باب اول: ریاست کا آغاز اور ماہیت
مادیت اور نظریہ ریاست
انسانی معاشرے کے ارتقا کے بارے میں بالعموم اور ریاست کے ارتقا کے بارے میں بالخصوص کسی بھی علمی نظریے کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی یا حقیقت کی صحیح تصویر پیش کرے ۔سیاست کے موضوع پر جدلیاتی مادیت کےطریقہ ِکار کے تین بنیادی اصول یہ ہیں: اول ،یہ بات ذہن نشین رہے کہ ریاستیں جامداور غیر متبدل نہیں رہتیں۔ وہ مسلسل پروان چڑھتی رہتی ہیں۔ چنانچہ ان کی سرگرمیوں کے عارضی اور وقتی پہلوؤں میں اور ان مستقل پہلوؤں کے درمیان تمیز قائم کرنا ضروری ہے جو ان کا خاصہ ہیں۔
دوئم، مارکسی لیننی فکر کے حامل لوگ ریاست کو ٹھوس تاریخی تناظر میں دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ مخصوص ریاست کے بارے میں اس امر پر غور کرتے ہیں کہ وہ کس قسم کی ریاست ہے ۔وہ جاگیر دارانہ ہے،سرمایہ دارانہ ہے، سوشلسٹ ہے یا ترقی پذیر۔ ترقی پذیرریاستیں دو قسم کی ہوتی ہیں: وہ ریاستیں جنہوں نے سوشلزم کی راہ اپنا لی ہے اور وہ ریاستیں جو ترقی کی سرمایہ دارانہ راہ پر چل نکلی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ،ریاست میں جدید دور کے خصوصی اوصاف کو بھی زیر غور لانا ضروری ہے ۔آج کی تمام جدید ریاستیں ایک ایسے وقت میں سرگرم عمل ہیں جب کہ دنیا بتدریج سرمایہ داریت سےسوشلزم کی جانب پیش رفت کر رہی ہے۔ اس دور کا خصوصی وصف یہ ہے کہ اس وقت دو یکسر متضاد سماجی نظام موجود ہیں: سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلسٹ نظام۔ اس وقت وسیع البنیاد قومی آزادی کی تحریکوں کا دور دورہ ہے اور کرہ ارض کو جوہری تباہی سے بچانے کے لیے امن کی عوامی جدوجہد جاری ہے۔ ان عالمی سماجی حقیقتوں کا احاطہ کیے بغیر جدید ریاستوں کی سیاست کا صحیح تخمینہ لگانا ممکن نہیں ۔علاوہ ازیں، اس مسئلے پر ٹھوس تاریخی زاویہ نگاہ سے نظر ڈالنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر انفرادی ریاست کے خصوصی قومی او رتاریخی اوصاف کا جائزہ لیا جائے۔
تیسرا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کسی انفرادی ریاست کی نوعیت کو اسی صورت میں سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کے اندر جاری و ساری معاشی رشتوں، ان رشتوں سے بندھے ہوئے گروہی اور طبقاتی مفادات، نیز اس ریاست کی ثقافتی سطح کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے۔ ریاست کی ماہیت اس وقت تک منکشف نہیں ہوگی جب تک کہ اس کے ماخذ اور وجود کی مادی بنیادوں کو توجہ نہیں دی جاتی۔ اسی طرح اگر ریاستوں کی نمو کی سماجی و معاشی اور طبقاتی وجوہات و اسباب پر مناسب غور نہیں کیا جاتا تو یہ بات کبھی سمجھ میں نہیں آ سکتی کیا آخر مختلف ادوار میں مختلف ریاستیں کیوں کر وجود پذیر ہوتی ہیں۔
مار کسی لیننی نظریہ محض اس معروضی حقیقت ہی کو قائم نہیں کرتا کہ ریاست معاشرے کی مادی اور ثقافتی ارتقاء اور ترقی کے کسی خاص مرحلے سے وابستہ ہوتی ہے۔ مارکسی یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ معاشرے کی ساخت کا وہ کون سا پہلو ہے جو ریاست کے لئے لازم ہے اور اس کی صورت متعین کرتا ہے؟ معاشرے کے تاریخی ارتقا کا مادی نظریہ اس سوال کا جواب فراہم کرنے میں مددگار ہوتا ہے ۔
سائنسی کمیونزم کے بانیوں، مارکس، اینگلز اور لینن نے تاریخ میں اپنا مقام اس لیے حاصل کیا کیونکہ انہوں نے اس امر کی شناخت کی کہ معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں معروضی اور فطری نوعیت کی تاریخی تبدیلیوں کے عمل کا حصہ ہیں۔ مارکسی لیننی مادی نظریہ اس تصوراتی نظریے کو رد کرتا ہے کہ معاشرہ افراد کی بے ہنگم،من مانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ وہ ان کے موضوعی فیصلوں اور مرضی کا تابع ہے۔ تاریخ کے مادی نظریے کی اہمیت اس بات میں مضمر ہے کہ اس نظریے نے معاشرے کے ناظم معروضی قوانین کو منکشف کر کے انہیں مدلل طور پر ثابت کیا ۔پیداواری قوتوں کے ارتقاء میں ہر مرحلہ پیداوار اور پیداوار کی تقسیم پر مبنی انسانی رشتوں کی ایک قسم سے مربوط ہے۔ مارکسی فکر کے نزدیک ایک سماجی نظام دوسرے سماجی نظام کی جگہ بنیادی طور پر اس لیے لیتا ہے کہ معاشرے کے وجود کے لیے ضرور مادی اشیاء کی تخلیق کے لیے پیداوار کے طریقے کی نشوونما ہوتی ہے اور پیداوارکے ایک طریقے کی جگہ پیداوار کا دوسرا طریقہ لے لیتا ہے۔
مارکس اور اینگلز نے انسانی رشتوں کے مجموعی نظام میں سے پیداواری رشتوں کو معاشرے کی زندگی میں کلیدی اہمیت دی۔ یہ وہ رشتے ہیں جن میں لوگ مادی اشیاء کی پیداوار کرتے وقت ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں ۔پیداوار میں اضافہ ہی وہ بنیاد ہے جس کے اوپر زندگی کے سماجی حالات کی صورت گری ہوتی ہے اور پیداواری مفادات کی ہم آہنگی کی بنیاد پر بڑے بڑے گروہوں کی نمو ہوتی ہے۔ ان میں اہم ترین گروہوں کو طبقے کہا جاتا ہے۔
لفظ “طبقے” سے مارکسی کیا مراد لیتے ہیں؟”لوگوں کے ایسے بڑے گروہوں کو طبقہ کہتے ہیں جو اس اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں کہ تاریخی طور سے موجود سماجی پیداوار کے کسی نظام میں ان کے مقامات مختلف ہوتے ہیں ۔زرائع پیداوار کے ساتھ ان کے رشتے (بالعموم قانون، ان رشتوں کی تعریف کرکے ان کو جامد کر دیتا ہے) مختلف ہوتے ہیں ،محنت کی سماجی تنظیم میں ان کا کردار مختلف ہوتا ہے، پیدا کردہ سماجی دولت میں ان کے حصوں کی جسامت میں فرق ہوتا ہے، اور اس حصے کے اکتساب کے لیے ان کے ذرائع بھی مختلف ہوتے ہیں۔ طبقے لوگوں کے ایسے گروہ ہیں جن میں سے ایک سماجی معیشت میں اپنے علیحدہ مقام کے ناطے دوسرے کی محنت کو ہتھیا لیتا ہے۔”(ولادیمیر لینن،”مجموعہ تصانیف، جلد 29، پروگریس پبلشرز ماسکو، 1977، ص 421)
ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور ملکیتی عدم مساوات کے نتیجے میں طبقات کی نمو ہوتی ہے۔غریب و امیر، آقااور مزدور وجود میں آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے مفادات یکساں نہیں بلکہ ایک دوسرے سے یکسر مخالف ہیں۔ چنانچہ معاندانہ (مخالف) طبقات نمودار ہوتے ہیں اور معاشرے کی تاریخ طبقاتی جدوجہد وں کی تاریخ بن جاتی ہے۔
تاریخ ایک طبقے کے ہاتھوں دوسرے طبقے کے استحصال کی تین بنیادی شکلوں کی شاہدرہی ہے: غلام دارانہ محنت، جاگیردارانہ نیم غلام دارانہ محنت، اور سرمایہ دارانہ نظام کے تحت اجرتی محنت کا استحصال۔استحصال کی شکلوں کی تبدیلی کے ساتھ معاشرے کا طبقاتی ڈھانچہ بھی بدلا۔ معاشرے کی پہلی طبقاتی تقسیم (جو چوتھے عہدہزار سالہ قبل مسیح) میں رونما ہوئی) کے نتیجے میں دو گروہ نمودار ہوئے: غلام دار جو اقلیت میں تھے اور غلام جو اکثریت میں تھے۔ غلام انسانوں سمیت تمام ذرائع پیداوار غلام دارآقاؤں کے ہاتھوں میں تھے۔ خود غلام کا مرتبہ وہی تھا جو غلام دار کی ملکیت میں شامل کسی شے کا ہوتا ہے۔
غلام دارانہ نظام کی جگہ جاگیردارانہ نظام نے لے لی۔ جاگیردارآقا زمین کا مالک مطلق بن گیا اور اس پر اگنے اور بسنے والی ہر شے اس کی ملکیت قرار پائی۔ در حقیقت نیم غلام بھی جاگیردار کی ملکیت ہی تھے۔ تاہم جاگیردار انہیں جب چاہے غلاموں کی مانند قتل کرنے کے اختیار کا مالک نہ تھا ۔علاوہ ازیں، نیم غلام کے پاس کچھ زرائع پیداوار تھے۔ مثلا وہ گھوڑے ،مویشی اور ایک بھونڈے سے ہل کا مالک تھا ۔اس کے پاس اپنا گھر بھی تھا اور اپنا خاندان بھی۔
پھر جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کی باری بھی آئی اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ پیداوار ی طریقے نے لے لی۔اس نظام کے تحت تمام ذرائع پیداوار ان لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوئے جو نجی ملکیت کے مالک ہیں۔ اس نظام میں غلام اور نیم غلام کے برعکس اصل پیداواری کردار یعنی اجرتی مزدور رسمی اعتبار سے آزاد ہو جاتا ہے۔ تاہم وہ معاشی اعتبار سے سرمایہ دار کا پوری طرح سے دست نگر ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی محنت کو فروخت کرے ۔مزدور جتنا کچھ پیدا کرتا ہے سرمایہ دار اس کے قلیل سے حصے کو مزدور کو اپنے پاس رکھنے دیتا ہے اور اس پیداوار کے بڑے حصے کو یعنی پوری کی پوری زائد پیداوار کو، خود سرمایہ دار ہتھیا لیتا ہے۔ سرمایہ دار مزدور کو بس اتنا ہی دیتا ہے کہ وہ زندہ رہے۔
مشترکہ مفاد کے تحت متحد لوگ یعنی طبقات اور سماجی گروہ ریاستی سرگرمیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ریاست کن لوگوں کے مفادات کو پروان چڑھاتی ہے اور کون سا طبقہ اس پر سب سے زیادہ موثر اثر ڈالتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے میں یہ طبقہ سرمایہ داروں کا طبقہ ہی ہوتا ہے۔ محنت کش طبقہ اور تمام محنت کش عوام اپنے حقوق کے لیے سماجی جدوجہد کرتے ہیں۔ تاہم ،اقتدار کو حاصل کرنے اور اس پر اپنی باگیں کسی رکھنے کے لئے اور ریاست کو محنت کش عوام کے مفادات کا دست و بازو بنانے کے لیے بنیادی سوشلسٹ نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔یہ وہ تبدیلیاں ہیں جن کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معاشرے کی ماہیت ہی تبدیل ہو جائے گی۔
خلاصہ یہ کہ ریاست جامد نہیں۔ معاشرہ پروان چڑھتا ہے تو ریاست میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اس پر مختلف طرح کے حالات کے اثرات پڑتے ہیں ۔مگر ان میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو حاصل ہوتی ہے کہ معاشرے میں پیداوار کا کون سا طریقہ رائج ہے ۔ہر پیداواری طریقے میں تاریخی طور سے متعین طبقات موجود ہوتے ہیں ،اور وہ طبقہ بھی موجود ہوتا ہے جو معاشی اور سیاسی اعتبار سے غالب طبقہ ہوتا ہے۔ ریاست اسی مخصوص طبقے کے مفادات کو پروان چڑھاتی ہے۔