ملکیت کیا ہے؟ (آٹھویں قسط)

ملکیت کی تاریخی نوعیت

ملکیت مادی اقدارکو ہتھیانے کے ضمن میں پیدا ہونے والے رشتوں کا نام ہے۔ یہ رشتے انسانی تاریخ میں ہمیشہ تغیرات کا شکار رہے ہیں۔ ہر تاریخی دور میں ان کی تاریخی انفرادیت رہی ہے اور ارتقاء کے مختلف مراحل میں انہوں نے مختلف شکلیں اختیار کیں۔ ملکیت کی مختلف تاریخی شکلیں اور منفرد اقسام ہیں۔

انسانی تاریخ مادی اقدار بالخصوص زرائع پیداوار کے اکتساب کی دو اقسام سے آشنا ہے: مشترکہ اجتماعی اکتساب اور افراد کے ہاتھوں نجی اکتساب۔ اکتساب کی ان دونوں اقسام نے مختلف تاریخی شکلیں اختیار کیں۔ چنانچہ ،اجتماعی ملکیت نے قدیم اشتمالی برادرانہ ملکیت کی ایک شکل اختیار کی۔ اس کے تحت برادری کے تمام اراکین زرائع پیداوار کا اکتساب کرتے تھے۔ اشتراکیت کے تحت ملکیت کی دو اشکال رہی ہیں۔ اول لوگوں کی کلیت کی ملکیت جس میں معاشرہ من حیث الکل اور اس کے تمام اراکین ذرائع پیداوار کا اکتساب کرتے ہیں اور دوئم تعاونی زراعتی اور تعاہدی(گروہی) ملکیت جس کے تحت امداد باہمی کے اصولوں پر قائم کسی کو آپریٹو کے اراکین کا تعاونی گروہ زرائع پیداوار کا مشترکہ اکتساب کرتا ہے۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کی بھی مختلف شکلیں رہی ہیں۔غلام دارانہ ،جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ، چھوٹے پیمانے پر اشیائے خریدوفروخت پیدا کرنے والے کسانوں اور ہنرمندوں،کاریگروں وغیرہ کی ملکیت بھی نجی ملکیت ہی تھی۔

ذرائع پیداوار پر ملکیت کی شکلوں کا مختصر تاریخی جائزہ اس عمل کی نشاندہی کر دے گا کہ اجتماعی ملکیت کی قدیم کمیونسٹ شکلیں ملکیت کی وہ پہلی اشکال تھیں جن سے انسانیت واقف تھی۔ اس کے بعد نجی ملکیت کی غلام دارانہ ،جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ شکل وجود میں آئی۔ 1917ء میں روس میں عظیم سوشلسٹ انقلابِ اکتوبر کی فتح کے بعد تاریخ میں پہلی بار ذرائع پیداوار پر ملکیت کی سوشلسٹ شکل منظر عام پر نمودار ہوئی۔

دوسری عالمی جنگ(1939-1945ء) کے بعد متعدد یورپی ،ایشیائی اور امریکی ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کے نتیجے میں تمام سوشلسٹ ممالک میں اجتماعی ملکیت کا غلبہ قائم ہو گیا۔

چنانچہ زرائع پیداوار پر ملکیت کا ارتقا درج ذیل تاریخی مراحل سے گزرا :قدیم کمیونسٹ برادری کی اجتماعی ملکیت، نجی ملکیت کی تین شکلیں، اجتماعی ملکیت کی سوشلسٹ شکل۔مختصرا، اس سفر کی سمت یہ رہی:اجتماعی، نجی، اجتماعی ملکیت۔

کیا ارتقاء کی یہ سمت حادثاتی تھی؟ اس عمل کے بنیادی اسباب کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم دیکھیں گے کہ نہیں یہ قطعا حادثاتی نہیں تھی۔

چونکہ، جیسا کہ ہم نے پہلےدیکھا ،پیداواری قوتیں طریقِ پیداوار کا مواد ہیں جبکہ پیداواری رشتے ان کے ارتقاء کی سماجی شکلوں کی صورت گری کرتےہیں، اس لیے پیداوار کی سماجی شکل یعنی پیداوری رشتوں کا ارتقاء اوران پیداواری رشتوں میں بنیادی معاشی رشتے یعنی ذرائع پیداوار پرملکیت کے رشتوں کے ارتقاء کی سمت پیداواری قوتوں کے ارتقاء سے ہی متعین ہوتی ہے۔اس سے یہ منطقی اورناقابلِ تردید نتیجہ خودبخود برآمد ہوتا ہے کہ ملکیت کےمختلف مراحل کے ارتقاء کا انحصار پیداواری قوتوں کی ترقی پر ہے۔

یہ نتیجہ تاہم بہت عمومی ہے۔چونکہ پیداواری قوتیں آگے کی جانب بڑھتی ہیں اس لیے ہرمرحلے پر وہ پہلے کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ ہوں گی۔

چناچہ غلام دارانہ نظام کی پیداواری قوتیں قدیم کمیونسٹ برادری کی پیداواری قوتوں کی نسبت اگلا قدم تھیں۔ جبکہ سرمایہ دارانہ پیداواری قوتیں جاگیردارانہ پیداواری قوتوں کے مقابلے میں ایک عظیم چھلانگ کی عکاسی تھیں۔ پیداواری قوتیں متواتر آگے بڑھتی رہتی ہیں۔ ان کی سطح بلند ہوتی رہتی ہے مگر ایک مرحلے پر وہ ذرائع پیداوار کی اجتماعی (قدیم کمیونسٹ برادرانہ) ملکیت سے نجی ملکیت کی جانب پیش قدمی کرتی ہیں۔ جبکہ دوسرے مرحلے پر وہ بالکل برعکس عمل کا پیش خیمہ ہو جاتی ہیں اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت سے اشتراکی اجتماعی ملکیت کی جانب سفر کا باعث ہوتی ہیں۔

چنانچہ صرف پیداواری قوتوں کی ترقی کی سطح کی بلندی ہی کو ذرائع پیداوار کی ملکیت کی مرحلہ وار بدلتی ہوئی شکلوں کا واحد سبب قرار نہیں دیا جاسکتا۔

آلات محنت یعنی اوزار، مشینیں، سازو سامان وغیرہ پیداواری قوتوں کے کلیدی عناصر ہیں اور ان کی ترقی کی سطح ہی فطرت پر انسان کی قدرت کی علامت ہونے کے علاوہ خود قوتِ محنت کی ترقی اور انسانی معاشرے کی مجموعی پیداواری صلاحیتوں کا معیار فراہم کرتی ہے۔ ساتھ ساتھ یہ آلات محنت پیداواری قوتوں کے سب سے زیادہ متحرک عناصر بھی ہیں اور ہر تاریخی دور میں ان کی ترقی کی سطح ہی پیداوار کی ترقی کے مرحلے کی اوصاف متعین کرتی ہے ۔

دستیاب آلاتِ محنت ہی اس امر کا تعین کرتے ہیں کہ لوگ کا م مشترکہ طور پر کریں گےیا انفرادی طور پر۔ اس معنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ محنت کے اوصاف کا انحصار آلاتِ محنت کے اوصاف پر ہے یعنی اس بات پر ہے کہ یہ آلاتِ محنت مشترکہ محنت کے متقاضی ہیں کہ انفرادی محنت کے۔

قدیم انسان کو پتھر اور ڈنڈے جیسے ابتدائی آلات دستیاب تھے ۔یہ آلات اتنے ناقص تھے کہ ان کی مدد سے کوئی بھی شخص تنہا کوئی قابلِ ذکر نتیجہ حاصل نہ کر سکتا تھا۔ مثلا وہ ان کی مدد سے بڑے جانور کا شکار کرنے کے قابل نہ تھا۔ لیکن لوگ ان کو مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہوئے بڑے جانوروں کو ہانکا دے کر اسے کسی مخفی گڑھے میں گرا کر پھر اسے پتھروں اور ڈنڈوں سے مار سکتے تھے۔ چنانچہ انسان کے ابتدائی آلات کی قدیم کمیونسٹ نوعیت نے مشترکہ محنت کا تقاضہ کیا۔ آلات محنت کے مشترکہ استعمال یعنی مشترکہ محنت سے ایک لازمی نتیجہ یہ اخذ ہوا کہ ان آلات کا مشترکہ اکتساب ہو۔ نتیجے کے طور پرذرائع پیداوار کے اکتساب کی پہلی تاریخی شکل یا یوں کہیے کہ ملکیت کی پہلی شکل پیداوار پر قدیم کمیونسٹ برادری اور اس کے تمام اراکین کی مشترکہ ملکیت کی صورت میں ہی سامنے آئی۔

تاہم ان تمام اختلافات کے باوجودذرائع پیداوارپرقدیم کمیونسٹ برادرانہ ملکیت اورسوشلسٹ اجتماعی ملکیت دونوں ہی ملکیت کی ایک ہی قسم یعنی اجتماعی مشترکہ ملکیت کی اقسام ہیں۔ ملکیت کی یہ قسم ذرائع پیداوارکے اکتساب کی اس انفرادی صورت کو سرے سے خارج کردیتی ہے جو دوسرے افرادکو ذرائع پیداوار سے محروم کردیتی ہے یعنی ملکیت کی اجتماعی صورت سے ان رشتوں کو ناجائزقراردے دیتی ہے جو انسان کےہاتھوں انسان کے استحصال کا باعث ہیں۔

پیداوار کے دوران انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کی زیادہ سے زیادہ تسکین کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اشیاء کی پیداوار کرے۔چنانچہ وہ اپنے اوزاروں کو بہتر بناتا ہے۔ یہی وہ عمل تھا جس نے قدیم اشتمالی مرحلے پر ان اوزاروں کو انفرادی بنانا شروع کردیا۔ انفرادی اوزاروہ اوزار ہیں جو فرد کے تنہا کام کے لیے سب سے زیادہ کارآمد ہوں۔بلاشبہ قدیم انسان کے ایجاد کردہ کچھ اوزار مثلا تیرکمان، ظروف ساز پہیہ،یا جولاہے کا برچھا وغیرہ ایسے اوزارتھے جن پر صرف انفرادی کام سے بہترنتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

Leave a Comment