ریاست کی قسمیں اور ان کے کام
تاریخ میں جتنے سماجی معاشی نظام رہے ہیں اتنی ہی اقسام کی ریاستیں بھی رہی ہیں۔ تاریخ میں چار قسم کے سماجی ومعاشی نظام قائم رہے ہیں: غلام دارانہ، جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ اوراشتمالی (کمیونسٹ)۔ اسی مطابقت سے ریاستوں کو بھی غلام دارانہ، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ ریاستوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ اشتراکی (سوشلسٹ) ریاست کی بھی ایک قسم ہے جو کمیونزم کے پہلے مرحلے یعنی سوشلزم سے مطابقت رکھتی ہے۔ سوشلسٹ ریاست تاریخی اعتبار سے ایک نئی قسم کی ریاست ہے۔ یہ ریاست پرانی ریاستوں کے برعکس کسی استحصالی اقلیت کے مفادات کو پروان نہیں چڑھاتی۔ یہ سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں نمودار ہوتی ہے اور وسیع محنت کش عوام کے مفادات کی ترجمانی کرتی ہے۔
ریاست کی ہرتاریخی قسم کی مزید انواع ہیں۔ ان میں سے ہرایک نوع کی اپنی خصوصی خصوصیات، شکلیں اور حکومتی طور طریقے ہوتے ہیں۔ مثلاً غلام دارانہ ریاستوں میں بنیادی قسم کے فرق تھے۔ بعض غلام دارانہ ریاستوں میں سلطان کے اختیارات لامحدود تھے۔ بعض میں ایسی جمہوری حکومت تھی جہاں تمام شہری ملک کے انتظام و انصرام میں حصہ لیتے تھے (مگرظاہر ہے کہ غلاموں کو یہ حق حاصل نہ تھا)۔ ایسی اشرافی جمہوریہ بھی موجود تھی جہاں اقتدار و اختیار بڑے غلام داروں کی چنیدہ اقلیت کے ہاتھوں میں مرتکز تھا۔ چاہے ظاہری طورپر ریاست کی صورت کچھ بھی ہو مگر غلام دارانہ ریاست بہرحال غلام داروں کے مفادات کی دیکھ بھال کرتی تھی اورغلاموں کو سفاکی کے ساتھ کچلا کرتی تھی۔
جاگیردارانہ نظام میں ریاست میں بالعموم بادشاہت قائم تھی اور یہاں اقتدار بادشاہ، زار، شاہ، سلطان یا شہنشاہ کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتا تھا۔ مختلف بادشاہوں کے درمیان اس اعتبار سے فرق کیا جا سکتا تھا کہ بادشاہ کے ہاتھوں میں کس قدر قوت مرتکز ہے۔ علاوہ ازیں ان کے اندر کئی جگہوں پر شہری جمہوریتیں (آزاد شہر) بھی موجود تھیں۔ تاہم، بلا استثناء، تمام جاگیردارانہ ریاستوں میں اقتدار پرغالب طبقہ بڑی جاگیروں کے مالکوں پر مبنی تھا۔ یہ لوگ جاگیردارآقا یا اشرافیہ کہلاتے تھے۔
سرمایہ دار ریاستوں کی شکلیں بہت متفرق ہیں۔ (ان پر باب دوئم میں تفصیلی نظر ڈالی گئی ہے)۔ تاہم، مارکس اور اینگلز کے بقول تمام سرمایہ دار ریاستیں، بلا استثناء، “پورے سرمایہ دار طبقے کے مشترکہ معاملات کا انتظام و انصرام چلانے کی کمیٹیاں ہیں”۔
مختلف سوشلسٹ ریاستوں میں بھی کافی فرق ہے۔ یہ فرق ان کی تاریخ، روایات، یا سرگرمیوں کی شکلوں سے متعلق ہے۔ تاہم، ان کی سرگرمیوں کا ہمیشہ ہی یہ مطمع نظر ہوتا ہے کہ وسیع محنت کش عوام کے مفادات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
تاریخ ریاست کی کئی عبوری شکلوں کی شاہد بھی رہی ہے۔ آج کل جن ایشیائی اور افریقی ملکوں نے نوآبادیاتی نظام کا طوق اتار پھینکا ہے وہ بھی اپنے لئے کسی ریاستی نظام کے انتخاب کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ وہ ترقی کے پیچیدہ، عبوری مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ سوشلزم کی جانب سفر کر رہے ہیں جبکہ دوسروں نے سرمایہ داری کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔
ریاست کی درج بالا اقسام کی تفریق ریاست کے مسئلے پر مارکسی لینی علمی تجزیوں پر مبنی ہے۔ دیگر تجزیاتی روشیں حقیقی صورت حال کی تصویر کو مسخ کرتی ہیں اورغلط تجزیوں کا باعث بنتی ہیں۔ مثلا سرمایہ دار نظریہ سازوں کا عام رجحان یہ ہے کہ وہ تمام ہم عصر ریاستوں کو مشرقی و مغربی ریاستوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ اس امر میں کلام نہیں کہ اس قسم کی تفریق کے لئے کچھ بنیادیں موجود ہیں۔ مشرق و مغرب کی تمام ریاستوں کی اپنی اپنی کچھ تاریخی اور ثقافتی روایات ہیں اور کوئی بھی ملک اپنے ٹھوس تاریخی ماضی اور روایات کا احاطہ کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ تاہم، کیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ سوشلسٹ بلغاریہ اور سرمایہ دار فرانس یا سوشلسٹ چیکوسلواکیہ اور سرمایہ دار بیلجیم یورپی ممالک کی بہترین مثالیں ہیں؟ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر مشرقی و مغربی ریاستوں کی تقسیم قبول کرلی جائے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ چونکہ جمہوریہ کیوبا اور امریکہ دونوں مغربی کرے میں ہیں اس لئے ان کے سماجی اور سیاسی نظاموں کے اختلافات سے قطع نظر زیادہ اہم بات یہی ہے کہ وہ ایک جگہ پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح اس بنیاد پر یہ کہا جائے گا کہ جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک اور ویتنام کی سوشلسٹ جمہوریہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ تاہم، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ امریکی انتظامیہ کیوبا دشمن پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ مشرقی جرمنی اور ویتنام کے درمیان دوستی اور تعاون کے رشتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں سوشلسٹ آدرشوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان فرق ہے مگر یہ فرق معاشی اور ثقافتی ترقی کی سطح میں فرق سے متعلق ہونے کے علاوہ اس امر سے متعلق ہے کہ یہ دونوں ممالک سوشلزم کی تعمیر کے مختلف مرحلوں سے گزر رہے ہیں۔ مشرقی جرمنی اور ویتنام دونوں کی ریاست کی ماہیت ایک ہی ہے یعنی یہ دونوں سوشلسٹ ریاستیں ہیں۔ (نوٹ: مشرقی جرمنی میں سرمایہ داری کی بحالی اوردیواربرلن کے انہدام کے بعد اب مشرقی اورمغربی جرمنی ایک ہوگئے ہیں اورسرمایہ دارانہ نظام کے تابع ہیں جبکہ ویتنام سرمایہ دارانہ اصلاحات کے بعد سوشلزم کی راہ کو ترک کے سرمایہ دارنہ راہ اختیارکرچکا ہے۔)
ریاست کی طبقاتی ماہیت کا واضح انکشاف اس کی سرگرمیوں سے ہی ہوتا ہے۔ سوشلسٹ ریاست کے بنیادی کام معاشی انتظام اور محنت اور اصراف کی سرگرمیوں کی دیکھ بھال سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ کام زرائع پیداوار پر اجتماعی ملکیت کے قیام اور اس سوشلسٹ اصول پر عمل درآمد کا نتیجہ ہیں کہ “ہر شخص سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے اور ہر شخص کو اس کے کام کے مطابق حصہ دیا جائے”۔ سرمایہ دارانہ ریاست میں اس اصول پر عمل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصول سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد یعنی نجی ملکیت اور منافعے پر قبضے سے متضاد ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست جن کاموں کو سرانجام دیتی ہے سوشلسٹ ریاست ان کی مخالف ہے۔ سوشلسٹ ریاست محنت کش مرد و خواتین پر جبر و اکراہ نہیں کرسکتی۔ اس کے علاوہ امور خارجہ کے میدان میں بھی سرمایہ دار اورسوشلسٹ ریاست کے کام قطعی مختلف ہیں۔ سرمایہ دارریاست کی خارجہ حکمت عملی کا ہدف یہ ہے کہ عالمی انقلابی عمل کو دھچکا پہنچایا جائے اور ہر قیمت پر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو برقرار رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پالیسیاں اس قدر جارحیت آمیز ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس، سوشلسٹ ریاستیں پرامن خارجہ حکمت عملی پر کاربند ہوتی ہیں۔ وہ کرہ ارض پر امن کے تحفظ کی غرض سے اپنی سرگرمیوں کے ذریعے قوموں کے مابین باہمی اعتماد اور دوستی کو بڑھاتی ہیں اور جمہوریت اور سماجی ترقی کے لیے جدوجہد میں تمام ترقی پسند قوتوں کی اعانت کرتی ہیں۔