ملکیت کیا ہے؟ (ساتویں قسط)

باب دوئم

ذرائع پیداوار کی ملکیت اور پیداواری رشتوں کے نظام میں اس کا مقام

ملکیت مادی اقدار کے اکتساب میں ایک رشتے کی حیثیت رکھتی ہے۔

پیداواری (یا معاشی) رشتوں کے ہر مرحلے (پیداوار ،تبادلے، تقسیم اور اصراف) کے دوران مادی اقدار یعنی زرائع پیداوار اور ثمرات محنت کا اکتساب کیا جاتا ہے۔

ملکیت ہی لوگوں کو مادی اقدار کے اکتساب کا طریقہ کار اور صورتیں فراہم کرتی ہے۔ ملکیت ایک عام لفظ ہے جس کے روزمرّہ استعمال میں وہ تمام معروض اور مادی اقدار مراد ہوتی ہیں جو کسی کی تحویل میں ہوں۔ لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ وہ چیزیں جو میرے پاس ہیں میری ملکیت ہیں۔ تاہم اس روزمرہ مفہوم سے قطع نظر علمی معنی میں ملکیت سے نہ ہی کوئی شے مراد ہے نہ ہی اس سے کسی شے کے ساتھ کسی شخص کا کوئی رشتہ مراد ہوتا ہے۔

اگرچہ ملکیت کا ہمیشہ ہی اشیاء سے تعلق ہوتا ہے تاہم اشیاء بذاتہی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ اشیاءمحض ایسے معروض ہیں جن کا اکتساب کیا جاسکتا ہے۔ علمی معنی میں ملکیت اجتماعی پیداوار کے شرکاءکے مابین ایک ایسا معاشی رشتہ ہے جو یہ تعین کرتا ہے کہ ذرائع پیداوار اور ثمرات محنت پر مبنی مادی اقدار کا اکتساب کون کرے گا ۔یہ کس کے ہاتھوں میں جائیں گی۔

کیونکہ ملکیت مادی اقدار کے اکتساب سے متعلق لوگوں کے مابین ایک رشتہ ہے اس لئے ملکیت کے تصور میں ہمیشہ یہ بات مضمر ہوتی ہے کہ افراد ،لوگوں کے گروہوں، طبقوں یا بحیثیت مجموعی معاشرے کی شکل میں ایسے موضوع موجود ہوتے ہیں جو اکتساب کرتے ہیں۔ ملکیت میں چونکہ اکتساب کا عمل ہے اس لیے یہ محض کسی رسمی صوری قانونی کارروائی کا نام نہیں، اگرچہ ہمیشہ ہی اس کا ایک اظہار قانونی ضابطے کی کارروائیوں میں بھی ہوتا ہے اور یوں ملکیت حق ملکیت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مادی اقدار کا اکتساب بنیادی طور پر ایک حقیقی معاشی عمل ہے جس کے دوران ملکیت کا مالک (یعنی وہ موضوع جو مادی اقدار کا اکتساب کرتا ہے) ان اقدار پر قدرت حاصل کرتا ہے اور ان کو مختلف معاشی مقاصد اور عملوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔مثلا زرائع پیداوار کو مادی اقدار کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور مخصوص معاشی حالات میں انہی زرائع پیداوار کو دوسروں کی محنت کو ہتھیانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، جبکہ اشیائے صرف کو انواع واقسام کی ضروریات کی تشفی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

چنانچہ معاشی معنی میں ملکیت مادی اقدار کے اکتساب یا کسی شے کو ہتھیانے کا نام ہے اور اس کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ اس شے کا مالک اس شےکا انتظام و انصرام کرتا ہے اور اس کو افزائش پیداوار کے کسی ایک یا دوسرے عمل میں استعمال کرتا ہے جبکہ غیر مالکان نہ تواس شے سے متعلق معاملات کو چکا سکتے ہیں اور نہ ہی اسے استعمال کر سکتے ہیں۔

نتیجتا “میری چیز” کے تصور کا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز پر اس تصور کا اطلاق ہوتا ہے وہ چیز میری قدرت میں ہے اور”میں” اس سے معاشی استفادہ کر سکتا ہوں ۔جبکہ دوسرے اس کا اکتساب نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ان کی چیز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ “میری چیز” کا تصور صرف اسی صورت میں کسی معانی کا حامل ہو سکتا ہے جبکہ وہ چیز اسی لمحے کسی دوسرے کی نہ ہو۔ جبکہ” ہماری چیز” کے تصور کا مفہوم یہ ہے کہ اس شے کا اکتساب کرنے والے اس پر برابر کی قدرت و اختیار رکھتے ہیں اور اس کو استعمال کرنے کا ان کا حق بھی مساوی ہے۔

ملکیت اجتماعی پیداوار کے تمام شرکاء پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے اور( نجی ملکیت کی صورت میں)یہ ان تمام لوگوں کا احاطہ کرتی ہے جو اکتساب کے عمل کے موضوع ہو ں چاہے وہ اس کا اکتساب کریں یا نہ کریں۔ جب کوئی چیز اجتماعی ملکیت میں ہو تو پورا معاشرہ بحیثیت مجموعی اور تمام افراد اس شے کا اکتساب کرتے ہیں اور کوئی فرد ایسا نہیں رہتا جو اس کااکتساب نہ کرتا ہوں۔

یہ مسئلہ معاشی نظریے اور سیاسی معیشت میں محور کی حیثیت رکھتا ہے کہ زرائع پیداوار اور ثمرات محنت کو کون سے لوگ ہتھیا سکتے ہیں۔ باالفاظ دیگر ان کے مالک و آقا کون ہیں؟

کسی اجنبی گھر میں داخل ہوتے وقت ہم سب سے پہلے یہی جاننا چاہتے ہیں کہ اس گھر کا مالک کون ہے چونکہ گھرکے طور طریقوں اور ماحول کا انحصار اسی مالک پر ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کسی معاشرے کے طور طریقے کیا ہیں، یہاں کا معاشی نظام کیا ہے، تو ہمیں سب سے پہلے یہ جاننا پڑے گا کہ یہاں اکتساب کا موضوع کون ہے یعنی یہاں پر کون لوگ ذرائع پیداوار اور ثمرات محنت کو ہتھیاتے ہیں۔ بلاشبہ سیاسی معیشت اس آقا کے شخصی کو ائف یا اس کی اسناد میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ آقاؤں کی سماجی انواع و اقسام کا مطالعہ کرتی ہے اور ملکیت یااشیاء کو ہتھیا کر اپنا بنانےکے طور طریقوں کی غالب طور پر مروج اصناف کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔

اکتساب کے معروضوں کی نوعیت کے حساب سے ،یعنی ان اشیاء کے لحاظ سے جن کو ہتھیایا جاتا ہے، ملکیتی رشتوں میں دو اقسام کے رشتے شامل ہیں ۔اشیاء اور دیگر مادی اقدار ہمیشہ ہی ہتھیانے یا اکتساب کے اس عمل کے مفعول یا معروض ہوتے ہیں تاہم معاشی اعتبار سے انہیں دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اول تو وہ ذرائع پیداوار ہیں جن سے پیداوارمشروط ہے اور دوئم وہ ثمرات محنت یا محنت کے نتیجے میں تیار ہونے والی وہ اشیاء ہیں جو پیداواری عمل کا ما حصل ہوتی ہیں۔

زرعی پیداوار کو ہتھیانے کے ضمن میں لوگوں کے درمیان جو رشتے پیدا ہوتے ہیں وہ ان رشتوں سے مماثل نہیں جو ثمرات محنت کے اکتساب کے ضمن میں رو پذیر ہوتے ہیں۔ زرائع پیداوار کا اکتساب فیصلہ کن اہمیت اور کردار کا حامل ہے چونکہ یہ اکتساب ہی پیداواری قوتوں کے عناصر کو یکجا کرتا ہے اور اس یکجائی کی صورت اور خد و خال متعین کرتا ہے ۔یہ اکتساب ہی ذرائع پیداوار اور قوت محنت کو ایک جگہ پر اکٹھا کرتا ہے۔

ذرائع پیداوار پر ملکیت کی نوعیت ہی پیداواری قوتوں کی ترقی کا سماجی ہدف متعین کرنے کے علاوہ ان کی غایت مقرر کرتی ہے چونکہ ذرائع پیداوار اپنے مالکان کے معاشی مفادات کی تشفی کے لئے ہی استعمال ہوتے ہیں ۔اس لیے اہم سوال یہ ہے: پیداواری رشتوں کے کسی موجود نظام میں پیداواری قوتوں کے ارتقاءکے اغراض کیا ہیں؟زرائع پیداوار کےاس مالک کے مقاصد و اہداف کیا ہیں جو ان زرائع پیداوار کے استعمالات کا انتظام و انصرام کر رہا ہے؟

مثلا اپنی تحویل میں موجود زرائع پیداوار کو استعمال کرتے وقت سرمایہ دار کا معاشی مفاد یہ ہوتا ہے کہ وہ اجرتی محنت کا استحصال کر کے منافع بنائے لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں ذرائع پیداوار پورے معاشرے کی ملکیت ہوں وہاں زرائع پیداوار پورے معاشرے اور معاشرے کے تمام اراکین کی متنوع ضرورتوں کی تسکین کے لیے استعمال ہوں گے۔ آخرالذکر اکتسابی عمل کی نوعیت ہی اجتماعی پیداوار کی حرکت کی سمت متعین کرتی ہے۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے نظام میں اس کی ترقی کی سمت بے ہنگم رہتی ہے جبکہ ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت میں اس کی ترقی متوازن ہوتی ہے۔

پس ذرائع پیداوار کی ملکیت اکتسابی رشتوں کے دوسرے تانوں بانوں مثلا ثمرات محنت کو ہتھیانے سے متعلق رشتوں کے مقابلے میں زیادہ بنیادی پیداواری رشتوں کو جنم دیتی ہے۔ ثمرات محنت کو ہتھیانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے آخرالذکر رشتے فرعی رشتے ہیں۔یہ رشتے دوسرے رشتوں پر منحصر ہوتے ہیں ۔ثمر ات محنت کی تقسیم، تبادلے اور اصراف کی نوعیت اور شکل و صورت کلیتا ذرائع پیداوار پر قائم ملکیتی رشتوں سے متعین ہوتی ہے۔ چنانچہ اس بات کا انحصار کہ ثمرات محنت کو کو ن ہتھیائے گا اس بات پر ہوتا ہے کہ زرائع پیداوار کس نے ہتھیائے ہوئے ہیں۔ پیداوار کے حاصلات ہمیشہ ہی ذرائع پیداوار کے مالک کی ملکیت ہوتے ہیں۔

ملکیت کے مارکسی موقف کے مقابلے میں ملکیت کی سرمایہ دارانہ تعریف عیاں طور پر غیر علمی اور ملایانہ ہے۔

سرمایہ دار ماہرین ملکیت کو اشیاء کے ساتھ انسان کے رشتے کے بطور دیکھتے ہیں اور اس طرح وہ ملکیت کی اس سماجی نوعیت کو مسخ کر دیتے ہیں جس کے تحت وہ انسانوں کے مابین ایک رشتہ ہے جو یہ متعین کرتا ہے کہ مادی اقدار کو کون ہتھیائے گا اور ایسا کرتے ہوئے وہ نجی ملکیت کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ نجی ملکیت ایک ایسی ابدی حقیقت ہے جو انسانی فطرت کا لازمی خاصہ ہے۔

چونکہ سوشلزم زرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت کاداعی ہے اس لیے وہ اپنے اس زاویہ نگاہ کے تحت سوشلزم پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ سوشلزم ملکیت کے تصورہی کو نابود کرنا چاہتا ہے۔ ان کے نزدیک نجی ملکیت ہی ملکیت کی فطری شکل ہے اور صرف نجی ملکیت ہی کو جینے کا حق ہے۔مارکس اوراینگلز نے 1848ءمیں ہی ان الزامات کا ابطال کر دیا تھا۔ اس وقت انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کے منشور میں زور دیا کہ:”کمیونزم کا مابہ الامتیاز یہ نہیں کہ یہ بالعموم تمام ملکیت کو مٹا دیتا ہے بلکہ اس کا خصوصی وصف یہ ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ ملکیت کا خاتمہ کر دیتاہے۔”(کارل مارکس، فریڈرک اینگلز، مجموعہ تصانیف، جلد6، ماسکو، 1979ء،ص 498۔)

ایک تصور ملکیت یہ ہے کہ ملکیت اشیاء کو ہتھیانے پر مبنی ایک ایسا حیاتیاتی عمل ہے جو تمام جانداروں میں آفاقی طور پر موجود ہے۔ یہ تصور ملکیت بھی سرمایہ دارانہ تصور ملکیت ہی کی ایک ذرا مختلف تصریف ہے۔ اس نظریے کے داعیوں کا موقف یہ ہے کہ زندگی کے لئے تمام ذی حیات موجودات کو فطرت کے موادوں کا اکتساب کرنا پڑتا ہے اور انسان بھی اس ضرورت سے مستثنی نہیں ہو سکتا چونکہ اشیاء اور دیگر مادی اقدار کے اکتساب سے خود اس کی اپنی زندگی بھی مشروط ہے۔ یہ نظریہ اس لیے غیر علمی ہے کہ اس کے حامی اس بنیادی نکتے سے غافل ہیں کہ انسان پہلے سے “تیار” فطری ثمرات کا اکتساب نہیں کرتا بلکہ اجتماعی پیداواری عمل کے ثمرات کا اکتساب کرتا ہے۔ اپنی ضروریات کی تشفی کے لئے کسی چیز کو استعمال کرنے سے پہلے انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسے پیدا کریں( یہ عمل ہمیشہ اجتماعی ہوتا ہے)، اس کی تقسیم کریں، تبادلہ کریں اور پھر ہی وہ اسے استعمال کرسکتے ہیں اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسانوں میں مادی اقدار کے اکتساب کی شرط اول وہ رشتے ہیں جو مادی اقدار کی پیداوار، تقسیم، تبادلے اور اصراف کے دوران ان کے مابین پیدا ہوتے ہیں، اور انسان صرف ان رشتوں کی سماجی بنیاد پر ہی فطرت سے اپنا ربط قائم کرتا ہے۔

Leave a Comment