یونانی معجزہ
کچھ ماہرینِ علوم کی رائے ہے کہ رنگا رنگ قدرتی مناظر اور معتدل آب و ہوا کے غیر معمولی حد تک ہم آہنگ امتزاج نے یونانیوں کو غور و فکر کے میلان اور رجحان کا حامل بنایا۔
بلاشبہ فطری عوامل نے معجزہِ یونان کی نمو میں کردار ادا کیا لیکن یہ کردار درج بالامجوزہ کردار سے مختلف تھا۔
قدرتی مناظر کے ازحد تنوّع اور پانی کے چشموں اور معدنیاتی دولت کی موجودگی کے باعث پیداوار کی تیز رفتار بڑھوار کے لئے سہولتیں مہیا ہوئیں۔ ما قبل مسیح کے پہلے ہزارسالہ عہد میں فلسفے کی صورت گری ہوئی ۔اس دور کو ‘دورِآہن (لوہے کا دور) کہتے ہیں (اور اس طرح اسے دورِکانسی سے ممیز کیا جاتا ہے)۔ لوہے اور تانبے کی کچی دھات کی کان کنی ہوئی اور دھات سود ھنے کے مختلف طریقے دریافت ہوئے۔ فصلیں بڑھیں اور ہنر پھلے پھولے۔ انسان نے اپنے دست و بازو کے بل پر ایک نئی دنیا کی تحقیق کی جس کو ہم مجازا”فطرتِ ثانی” بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس دنیا میں شہر، گرم مکان ،آرام دہ لباس ،زرخیز کھیتیاں ،وغیرہ وغیرہ، شامل تھیں۔ ان چیزوں نے انسان کو کنواری فطرت سے علیحدہ کر کے اسے اس کی بدمزاجیوں سے تحفظ دلایا۔
انسان کی قربت سے علیحدہ ہونے کے باعث فطرت نے انسانی شعور میں بتدریج اپنے گوناگوں ٹھوس خدوخال کھو دیئے اور اب انسانی شعور میں اس کے عمومی اوصاف بسنے لگے۔
نتیجے کے طور پر انسان نے فطرت کو ایسے کُل کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا جو انسان کی دنیا سے علیحدہ وجود رکھتی ہے۔ فطرت کی جولانیوں سے اس کی بڑھتی ہوئی آزادی اور بے انحصاری نے یہ ممکن کیا کہ وہ اپنے ذہن میں بھی اسے اپنے آپ سے الگ ایک حقیقت کے طور پر دیکھے۔ اب انسان نے اپنے آپ کو فطرت کے جُز کے طور پر دیکھنا چھوڑ دیا اور یہ خیال ترک کر دیا کہ وہ خود اور فطرت ایک جان ہیں۔ بلکہ اس نے ان امور پر غور کرنا شروع کیا کہ وہ کن اعتبارات سے فطرت کا جُز ہے اور کن اعتبارات سے وہ اس سے مختلف ہے۔
تجارت کی بڑھوار اور سکّوں کی ڈھلائی نے بھی فلسفیانہ فکر کی نشوونما پر گہرا اثر ڈالا۔ تمام اشیاء کا سونے کے عوض مبادلہ ہونے لگا ۔قدیم یونانیوں نے بہت ساری علیحدہ علیحدہ اشیاء میں ایک واحد کلّیت کی شناخت کرنے کی فکری روایت کی نشوونما کی اور مبادلے کے دوران ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جانے والی متنوّع اشیاء کی مختلف صفات اور خصوصیات کی تجریدکرتے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ مبادلے کے عمل میں یہ تمام اشیاء ایک عمومی صفت اختیار کر لیتی ہیں، یعنی یہ خرید و فروخت کی چیزیں یا ‘اجناس ‘بن جاتی ہیں۔
دھاتی زرِ نقد کی نمو سے ریاضیاتی علوم کی نشوونما کی اعانت (مدد) ہوئی۔ گنتی کے عمل میں مصروف انسان اشیاء کی خارجی شکل و صورت ،ان کے رنگ، جسامت اور مقاصد و فوائد سے بے نیاز ہوتا ہے۔ وہ صرف ان کے مقداری(کمیّتی) پہلو سے سروکار رکھتا ہے۔ چنانچہ، تمام اعداد اور ہندسے تجریدی ہوتے ہیں چونکہ ہر فلسفیانہ مقولہ بھی مجرد ہوتا ہے۔ اس لئے تجریدی ہندسوں کے ذریعے کام کرنے کی وہ صلاحیت بھی فلسفے کی ایک اہم شرطِ اوّل ہے جو ریاضی کی نشوونما کے دوران ہی منظر عام پر آتی ہے۔
مشرق یعنی مصر ،آشور، بابل اور فنیقیہ میں علم الحساب اور علم ِفلکیات دونوں ہی کافی ترقی یافتہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ زمین کے سروے کے لئے ضروری تھا کہ یہ لوگ دریائے نیل کے اتار چڑھاؤ کے اوقات کا حساب لگا سکیں اور سورج گرہنوں کا حساب کتاب کر سکیں۔ تاہم، کاہنوں نے اس علم کو راز میں رکھا ہوا تھا۔ حتی کہ انہوں نے ایک پوشیدہ رسم الخط تک ایجاد کرلیا تھا ۔ نتیجے کے طور پر علوم ان کاہنوں کی ذات کا تحفظ ِخاص بن کر رہ گئے تھے۔
یونانی داناؤں نے اپنے علم کا بیشتر حصہ اسی مشرق سے مستعار لیا تھا۔ یہ کسی طور پر بھی کوئی حادثاتی امر نہیں کہ تھالیس، اناکسیماندر، اور اناکسی مینس پر مبنی یونانی فلسفیوں کا پہلاپرَا آیونیا سے متعلق تھا۔ یہ جگہ یونانی دنیا کی آخری حدوں یعنی ایشیائے کوچک کے ساحلوں پر قائم تھی۔ تاہم ،یونان میں یہ علوم کاہنوں کا تحفظِ خاص نہیں بنے اورنہ ہی مشرق کی مانند یونان میں یہ طبقہ ایک قطعی علیحدہ ذات کا درجہ رکھتا تھا۔نہ ہی یہاں علوم کو “خدا کا ودیعت کردہ” ایسا تحفہ قرار دیا گیا جس میں اصلاح اور ترقی کی کوئی گنجائش نہ ہو ۔چنانچہ، بتدریج علوم کا دائرہ کار بھی پھیلا اور طریقہ ہائے علم کی بھی اصلاح ہوئی۔ یونانی مفکروں نے انفرادی مظاہر کی علمی توجیہات کی مساعی سے آغاز ِ فکر کیا تھا لیکن اب وہ تمام موجودات کی “بنیادی ماہیت اور اسباب “کی تفسیر کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔
ہم وثوق سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ قدیم یونان کے فردکا ذہن وجود کے عمومی مسائل کی چھان بین کے لیے خوب تیار تھا۔تا ہم، فکری کاوشوں میں غرق ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے پاس اوقات فرصت ہو ں۔یہ جاننے کے لیے کہ یہ اوقاتِ فرصت کیسے مہیا ہوئے اور ان سے کون فیضیاب ہو سکتا تھا، آئیے ہم پیداوار کے حلقے کا مطالعہ کریں جو بظاہر” فکرِ محض “یا “خالص فکر” کے میدان سے بہت الگ تھلگ اور بے تعلق نظر آتا ہے۔
پیداوار میں تیز رفتار اضافےاور اجتماعی دولت کی بڑھوارنے معاشرے کے ایک حلقے کے لئے اس امرکو ممکن کیا کہ وہ کسی قطعہِ زمین یا کارگاہ میں کام کرنے یا کسی بھی جسمانی نوعیت کی کٹھن مشقت سے بچا رہے۔ ذہنی کام اور جسمانی کا م الگ کر دیئے گئے ۔قدیم لوگوں کا خیال تھا کہ کچھ لوگوں کا مقدر ہی یہ ہے کہ وہ کام کریں جبکہ دوسرے صرف غور و فکر میں مصروف رہیں۔ فطری امر ہے کہ غورو فکر کا کام ان لوگوں کو نصیب ہوا جو غلاموں، چراگاہوں، انگور کے باغوں وغیرہ کے، یعنی ذرائع پیداوار کے، مالک تھے اور امیر تھے۔ اوّلین یونانی فلسفی عام طور پر امیر اشرافیہ خاندانوں کے افراد تھے۔ہیراقلیطوس، امپیڈوکلیس، دیمقراطیس، افلاطون اور کچھ دیگر یونانی مفکّر اشرافیہ سے ہی تعلق رکھتے تھے۔
چنانچہ، فلسفے کی نمو اور افزائش ایک ایسے معاشرے میں ہی ممکن ہو سکتی تھی جہاں کچھ لوگوں کی کمر توڑ مشقت دوسروں کو غوروفکر کے لئے فرصت کے مواقع فراہم کرتی تھی۔ فلسفے کی نشوونما طبقاتی معاشرے میں ہی ممکن تھی ۔آنے والے زمانے میں صدیوں تک علوم، فلسفہ اور فنون ایک چنیدہ اقلیت کا تحفظِ خاص بنے رہے۔
فلسفے نے ایک ایسے طبقاتی معاشرے میں جنم لیا جہاں ظالم و مظلوم انسانوں میں مسلسل کشمکش تو جاری ہی رہتی ہے لیکن ان طبقوں کی مختلف پرتوں میں بھی کشمکش جاری ہوتی ہے۔ مثلا تاجروں اور زمینداروں میں۔ اس طبقاتی کشمکش نے قدیم یونان کی معاشرتی زندگی کے ہر گوشے پر اپنے نقوش چھوڑے اور یہی کشمکش فلسفے کی نشوونما پر بھی اثر انداز ہوئی۔
سقراط کو موت کے گھاٹ کیوں اتارا گیا؟
تجارت کے فروغ کے نتیجے میں تاجر پھلے پھولے۔ جدّی زمیندار اشرافیہ پر ان تاجروں کی فتح کے نتیجے میں بادشاہوں کا اخراج ہوا اور یونانی شہری ریاستوں میں جمہوری حکومتوں کا قیام ہوا۔
جمہوری دورِ حکومت نے بھی غلاموں کو کوئی حقوق نہیں دیے ۔غلام داروں کی جمہوریت کے قیام کے نتیجے میں سیاسی کشمکش میں تیزی آئی۔ جمہوری حکومتوں کے شہریوں کو جو کچھ حقوق حاصل ہوئے ان کے نتیجے میں وہ بحث مباحثہ(اظہارِ رائے) کرنے کے قابل ہوئے اور اپنی آراء اور شکوک کا اظہار کرنے لگے۔ ان مباحث اور منُاظروں نے فکر کے قواعد و ضوابط میں دلچسپی کو بیدار کیا۔ منطق اور خطابت کے بارے میں علم کے ذریعے وہ اپنے سیاسی حریفوں کو زیر کر سکتے تھے۔
بقول مارکس:” بے باک اور آزاد ذہن فلسفیانہ تجسس و تحقیق کا پہلا لازمہ ہے”۔ جمہوریت کے قیام کے نتیجے میں یونان کی سیاسی زندگی کے خصوصی اوصاف فلسفے کی بھرپور نشوونما کی اولین شرائط میں سے ایک شرط کی تکمیل کردیتے ہیں۔
ہر چھوٹی سی شہری ریاست کے اپنے قوانین تھے۔ ان قوانین کو خداؤں، روایات و رسوم کی اسناد کی تصدیق و توثیق حاصل تھی۔ فلسفیوں کو ان مسائل میں گہری دلچسپی تھی کہ ان قوانین کی بنیاد کیا ہے۔ یہ محض انصاف کی محبت کا نتیجہ ہیں یا ان کا اتباع اس لیے کیا جاتا ہے کہ کہیں خدا ناراض ہو کر اپنا قہر نازل نہ کر دیں؟ کیا یہ قوانین خوبیِ عمل سے ہم سُر وہ ہم آہنگ ہیں؟انسان کیا ہے ،وغیرہ وغیرہ۔ وہ ایسے قوانین کے لیے صدائے تحسین و آفرین بلند کرتے جو عام انسانوں کے نزدیک خوبیِ عمل کے حقیقی انسانی معیارات کے ہمنوا ہوتے تھے۔ سقراط کا مؤقف تھا کہ انسان نہ صرف اپنی شہری ریاست کا رکن ہے بلکہ وہ تمام انسانی برادری کا بھی ایک فرد ہے۔ وہ صرف اثینہ یا سپارٹا کا شہری نہیں بلکہ کائنات کا شہری بھی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ انسانی ذہن کو روایات اور خوفِ خدا پر فوقیت حاصل ہے۔ فطرت کی مانند معاشرہ بھی عمومی قوانین کا تابع ہے اور مرد عورت اسی صورت میں انسان کہلائے جا سکتے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی شہری ریاست کے مستند قواعد ِعمل کو جانیں بلکہ ضروری ہے کہ وہ پوری دنیا کے ساتھ اپنے ربط کے آفاقی قوانین کی تفہیم بھی کریں۔
چونکہ سقراط اپنے سیاسی مؤقفوں کو رضائے الہی پر قائم کرنے کے بجائے عقلی دلائل کے بل پر قائم کر رہا تھا اس لئے غلام داروں نے اس کے فلسفے پر تنقیدوں کا وبال کھڑا کرکے اسے زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کر دیا ۔اس دور دراز ماضی میں ہی حکمرانوں کے نمائندوں کو یہ پتہ چل چکا تھا کہ عقلی اور تنقیدی فکر خود ان کے خلاف ایک طاقتور ہتھیار بن سکتی ہے۔
سقراط کی موت کا دن دنیا کے بارے میں ایک نئی ذہنی روش کا جنم دن بھی ثابت ہوا۔ یہ فکری روش مقدّر پراندھے یقین اور خداؤں کے انتقام کے خوف کے بجائے علم پر مبنی تھی۔ پہلی نظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلسفے کا سیاسی واقعات اور سیاسی اتھل پتھل سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم درج بالا سے واضح ہے کہ فلسفہ اپنے آغاز سے ہی طبقاتی کشمکش سے بھرپور طور پر مربوط تھا۔ معاشرتی تضادات اور کشمکش کے نتیجے میں دنیا کے بارے میں ایک نئی روش جنم لے کر مزاحمتوں کے باوجود، رکاوٹوں پر غلبہ پا تی ہوئی طوفان خیز رفتار سے بڑھ رہی تھی۔ مشرق کی نسبت یونان میں اس فکر کی نشوونما کے لئے زیادہ سازگار حالات مہیّا تھے۔
آئیے اب تک جو کچھ کہا گیا ہے اس کا خلاصہ کر لیں۔ فلسفے کی شرائط ِ اوّلین کی تحقیق و جستجو کے لیے ہمیں قدیم معاشروں کے معاشی و سیاسی نظام ہائے زندگی کو اوّلیت دینا چاہیے۔ فلسفیانہ مسائل سب سے پہلے اسطوری کہانیوں میں منضبط ہوئے لیکن جلد ہی وہ سخت اساطیری چھلکے کو توڑ کر باہر نکلے۔ مختلف اقسام کے کاموں اور سرگرمیوں کے نتیجے میں جمع ہونے والے ذخیرہ ِعلم نے قدیم یونانی فلسفیوں پر یہ ثابت کر دیا کہ جادو ٹونے اور مافوق الفطرت موجودات کی جانب رجوع کئے بغیر کتنے ہیں مظاہر کی تو جیہہ اور تفہیم کی جاسکتی ہے۔ دریا کی طغیانیوں، بارشوں اور ژالہ باری (اولے گرنا)کے اسباب فطری ہیں۔ اسی طرح انسان ،زمین اور تمام کائنات کی پیدائش کی بھی فطری توجیہات ممکن ہیں۔ زمین کی ابتداء اور پیدائش کے بارے میں اسطوری تفاسیر کے مقابلے میں فکر زیادہ لطیف ہوتی جا رہی تھی اور یوں فلسفے کے بنیادی تصورات شکل پذیر ہو رہے تھے۔
باضابطہ علوم کے ذخیرے نے بھی فلسفیانہ فکر کے ارتقا کی معاونت کی۔ دوسری جانب فلسفے نے دنیا کے بارے میں علم کے منتشر اور غیر مربوط جُزیات کو مربوط کر کے علوم کو مستحکم نظری بنیادیں فراہم کیں۔