مصنف: اعجاز احمد
مترجم: شاداب مرتضی
تیسرا حصہ
آئیے اب مابعد جدیدیت کے کچھ تضادات اور المیوں کو دیکھیں جو اس میں دائمی طورپرموجود ہیں۔
پہلا المیہ جو مجھے حیران کرتا ہے وہ یہ ہے کہ انڈیا اورچین جیسے ملکوں میں اسے بڑی پذیرائی حاصل ہے۔مابعدجدیدیت کے سماجی اورمعاشی تجزیوں کے تمام بنیادی قیاسات جدید سرمایہ داری کے ساختیاتی ڈھانچوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ انڈیا کے نقطہ نظرسے دیکھا جائے تو یہ بات غیرمناسب لگتی ہے کہ مابعد جدیدیت کا اطلاق ان معاشروں پرہوسکے جو حتی کہ انیسویں صدی کے برطانیہ، یا فرانس یا جرمنی کے معیارات کے مطابق بھی جدید نہیں ہیں۔ نہ ہی غالب زرعی معاشروں میں مابعد صنعتی(پوسٹ انڈسٹریل )ہونا ممکن ہے۔
صنعتی مزدورطبقے کا واضح زوال مابعد جدیدیت کا مرکزی خیال ہے۔ مگر یہاں بھی اس بات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چین کی آبادی کےحجم اورحالیہ برسوں میں اس کی سریع صنعتکاری کے پیش نظر، وہاں محض تین دہائیوں میں صنعتی پرولتاریہ کی اس قدر بڑی توسیع ہوئی ہے جوشاید صنعتی انقلابوں کے دوران پورے یورپ میں نہیں ہوئی۔ملکوں کی ایک چھوٹی سی تعداد نے جن میں مشرقی اورجنوبی ایشیاءکے ممالک بشمول انڈیا، برازیل اورارجنٹینا، وغیرہ شامل ہیں، انہوں نے مغرب کی تمام تاریخ سے زیادہ محنت کشوں کی پرولتاریہ میں منتقلی کے وسیع تر عمل کا تجربہ کیا ہے، اوریہ اسی نصف صدی کے دوران ہوا ہے جس میں یونیورسٹی کی تعلیم کے اعلی تردرجوں میں مابعدجدید خیالات نے عروج حاصل کیا ہے۔
جہاں تک اس عظیم خوشحالی اورگھر اوراشیائے صرف کی عمومی ملکیت کی بات ہے جس کی فراہمی سرمایہ داری سے منسوب کی جاتی ہے، تو حقیقت یہ ہے کہ (الف) یورو-امریکی خطے سے باہر موجود لوگوں کی کثیراکثریت نے اس قسم کی چیز کا کبھی تجربہ نہیں کیا، اور(ب) اس قسم کی ملکیت، بشمول مزدورطبقوں کے لیے گھرکی ملکیت ہی دراصل وہ چیز ہے جسے یورپ اورجنوبی امریکہ میں سرمایہ دارطبقے کے موجودہ حملوں کے ذریعے تحلیل کیا جارہا ہے۔ اوراگرقرضداری نظام “صارفوں کا معاشرہ” یا “خوشحال معاشرہ” وغیرہ بنانے کے لیے ایک عظیم قوت محرکہ تھا تو دراصل واقعہ یہ ہے کہ نجی اورریاستی قرضوں کاحجم ہی وہ چیز ہے جو خود ہماری آنکھوں کے سامنے امریکی خوشحالی کے پورے دورکو اختتام کی طرف لارہا ہے۔
یہاں ہم اس احمقانہ تصور کو نظرانداز کردیں گے کہ متحدہ امریکہ میں سرمایہ دارطبقہ غائب ہوگیا ہے۔ لیکن اس کے مخالف تصور کے بارے میں ہمیں کچھ کہنا چاہیے۔ میں پہلے ہی نشاندہی کرچکا ہوں کہ تیسری دنیا کے متعدد ملکوں میں گزشتہ نصف صدی میں پرولتاریہ کا پھیلاؤ اس قدرزیادہ ہوا کہ حقیقتا اورتاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔مزید برآں،امریکہ میں صنعتی مزدورطبقے کا ڈرامائی تنزل دراصل امریکی معیشت میں مینوفیکچرکے عمومی زوال کا اشاریہ ہے، اوریہ زوال خوشحالی کا نشان ثابت نہیں ہورہا بلکہ درحقیقت امریکہ کی معاشی طاقت کے زوال کی اصل وجہ ہے۔ یقینا، یورپ کی طاقتورترین معیشتوں میں ، یعنی جرمنی، جہاں صنعتی مزدورطبقہ اب بھی کہیں زیادہ سماجی وزن رکھتا ہے، وہاں یہ معاملہ نہیں ہے۔ایک اورزاویے سے دیکھا جائے تو 1970ء کی دہائی میں ہی، جب مزدورطبقے کی موت کے خیالات اٹلانٹک کے دونوں طرف اڑ رہے تھے، تب ہیری بریورمین نے اپنی عمدہ کتاب،”مزدوراوراجارہ دارسرمایہ داری(لیبراینڈ موناپلی کیپٹلزم)” میں ثابت کیا تھا کہ امریکہ کی نوے (90) فیصد آبادی کے پاس آمدنی پیدا کرنے والی کوئی ملکیت نہیں تھی اوراس کا انحصارصرف تنخواہوں اوراجرتوں کی معیشت پرتھا۔ اس وقت نوکریوں اورآمدنیوں کی شعبہ جاتی تقسیم نے پرولتاریت(مزدوریت)کے ارتکاز کی بہت اعلی سطح دکھائی تھی۔
اسی دوران، کم از کم لینن کےآغاز کے دورسے، کمیونسٹوں نے کبھی یقین نہیں کیا تھا کہ مزدورطبقہ لازما آبادی کی اکثریت بن جائے گا یا انقلابی تبدیلی کا واحد عنصر ہوگا؛ نہ ہی کبھی یہ تصور قائم کیا گیا ہے کہ صنعتی مزدورطبقہ ہی محنت کش طبقے کی وہ واحد قسم ہے جو ہمارے پاس ہے۔پرولتاریہ کو ہمیشہ انقلابی تحریک کا ایک ایسا قائدانہ مرکزہ سمجھا گیا ہے ، جو متعدد دوسری سماجی پرتوں کے علاوہ، لازمی طورپردوسرے استحصال زدہ طبقوں کے ساتھ، جیسے کہ کسان ، زرعی پرولتاریہ اور مینوفیکچر کے علاوہ دوسری شاخوں میں کام کرنے والی محنت کش عوام کے ساتھ، مشترکہ عمل اورتحرک(موبلائزیشن) پرانحصار کرے گا۔ یہ مابعد جدید خیال کہ کمیونزم غیرمتعلقہ ہوچکا ہے کیونکہ صنعتی پرولتاریہ آبادی کی صرف اقلیت پرمشتمل ہے، اورحتی کہ پرولتاری عوام کی اقلیت پر، اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں کہ کمیونسٹ فکر میں صنعتی پرولتاریہ کے کردار کا کیا تصور ہے۔
اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہاں تک مابعد جدیدیت کے سماجی اورمعاشی تجزیوں کا تعلق ہے تو ہم اس فکری نظام کو بنیادی طورپرمغربی، اورخصوصا امریکی ، خوشحالی کے ایک ایسے مخصوص دورکی عکاسی سمجھ سکتے ہیں جس کا مفروضہ یہ تھا کہ خوشحالی کی یہ مخصوص قسم اب مستقل رہے گی۔ مزید برآں، یہ فکری نظام اس نئے اورخوشحال درمیانے طبقے کی طبقاتی جگہ کی کافی درست عکاسی کرتا ہے جو خود اس قسم کی سرمایہ داری کی پیداوار تھی جوعصری سرمایہ داری کی سامراجی بنیاد میں “سرمایہ داری کے سنہری دور”میں 1945ء اور1973ء کے درمیان نمودارہوئی۔یہ طبقہ دراصل “بلبلہ معیشت(ببل اکنامی)” کے اس پورے دور میں فائدے میں رہا جسے سٹے باز سرمایہ 1973ء کے بعد شروع ہونے والی کسادبازاری(ریسیشن) کے رجحانوں کے بعد بھی برقراررکھنے کے قابل تھا۔ مزیدبرآں، ان نظریات کی پیدا وارکرنے والے اہم لوگ ، خواہ ان کا تعلق تیسری دنیا سے ہو، ان ملکوں میں اعلی تعلیم اورثقافتی انتظام کاری کے اداروں میں مرکوز ہونے کا رجحان رکھتے تھے۔ یہ انتہائی مغربی مرتکز(ویسٹوسینٹرک) فکری نظام، مزید برآں، ایک ایسی آفاقیت کے بطورپیش کیا گیا کہ گویا مغرب کے غالب حالات کسی طرح عالمگیرحالات تھے اورمخصوص حالات میں پیدا ہونے والے خیالات گویا آفاقی طورپرمؤثرتھے۔
آخر میں، مابعدجدیدیت کے امریکی اورفرانسیسی دعویداروں میں ایک خاص بنیادی فرق ہے۔ امریکی دعویدار سابق ٹراٹسکائی تھے اورحتی کہ سابق کمیونسٹ، لیکن امریکہ میں مارکسی فکر یا کمیونسٹ سیاست کی کم وبیش کوئی طاقتورروایت نہیں رہی ہے۔اس کے برعکس لبرلزم (آزادخیالی) وہاں غالب رہا ہے۔ان مابعد جدیدیوں کو اس لبرل روایت میں سرمایہ داری کے دفاع کی، سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تعریفی نغموں وغیرہ کی آمیزش میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ فرانس کا معاملہ مختلف تھا۔ وہاں مارکسی فکر اورکمیونسٹ سیاست کی نہایت طاقتور لہر موجود رہی تھی۔ مزیدبرآں، فرانسیسی مابعدجدیدیے 1968ء کی انقلابیت کے وارث ہونے کے دعویدار تھے۔ کرسٹیواایک ماؤاسٹ رہی تھی اور وہ ان چند لوگوں میں سے تھی جو ہر حد تک اینگلو-سیکسن لبرلزم تک گئی (شاید اس لیے کہ وہ دراصل فرانسیسی نہیں بلکہ بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی سفید فام روسی تارک وطن تھی)۔ لیوٹارڈ الٹرا-لیفٹ پس منظر سے آیا تھا اور سوشلسٹ پارٹی کےزیادہ رائٹ ونگ حصے میں داخل ہونے سے پہلے وہ ٹراٹسکائی سے زیادہ لکسمبرگسٹ تھا۔ فوکالٹ اپنی جوانی میں فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کے اتنا قریب تھا کہ یہ اب تک واضح نہیں کہ وہ اس کا رکن تھا یا نہیں۔ ڈریڈا نے کہا کہ رد تعمیر(ڈی کنسٹرکشن) “مارکسزم کو بنیاد پرست”بنانے سے زیادہ کچھ نہیں تھی اوراس نے مارکس کی تعریف میں ایک کتاب لکھی (جس میں اس نے مارکس کی ایسی ترجمانی کی جس سے کوئی مارکسی اتفاق نہیں کرسکتا تھا)۔ ان میں سے اکثرلبرلزم سے نفرت کرتے تھے ،نظریاتی انارکزم (نراجیت) سے استفادہ کرتے تھے اور خود کو مارکس سے زیادہ بنیادپرست کے بطورپیش کرتے تھے۔ مابعد جدیدیوں کا انقلابی بنیاد پرستی کا عمومی دعوی، انڈیا میں اورعالمی سطح پر، انہی کی پیداوار ہے اوراس بات کا دعویدار ہے کہ کمیونزم کافی انقلابی نہیں ہے، کہ اب جس بنیادی سماجی تبدیلی کی ضرورت ہے اس کے لیے مختلف قسم کی سیاست درکار ہے ۔