ملکیت کیا ہے؟ (چوتھی قسط)

ملکیت کیا ہے؟ (چوتھی قسط)

پیداوار کرنے والی قو ت کی حیثیت سے انسان کی تعمیری قوت بنیادی طورپراس کی اس صلاحیت میں مضمر ہے کہ وہ ان آلاتِ محنت اوراوزاروں کو تخلیق کرتا ہےجو اس کے اپنے ہاتھ کی توسیع ہیں اوراس کی قوت میں کئی گنا اضافہ کرنے کے علاوہ اصلاح اوربہتری کے ان گنت امکانات کے دروا زے کھول دیتے ہیں۔آج یہ آلاتِ محنت ، ان کی مقدار اوران کا درجہِ کمال پیداواری قوتوں کی ترقی کی سطح کی بنیادی نشانیاں بن چکے ہیں۔

انسانی معاشرے کی ترقی و عروج میں اوزار وں نے کلیدی کردار ادا کیا ہےچونکہ ان کے بغیر انسان اس حیوانی دنیا میں ممتاز نہیں ہو سکتا تھا جس کا وہ اصلا ایک حصہ تھا ۔انسان جسمانی طور پرایک کمزور حیوان ہے ۔بہرحال، چند جانور اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں لیکن انسان اوزار استعمال کر سکتا ہےاور یہ اوزار اس کی طاقت میں کئی گناہ اضافے کا باعث ہوتے ہیں۔ وہ اب فطرت کی من موجی قوتوں کا کھلونا نہیں رہا ۔اس نے آندھیوں ،آگ، پانی، شمسی توانائی اور جوہری توانائی پر قدرت حاصل کرلی ہے ۔ اوزاروں کی مدد سے انسان پہاڑ کوکھسکا سکتا ہے۔ بغیر اوزاروں کے انسان کچھ نہیں لیکن اوزاروں کی مدد و تعاون سے وہ سب کچھ ہے۔

انسانی تخلیقی قوت کی ترقی کی سطح کا پیمانہ ہونے کے علاوہ محنت کے اوزار پیداواری قوتوں کی بڑھوارکی آفاقی علامت بھی ہیں۔مارکس نے لکھا:” مصنوعہ اشیاء نہیں بلکہ ان کی صناعی کا طریقہ اور ان کی تیاری میں استعمال ہونے والے اوزار مختلف معاشی ادوار کی تفریق میں ہمارے مددگار ہوتے ہیں ۔” مارکس نے کہا کہ میکانیکی آلاتِ محنت کی کلیت پیداوار کی ہڈی اور عضلات ہوتے ہیں۔

میکانیکی حالاتِ محنت ہزاروں سال میں ارتقا پذیر ہوئے ۔پہلے وہ دستی آلات و اوزار تھے لیکن پیداوار میں بنیادی تبدیلیاں پیداوار کی تکنیکی بنیادوں میں بھرپور انقلاب کی متقاضی تھیں۔ یہ انقلاب اٹھارہویں صدی میں صنعتی انقلاب سے شروع ہوا ۔یہ تیکنیکی انقلاب دستی اوزاروں سے مشینوں کی جانب پیش رفت سے شروع ہوا۔

مشینی پیداوار کی نمو کے ساتھ ہی علوم پیداوار کے میدان میں زیادہ بڑا کردار ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پیداوار، علوم کے تیکنیکی اطلاق کا حلقہ بن جاتی ہے ،اور پیداواری حلقے براہِ راست علوم اور تیکنیکی ترقی پر منحصر ہو جاتے ہیں۔علوم براہ راست پیداواری قوت بن جاتے ہیں ۔بالخصوص جدید علمی اور تیکنیکی انقلاب کے زیر اثر یہ عمل زیادہ طاقت ور ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بات محلِ نظر رہے کہ علوم بذات خود بھی سماجی شعور کی ایک صورت ہیں ۔اور یہ ان روحانی اقدار کا ہی ایک جز ہوتے ہیں جو انسانیت نے اپنی طویل تاریخ کے دوران ذخیرہ کی ہیں۔چنانچہ یہ معلوم ہوا کہ علوم بذاتہی اور علم کی ذخیرہ شدہ کلیت کے بطور، براہ راست پیداواری قوت کی صورت اختیار نہیں کرتے بلکہ ایسے علوم کے بطور پیدا واری قوت بنتے ہیں جو زرائع پیداوار میں مجسم ہوتے ہیں اور زندہ وتابندہ علمی محنت یعنی تحقیق و ترقی و انجینئرنگ کے بشمول مادی اقدار کی پیداوار میں براہ راست ملوث ہوتے ہیں۔

پیداواری قوتیں ہمیشہ ما دّی ہوتی ہیں اور پیداواری قوت کے بطور انسانی سرگرمی ایک ایسا سماجی عمل ہے جس کے دوران انسان اپنے سائنسی علوم کی تحصیل بھی کرتا ہے اور اس کے اطلاق کے ذریعے اس کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیداواری قوتوں کی ترقی ہی معاشرے کی کل ترقی کے لیے بنیادی مادی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ صرف مادی پیداوار ہی سماجی زندگی کے تمام پہلووں کی ترقی کی بنیاد ہے۔

پیداواری رشتے

پیداواری قوتیں طریقہ پیداوار کے دو عناصر میں سے ایک عنصر ہیں۔لوگ ہمیشہ ہی باہم مل جل کر پیداوار کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ مادی اقدار (انسانی ضرورت کی چیزوں) کی پیداوار کے دوران باہمی رشتوں میں بندھتے ہیں۔ یہی رشتے طریقِ پیداوار کا دوسرا عنصر ہیں۔ یہ رشتے ہی لوگوں کے درمیان پیداواری(معاشی) رشتوں کو ترکیب دیتے ہیں۔پیداواری رشتوں کا ارتقاء ہی انسان کے اجتماعی اور انفرادی ارتقاء کے سکے کا دوسرا رخ ہے اور یہ ارتقاء انسانوں کے سہارے ہی پیش قدمی کرتا ہے۔

پیداواری قوتیں اور پیداواری رشتے انسانی سرگرمی کے خارجی مظاہر نہیں بلکہ انسانی سرگرمی بذاتہی ان ہی دونوں کی کلّیت ہے ۔وہ ان سے علیحدہ و ماورا کوئی چیز نہیں۔ یہ دونوں انسانی سرگرمی کے دو پہلو ہیں۔ انسان ہی سب سے بنیادی پیداواری قوت ہے اور ساتھ ساتھ اجتماعی پیداوار اور پیداواری رشتوں کا بار لے کر بھی وہی چلتا ہے۔ اس معنی میں انسان ہیں اجتماعی پیداوار ی حرکت اور ارتقاء کا سرچشمہ ہے اور وہی اجتماعی پیداوار کا اصل مستعدو فاعل عنصر ہے۔ بنیادی طور پر لوگ پہلے ایک پیداواری قوت کے طور پر ترقی کی منازل طے کرتے ہیں اور ترقی کے اس سفر کے دوران وہ جلد یابدیر اپنے پیداواری رشتوں کو تبدیل کرنے اور انہیں بہتر بنانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔

عمومی سطح پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مادی اقدار کی اجتماعی پیداوار کے دوران پیدا ہونے والے رشتے پیداواری رشتے ہوتے ہیں۔ یہ بات صحیح تو ہے لیکن ذرا ڈھیلی ہے ۔پیداواری رشتوں کے تصور کو ٹھوس اورچست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مادی اقدار کی اجتماعی پیداوار کے عمل کا واضح تصور قائم کریں اور اس کے اجزاء کے بارے میں اپنے علم کو بڑھائیں۔

مادی اقدار کی پیداوار کرنےکے لئے انسان کے لئے ہمیشہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور باہم متحد ہوں۔ ما قبل تاریخی ادوار تک میں لوگ موہاتھیوں اور دیگر بڑے حیوانوں کے شکار کے لئے اپنی قوتوں کو یکجا کرتے تھے ۔ہمارے دور میں یہ ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے چونکہ کار جیسی پیچیدہ چیز کی پیداوار کی تیاری کا عمل موٹر کے کارخانے میں ہزاروں افراد کے متحدہ کام کو مفروض کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کار کی تیاری کے لیے کارخانے سے باہر بھی لوگ کام کر رہے ہوتے ہیں جو کار کے مختلف اجزاء اور پرزے (شیشہ، پلاسٹک، ٹائر وغیرہ) فراہم کرتے ہیں۔

چناچہ مصنوعہ شے ہمیشہ ہی متحدہ کام اور بہت سارے لوگوں کی اجتماعی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے اور اس چیز کی تیاری میں کام کرنے والے لوگ اس کی پیداوار کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ مخصوص رشتوں میں بندھتے ہیں۔

ہر انفرادی محنت کش کی محنت کسی نہ کسی حساب سے مجموعی اجتماعی محنت کا حصہ ہوتی ہے ۔اس طرح محنت کش خود آپس میں محنت کے مخصوص رشتوں میں بندھتے ہیں۔ ایسی صورت میں بھی جب کہ کوئی کام بظاہر خارجی سطح پر مکمل طور پر آزاد نظر آتا ہے اور دوسرے محنت کشوں کی محنت سے علیحدہ اور کٹا ہوا نظر آتا ہے تب بھی وہ دوسروں سے بندھا ہوتا ہے ۔مثلا کسی انفرادی کارخانے ،کسی انفرادی کسان یا دستکارکی محنت بظاہر دوسروں سے کسی رشتے میں مربوط نظر نہیں آتی لیکن گہرائی سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان صورتوں میں بھی محنت کش پیداواری لوگوں کے درمیان رشتے اور تعلقات موجود ہیں۔

مشترکہ، اجتماعی پیداواری سرگرمی محنت کی تقسیم اور محنت میں تعاون کی مختلف شکلوں کے زریعے روبہ حقیقت ہوتی ہے۔ مشترکہ پیداواری سرگرمی میں محنت کی تقسیم کا عمل سب سے پہلے بڑوں اور بچوں ،مردوں اور عورتوں کے درمیان کاموں کی تقسیم و تخصیص کی صورت میں نمودار ہوا۔ رفتہ رفتہ محنت کی یہ تقسیم ارتقاء پا کر محنت کی تقسیم کی اجتماعی صورت اختیار کر گئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر محنت کش کسی ایک مخصوص چیز یا اس کے مختلف اجزاء کی تیاری میں اختصاص کرتا تھا۔ یا پھر وہ کسی تیارشدہ چیز کی صناعی میں کوئی ایک عمل سرانجام دیتا تھا۔مثلا وہ روئی کاتتا تھا یا کپڑا بنتا تھا ۔ہمارے زمانے میں آج کل دو قسموں کی اجتماعی تقسیمِ محنت موجود ہے: معاشرے کے اندر محنت کی تقسیم اور کارخانے کے اندر محنت کی تقسیم۔ معاشرے کے اندر محنت کی تقسیم کا مفہوم یہ ہے کہ پیداوار کو بڑے بڑے شعبوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔مثلا کان کنی ،مصنوعات ،زراعت،ٹرانسپورٹ وغیرہ کے شعبے۔ ان میں ہر ایک شعبہ مزید چھوٹی شاخوں میں تقسیم ہے۔ چنانچہ زراعت میں فصلوں کی کاشت، مویشیوں کو پالنا وغیرہ اور ان میں خود مویشیوں کےپالنے پوسنے کا شعبہ خود دودھ، مکھن ،پنیر وغیرہ کے شِیرخانوں و، سووروں کی پرورش و پرداخت،اور مرغی خانوں وغیرہ میں منقسم ہے۔ خود کار خانے کے اندر مختلف کارگاہوں اور مقامات ِکار میں ایک جانب اور مزدوروں اور انجنیئروں میں دوسری جانب کام کی تقسیم ہوتی ہے۔

تعاونی محنت، محنت میں تعاون کی وہ شکل ہے جس میں کسی ایک ہی پیداواری عمل میں بہت سارے لوگ ایک ساتھ حصہ لیتے ہیں یا پھر وہ مختلف مگر باہم مربوط کاموں میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں اور ان سب کی محنت میں ایک توازن ہوتا ہے۔ محنت میں تعاون کی یہ شکل بہت قدیم ہے۔مثلا، قدیم اشتمالی (کمیونسٹ) برادری کے لوگ شکار یاماہی گیری کے لیے اکھٹا کام کرتے تھے ۔غلام دارانہ دور میں اہراموں، عالی شان عمارتوں، آبپاشی کے نظاموں، سڑکوں اور عالیشان یادگاروں کی تعمیر میں ہزارہاغلاموں نے ایک ساتھ کام کیا۔ مشینی پیداوار کے دور میں محنت میں تعاون اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔ جدید کارخانے محنت کی تعاونی شکل کے بل پر ہی چلتے ہیں۔

Leave a Comment