عمر بھر انسانوں اور انسانیت کی سر بلندی کے لئے بڑے خلوص اور رچاؤ کے ساتھ جد و جہد کرتے رہے اور کسی موقع پر بھی انہوں نے کسی قسم کی تلخی کا شائبہ تک نہیں آنے دیا۔ اردو ادب کی تاریخ میں ان کا نام ایک ایسی زندگی بخش تحریک کے بانی کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا جس نے ابتدا سے اب تک اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں والی دو نسلوں کو جنم دیا ہے۔