مصنف: اعجاز احمد
مترجم: شاداب مرتضی
نوٹ: اعجاز احمد انڈیا کے معروف مارکسی دانشور اور سیاسی مبصرتھے جوپچھلے سال مارچ (2022ء) میں انتقال کرگئے۔ان کازیرنظرمقالہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ) کی جانب سےمرکزی کمیٹی ممبران کےلیے منعقد پارٹی اسکول میں “مابعد جدیدیت پر” کےعنوان سے پیش کیا گیا تھا اورنظریاتی سیاسی جریدے “مارکسسٹ” کے جنوری-مارچ2011ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔
مابعد جدیدیت‘ کے بارے میں بات کرنے میں پہلی مشکل یہ ہے کہ یہ ایک بہت ہی غلط لفظ ہے، جس کے معنی مختلف سیاق و سباق میں بدلتے رہتے ہیں۔ منطقی طور پر، اسے ‘جدیدیت’ کے ‘بعد’ کے طور پر شمار کیا جانا چاہیے، یعنی جیسا کہ جدیدیت کے بعد ہوتا ہے۔ اب جدیدیت کی اصطلاح صرف ادب اور فنون میں تحریکوں اور ارتقاء سے تعلق رکھنے والے ایک گروہ کے حوالے سے استعمال کی جاتی ہے۔ ان میں ایسی تحریکیں شامل ہیں جیسے کیوب ازم، حقیقت پسندی، وغیرہ، اور ایسے مصنفین جیسے کہ جوائس، پروسٹ، یا ایلیٹ۔ مابعد جدیدیت کی اصطلاح کا مطلب اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا اطلاق بہت سے فلسفیوں پر اور بھی زیادہ کثرت سے ہوتا ہے جیسے کہ لیوٹارڈ، فوکالٹ، ڈیریڈا، جو کہ سب سے مشہور ہیں اورجن کا تصادم جدیدیت سے نہیں ہے (وہ سب جدیدیت پسند فن کی تعریف کرتے ہیں) بلکہ روشن خیالی اور اس کی بنیادی وراثت سے اور خاص طور پر مارکسزم سے ہے۔
ہم آرٹ اور ادب میں مابعد جدیدیت کے مسئلے کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ فلسفیانہ مابعد جدیدیت زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ خود کو نہ صرف مارکسزم کے فلسفیانہ متبادل کے طور پر پیش کرتی ہے بلکہ سیاست کے ایک بالکل نئے (‘پوسٹ مارکسسٹ’) عمل کے طور پر بھی۔ ہمیں بنیادی طور پر مابعد جدیدیت کے نظریاتی اور فلسفیانہ موقف کے سیاسی مضمرات پرغورکرنا چاہیے۔
مزید برآں، لفظ ‘مابعدجدیدیت’ کا تعلق ‘مابعد جدیدیت دور’ جیسی اصطلاحات سے بھی ہے (اس تناظر میں اسے سب سے پہلے امریکی ماہر عمرانیات سی رائٹ ملز نے 1959ء میں استعمال کیا)۔ اس کے علاوہ ‘مابعد جدیدیت حالات’ (لیوٹارڈ کی انتہائی بااثر کتاب کا عنوان،جو 1979ءمیں شائع ہوئی) اور ‘مابعد جدیدیت’ (جیسا کہ ڈیوڈ ہاروے کی 1989ء کی شاندار کتاب،’مابعدجدیدیت کےحالات’ کے عنوان میں ہے)۔ اس طرح کے تمام استعمالات میں، اصل تاریخ کے مراحل کے طور پر، ‘جدیدیت’ اور ‘مابعد جدیدیت’ کے درمیان فرق کیا جاتا ہے۔ جدیدیت سے عام طور پر مراد فلسفے، ریاستوں، سیاسی شکلوں، صنعتی معیشتوں، سرمایہ دارانہ معاشروں اور انقلابی نظریات ہیں جو خاص طور پر یورپ اور اس کے شمالی امریکی شاخوں میں پیدا ہوئے، اول اس وجہ سے کہ جدید سوچ پر روشن خیالی کے اثرات پڑے، دوئم فرانسیسی انقلاب کے سیاسی اثرات کی وجہ سے اورسوئم صنعتی انقلاب (انقلابات) کے ذریعے رونما ہونے والی سماجی و اقتصادی تبدیلیوں کی وجہ سے۔
مابعد جدیدیت کا تصور اس خیال پر منحصر ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سرمایہ داری کی فطرت میں کوئی بہت ہی بنیادی چیز مکمل بدل گئی، اوربہت تیزی سے بدلی اوراس لیے سرمایہ دارانہ معاشروں میں اوراس سیاست میں جو ایسے معاشروں کے لیے موزوں ہے کافی بنیادی تبدیلی آئی۔ مابعد جدیدیت کی اس قسم کی بحث کا تعلق بنیادی طور پر معاشی، سماجی اور تکنیکی نوعیت کی تبدیلیوں سے تھا جس کے سیاست کی جدید شکلوں کے لیے دور رس نتائج تھے۔
پہلا حصہ:بین الاقوامی مابعد جدیدیت
ہمیں اس ٹھوس تاریخی تناظر کی تفصیلی وضاحت کے ساتھ آغاز کرنا چاہیے جس میں یہ نظریات پہلے امریکہ اور پھر فرانس میں سامنے آئے اورپھر دنیا بھر میں پھیلے۔ بہت سے فلسفیانہ نظریات کی یقیناً اپنی ایک نیم خود مختار تاریخ ہے۔ مثال کے طور پر، یہ بالکل ممکن ہے کہ ڈیریڈا کے فلسفے کا بڑا حصہ کارٹیشیائی عقلیت پسندی کی تنقید کے طور پر پڑھا جائے — اور اسے فی الحال اسی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ لیکن ڈیریڈا، کارل مارکس پر ایک کتاب کا مصنف بھی ہے اور مسلسل سیاسی بیانات دیتا رہتاہے۔ یہ عمومی طور پر مابعد جدیدیت کے بارے میں سچ ہے۔ اس طرح کے نظریات کی سیاسی اصلیت اور کردار کو سمجھنے کے لیے سیاق و سباق کی اچھی تفہیم ضروری ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مابعد جدیدیت 1950ء کی دہائی میں غیر معمولی سرمایہ دارانہ استحکام اور خوشحالی کے دور میں پیدا ہوئی۔ فرانس میں یہ ایک دہائی بعد، مزدور تحریک اور وسیع بائیں بازو کی جامع شکست کے بعد نمودار ہوئی اور مابعد جدیدیت کے امریکی نظریات سےاس نے بہت کچھ مستعار لیا۔ یہ قومی ماخذات ان خیالات کے کردار کی وضاحت کرنے میں مدد کرتے ہیں، حالانکہ اس وقت وہ ماورائے تاریخ دعوؤں کے ساتھ عالمگیریت حاصل کر چکے تھے۔
ہم میں سے اکثر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ‘مابعد جدیدیت’ کی اصطلاح حال ہی کی ہے اور اس سے مراد فرانسیسی نظریات کا مجموعہ ہے۔ مگرحقیقت میں یہ اصطلاح برطانیہ کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکہ میں بھی کم از کم 1870ء کی دہائی سے چلی آ رہی ہے، لیکن بہت مختلف معنی کے ساتھ، جنہیں ہم نظر انداز کر دیں گے۔ بنیادی معنی جس میں اب یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے اسے بڑے پیمانے پر امریکی ماہرین سماجیات اور ان کے ساتھیوں نے 1950ء کی دہائی کے دوران، سرد جنگ کی پہلی دہائی کے دوران،استعمال کیا ، خاص طور پر مارکسزم اور طبقاتی جدوجہد کے تصور کو ختم کرنے کے مقصد سے۔ ان امریکی خیالات کو فرانسیسی مفکرین کے ایک گروہ نے اس وقت اپنایا جب 1967-1969ءکے دور میں بائیں بازو کی بحالی کو پورے یورپ میں شکست دی جاچکی تھی۔ فرانسیسی فلسفے کی زبان میں مناسب طریقے سے دوبارہ مرتب کرکے یہ نظریات پھر اینگلو سیکسن ملکوں کو واپس کردیئے گئےاورانہوں نے وہاں کی یونیورسٹیوں پر غلبہ حاصل کرناشروع کردیا اور پھر وہاں سے انڈیا جیسے ملکوں میں پھیل گئے۔
وہ کون سا تناظرتھا جس میں ان امریکی خیالات کو جمع کیا گیا تھا؟ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے غالب عالمی طاقت کے طور پر ابھرا تھا۔ وہاں مکمل روزگارتھا، جنگ سے متعلق بے پناہ تکنیکی ترقی (ایٹم بم، کمپیوٹر، ٹیلی کمیونیکیشن، ہوا بازی وغیرہ میں بڑی ترقی)ہوئی تھی، تاریخی طور پر بے مثال مالی وسائل موجودتھے، اور عملی طور پر، مغربی یورپ سمیت،اس کے پاس پوری دنیا کو کمانڈکرنے کی صلاحیت تھی۔ اگلی دو دہائیوں کے دوران، امریکہ نے دنیا کا سب سے طاقتور یونیورسٹی سسٹم تیار کیا، جسے مجموعی طور پر عالمی سرمایہ داروں کے لیے خیالات کی پیداوار کرنا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکی زیر قیادت عالمی سرمایہ داری نے اپنی خوشحالی کے طویل ترین دور کا اور تاریخ میں اس کی پائیدار ترقی کی بلند ترین شرحوں کا تجربہ کیا، جو درحقیقت پیداوار، انتظام اور مواصلات کے ڈھانچے میں وسیع تبدیلیوں کا باعث بنیں۔ براعظم یورپ کے برعکس، امریکہ میں کبھی بھی طاقتور کمیونسٹ تحریک یا مارکسی نظریات کی ثقافت نہیں تھی۔ گھریلو طورپرقدامت پسنداور سیاسی طور پر پرسکون اور اپنے مستقبل کے بارے میں بے حد پر امید امریکہ خوشحالی کی ایک لہر پر سوار تھا جس سے ان چیزوں نے جنم لیا جنہیں مختلف انداز سے ماس کلچر، متمول معاشرہ، پوسٹ ماڈرن سوسائٹی، پوسٹ انڈسٹریل سوسائٹی اور انفارمیشن سوسائٹی،اور ایکٹو سوسائٹی وغیرہ کہا گیا۔ اب یہ بات عموما بھلا دی جاتی ہے کہ فرانسیسی بننے سے بہت پہلے’پوسٹ ماڈرن’ جامع طور پر امریکی تھا۔
(’اس اصطلاح کے امریکی استعمال کے دو پہلو تھے۔ اس کا ایک بہت بڑا حصہ ادب، ثقافت، فنون لطیفہ سے وابستہ تھا۔اسے ہم یہاں نظر انداز کر دیں گے۔ دوسرے پہلو کا تعلق سائنس اور ٹیکنالوجی، معاشی پیداوار کے طریقوں اور سماجی تنظیم سے تھا۔ اس دوسرے بیانیےکے مرکز میں ایک ہیرو تھا: کمپیوٹر۔ اس ہیرو کے کارناموں کے سب سے زیادہ بااثر راوی ماہرین عمرانیات، سائبر نیٹکس کے ماہرین، پاپولر سائنس کے مصنفین تھے۔ اور ایک مرکزی عقیدہ: جدید ترین ٹکنالوجیوں سے تبدیل ہوکر سرمایہ داری نے آخر کار وہ خوشحالی پیدا کر دی تھی جس کا اس نے ہمیشہ وعدہ کیا تھا،یہ خوشحالی یہاں قائم رہنی تھی، اور یہ فطری تھا کہ غریبوں کو بھی جلد یا بدیر اس میں سے حصہ ملے گا۔ اس عقیدے کا انتظام ایک مخصوص چیز کے ذریعے کیا گیا:بے مثال خوشحالی کے دورمیں درمیانے طبقے(مڈل کلاس) کی وسیع توسیع کے ساتھ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ فلاحی ریاست۔سوشل سائنسوں میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ امریکہ بنیادی طور پر درمیانے طبقے کا معاشرہ ہے اور مزدورطبقہ، اپنے گھر کی ملکیت اور ذاتی گاڑیوں کے ساتھ، درمیانےطبقے کا حصہ بن چکا ہے۔ اس کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا کہ جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ مزدوروں کی آمدنی درمیانے طبقے جیسی ہوتی جائے گی، کمیونسٹ سیاست غیرمتعلقہ ہوجائے گی:(الف) تیز رفتار اقتصادی ترقی کی وجہ سے،(ب) پیداوار کی تقسیم نوکےکینیزی طریقہ کار اور مکمل روزگارکی فراہمی سے، اور(ج) سرمائے اور محنت کے درمیان نئے معاہدے سے جس کے ذریعے پیداواری صلاحیت میں اضافہ اجرتوں میں اضافے کی شکل میں ظاہر ہوگا۔