ریاست کیا ہے؟ (پہلی قسط)
تعارف
تمام لوگ کسی نہ کسی ملک کی حدود کے اندر رہتے ہیں اور ان تمام ملکوں میں کوئی نہ کوئی ریاستی نظام قائم ہے۔
ریاستی سرگرمیاں فرد پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور پورے معاشرے پر بھی۔ ریاست زندگی کے ہر گوشے پراپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ بیشتر ریاستوں میں اقتدار اعلی پر منتخب لوگ فائز ہوتے ہیں۔ ان میں صدور، وزیراعظم، اراکین پارلیمان وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کی خاصی تعداد ریاست کی ملازم ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ انتظامی شعبے میں ملازم ہوتے ہیں، کچھ فوج اور پولیس میں، جبکہ ایک تیسرا گروہ ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ تمام گروہ بحیثیت مجموعی ریاست کا سیاسی نظام تشکیل دیتے ہیں۔
انسانی تاریخ ریاستوں کے ایک طویل سلسلے کی شاہد رہی ہے۔ یہ ریاستی حکومتیں اپنی شکلوں، اپنے خصوصی کاموں، سیاسی جماعتوں اور اداروں کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔
دنیا کی پہلی ریاستیں تقریبا چھ ہزار سال قبل نقشے پر نمودار ہوئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ان کی جگہ دوسری ریاستیں قائم ہوئیں۔ آج دنیا میں 160 ریاستیں ہیں۔ یہ سب اپنے رقبے، آبادی ،سیاسی ساخت اور معاشی اور ثقافتی ترقی کی سطح کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اشتراکی(سوشلسٹ) اور سرمایہ دارانہ ریاستوں کے مابین بنیادی نوعیت کے فرق ہیں۔ ان اختلافات کی جڑیں ان ممالک کی سماجی و معاشی ترقی کے اوصاف میں مضمرہیں۔
ریاست کے پیچیدہ اور بسیار پہلو مظہر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس عنوان پر علمی اور نظریاتی ذہنی روش اختیار کی جائے۔
زمانہ قدیم اور قرون وسطی میں ریاست کی تعریف مذہبی اور دینیاتی اصطلاحوں میں کی جاتی تھی۔ ‘پیتا ہوتیپ’ کی کہاوتوں میں (مصرکے تیسرے عہدِ ہزار سالہ قبل مسیح میں) لفظ “خدا “کو بسا اوقات لفظ “فرعون” سے خلط ملط کیا جاتا تھا اور ان کا خیال تھا کہ حسنِ عمل کا اعلی ترین معیار یہ ہے کہ انسان اپنے بر تر لوگوں کی بلا چون و چرا اطاعت کرے ۔اپولو کی تقاریر میں (مصر، آٹھویں صدی قبل مسیح) بادشاہ کی مرضی کو ریاست میں نمودار ہونے والے تمام واقعات کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ ریاستی قوانین کےدستیاب قدیم ترین مسودے ریاست کے مبداء اور کردار کے بارے میں مذہبی تصورات سے معمور ہیں۔ کچھ جدید بورژوا (سرمایہ دار) نظریہ سازوں نے بھی ریاست کے الوہی ماخذ اور مقدر کے بارے میں تصورات پیش کیے ہیں۔ مثلا کیتھولک فرقے کے لوگ ازمنہ وسطی کے فلسفی اور ماہر دینیات ،تھامس ایکو ناس (1224-1274)کے تصورات و نظریات کو ریاست کے بارے میں سرکاری نظریے کا مرتبہ دیتے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ چونکہ ریاست کا مبداء و ماخذ ذات ِالہی ہے ،اس لیے ریاست کی اطاعت اورفرمانبرداری لازم ہے۔
زمانہ قدیم سے ریاست کا یہ تصور بھی چلا آرہا ہے کہ ریاست معاہدہِ عمرانی (سوشل کنٹریکٹ) کا نتیجہ ہے۔ قدیم بدھ مت کے مطابق ابتدائی سنہرےدور کی جگہ سماجی نابرابری، فراڈ اور چوری، مکاری وغیرہ کا دور دورہ ہو گیا تھا اس لئے لوگوں نے ان برائیوں کی روک تھام کے لیے بادشاہت کے ادارے کو قائم کیا۔
معاہدہ عمرانی کا تصور سترہویں اور اٹھارویں صدی کے دوران اس وقت بہت مقبول ہوا جب بورژوا طبقہ(سرمایہ دار طبقہ) یورپ میں جاگیرداری کو اکھاڑ کر پھینک رہا تھا ۔چونکہ بادشاہ ،جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کرتا تھا اس لیے بادشاہ کی مخالفت کے لئے ضروری تھا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ بادشاہ کا اختیار خدا کا ودیعت کردہ نہیں بلکہ خود انسان کی اپنی ایجاد ہے ۔معاہدہ ِعمرانی کے تصور کی تخلیق کرنے والوں کا موقف یہ تھا کہ قدیم زمانے میں لوگ حالت فطرت میں زندگی گزار رہے تھے۔ چونکہ لوگ فطرت کی آغوش میں ہی پیدا ہوئے تھے اس لیے یہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ تھے ۔بعد میں باہمی رشتوں میں تصادم ومخاصمت کا عنصر داخل ہوا اور انسان کے تحفظ اور نام نہاد فطری حقوق کی ضمانت فراہم کرنے کی ضرورت پیش آئی اور چنانچہ لوگ اسی مرحلے پر ریاستیں قائم کرنے پر رضامند ہوگئے۔ معاہدہ ِعمرانی کے تصور نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے بورژوازی (سرمایہ دار طبقے)کی اعانت (مدد) کی اور لوگوں کو یہ باور کرایا کہ چونکہ نئی سرمایہ دار ریاست سوادِ اعظم (اکثریت کی رائے)پر قائم ہوگی اس لئے وہ تمام لوگوں کے مفادات کی تسکین کرے گی ۔
معاہدہ ِعمرانی کے نظریے کو علمی نظریہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس نظریے کو پیش کرنے والے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے ریاست نے نجی ملکیت(پرائیوٹ پراپرٹی) کے وجود پذیر ہونے کے شانہ بشانہ اس وقت جنم لیا جب کہ معاشرہ ظالموں اور مظلوموں میں بٹ گیا تھا۔ چنانچہ معاہدہِ عمرانی پر مبنی نظریے اور ان کے دیگر دینیاتی نعم البدل نظریوں کا بنیادی مطمعِ نظر ایک ہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ریاست کی غیر منصفانہ استحصالی نوعیت کی پردہ پوشی کی جائے۔
تاہم سیاسی فکر پروان چڑھی اور علم جمع ہوتا رہا۔ نتیجے کے طور پر انسانیت اس قابل ہوئی کہ ریاست کی ماہیت کے بارے میں صحیح اندازہ قائم کرے ۔معاہدہِ عمرانی کے متذکرہ بالا نظریوں کے وقت ہی سیاسی فکر مذہبی عقیدے پر مبنی افکار سے چھٹکارا حاصل کرنے لگی تھی۔ حتی کہ کچھ قدیم فلسفیوں تک نے یہ اندازہ قائم کر لیا تھا کہ ریاستی نظام کے خدوخال کسی حد تک امیروں اور غریبوں کے درمیان موجود رشتوں کے تناظر میں متعین ہوئے تھے۔
پوری تاریخ کے دوران ہم ریاست اور اس کی ماہیت کے بارے میں فکر کے دو بنیادی رجحانوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ان میں سے پہلا ظالموں کے مفادات کی عکاسی کرتا تھا اور ان کے غلبے کو جائز قرار دیتا تھا۔ اس مؤقف کے حامی ،لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے تھے کہ حکومت کرنے کا اختیاراور اس کی اہلیت صرف ایک چنیدہ عدیدیہ (امیروں کی اقلیت) کو ہی حاصل ہے ۔اس کے برعکس،مظلوموں کی طرفداری کرنے والوں کی تصنیفات ، ناانصافی اور اکثریت پر اقلیت کی حکومت کے خلاف وسیع عوام کے احتجاج کی صدا بلند کرتی تھیں۔ مثلا، پروٹاگورس (یونان،490-420 قبل مسیح) اس رائے کا قائل تھا کہ تمام شہریوں کو سیاست میں حصہ لیتے ہوئے ریاستی معاملات و امور پر فیصلوں میں شریک ہونا چاہیے۔افلاطون (م427-347 قبل مسیح)اس کے مخالف نقطہ نظر کا حامی تھا۔ اس کی رائے میں مثالی ریاست اامیروں کی جمہوریہ ہوتی ہے یعنی ایک ایسی ریاست ہوتی ہے جس میں صرف اعلی و ارفع افراد کی عقلمند امیر اقلیت کا اقتدار قائم ہوتا ہے۔ افلاطون کے نزدیک جمہوریت یا عوام کا اقتدار حکومت کی گھٹیا شکل ہے۔
سیاسی افکار میں جمہوری رجحان اس وقت ابھر کر سامنے آیا جب کہ ظالموں کے خلاف وسیع عوامی تحریک اٹھی ۔چنانچہ جرمنی کی کسان تحریک کے دوران ‘تھامس میونزر(1490-1525) کی انقلابی جمہوری تعلیمات منظر عام پر آئیں اور سترہو یں صدی کے دوران انگلستان کے سرمایہ دارانہ انقلابوں کے زمانے میں ‘ڈگرز’ انقلابیوں کی تحریک نے غریب ترین کسانوں اور پرولتاریوں(اجرتی مزدوروں) کے مفادات کی حمایت اور وکالت کی ۔اس وقت انگلستان کا خواب پر ست اشتراکی (یوٹوپیائی سوشلسٹ) ‘جیرارڈونسٹانلے’ انقلابی جمہوریت کا سب سے نمایاں علمبردار تھا ۔
انقلاب فرانس سے پہلے اٹھارویں صدی کے فرانس کے مفکروں کی تعلیمات میں بھی انقلابی جمہوری تصورات موجود تھے. ان میں بالخصوص ژاں ژاک روسو(1712-1778)، یوٹوپیائی سوشلسٹ ، ژاں بپتستو میلوغ(1664-1729)، گبریل بونے دو موبلی(1709-1785)، اور فرانسو امیغی چارلس فوریئے(1772-1837) قابل ِ زکر ہیں۔ روس میں بھی انقلابی جمہوری روایات موجود تھیں۔ مثلا روسی انقلابی جمہوریت پسند نکولائی چرنیشیوسکی کی تصنیفات میں ریاست کے موضوع پر پر مغز تصورات مل جاتے ہیں۔ اپنے یوٹوپیائی سوشلسٹ نظریات کے باوجود اس نے سرمایہ دارانہ نظام(کیپٹلزم) پر کڑی تنقید کی۔
ریاست کے بارے میں علمی نظریے کی تخلیق اس وقت تک ممکن نہ تھی جب تک کہ تاریخی عمل کی مادی تشریح نہ کرلی جائے۔ اس کام کوعلمی اشتمالیت (سائنسی کمیونزم) کے بانیوں، کارل مارکس(1818-1883) اور فریڈرک اینگلز(1820-1895) نے سرانجام دیا۔
مارکس اور اینگلز وہ پہلے مفکر تھے جنہوں نے ریاست اور معاشرے کے ارتقا کی علمی تشریح اور وسیع عوام کے انقلابی خوابوں کو ایک واحد نظریے میں سمو دیا۔ اپنی تصانیف میں انہوں نے ریاست کے مظہرکی علمی تشریح کی اور انقلابی جمہوری نقطہ نگاہ سے اس کی ماہیت کا تجزیہ کیا اور اس طرح انہوں نے منصفانہ سماجی نظام کے لیے عوام کی تڑپ کو ٹھوس علمی بنیادیں فراہم کر دیں۔ مارکس اور اینگلز نے سائنسی کمیونزم کے نظریے کو مرتب کیا جبکہ لینن نے اسے موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔
ریاست کے بارے میں مارکسی نظریہ مدلل طور پر ثابت کرتا ہے کہ اکثریت پر اقلیت اور انسان پر انسان کا ظلم و جبر نہ صرف انسان دشمن عمل ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار بھی سست ہوتی ہے۔ نیز یہ کہ اس استحصال کا خاتمہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ کروڑہا عوام اپنے سامنے اس کے خاتمے کے ہدف کو مقرر کرکے اسے حاصل کرنے کے لئے جدو جہد کریں۔
سوشلزم کے مخالفین ریاست کے مارکسی-لیننی نظریے کو مسخ کرنے کے لیے دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ جب تک ظلم و جبر کرنے والے طبقے موجود ہیں تب تک محنت کش مردوں اور عورتوں کو اس نظریے سے دور کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔ تاہم اس کے باوجود سائنسی کمیونزم کا نظریہ پھل پھول رہا ہے اور روز نت نئے لوگوں کی توجہ کا باعث ہو رہا ہے جو اسے قبول کرتے جا رہے ہیں۔ آج تقریبا تمام براعظموں میں سائنسی کمیونزم کے نظریے کو اختیار کرنے اور اس کی بنیاد پر بہترمعاشرے کے قیام کی جدوجہد کرنے والےلوگ موجود ہیں۔
ریاست کے بارے میں مارکسی-لیننی نظریہ کیا ہے؟ مارکسی-لیننی نظریہ اس عنوان پر کیا رویہ اپناتا ہے؟ زیرِ نظر کتاب میں انہی سوالوں کے جواب فراہم کیے گئے ہیں۔