سقراط کو موت کے گھاٹ کیوں اتارا گیا؟
تجارت کے فروغ کے نتیجے میں تاجر پھلے پھولے۔ جدّی زمیندار اشرافیہ پر ان تاجروں کی فتح کے نتیجے میں بادشاہوں کا اخراج ہوا اور یونانی شہری ریاستوں میں جمہوری حکومتوں کا قیام ہوا۔
جمہوری دورِ حکومت نے بھی غلاموں کو کوئی حقوق نہیں دیے ۔غلام داروں کی جمہوریت کے قیام کے نتیجے میں سیاسی کشمکش میں تیزی آئی۔ جمہوری حکومتوں کے شہریوں کو جو کچھ حقوق حاصل ہوئے ان کے نتیجے میں وہ بحث مباحثہ(اظہارِ رائے) کرنے کے قابل ہوئے اور اپنی آراء اور شکوک کا اظہار کرنے لگے۔ ان مباحث اور منُاظروں نے فکر کے قواعد و ضوابط میں دلچسپی کو بیدار کیا۔ منطق اور خطابت کے بارے میں علم کے ذریعے وہ اپنے سیاسی حریفوں کو زیر کر سکتے تھے۔
بقول مارکس:” بے باک اور آزاد ذہن فلسفیانہ تجسس و تحقیق کا پہلا لازمہ ہے”۔ جمہوریت کے قیام کے نتیجے میں یونان کی سیاسی زندگی کے خصوصی اوصاف فلسفے کی بھرپور نشوونما کی اولین شرائط میں سے ایک شرط کی تکمیل کردیتے ہیں۔
ہر چھوٹی سی شہری ریاست کے اپنے قوانین تھے۔ ان قوانین کو خداؤں، روایات و رسوم کی اسناد کی تصدیق و توثیق حاصل تھی۔ فلسفیوں کو ان مسائل میں گہری دلچسپی تھی کہ ان قوانین کی بنیاد کیا ہے۔ یہ محض انصاف کی محبت کا نتیجہ ہیں یا ان کا اتباع اس لیے کیا جاتا ہے کہ کہیں خدا ناراض ہو کر اپنا قہر نازل نہ کر دیں؟ کیا یہ قوانین خوبیِ عمل سے ہم سُر وہ ہم آہنگ ہیں؟انسان کیا ہے ،وغیرہ وغیرہ۔ وہ ایسے قوانین کے لیے صدائے تحسین و آفرین بلند کرتے جو عام انسانوں کے نزدیک خوبیِ عمل کے حقیقی انسانی معیارات کے ہمنوا ہوتے تھے۔ سقراط کا مؤقف تھا کہ انسان نہ صرف اپنی شہری ریاست کا رکن ہے بلکہ وہ تمام انسانی برادری کا بھی ایک فرد ہے۔ وہ صرف اثینہ یا سپارٹا کا شہری نہیں بلکہ کائنات کا شہری بھی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ انسانی ذہن کو روایات اور خوفِ خدا پر فوقیت حاصل ہے۔ فطرت کی مانند معاشرہ بھی عمومی قوانین کا تابع ہے اور مرد عورت اسی صورت میں انسان کہلائے جا سکتے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی شہری ریاست کے مستند قواعد ِعمل کو جانیں بلکہ ضروری ہے کہ وہ پوری دنیا کے ساتھ اپنے ربط کے آفاقی قوانین کی تفہیم بھی کریں۔
چونکہ سقراط اپنے سیاسی مؤقفوں کو رضائے الہی پر قائم کرنے کے بجائے عقلی دلائل کے بل پر قائم کر رہا تھا اس لئے غلام داروں نے اس کے فلسفے پر تنقیدوں کا وبال کھڑا کرکے اسے زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کر دیا ۔اس دور دراز ماضی میں ہی حکمرانوں کے نمائندوں کو یہ پتہ چل چکا تھا کہ عقلی اور تنقیدی فکر خود ان کے خلاف ایک طاقتور ہتھیار بن سکتی ہے۔
سقراط کی موت کا دن دنیا کے بارے میں ایک نئی ذہنی روش کا جنم دن بھی ثابت ہوا۔ یہ فکری روش مقدّر پراندھے یقین اور خداؤں کے انتقام کے خوف کے بجائے علم پر مبنی تھی۔ پہلی نظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلسفے کا سیاسی واقعات اور سیاسی اتھل پتھل سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم درج بالا سے واضح ہے کہ فلسفہ اپنے آغاز سے ہی طبقاتی کشمکش سے بھرپور طور پر مربوط تھا۔ معاشرتی تضادات اور کشمکش کے نتیجے میں دنیا کے بارے میں ایک نئی روش جنم لے کر مزاحمتوں کے باوجود، رکاوٹوں پر غلبہ پا تی ہوئی طوفان خیز رفتار سے بڑھ رہی تھی۔ مشرق کی نسبت یونان میں اس فکر کی نشوونما کے لئے زیادہ سازگار حالات مہیّا تھے۔
آئیے اب تک جو کچھ کہا گیا ہے اس کا خلاصہ کر لیں۔ فلسفے کی شرائط ِ اوّلین کی تحقیق و جستجو کے لیے ہمیں قدیم معاشروں کے معاشی و سیاسی نظام ہائے زندگی کو اوّلیت دینا چاہیے۔ فلسفیانہ مسائل سب سے پہلے اسطوری کہانیوں میں منضبط ہوئے لیکن جلد ہی وہ سخت اساطیری چھلکے کو توڑ کر باہر نکلے۔ مختلف اقسام کے کاموں اور سرگرمیوں کے نتیجے میں جمع ہونے والے ذخیرہ ِعلم نے قدیم یونانی فلسفیوں پر یہ ثابت کر دیا کہ جادو ٹونے اور مافوق الفطرت موجودات کی جانب رجوع کئے بغیر کتنے ہیں مظاہر کی تو جیہہ اور تفہیم کی جاسکتی ہے۔ دریا کی طغیانیوں، بارشوں اور ژالہ باری (اولے گرنا)کے اسباب فطری ہیں۔ اسی طرح انسان ،زمین اور تمام کائنات کی پیدائش کی بھی فطری توجیہات ممکن ہیں۔ زمین کی ابتداء اور پیدائش کے بارے میں اسطوری تفاسیر کے مقابلے میں فکر زیادہ لطیف ہوتی جا رہی تھی اور یوں فلسفے کے بنیادی تصورات شکل پذیر ہو رہے تھے۔
باضابطہ علوم کے ذخیرے نے بھی فلسفیانہ فکر کے ارتقا کی معاونت کی۔ دوسری جانب فلسفے نے دنیا کے بارے میں علم کے منتشر اور غیر مربوط جُزیات کو مربوط کر کے علوم کو مستحکم نظری بنیادیں فراہم کیں۔
علوم کا گہوارہ
قدیم فلسفی کو ایسے بہت سے سوالات اور مسائل پر اپنا سر کھپانا پڑتا تھا جن کا آج سائنسدانوں کی ایک پوری فوج مطالعہ کرتی ہے۔قدیم زمانے کا فلسفی ہر مسئلے پر مشّوش رہتا تھا۔ وہ آغازِ کائنات کی توجیہہ کرنے کی کوشش کرتا ۔اس سوال پر غور کرتا کہ کائنات کی حقیقت علم کے دائرہِ امکان میں ہے کہ نہیں ،اور ساتھ ساتھ وہ یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش میں رہتا تھا کہ قوس وقزح کیوں کر نمودار ہوتی ہے، گرہن کیوں ہوتے ہیں، اور بجلی کیوں کڑکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
فیثا غورث کے شانہ بشانہ علمِ ریاضیات کا بانی “سات داناؤں میں سے ایک دانا” اور پہلا یونانی فلسفی، تھا لیس، ماہر ِعلمِ فلکیات بھی تھا اور سورج گرہنوں کی پیشگوئی کر سکتا تھا۔ وہ فن ِتجارت سے بخوبی واقفیت رکھتا تھا اور میدان ِسیاست میں بھی کوئی نوواردنہ تھا۔ روایت کے مطابق تھالیس نے ہی سال کو 365 دنوں میں اور مہینے کو تیس دنوں میں تقسیم کیا ۔ایک اور یونانی فلسفی ، امپیدوکلیس، بیک وقت شاعر ،طبیب ،خطیب،سائنسدان اور سیاست کار بھی تھا۔ اس نے اپنے فلسفیانہ نظریات کسی مقالے میں پیش کرنے کے بجائے انہیں”فطرت”نامی نظم میں منظوم کیا۔ اس نے سسلی میں فن ِخطابت کا ایک مدرسہ قائم کیا۔ کئی ایجادات اس سے منسوب ہیں اور قصّے کہانیوں کے مطابق اس نے سسلی کے ساحل پر واقع قصبہ”گرگنتوم” کی آب و ہوا تبدیل کی۔امپیدوکلیس کا فلسفیانہ نظریہ یہ تھا کہ کائنات چار عناصرِ ترکیبی سے بنی ہے جس میں محبت اور نفرت ، اتحاد و نفاق کی دو قوتیں حرکت پیدا کرتی ہیں۔ لیکن اس فلسفیانہ نظریے کے علاوہ اس نے متعدد مخصوص موضوعات پر بھی مفروضے اور نظریے منضبط کیے ۔مثلا، اس کا مؤقف تھا کہ چاند ہوا کے انجماد(جم جانے) کا نتیجہ ہے اور اس نے قیاس کرلیا تھا کہ روشنی ایک مخصوص رفتار پر سفر کرتی ہے۔ اس کے اس قیاس کی بنیاد پر اسے آج بجا طور پر ایک جینئس قرار دیا جاتا ہے۔ اس نے ذی حیات اجسام کے آغاز کے بارے میں انتہائی بے باک مفروضہ پیش کیا اور تاریخ میں پہلی بار ارتقائے حیاتیات کے لئے انتخابِ قدرت کا مسئلہ پیش کیا ۔اس نے انسانی جسم کی ساخت میں گہری دلچسپی لی۔ بالخصوص اس نے آنکھ کی ساخت اور عملِ بصارت کی نوعیت کے بارے میں مربوط نظریہ پیش کیا۔
ارسطو کی شخصیت منفرد تھی۔ اس کی تصنیفات میں تمام عصری علوم اور فلسفوں کی جھلک مل جاتی ہے۔ارسطوکی فلسفیانہ تصنیفات نے کئی صدیوں تک مغرب و مشرق میں فلسفے کے ارتقاء پر اثر ڈالا۔ اس نے اخلاقیات (نیکومیکیئن ایتھکس)،سماجی و سیاسی مسائل (پولیٹکس)،نظریہ آرٹ و خطابت (پوئیٹکس اورریٹورک)پر لکھنے کے علاوہ استخراجی منطق کے مفصّل نظام کی تخلیق کی جو فکر کی اشکال سے بحث کرتی ہے۔ فطری علوم پر اس کی مختلف تصنیفات ان علوم کی ترقی کے لیے وسیع اہمیت کی حامل رہی ہیں۔ ان میں “افلاک کے بارے میں “،”روح کے بارے میں”،” طبعیات”،” اعضائے حیوانی”،”میٹیورولوجیکل (علم کائنات الجو)” وغیرہ شامل ہیں۔