فلسفہ کیا ہے؟ (دسویں قسط)

مادیت پرست کے نقطہ نگاہ سے کائنات اپنی تمام تربوقلمونی کے ساتھ ساتھ نہ صرف ایک وحدت ہے بلکہ زمان و مکان میں اس کا کوئی آغازوانجام نہیں۔ اگر ہم یہ تصورکرتے ہیں کہ بہت پہلے کبھی دنیا موجود نہیں تھی اوریہ کہ نہ کوئی لوگ تھے اورنہ جانور، نہ کوئی درخت تھے نہ گھاس،نہ آگ تھی نہ پانی،حتی کہ مادے کا ایک ننھا سا زرہ بھی موجود نہ تھا تواس کا مفہوم یہ ہوگا کہ دنیا “عدم” سے وجود میں آئی۔اوراگردنیا نے،نہ صرف ہماری دنیا نےبلکہ تمام فلکیاتی اجسام نےبھی ایک دن یکسرمعدوم ہوجانا ہےتوپھرکیا اس کا مفہوم یہ نہیں ہوگا کہ تمام چیزیں وجود سے”عدم”میں چلی جائیں گی؟ اس طرزکا مفروضہ جدید سائنس کے ان بنیادی قوانین سےناقابل مصالحت طورپرمتضادومتناقص ہے کہ مادہ کبھی فنا نہیں ہوتا۔بقائے مادہ کے یہ قوانین مادی دنیا کے تمام مظاہرکےاس مخصوص آفاقی رجحان کا اظہارکرتے ہیں کہ کوئی چیز نہ تویکسرعدم سے آن دھمکتی ہے اورنہ ہی بغیرکوئی نشان چھوڑے معدوم ہوتی ہے۔مادے کی “محدودیت” کے تصور کے حامی کے پاس اس دلیل کے سوا اورکوئی دلیل نہیں رہ جاتی کہ وہ کہے کہ سائنس سے قطع نظرہم یہ مفروض کرلیتے ہیں کہ دنیا عدم سے ظہورپذیرہوئی اورعدم سے ظہورکے معجزے کا معجزہ پن اسی امرمیں مضمرہے کہ وہ سائنس کے برعکس ہے۔معجزے واقعات کی فطری روش کو ابترکردیتے ہیں،اوراسی باعث ان کی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔تاہم معجزے حتی کہ پریوں کی کہانیوں تک میں معجزے بلاوجہ رونما نہیں ہوتے۔ہمیشہ ہی کوئی ایسی عجوبہ قوت ہی معجزہ رونما کرسکتی ہے جو فطرت اورمادے کے قوانین کو شکست دے سکتی ہو۔چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قوت غیرمادی ہے۔تاہم دنیا میں مادے اورشعورکے علاوہ اورکوئی چیز نہیں۔تمام موجودات ان میں سے کوئی ایک یاد دوسری شے ہوتے ہیں۔چنانچہ مادے کی”محدودیت” کا مؤقف ہمیشہ ہی تصوریت کی جانب گامزن ہوجاتا ہے اوراس کا لازمی نتیجہ اس مؤقف کا باعث بنتا ہے کہ مادے کے ظہوراورارتقاء ونشوونما کے قوانین کا سرچشمہ کوئی روح ہے جسے بالعموم خدا کا نام دیا جاتا ہے۔

اندراجات بالا کے پیش نظرہی مادیت پرست اس مؤقف پرقائم ہیں کہ کائنات کی مادی وحدت،اس کی ابدیت اورلامحدودیت کھری، بے لاگ مادیت پسندی کے جزولانیفک ہیں۔

یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا ایسی دنیا میں انسان تنہا نہ ہوگا، کیا وہ اس ابدیت روبروہول نہ کھائے گا؟یہی وہ سوال تھا جس کے پیش نظرامریکی فلسفی ولیم جیمس نے مادیت پرستی کو انتہائی درشت، اکھڑاوردلگیر فلسفہ کائنات قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ فلسفہ ایک بھیانک خواب کا منظرپیش کرتا ہے۔انسان فطرت کے ارتقاء کے ایک لامحدود عمل میں ایک ننھا ساغیراہم پرزہ بن کررہ جاتا ہے۔وہ اس ارتقاء کے کڑی درکڑی سلسلے کے جبرکے سامنے بے بس ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مادیت پرستی پران الزامات کی بوچھاڑکی کوئی بنیاد ہے کہ نہیں؟

ایک عظیم گھڑی اور ایک عظیم گھڑی ساز

اس سوال کا جواب اثبات اورنفی دونوں میں دیا جاسکتا ہے۔مادیت پرستی کسی یک رنگ، واحد، یک سنگ ستون رجحان کا نام نہیں ہے۔مادیت پرستی کی مختلف اشکال اوررنگ ہیں اوران رنگوں میں لطیف فرق رہے ہیں۔علوم اورثقافت کا ارتقاء،اقتصادی ترقی،سیاسی حتی کہ ذاتی ترجیحات اوررجحانات وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو مختلف مادیت پرستانہ فلسفوں کے اسلوب پراپنےنقوش چھوڑتے ہیں۔ماضی اورحال کے تصوریت پرست فلسفیوں نے مادیت پرستی پرجتنے بھی الزامات عائد کیے ہیں،اورنقص نکالے ہیں وہ زیادہ ترمادیت پرستی کی ایک مخصوص شکل یعنی میکانیکی مادیت پربھی لاگوہوتے ہیں۔

میکانیکی مادیت سے کیا مراد ہے؟سترہویں اوراٹھارویں صدی میں جب مادیت پسند فلسفے کی یہ شکل، شکل پذیر ہورہی تھی،ا س وقت علوم کی صرف ایک شاخ میکانیت خوب پروان چڑھ رہی تھی۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ لوگ اپنے حاصلات اورکامرانیوں کے معاملے میں مبالغہ کرتے ہیں۔یہی بات افراد کے علاوہ کل انسانیت پربھی صادق آتی ہے۔

اس وقت سائنس بنیادی طورپراپنے بچپن کے مراحل سے گزررہی تھی۔انسان نے ابھی ابھی اپنی زندگی اورکاموں میں اس سے استفادہ کرنا شروع کیا تھا۔اوراس وقت مظاہرکوسمجھنے کے لیےمیکانیت کی تمثیل کو ہی بنیاد قراردیا جا رہا تھا۔میکانیکی مادیت کے نمائندوں نےمیکانیکی قوانین کوآفاقی قوانین سمجھا اوریہ خیال کیا کہ تمام ذی جاندار اوربے جان موجودات انہی قوانین کے تحت نشوونما پارہے تھے۔حیوانوں کو ایک نوع کی مشین خیال کیا جاتا تھا اوریہ تک کہا جاتا تھا کہ مشینوں کی مانند جانوردردیا تکلیف محسوس کرنے سے عاری ہیں۔ ان فلسفیوں کے نزدیک خود انسان بھی ایک انتہائی پیچیدہ مشین تھا۔ ایک فرانسیسی فلسفی جولین آفرائے دولامیتفی نے اپنی بنیادی تصنیف کو”انسانی مشین”کاعنوان تک دے دیا۔

اس زمانے میں کائنات کوگھڑی کی تمثیل پرگھڑی تصورکیا جاتا تھا۔ظاہرہے کہ گھڑی کو کوئی نہ کوئی شخص بناتا ہے۔چنانچہ، سوال یہ تھا کہ اس عظیم گھڑی کوبنانے والاعظیم گھڑی ساز کون ہے؟باالفاظ دیگرکائنات اورکائنات میں نباتاتی،حیوانی اورانسانی اقلیموں کے نمو کی توجیہہ کیوں کرکی جائے؟صرف میکانیکی قوانین کی مدد سے ان سوالوں کا جواب دینا مشکل تھا۔میکانیکی عملوں میں ہرچیزسادہ ہے۔آپ بلیئرڈ کی میزپرایک گیند کو دھکا دیں۔وہ میز پراس وقت تک حرکت کرتی رہے گی جب تک رک نہ جائے،اورپھراس وقت تک رکی رہے گی جب تک دوبارہ دھکا نہ دیا جائے۔کیا کائنات کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے؟ ممکن ہے کبھی کسی وجود نے دنیا کی اس عظیم گھڑی کو چابی دی اوروہ کچھ عرصہ بغیراٹکے چلتی رہے گی۔ہم نے اوپربتایا تھا کہ اس کام کی اہلیت کا حامل گھڑی ساز صرف کوئی غیرمادی، روحانی وجود ہی ہوسکتا ہے۔

اسی باعث یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ میکانیکی مادیت بے آہنگ ہے۔میکانیکی مادیت کائنات اورکائنات میں رونما ہونے والے تغیرات کے سرچشمے کی گتھی سلجھانے کے لیے بالآخرایک روحانی وجود،باالفاظ دیگر، خدا کا سہارا لینے پرمجبورہے۔اس طرز کے مؤقف کو توحیدیت کہتے ہیں۔ اس کے نزدیک خداسبب اول یا مسسب الاسباب ہے۔لیکن دنیا کی تخلیق کے بعداس عظیم گھڑی کوچابی دینےکے بعد وہ اب اس میں دلچسپی کھو چکا ہے اوراب یہ خود چلتی ہے۔

تاہم کائنات اورانسان کے بارے میں یہ میکانیکی مادی رجحان ان سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ شعورکیا ہے۔انسان نے عقل و استدلال کی صلاحیت کہاں سے حاصل کی،اس نے حسن پرستی کی اہلیت کیونکرحاصل کی،اسے ضمیرکیونکرکھانے لگا اوروہ ایک اورفرد کی محبت کا اسیرکیونکرہوجاتا ہے۔میکانیت پرستوں نے ان مظاہرکی توجیہہ کے لیے مختلف کوششیں کیں۔

کچھ کامؤقف تھا کہ خود خیال بھی مادی اورمرئی ہوتا ہے۔ان کا خیال تھا کہ جس طرح جگرسے زرد آب کااخراج ہوتا ہے، اسی طرح دماغ سے خیالات کا اخراج ہوتا ہے۔اس نقطہ نظرمیں اچھی خاصی منطق ہے۔تاہم یہ واضح نہیں کہ انسان میں یہ فکری عمل کیوں موجود ہے۔چنانچہ میکانیت پرستوں کا ایک اورگروہ اس نتیجے پرپہنچا کہ ذہن یا شعوردراصل انسانی جسم کی بے روگ کارفرمائی کے لیے ایک امدادی ضمیمہ ہے۔یہی وہ نتیجہ ہے کہ جس سے میکانیکی مادیت کی بےآہنگی واضح طورپرمنکشف ہوجاتی ہے۔

مادیت پرستی کے لیے یہ مؤقف بے آہنگ ہے کہ دنیا میں مادے کے علاوہ کوئی اورچیز وجود نہیں رکھتی۔اس کے علاوہ یہ مؤقف بھی مادیت پرستی سے ہم آہنگ نہیں کہ ہروہ چیز جو کسی بھی طورمادہ نہیں کہلائی جا سکتی، وہ تحقیق و مطالعے کے قابل نہیں۔مثلا چونکہ انسانی ذہن مادہ نہیں اس لیے مادہ پرستانہ نطقہ نگاہ سے یہ مؤقف غلط ہے کہ وہ بے وقعت شے ہے۔کسی بھی کھرے مادہ پرست کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانی فکر،جذبات اورقوت ارادی کے وجود کو مادے کے ارتقاء کا پابند ضابطہ اورلازمی نتیجہ ثابت کرے۔

چونکہ میکانیکی قوانین شعوروفکرکے حامل اس انسان کی توجیہہ نہیں کرسکتے جو اپنے سامنے اہداف ومقاصد متعین کرنے اوران کی تحصیل کرنے کا اہل ہے اسی لیے میکانیکی مادیت اس کام کو سرانجام نہیں دے سکتی۔میکانیکی فلسفہ وحدت کائنات کے جس تصورپرقائم ہے وہ اس امرکی توجیہہ کرنے میں ناکام ہےکہ کائنات کی وحدت، فی الحقیقت،کثرت وتنوع میں ایک وحدت ہے۔چنانچہ، میکانیت کے داعی کی تیارکردہ دنیا کی المناک تصویر باآسانی فاعل روح اورمفعول مادے میں ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہے اوریہ تصور،تصوریت پرستی سے کوئی زیادہ مختلف نہیں۔

Leave a Comment