تصوریت پرستی اور آدرش
تمام فلسفیوں میں پہلے یہ حد فاصل قائم ہوتی ہے کہ وہ مادیت پرست ہیں یاتصوریت پرست۔اوراس خط امتیاز کے قیام کے بعد ہی ہم وجودیوں، فرائڈ پرستوں، ایجابیت پسندوں اور مارکسیوں میں ان کی مزید گروہ بندی کرسکتے ہیں۔ مادہ پرستوں کا مؤقف ہے کہ مادہ، حقیقی دنیا، فطرت، وجود وغیرہ (یہ تمام الفاظ ایک ہی تصور کے مترادف ہیں) شعور سے مزین فرد سے پہلے نمودار ہوئے۔ فطرت کے ارتقاء کے دوران حیات، یعنی پودے اورجاندار اجسام، نمودار ہوئے اوراس کے بعد انسان آئے۔ آئیے مادے کی باقاعدہ تعریف کی کوشش کریں۔ مادہ وہ سب کچھ ہے جو ذہن سے باہر و علیحدہ موجود ہے، اس سے آزادانہ وجود رکھتا ہے اور اس سے پہلے تشکیل پذیر ہوا، یعنی جو معروضی طورپرموجود ہے۔ اس کی نہ تو تخلیق کی جا سکتی ہے اورنہ وہ معدوم ہوسکتا ہے۔ وہ ابدی اورلامحدود ہے۔ انسان اپنی تمام سرگرمیوں کے دوران اس کے ربط میں آتا ہے۔ انسان اپنی پوری زندگی کے دوران، چاہے کام میں مصروف ہو یا اپنے اطراف میں ہونے والے واقعات کا تماشا دیکھ رہا ہو، ہرصورت میں مادے سے دوچار رہتا ہے۔ انسانی جسم بھی مادی ہے۔اس امر میں شبہ نہیں کہ چاہے انسان کتنی ہی خواہش کیوں نہ کرے اسے اپنے جسم کی وضع قطع، بڑھوار اوراعضاء کے کاموں پر مکمل اختیار حاصل نہیں ہوسکتا۔انسان مادی دنیا اور فطرت سے ربط ضبط کرتا ہے۔ اس ربط ضبط کے دوران خارجی دنیا ناگزیر طور پر اس پراپنے اثرات مرتب کرتی ہے اور اس کے جذبات و احساسات، شعور و ارادے کی تشکیل کرتی ہے۔ پس نہ صرف شعور کی نمو کا انحصار مادے پر ہے بلکہ شعور کا لب لباب اور مواد بھی مادے سے ہی متعین ہوتا ہے۔ انسان کے تمام علم کا مآخذ اطراف کی دنیا ہی ہے۔
تصوریت پرست شعور اورمادے کے ربط وتعلق کے معاملے کو مختلف طور پر برتتے ہیں۔ان کے نزدیک فطرت، انسان اور فطری موجودات کسی روح کی تخلیقات ہیں۔ وہ کسی نیک یا بد روح کے تصور کی تجسیم ہیں۔ معمار فن عمارت کے کسی ماہرکے نقشے کے مطابق، اس کے ذہنی تصورکے مطابق، عمارت کی تعمیر کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح یہ دنیا اورخود انسان بھی کسی نامعلوم ہمہ گیر طاقت کےحامل فن عمارت کے ماہر کے عظیم منصوبے یا نقشے کی تجسیم ہے۔
مادیت پرستوں کا خیال ہے کہ مادہ مقدم ہے اورشعوراس سے ماخوذ ہے۔ تصوریت پرستوں کا خیال ہے کہ پوری کائنات ذہن کی کارفرمائیوں کا نتیجہ ہے۔بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان دونوں کے مابین مسئلہ نزاع صاف اوربالکل واضح ہے۔تاہم انسان کے ماضی اورحال دونوں کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ان اصطلاحات کی تفسیر وتفہیم میں ہمیشہ سے ہی ایک الجھاؤرہا ہے۔
بعض اوقات لوگ کسی شخص کو تصوریت پرست اس معنی میں کہتے ہیں کہ زیرذکر شخص اعلی و ارفع مقاصد، اہداف اورآدرشوں کا متمنی ہے اورایک طباع ذہن کا مالک ہے۔بعض اوقات اس طرح کی گفتگو میں طنز کا ایک چھینٹا بھی شامل ہوتا ہے چونکہ اس قسم کا عالی خیال تصوریت پرست شخص ہمیشہ ہی اپنے خیالوں میں گم گشتہ رہتا ہےاوراپنی “نان جویں” یا ان روزمرہ حقیقتوں کے بارے میں غفلت کا شکارہوجاتا ہے جو انتہائی بے رحمی سے اس کے من پسند آدرشوں کو تباہ کرتی رہتی ہیں۔
اس فکری روش کے مطابق مادیت پرست اس طرز کی اعلی خیالی سے عاری ہوتے ہیں۔وہ حسن و خوبئی عمل اورحسن سیرت وغیرہ میں یقین نہیں رکھتےاورصرف اپنی بنیادی احتیاجات کی تسکین کی فکر کرتے ہیں۔چنانچہ بسیارخوری، شراب نوشی، شہوت،طمع اورنفع اندوزی جیسی تمام برائیاں مادیت پرستوں کا وصف ہیں۔حتی کہ جرمن مادی فلسفی اورمارکسی فلسفے کا فوری پیش رولڈوگ فیورباخ تک لفظ”مادیت پرستی” کے خلاف اس تعصب کا شکارہوگیا۔ مادیت پرستی کوخلط ملط کرتے ہوئے اس نے لکھا:”میں مادیت پرستوں کی تنقید سے مکمل طورپرمتفق ہوں لیکن ان کے ساتھ قدم ملا کرآگے نہیں چل سکتا۔” (فریڈرک اینگلز، لڈوگ فیورباخ اورکلاسیکی جرمن فلسفے کا اتمام، کارل مارکس وفریڈرک اینگلز،منتخب تصانیف، جلد 3، ص 349۔)
اس امر میں شبہ نہیں کہ اس قسم کا مادیت پرست بمشکل ہی کسی شخص کے لیے قابل قبول ہوگا۔تاہم سکہ بند سرمایہ دارشخص کوقرقی کے وقت ہی حسن سیرت،محبت، اعتماد اورامدادباہمی جیسے اعلی اخلاقی اصولوں کی یاد ستاتی ہے۔بعض اوقات اعلی آدرشوں کے متشدد حامی خفیہ طورپرایسی برائیوں میں ملوث نظرآتے ہیں جن کو وہ منظرعام پرانتہائی نفرت وحقارت سے رد کرتے رہے ہیں۔ہم عصر سرمایہ دارمعاشرہ اس طرزعمل کی بیش بہا مثالیں پیش کرتا ہے۔انسانی حقوق کےدفاع کے لیےجدوجہدکے پروپیگنڈے کی دھند میں اعلی سرکاری افسروں کی بے پناہ بدعنوانیاں اورحکام بالاکی خفیہ یا کھلی پشت پناہی میں جاری نسلی امتیاز زوروشور سے جاری ہے۔
مادیت پرستی اورتصوریت پرستی دو مخصوص فلسفے ہیں۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ نیکی، عدل اوربہترمستقبل کے حصول کے لیے مساعی جیسے امورکے بارے میں ان کے نمائندوں کا طرزعمل کیا ہے؟اس سوال کے جواب کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے مادی فلسفے کے عمومی اوصاف پرغورکریں۔
کائنات، مادیت پسندی کی نگاہ میں
کائنات کی توجیہہ و تفسیر میں مصروف فلسفی کے سامنے سب سے پہلا مسئلہ کثریت (تکثیر) کا مسئلہ ہوتا ہے، یعنی وہ اپنے سامنے انواع و اقسام کی اشیاء کو دیکھ سکتا ہے۔ایک جانب تواسے عظیم الجثہ اجسام اورایسے فلکیاتی سیارے نظرآتے ہیں جن میں سے کچھ کرہِ ارض سے بھی بڑے ہیں جبکہ دوسری جانب کائنات میں ایسے ننھے ننھے ذرات بھی ہیں جو آنکھ سے دیکھے نہیں جا سکتے۔مثلا سالمے،جوہراوربنیادی ذرات، ہمارے گردوپیش میں پہاڑوں، پھیلے ہوئےپانیوں کی چادریں،زمین پرمبنی غیرجاندارفطرت بھی ہےاورمتعدد جاندارموجودات بھی ہیں۔انسان رہنے کے لیے ان رہائشی مکانوں سے استفادہ کرنے کے علاوہ ان فضائی جہازوں اوربسوں سے بھی استفادہ کرتا ہے جو اس نے خود بنائے ہیں۔دوسری جانب وہ اپنے اطراف میں ان معروضات اوراشیاء کو دیکھتا ہے جن کو اس نے نہیں بنایااورجوخود اس کے ظہورسے پہلےموجود تھے۔کیا اس معجون مرکب دنیا میں کسی قسم کی وحدت دیکھی جاسکتی ہے؟اس سوال کا جواب اساسی اہمیت کا حامل ہے۔
بلاشبہ اگردنیا اختلال محض ہےیعنی وہ مکمل طورپردرہم برہم(منتشر) ہے اوراس میں کوئی نظم و ترتیب نہیں انسان کی حیثیت اس عظیم کائنات میں ریت کے اڑتے ہوئے ایک ذرے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اگردنیا میں کوئی نظم وضبط نہیں، کوئی قاعدہ قانون نہیں، توپھرشعورسے مزین حیوان ناطق سمیت تمام جاندارموجودات کےماخذ کی تفہیم ناممکن ہوجائے گی۔ایسی صورت میں خودمادیت پسندی بھی ایک سوالیہ نشان بن جائے گی۔چونکہ اگرہم یہ نہیں جان سکتے کہ ذہن کس طرح مادے سے نمودارہوا توپھر ممکن ہے کہ وہ مادے سے نکلا ہی نہ ہوبلکہ اس سے آزادانہ وجود کا حامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ مادیت پرست کبھی بھی کائنات کی وحدت کے مسئلے کے حل سے پہلو تہی نہیں کرسکتے اوروہ لازمی طورپران قوانین کی دریافت کرتے ہیں جو اس کائنات کو ایک وحدانی کلیت میں باندھ دیتے ہیں۔
کائنات کے آفاقی قوانین کے بارے میں ابتدائی تصورات محض قیاس آرائیوں پرمبنی تھے۔قدیم یونان کے مادی فلسفیوں نے ان قوانین کو دریافت کرنے کے لیے ابتداء سے ہی مساعی کیں۔ہیراقلیطوس نے انتہائی نرالے انداز میں اشیاء کے آفاقی ربط وتعلق کے اصول کو پیش کیا۔اس کا مؤقف تھا کہ دنیا ایک وحدت ہےچونکہ آگ اس کا واحد مبداء ہے۔تھالیس نے پانی کو کائنات کی اصل بنیادقراردیااوراینیکزیمینس نے ہواکو۔دیمقراطیس کائنات کی ساخت کے بارے میں درست نقطہ نظر کے بہت نزدیک پہنچا۔اس کا خیال تھا کہ تمام اشیاء کا واحد اصل مبداء، جوہر یا ایٹم ہیں۔ یہ جوہرانتہائی ننھے ننھے حرکت پذیرذرے ہیں۔اینگلز نے پہلے یونانی فلسفیوں کے نظریات کو بیان کرتے ہوئے لکھا :”یہاں۔۔۔ہمیں اس مادیت پرستی کی پوری صورت دستیاب ہوجاتی ہےجو اضطراری طورپرذہن میں جاگزیں ہوجاتی ہے اورجو ابتداء سےفطری مظاہر کی لامحدود گوناگونی کی وحدت کوبلا لیت ولعل قبول کرتے ہوئےاس وحدت کو کسی مخصوص جسم یا شے میں تلاش کرتی ہے۔مثلا تھالیس اسے پانی میں تلاش کرتا ہے۔”(فریڈرک اینگلز، فطرت کی جدلیات،ص 186۔)
جدید سائنس قدیم مادیت پرستوں کی قیاس آرائیوں کی اصلاح کرتے ہوئےاورانہیں مزید ٹھوس ترکرتے ہوئے ان کی تصدیق وتوثیق کرتی ہے اوردنیا کی وحدت کے بارے میں ان کے سادہ لوح مفروضوں کوکٹرصداقتوں کاد رجہ دے دیتی ہے۔اب جوہر اورسالموں،جانداراجسام اورفلکیاتی اجسام کی حرکت کے ناظم قوانین دریافت کیے جاچکے ہیں۔خود سائنس کی موجودگی ہی کائنات کی وحدت کا ثبوت ہے چونکہ سائنس عمومی،مستحکم اوربارباررونما ہونے والے عملوں اورمظاہر کا مطالعہ ہی کرتی ہے۔