مزدوری کی اجرت
اجرت کا تعین سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان مخالفانہ جدوجہد کے ذریعے ہوتا ہے۔ جیت سرمایہ دار کی ہی ہوتی ہے۔ سرمایہ دار مزدور کے بغیر اس سے زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتا ہے جتنا مزدور سرمایہ دار کے بغیر رہ سکتا ہے۔ سرمایہ داروں کے مابین اجتماع روایتی اور مؤثر ہے۔ مزدوروں کا اجتماع ممنوع ہے اور اس کے نتائج ان کے لیے تکلیف دہ ہیں۔ اس کے علاوہ، زمیندار اور سرمایہ دار اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے صنعتی فوائد کا استعمال کر سکتے ہیں۔ مزدور کے پاس اپنی صنعتی آمدنی بڑھانے کے لیے نہ تو کرایہ ہے اور نہ ہی سرمائے پر سود ہے۔ اس لیے مزدوروں کے مابین مقابلے کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح صرف مزدور ہی ہیں جن کے لیے سرمائے، زمینی جائیداد اور محنت کی علیحدگی ایک ناگزیر، ضروری اور نقصان دہ علیحدگی ہے۔ اس تجرید (علیحدگی) میں سرمائے اور زمینی ملکیت کو ساکن رہنے کی ضرورت نہیں ہے، جیسا کہ مزدوروں کی محنت کے لیے لازم ہے۔
سرمائے، کرائے اور مزدوری کی علیحدگی اس طرح مزدور کے لیے مہلک ہے۔
سب سے کم اور واحد ضروری شرحِ اجرت وہ ہے جو مزدور کو اس کے کام کی مدت کے دوران گزراوقات کے لیے دی جائے اور جتننی اس کے لیے ایک خاندان کی کفالت کی خاطر ضروری ہے اور مزدوروں کی نسل کو مر کرختم نہ ہوجانے دے۔ عام اجرت، ایڈم اسمتھ کے مطابق، عام انسانیت کے ساتھ سب سے کم مطابقت رکھتی ہے، یعنی، مویشیوں جیسے وجود کے ساتھ۔
انسانوں کی مانگ (طلب) لازمی طور پر انسانوں کی پیداوار پر حکومت کرتی ہے، جیسا کہ ہر دوسری کموڈٹی (commodity) پر۔ اگر سپلائی ڈیمانڈ سے بہت زیادہ ہو جائے تو مزدوروں کا ایک حصہ بھکاری پن یا فاقہ کشی میں ڈوب جاتا ہے۔ اس طرح، مزدور کے وجود کو اسی حالت کے تحت لایا جاتا ہے جس طرح ہر دوسری شے کے وجود کو۔ مزدور ایک کموڈٹی بن گیا ہے، اور اگر اسے کوئی خریدار مل جائے تو یہ اس کے لیے خوش قسمتی کی بات ہے۔ اور وہ ڈیمانڈ جس پر مزدور کی زندگی کا دارومدار ہے، وہ امیروں اور سرمایہ داروں کی خواہش پر منحصر ہے۔ اگر سپلائی ڈیمانڈ سے زیادہ ہو، تو قیمت کے جزوی حصوں میں سے کسی ایک – منافعے، کرائے یا اجرت – کو اس کی شرح سے نیچے ادا کیا جاتا ہے، اس لیے اس عمل سے ان عوامل (کا ایک حصہ) واپس لے لیا جاتا ہے، اور اس طرح مارکیٹ کی قیمت قدرتی قیمت (کی جانب) بطور مرکزہ جھکتی ہے۔ لیکن (1) جہاں محنت کی تقسیم کافی ہو وہاں مزدور کے لیے اپنی محنت کو دوسرے شعبوں میں لے جانا مشکل ہوتا ہے۔ (2) سرمایہ دار سے اپنے ماتحت تعلق کی وجہ سے سب سے پہلے اسے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
اس طرح مارکیٹ کی قیمت کے قدرتی قیمت کی جانب جھکاؤمیں یہ مزدور ہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ اور ضروری طور پرنقصان اٹھاتا ہے۔ اور یہ صرف سرمایہ دار کی گنجائش ہے کہ وہ اپنے سرمائے کو کسی اور شعبے میں لے جائے جس سے یا تو مزدور، جو محنت کی کسی ایک خاص شاخ سے بندھا ہوا ہے، مفلس وقلاش ہوجاتا ہے، یا اپنے سرمایہ دار کے ہر مطالبے پر سرجھکانے پر مجبور ہوتا ہے۔
مارکیٹ کی قیمتوں میں حادثاتی اور اچانک ہونے والا اتار چڑھاؤ قیمت کے اس حصے کے مقابلے میں کرائے کو کم متاثر کرتا ہے جو منافعے اور اجرت میں حل ہو جاتا ہے۔ لیکن اس سے اجرت کے مقابلے میں منافعے پرکم اثر پڑتا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں، ہر اُجرت جو بڑھتی ہے، اس کے مقابلے میں ایک اجرت ساکن رہتی ہے اور ایک گر جاتی ہے۔
مزدور کے لیے ضروری نہیں کہ جب سرمایہ دار فائدہ حاصل کرے تو اسے بھی فائدہ ہو، لیکن جب سرمایہ دار کو نقصان ہوتا ہے تو اسے بھی لازمی نقصان ہوتا ہے۔ اس طرح، اگر سرمایہ دار کسی پیداواری یا تجارتی راز کی وجہ سے، یا اجارہ داری کی وجہ سے یا اپنی زمین کی سازگار صورتحال کی وجہ سے مارکیٹ کی قیمت کو قدرتی قیمت سے اوپر رکھتا ہے، تو مزدور کو اس سے فائدہ نہیں ہوتا۔
مزید برآں، محنت کی قیمتیں اشیائے ضرورت کی قیمتوں سے کہیں زیادہ مستقل ہوتی ہیں۔ اکثر یہ دونوں الٹے تناسب میں مدمقابل ہوتے ہیں۔ ایک اچھے سال میں مانگ میں کمی کی وجہ سے اجرت گر جاتی ہے، لیکن اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے – اوراس طرح ان میں توازن ہوجاتا ہے۔ کوئی بھی صورت ہو، بہت سے مزدوروں کو بھوکا چھوڑ دیا جاتا ہے. سستے سالوں میں مانگ میں اضافے کی وجہ سے اجرت میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے کمی ہوتی ہے – اور اس طرح توازن برقرار رہتا ہے۔
ایک اور پہلو جس میں مزدور نقصان میں رہتے ہیں:
مختلف قسم کے مزدوروں کی مزدوری کی قیمتیں ان بہت سی مختلف شاخوں کے منافعوں سے کہیں زیادہ وسیع فرق ظاہر کرتی ہیں جن میں سرمایہ لگایا جاتا ہے۔ محنت میں انفرادی سرگرمی کی تمام فطری، روحانی اور سماجی قسمیں ظاہر ہوتی ہیں اور اس کا معاوضہ مختلف طریقوں سے ادا کیا جاتا ہے، جب کہ مردہ سرمایہ ہمیشہ ایک ہی رفتار رکھتا ہے اور حقیقی انفرادی سرگرمی سے لاتعلق رہتا ہے۔
عام طور پر ہمیں یہ مشاہدہ کرنا چاہیے کہ ان معاملوں میں جہاں مزدور اور سرمایہ دار یکساں طور پر نقصان اٹھاتے ہیں، ان میں مزدور اپنے وجود میں ہی مصیبت اٹھاتا ہے، سرمایہ دار اپنے مردہ مال پر منافعے میں۔
مزدور کو نہ صرف اپنے جسمانی وسائل کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے؛ اسے کام حاصل کرنے کے لیے بھی جدوجہد کرنا پڑتی ہے، یعنی اپنی سرگرمی کو انجام دینے کے امکان، ذرائع، وغیرہ کے حصول کی جدوجہد۔
آئیے ہم ان تین اہم حالتوں کا جائزہ لیں جن میں معاشرہ خود کو پا سکتا ہے اور ان میں مزدور کی صورت حال پرغور کریں:
(1) اگر معاشرے کی دولت کم ہوتی ہے تو سب سے زیادہ نقصان مزدور کو ہوتا ہے، اور درج ذیل وجوہات کی بناء پر: اگرچہ محنت کش طبقہ اتنا حاصل نہیں کر سکتا جتنا کہ معاشرے کی خوشحال حالت میں ملکیت کے مالکوں کا طبقہ حاصل کر سکتا ہے، لیکن کوئی بھی اس سے اس قدربے رحم مصیبت نہیں جھیلتا جتنا کہ مزدور طبقہ۔
(2) آئیے اب ایک ایسے معاشرے کو لیں جس میں دولت بڑھ رہی ہے۔ صرف یہی حالت مزدور کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہاں سرمایہ داروں کے درمیان مقابلہ شروع ہوتا ہے۔ مزدوروں کے لیے ڈیمانڈ ان کی سپلائی سے بڑھ جاتی ہے۔ لیکن:
سب سے پہلے، اجرتوں میں اضافہ مزدوروں میں حد سے زیادہ کام (اوورٹائم) کو جنم دیتا ہے۔ وہ جتنا زیادہ کمانا چاہتے ہیں، اتنا ہی زیادہ انہیں اپنا وقت قربان کرنا اورغلامانہ مزدوری کرنا پڑے گی، اور لالچ کی خدمت گزاری کرتے ہوئے اپنی تمام آزادی کو مکمل طور پر کھو دینا ہوگا۔ اس طرح وہ اپنی زندگی کم کر لیتے ہیں۔ ان کی زندگی کی مدت میں یہ کمی مجموعی طور پر محنت کش طبقے کے لیے ایک سازگار صورت حال ہوتی ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں مزدوروں کی مستقل تازہ سپلائی ضروری ہو جاتی ہے۔ اس طبقے کو ہمیشہ اپنا ایک حصہ قربان کرنا پڑتا ہے تاکہ یہ مکمل طور پر برباد نہ ہو۔
مزید یہ کہ: معاشرہ خود کو دولت کی ترقی کی حالت میں کب پاتا ہے؟ جب کسی ملک کے سرمائے اور آمدنیاں بڑھ رہی ہوں۔ لیکن یہ صرف ممکن ہے:
(الف) بہت زیادہ محنت کے جمع ہونے کے نتیجے میں، سرمائے کے جمع شدہ محنت بن جانے میں؛ نتیجتا، اس حقیقت سے کہ مزدور سے اس کی زیادہ سے زیادہ مصنوعات چھینی جا رہی ہیں، کہ اس کی اپنی محنت زیادہ بڑے پیمانے پراس کا سامنا ایک دوسرے آدمی کی ملکیت کے طور پر کرتی ہے اور اس کے وجود اور اس کی سرگرمی کے ذرائع سرمایہ دار کے ہاتھوں میں زیادہ سے زیادہ مرتکزہوگئے ہیں۔
(ب) سرمائے کا جمع ہونا محنت کی تقسیم کو بڑھاتا ہے، اور محنت کی تقسیم سے مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے الٹ، مزدوروں کی تعداد محنت کی تقسیم کو بڑھاتی ہے، جس طرح محنت کی تقسیم سرمائے کے جمع ہونے میں اضافہ کرتی ہے۔ ایک طرف محنت کی اس تقسیم اور دوسری طرف سرمائے کے جمع ہونے کے ساتھ، مزدور کا انحصار صرف محنت پر، اور اس میں ایک خاص، بالکل یک طرفہ، مشین جیسی محنت پر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس طرح وہ مشین بن جانے کی حالت میں روحانی اور جسمانی طور پربیزار ہوتا ہے اور انسان ہونے سے ایک تجریدی سرگرمی اور پیٹ بن جاتا ہے، اسی طرح وہ بازار کی قیمت کے ہرلہراؤپر، سرمائے کے استعمال پر اور امیروں کے خبطِ دولت پر بھی منحصر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح، مکمل طور پر محنت پر انحصار کرنے والے لوگوں کے طبقے میں اضافہ مزدوروں کے درمیان مقابلے بازی کو تیز کرتا ہے، لہذا ان کی قیمت گرا دیتا ہے۔ فیکٹری سسٹم میں مزدور کی یہ حالت اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔
(پ) زیادہ خوشحال ہوتے معاشرے میں صرف امیر ترین افراد ہی سود پرزندگی جاری رکھ سکتے ہیں۔ باقی سب کو اپنے سرمائے کے ساتھ کاروبار کرنا پڑتا ہے، یا اسے تجارت میں آزمانا پڑتا ہے۔ نتیجتاً، سرمایہ داروں کے درمیان مقابلہ مزید شدید ہو جاتا ہے۔ سرمائے کا ارتکاز بڑھتا ہے، بڑے سرمایہ دار چھوٹے کو برباد کر دیتے ہیں، اور سابقہ سرمایہ داروں کا ایک طبقہ محنت کش طبقے میں ڈوب جاتا ہے، جو اس سپلائی کے نتیجے میں دوبارہ کسی حد تک اجرت کی گراوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور چند بڑے سرمایہ داروں پر مزید انحصار میں گھر جاتا ہے۔ سرمایہ داروں کی تعداد میں کمی ہوجانے سے مزدوروں کے موازنے میں ان کے درمیان مقابلہ اب بمشکل ہی باقی رہتا ہے؛ اور مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہوجانے سے ان کے مابین مقابلے بازی زیادہ شدید، غیرفطری اور پرتشدد ہوجاتی ہے۔ نتیجتاً، محنت کش طبقے کا ایک حصہ گداگری یا فاقہ کشی میں گر جاتا ہے، اسی طرح لازمی طور پرجس طرح درمیانے سرمایہ داروں کا ایک طبقہ محنت کش طبقے میں آگرتا ہے۔
چنانچہ، مزدور کے لیے سب سے زیادہ سازگارمعاشرے کے حالات میں بھی مزدور کے لیے ناگزیر نتیجہ حد سے زیادہ کام اور قبل از وقت موت ہے، محض مشین کی حالت میں اس کا زوال اور سرمائے کا غلام خادم بننا ہے، سرمایہ جو خطرناک حد تک اس پر اوراس کے خلاف اورزیادہ مقابلے بازی، اورفاقہ کشی یا مزدوروں کے ایک حصے کی گداگری کا ڈھیربڑھاتا جاتا ہے۔
اجرت میں اضافہ مزدور میں امیر بننے کا سرمایہ دارانہ خبط پیدا کرتا ہے جسے وہ، تاہم، اپنے دماغ اور جسم کی قربانی دے کر ہی مطمئن کر سکتا ہے۔ اجرتوں میں اضافہ سرمائے کے جمع ہونے کو پہلے سے فرض کرتا ہے اور اس کا منطقی نتیجہ ہے، اور اس طرح محنت کی پروڈکٹ کو مزدور کے خلاف ایسی چیز بنا دیتا ہے جو اس کے لیے ہمیشہ سے زیادہ اجنبی ہے۔ اسی طرح، محنت کی تقسیم مزدور کو مزید یک طرفہ اور منحصر بناتی ہے، جو اپنے ساتھ نہ صرف انسانوں کی بلکہ مشینوں کی مقابلے بازی بھی لاتی ہے۔ چونکہ مزدور مشین کی سطح تک گرگیا ہے، اس لیے مشین سے اس کا سامنا بطور حریف ہو سکتا ہے۔ آخرمیں، جب کہ سرمائے کے بڑھنے سے صنعت کی مقدارمیں اور، لہذا، مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، تب اس وجہ سے صنعت کی یکساں مقدار سے مصنوعات کی ایک زیادہ بڑی مقدار تیار ہوتی ہے، جو فاضل پیداوارکی طرف لے جاتی ہے اور اس کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ یا تو یہ مزدوروں کے ایک بڑے حصے کو کام سے بے دخل کردیتی ہے یا ان کی اجرت کو زیادہ سے زیادہ بدحال حد تک کم کردیتی ہے۔
یہ ہیں معاشرے کی اس حالت کے نتائج جو مزدور کے لیے سب سے زیادہ مفید ہوتی ہے – یعنی دولت کی نشوونما اورترقی کی حالت۔
تاہم، بالآخر، ترقی کی اس حالت کو جلد یا بدیر اپنے عروج پر پہنچنا پڑتا ہے۔ اب مزدور کا کیا مقام ہوتا ہے؟
“(3) ایک ایسے ملک میں جس نے دولت کو مکمل حاصل کر لیا ہو وہاں محنت کی اجرت اور اسٹاک کا منافع دونوں ہی غالبا بہت کم ہوں گے۔۔۔ روزگار کے لیے مقابلے بازی لازما اس قدر زیادہ ہوگی کہ اس سے محنت کی اجرت اس حد تک کم ہوجائے گی کہ بمشکل ہی مزدوروں کی تعداد کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہو، اور، ملک پہلے سے ہی مکمل طور پر آباد ہونے کی وجہ سے، اس تعداد میں کبھی اضافہ نہیں کیا جا سکے گا۔ [ایڈم سمتھ، دولتِ اقوام (ویلتھ آف نیشنز)، جلد اول، ص۔ 84۔]
فاضل (مزدوروں) کو مرنا ہو گا۔
یوں معاشرے کی زوال پذیر حالت میں – مزدور کی بڑھتی ہوئی مصیبت؛ ترقی پذیر حالت میں – پیچیدگیوں کے ساتھ مصیبت؛ اور معاشرے کی ایک مکمل ترقی یافتہ حالت میں – جامد مصائب۔
چونکہ، تاہم، ایڈم اسمتھ کے مطابق، ایک ایسا معاشرہ خوش نہیں ہے جس کا زیادہ تر حصہ مصیبت جھیلتا ہے – پھر بھی معاشرے کی سب سے امیر ترین حالت بھی اکثریت کی اس مصیبت کا باعث بنتی ہے – اور چونکہ معاشی نظام (اور عام طور پر ایک معاشرہ جو نجی مفاد پر مبنی ہو) اس امیر ترین حالت کی طرف لے جاتا ہے، تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشی نظام کا مقصد معاشرے کو ناخوش رکھنا ہے۔
مزدور اور سرمایہ دار کے درمیان تعلقات کے بارے میں ہمیں یہ اضافہ کرنا چاہئے کہ مزدوری کے وقت کی مقدار میں کمی کرنے سے سرمایہ دار کے لیے اجرتوں میں اضافے کی کہیں زیادہ تلافی ہوجاتی ہے، اور یہ کہ بڑھتی ہوئی اجرتیں اور سرمائے پر بڑھتا ہوا سود اشیاء کی قیمتوں پر سادہ اور مرکب سود کی طرح عمل کرتا ہے۔
کارل مارکس: معاشی و فلسفیانہ مسودات، 1844ء