ملکیت کیا ہے؟ (دوسری قسط)

باب اول

پیداوار کا طریقہ (پروڈکشن سسٹم) اور اس کے دو عناصر: پیداواری قوتیں اور پیداواری رشتے

مادی پیداوار اجتماعی زندگی کی بنیاد ہے

انسانی شعور اور ارادے کی توجیہہ میں انسان کے اجتماعی وجود کی بنیادی حیثیت اور فیصلہ کن کردار کا اعتراف ہی اجتماعی زندگی کے مطالعے کے لیے مادی روش کا لب لباب ہے ۔اجتماعی وجود سے مراد وہ حقیقی انسانی سرگرمیاں ہیں جو کسی مخصوص ،تاریخی طور پر موجود، اجتماعی تانے بانے کے تناظر میں کی جاتی ہیں۔

تاریخ ہمیشہ ہی انسانوں نے بنائی ہے اور چونکہ لوگ اپنے معاشی طرز عمل کو اپنی خواہشات، جذبات اور موضوعی اہداف سے منسوب کرتے ہیں، اسی لیے تاریخ کے مادی نظریے کی فہم اور قبولیت مشکل ہوتی ہے۔سرمایہ دار محققین کہتے ہیں کہ سیاسی معیشت (جسے وہ معاشیات (اکنامکس) کہتے ہیں) اس کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ انسانی معاشی عمل کے موضوعی محرکات کا مطالعہ کرے۔ لیکن وہ یہ وضاحت نہیں کرتے کہ آخر لوگ کیوں کر ان تحریکات اور اہداف کے حامل ہو گئے اور ان محرکات کا سرچشمہ کہاں ہے؟

سرمایہ دارانہ معاشیات اس لیے بے ہنگم نہیں کہ وہ انسانی سرگرمیوں کو تصوراتی محرکات سے منسوب کرکے ان کا مطالعہ ضروری گردانتی ہے بلکہ اس لیے بے آہنگ ہے کہ یہ اس نکتے پر قیام کر جاتی ہے اور اس معاشی سرگرمی کے زیریں معروضی اسباب کی تحقیق کرنے میں ناکام رہتی ہے ۔

مارکسی فکر انسانی شعور اور تصوراتی محرکات سے تجاہل نہیں برتتی۔ تاہم وہ انہیں تاریخی مظاہر کا سببِ اول بھی نہیں سمجھتی۔ تاریخ کی صحیح محرکاتی قوتیں ان ترغیبات میں مضمر ہیں جو لوگوں کے بے پناہ اژدہاموں، پورے کے پورے طبقات اور قوموں کو حرکت میں لائیں ، نہ کہ ان ترغیبات میں جنہوں نے افراد( چاہے وہ کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں) کو حرکت دی۔

ان اجتماعی ترغیبات کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ چونکہ یہ خود انسانی زندگی کی مادی شرائط اور ان کے اجتماعی وجود میں مضمر ہوتی ہیں اس لیے یہ مستقل اور مسلسل اثرانداز ہوتی رہتی ہیں۔

انسانی زندگی کی مادی شرائط میں اول تو وہ فطری ماحول شامل ہے جس میں زمین ،پانی اور اس کی نباتاتی اور حیوانی سلطنتیں، معدنیاتی ذخائر اور آب و ہوا آتے ہیں۔دوئم، آبادیاں اور ان کی وسعت اور ساخت آتی ہے، سوئم، مادی چیزوں کی پیداوار کا طریقہ آتا ہے۔بعد الذکر(پیداوار کا طریقہ) معاشرے کے سماجی معاشی ارتقاء کی مادی بنیاد ہے اور سیاسی معیشت اسی سے بحث کرتی ہے۔

انسانی معاشرہ دو قسموں کے مادی حالات سے دوچار رہا اور انہی میں ارتقا پذیر ہوا۔ ایک جانب تو وہ فطری ماحول ہے جو اپنے اندرونی قوانین کے مطابق ترقی پاتا ہے اور جو آج بھی بڑی حد تک انسان کے شعوری اختیار اور غلبے سےآزاد ہے۔دوسری جانب فطرت کے معلوم قوانین کو شعوری طور پر استعمال میں لاتے ہوئے انسان فطرت پر مستعدانہ اثر انداز ہوتے ہوئے اپنی زندگی کے خصوصی حالات کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ وسیع تر معنوں میں انسان مادی پیداوار اور مادی ثقافت کے حلقے کی تخلیق کرتا ہے۔ صدیوں پر محیط اس عمل کے نتیجے میں انسان نے ایک معنی میں اپنے اطراف کی مادی دنیا کو دو گنا کر لیا ہے۔ چناچہ انسانوں نے شہر اور گاؤں تعمیر کرلیے ہیں اور زمین کے وسیع علاقوں پر ریل پٹریوں، شاہراہوں، بجلی کے تاروں اور پائپ لائنوں کو پھیلا دیا ہے۔ کارخانے ،بجلی گھر، کا نیں، کھیت اور تعمیراتی جگہیں وغیرہ وغیرہ ۔ الغرض انسان کے گرد و پیش طرح طرح کی رنگا رنگ دنیا کی روز بروز زیادہ تیزی سے مسلسل افزائش ہو رہی ہے ۔

انسانی محنت کے ثمرات بھی اتنے ہی مادی ہیں جتنا کہ قدرت کے فطری ثمرات۔ زنبور سے لے کر محاسنِ فہیم( یعنی کمپیوٹروغیرہ) تک تمام کی تمام جدید ٹیکنالوجی اور استعمال کی تمام چیزیں (کپڑے جوتے ،گھریلو برتن، رسد و ر سائل کی سہولتیں وغیرہ )سب کی سب ایسی مادی اشیاء ہیں جنہیں انسان نے فطری قوانین کو ملحوظ ِخاطر رکھتے ہوئے فطری موادوں سے بنایا جبکہ انسان خود بھی فطرت کا ہی ایک حصہ ہے اور اس کے ارتقاء کا اعلی ترین ثمر بھی۔

انسانی زندگی کے مادی حالات کسی طور بھی ناقابل تغیر نہیں۔ وہ مسلسل ارتقا اور بہتری کی جانب بڑھتے ہیں۔ یہ تبدیلی لازمی طور پر محنت کی نوعیت اور شرائط میں تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے۔

اجتماعی محنت

پہلے سے طے کردہ اہداف کی شعوری تحصیل کے پیش ِنظر فطرت کے خام مواد وں کے اکتساب کے لئے انسان کی بامقصد سرگرمی کو محنت کہتے ہیں۔ انسانی محنت کے دوران ہی محنت کے قدرتی اجزاء، ہاتھ اور سر ،ارتقاء پاتے ہوئے کامل تر ہوتے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان اعضائے محنت کی پہنچ بھی لمبی ہوتی جاتی ہے اور یہ قوی تر بھی ہوتے جاتے ہیں چونکہ انسان آلاتِ محنت کو تیار کرکے انہیں استعمال کرتا ہے۔

محنت ہی وہ سرگرمی ہے جو صرف انسان میں موجود ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کو دیگر حیوانات سے منفرد و ممیز کرتی ہے۔ یہ کہنا کہ جانور محنت کرتے ہیں، لفظ ‘محنت ‘کو تشبیہاتی اور استعاراتی معنی میں استعمال کرنے کے مترادف ہے چونکہ جانوروں کی محنت اس فطری جبلت پر قائم ہے جو ان کو موروثی طور پر ودیعت ہوتی ہے ۔مارکس کہتا ہے کہ بدترین ماہر تعمیرات اور شہد کی بہترین مکھی میں فرق یہی ہے کہ” ماہر ِتعمیرات عمارت کو فی الحقیقت کھڑا کرنے سے پہلے اسے اپنے تصور میں کھڑا کرتا ہے”۔ محنت کے عمل میں یہ اجزا شامل ہیں: (1)انسان کی بامقصد سرگرمی یا خود محنت؛(2) محنت کے معروض، یعنی وہ چیزیں جن پر انسان محنت کے عمل کے دوران کام کرتا ہے؛ اور(3) محنت کے آلات، یعنی وہ اوزار اورچیزیں جنہیں انسان محنت کے معروض پراستعمال کرتا ہے۔

محنت کے معروض اور آلات محنت مجموعی طور پر زرائع پیداوار کہلاتے ہیں اور خود محنت کا عمل پیداواری محنت کہلاتا ہے۔ پیداواری محنت کی یہ تعریف ہر سماجی نظام پر صادق آتی ہے ۔انسان کی بامقصد سرگرمی کے طور پر محنت کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ انسان سماجی اقدار (سماج کی ضرورت کی چیزیں) پیدا کریں یعنی ایسی چیزیں جو انسان کی مادی اور روحانی ضروریات کی تشفی کرتی ہوں ۔چونکہ محنت کرنے کے لئے انسان ضروری جسمانی و دماغی صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے اس لئے وہ ایک ایسی قوت محنت بھی ہے جو مادی اور روحانی پیداوار میں حقیقت پذیر ہوتی ہے۔

تاہم محنت متنوع انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے مادی چیزوں کی پیداوار کے ذریعے کے علاوہ کچھ اور بھی ہے ۔یہ وہ عمل بھی ہے جس کے ذریعے انسانی محنت کے اس جوہرکا اظہار ہوتا ہے جو انسان کو باقی حیوانی دنیا سے ممتاز کرتا ہے۔ محنت نے ہی خود انسان کی تخلیق کی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ محنت نے ہی اسے وہ کچھ بنایا ہے جو وہ ہے اور صرف محنت کے عمل کے نتیجے میں ہی انسانی شخصیت پروان چڑھتی ہے اور کامل ہوتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے ماہر ِتاریخ اور فلسفی تھامس کارلائل نے اس بات پر زور دیا کہ محنت میں ہی انسان کی حقیقی زندگی مضمر ہے ۔جبکہ روسی مصنف لیو ٹالسٹائی کا خیال تھا کہ مسرت کوکاہلی کی زندگی تصور کرنا ایک انتہائی حیرت انگیز سراب ہے۔

کام کرنا کسی نہ کسی حد تک ہر صحت مند فرد کی داخلی ضرورت ہے اور محنت کے ذریعے ہی فرد اپنی ماہیت کو حقیقت پذیر کرتا ہے۔تاہم خود کام کی نوعیت اور کام کے بارے میں فرد کے ذہنی رویوں کا انحصار سماجی نظام پر ہوتا ہے۔ صدیوں سے جاری سنگدلانہ استحصال ،اور دوسروں کی غلامی اور بالادستی میں دوسروں کے لئے محنت کرنے نے محنت کو ایک بھاری بوجھ بنا دیا ہے اور محنت جیسی آفاقی اور لازمی انسانی سرگرمی کو بے بہا نقصانات پہنچائے گئے ہیں۔چونکہ غلام اورنیم غلام کو (غیر معاشی ذرائع سے) استحصال کرنےوالوں کے لیے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا اس لئے ان کی سب سے گہری آرزو یہی بن گئی کہ کسی طرح محنت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اگرچہ سرمایہ دار معاشرے میں اجرتی مزدوروں کو ذاتی آزادی نصیب ہوتی ہے تاہم( معاشی طور پر) ان کو بھی سرمایہ داروں کے لیے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

چناچہ استحصالی طبقوں یعنی غلام داروں ،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے عوام کی محنت کو کٹھن،کمر توڑ مشقت میں تبدیل کر کے ان میں محنت کے خلاف کراہت کو جنم دیا ہے۔ خود استحصالی طبقے بھی پیداواری محنت کو حقارت سے دیکھتے تھے۔چنانچہ سرمایہ دارسیاسی معیشت کے سب سے بڑے ماہر معاشیات اسکاٹ لینڈ کے آدم اسمتھ کے نزدیک محنت ایک لعنت ہے جبکہ آرام ،آزادی اور مسرت کا نام ہے۔

Recent Comments

Leave a Comment