سیاسی جماعتیں
سیاسی نظام میں ریاست کے بعد سیاسی جماعتوں کا نمبرآتا ہے۔یہ جماعتیں بھی سیاسی نظام کا ایک اہم ادارہ ہوتی ہیں۔جماعتیں ہی پارلیمان کے علاوہ صدارت کے لیے لوگوں کو نامزد کرتی ہیں۔اس کے علاوہ پارٹیاں ہی انتخابی مہم کی شکل وصورت کو متعین کرتی ہیں۔سرمایہ دارانہ جماعتیں ہی حکمران اشرافیہ کی شخصی ترکیبی ساخت متعین کرتی ہیں، یعنی یہ پارٹیاں ہی اس امرکاتعین کرتی ہیں کہ کون سے اشخاص حکمران سرمایہ دارطبقے کی نمائندگی کریں گے۔سیاسی جماعتیں ہی قوت واقتدارکی کشمکش میں رائے عامہ کو ہموارکرتی ہیں۔
آج دنیا میں متعدد اقسام کے جماعتی نظام موجود ہیں۔ایسا کثیرالجماعتی نظام جس میں کسی ایک پارٹی کو غالب حیثیت حاصل ہے، ایسا کثیر الجماعتی نظام کس میں کسی ایک سرمایہ دارانہ جماعت کو غالب حیثیت حاصل نہیں ہے،دوجماعتی نظام(سیاسی منظرپردوبڑی جماعتوں کا مسلسل غلبہ)، اورایک جماعتی نظام(ایک پارٹی کو سرکاری طورپرکام کرنے کی اجازت ہے مگردیگرممنوع ہیں)۔
جماعتی نظام معاشرے کی سماجی ساخت کی ہوبہو عکاسی نہیں کرتا۔مثلا بعض جماعتیں پورے سرمایہ دارطبقے کے مفادات کی ترجمانی کرنے کے بجائےاس کے کچھ انفرادی گروہوں کی نمائندگی کرنے کے علاوہ کسی حد تک کچھ متوسط (درمیانی) پرتوں کی نمائندگی بھی کرسکتی ہیں۔بعض جماعتیں بیک وقت کئی طبقوں اورسماجی پرتوں کے مفادات کی نمائندگی کرنے کی داعی ہوتی ہیں۔بعض اوقات جماعتوں کی اصل ماہیت کی شناخت مشکل ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتراپنے اہداف کو مخفی رکھتی ہیں اوراپنی سرگرمیوں کو ڈھانپنے کے لیے قوم پرستانہ یا مذہبی نعرے لگاتی ہیں۔
کسی جماعت کے اقدامات کے اصل مقصد اورمواد کو جانچنے اورپرکھنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ مختلف سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا رویہ اپناتی ہیں اورمختلف طبقات کے کلیدی مفادات کو متاثرکرنے والے معاملات پرکس ردعمل کا اظہارکرتی ہیں۔سب سے پہلے لینن نے ان معیارات اورکسوٹیوں کو پیش کیا تھا۔اس نے کہا:”یہ دیکھنے کے لیے کہ جماعتوں کی باہمی کشمکش میں اصل نزاع کس بات پر ہے اورکس کی کس بات کا کیا مطلب ہے، ہمیں لوگوں کے الفاظ اورباتوں کو من و عن قبول نہیں کرلینا چاہیے بلکہ ہمیں ان جماعتوں کی حقیقی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ہمیں محض ان باتوں کا مطالعہ نہیں کرنا چاہیے جو یہ خود اپنےعمل کے بارے میں کہتی ہیں، بلکہ ہمیں اس عمل کا مطالعہ کرنا چاہیے جس کا مظاہرہ یہ مختلف سیاسی مسائل کے حل کے دوران کرتی ہیں اوریہ دیکھنا چاہیے کہ یہ زمینداروں،سرمایہ داروں، کسانوں اورمزدوروں وغیرہ کے مختلف طبقات کے کلیدی مفادات کو متاثرکرنے والے معاملات کے بارے میں کیا رویہ اختیارکرتی ہیں”۔ (وی۔آئی۔لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 18،پروگریس پبلشرز،ماسکو،1973ء،ص 45۔)
سرمایہ دارانہ جماعتیں
سرمایہ دارانہ معاشرے کی جماعتیں اجارہ دارسرمایہ داروں، متوسط سرمایہ داروں اورادنی سرمایہ داروں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ یہ جماعتیں کئی اعتبارسے ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔یہ مختلف مفادات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ان کی تنظیمی سطحوں میں فرق ہوتا ہے۔اقتدارکے بارے میں ان کے رویے مختلف ہوتے ہیں۔ان کے مقاصد واہداف مختلف ہوسکتے ہیں اوریہ اپنی قوت وطاقت کو مختلف انداز سے استعمال کرسکتی ہیں۔اجارہ دارسرمایہ داروں کی بعض جماعتیں باقاعدہ رسمی طورپرموجود ہوتی ہیں۔بعض جگہوں پران کی رسمی شکل نہیں ہوتی اورنتیجتا ان کی باقاعدہ رکنیت،واجبات رکنیت اورپارٹی کے شناختی کارڈ وغیرہ نہیں ہوتے۔تاہم، ان کے جماعتی کل پرزوں کا شاخ درشاخ نظام موجود ہوتا ہے اوران کے باقاعدہ پیشہ ورجماعتی اہلکار ہوتے ہیں۔اجارہ دارسرمائے کی جماعتوں کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کا نظریہ کائنات اورلائحہ عمل بہت مبہم ہوتے ہیں۔یہ ابہام سوچا سمجھا ہوتا ہے۔کسی جماعت کی ماہیت کو مخفی کرنے کے لیے تنظیمی اورنظریاتی ابہام بہترین نقاب کا کام کرتا ہے۔
علاوہ ازیں،اجارہ دارسرمایہ دارمحض بڑے بڑے نامی گرامی سرمایہ داروں پرمبنی جماعت نہیں بناتے۔اس طرز کی جماعت بہت محدود ہوگی۔وہ ہرسماجی پرت کے غیرمطمئن لوگوں کے ووٹوں کو گھسیٹنے کی کوشش میں ہوتی ہے اوراس مقصد کے لیے وہ صرف دوسروں کی مشکلات اورغلطیوں سے فائدہ اٹھانے میں لگی ہوتی ہے۔
مختلف سرمایہ دارپارٹیاں قوت و اقتدار کو مختلف انداز سے استعمال کرتی ہیں اوراس اعتبارسے ہم دو بنیادی اقسام کی سرمایہ دارجماعتوں میں تفریق کرسکتے ہیں:سرمایہ دارانہ جمہوری اورآمرانہ جماعتیں۔سرمایہ دارانہ جمہوری طریق کارکوترجیح دینے والی جماعتیں اپنے اہداف کی تحصیل کے لیے سرمایہ دارانہ جمہوری اداروں کے ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا پسند کرتی ہیں جبکہ آمرانہ سرمایہ دارجماعتیں ان اداروں (یعنی انتخابات، تقسیم اختیارات،علاقائی اکائیوں کی خودمختاری، انسانی حقوق وغیرہ) کو رد کرتی ہیں اور”مضبوط”حکومتیں قائم کرنے کی خواہاں ہوتی ہیں۔ایسی جماعتیں نسلی، قوم پرستانہ یا فسطائی(فاشسٹ) نظریے پرقائم ہوتی ہیں اورتشدد کی پرستش کرتی ہیں۔اس طرز کی جماعتیں تقریبا تمام سرمایہ دارملکوں میں موجود ہیں۔اس امرمیں شک نہیں کہ ان تنظیموں کی رکنیت وسیع نہیں اورچنانچہ یہ آج کل کوئی اہم قوت نہیں۔تاہم، ان فسطائی جماعتوں کی موجودگی پرآنکھ بند کرکے خاموش رہنے کا مفہوم یہ ہے کہ سرمایہ دارریاست بوقت ضرورت موقع پڑنے پررجعتی قوتوں کی تیز رفتاربڑھوار کے لیے اپنے پاس ذخیرہ محفوظ رکھے رہنا چاہتی ہے۔رجعتی تنظیموں کی سرگرمی ومستعدی دیگراقسام کے سیاسی اقدامات کے لیے بھی جواز فراہم کرتی ہے۔ان میں فوجی تخت گیریاں،محنت کش مردوخواتین کے حقوق پرحملے،اور کمیونسٹ اور بائیں بازو کی دیگرجماعتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی زہریلی مخالفت وغیرہ شامل ہیں۔
سرمایہ دارانہ جمہوری جماعتیں مختلف سیاسی اہداف کے لیے کام کررہی ہوتی ہیں۔کچھ پارٹیاں کھل کراجارہ دارسرمایہ دارطبقے کے مفادات کی عکاسی وترجمانی کرتی ہیں۔یہ جماعتیں بالعموم دائیں بازو کی جماعتیں ہوتی ہیں اورجدید قدامت پسندی میں رجعتی سرمایہ دارانہ رجحان کی نمائندہ ہوتی ہیں۔ اہم ترین سرمایہ دارریاستوں میں انہی جماعتوں کی حکمرانی قائم ہے۔یہ جماعتیں تمام ترقی پسندانہ جمہوری اصلاحات کی جنون کی حد تک مخالفت کرتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ جمہوری جماعتوں میں ایسی جماعتیں بھی ہیں جو درمیانی راہ اختیارکرتی ہیں۔بسا اوقات انہیں لبرل یا میانہ روجماعتیں بھی کہا جاتا ہے۔ بالعموم یہ جماعتیں پیٹی بورژوا (چھوٹے سرمایہ دار) طبقے اورمتوسط پرتوں کے مفادات کی نمائندہ ہوتی ہیں۔بعض امورپریہ جماعتیں اجارہ داریوں کی ہمہ طاقتی کی مخالفت کرتی ہیں اوریوں اجارہ دار مخالف جدوجہد میں محنت کش طبقے کے ساتھ صف آراء ہوجاتی ہیں۔یہ جماعتیں واضح مؤقف اختیار نہیں کرپاتیں اوربسا اوقات تذبذب کا شکار رہتی ہیں۔یہ کبھی دائیں بازو کے ساتھ اورکبھی بائیں بازو کے ساتھ کھڑی نظرآتی ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان سیاسی اختلافات کو کیوں مدنظررکھیں جو مختلف جماعتوں کے درمیان فرق کی بنیاد ہیں؟ اس امر میں کلا نہیں کہ کوئی بھی سرمایہ دارجمہوری پارٹی اقتدارمیں آئے وہ سرمایہ داروں کی ہی خدمت گزارہوگی۔تاہم یہ جمہوری قوتیں سرمایہ دارریاست کے نظام کو چلانے کے لیے مختلف طورطریقوں کو ایک ہی ڈنڈے سے نہیں ہنکا سکتیں۔یہی وجہ ہے کہ کمیونسٹوں اوربائیں بازوکی جمہوری قوتوں کو چاہیے کہ وہ رجعتی نیم فسطائی جماعتوں کو اقتدارمیں نہ آنے دیں۔ان کے جمہوریت دشمن کردارکا بھانڈہ پھوڑنا ضروری ہے۔