ریاست کیا ہے؟ (آٹھویں قسط)

اگرچہ سرمایہ دارپارٹیوں کو سرمائے کے مفادات کے دفاع کے لیےانتہائی اچھی کل مہیا ہےاوروہ تاحال بڑے سرمائے کے لیے حکموت میں راست نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں تاہم سرمایہ دارطبقے کے پاس سیاسی جماعتوں کے علاوہ دیگر انجمنیں اورتنظیمیں بھی موجود ہیں۔ یہ تنظیمیں اپنی طبقاتی ساخت کے اعتبارسے خالص اورہم آہنگ ہیں اوربعض اوقات حکومتی کل پرزوں پرفیصلہ کن اثرات ڈالنے میں کامیاب رہتی ہیں۔فی الحقیقت یہ تنظیمیں ایک طرز کی متبادل کابینہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔یہ تنظیمیں سرمایہ دارطبقے کو کل قومی سطح پرمتحد و یکجا کرتی ہیں اوراجارہ دارسرمایہ دارطبقے کی قوت و اقتدار کا مرکز ہوتی ہیں۔

سرمایہ دار ریاست کا ایک کام یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ یعنی ریاستی لیڈروں، جماعتوں اورتنظیموں کی متواترتخلیق و تجدید ہوتی رہے۔سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ایک اورقسم کی اشرافیہ بھی مربوط ہوتی ہے۔اسے دفتری اشرافیہ کہا جاتا ہے اوراس میں انتظامی، فوجی اورنظریاتی کل پرزوں کو چلانے والی اشرافیہ شامل ہوتی ہے۔ یہ اشرافیہ اجارہ دارانہ سرمائے اوراس کے ان برادرحلقوں سے وارد ہوتی ہے جنہوں نے سرمایہ دارانہ نظام سے اپنی وابستگی ووفاداری ثابت کردی ہو۔ بحیثیت مجموعی اشرافیہ کا گروہ ایک خلوت پسندگرو ہ ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ جمہوری حکومتوں میں کثیرالجماعتی نظام کیونکرپایا جاتا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارمعاشرہ ایسے طبقات اورپرتوں میں منقسم ہوتا ہےجن کے مفادات متصادم ہیں۔خود سرمایہ دارطبقہ بھی ہم آہنگ نہیں ہوتااوراجارہ دارسرمایہ داروں کے علاوہ اعلی اورمتوسط سرمایہ داروں کے مفادات نہ صرف ہم آہنگ نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات تو یہ گروہ ایک دوسرے سے بالکل مخالف سمتوں میں رواں دواں ہوتے ہیں۔

سرمایہ دارملکوں میں دوجماعتی اورکثیر الجماعتی نظام کی موجودگی کے دیگراسباب بھی ہیں۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ زندگی کا ایک وصف یہ ہے کہ اس میں فرداجنبی اورتنہا محسوس کرتا ہے۔نجی ملکیت پرمبنی رشتے،بڑھتی ہوئی انفرادیت پسندی، گروہ بندی اورپیشہ ورانہ فرقہ واریت اس صورتحال کے بنیادی اسباب فراہم کرتے ہیں۔بعض جگہوں پر کثیر الجماعتی نظام ایک عرصے سے قائم رہنے کے باعث روایت کا حصہ بن چکا ہے۔اس روایت نے اس لیے جڑیں پکڑیں کہ ان جگہوں پر ادنی سرمایہ دارطبقے کی وسیع ترین پرتیں موجود ہیں۔جن جگہوں پر یہ پرتیں سیاسی اعتبار سے اہم کردارادا نہیں کرتیں وہاں بالعموم پارٹیوں کی تعداد کم ہے۔لیکن جہاں متنوع سیاسی نعروں کا دوردورہ ہو، وہاں پارٹیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔قومی اورمذہبی اختلافات کے باعث بھی پارٹیوں کی کثیر تعداد موجود رہ سکتی ہے۔

کثیر الجماعتی نظام اجارہ دارسرمایہ داروں کے مفادات کی تکمیل کے لیے سازگارہوتا ہے۔ایسی صورتحال میں وہ کسی بھی تضاد اورتصادم کے گہرے ہونے اورشدت پکڑنے پرمناسب ردعمل کا اظہار کرسکتے ہیں۔نئے حکمران اتحادوں کی نمو پارلیمان میں قوتوں کی نئی صف آرائی، لیڈروں کی تبدیلی وغیرہ ایسے عمل ہیں جوحالات کی فوری تبدیلی کا سراب پیدا کرکے بہتر مستقبل کے لیے عوام کی توقعات کو بڑھا دیتے ہیں۔اس طرح سیاسی تضادات کی دھار کند ہوجاتی ہےاورعوام میں سیاسی عمل کا پھیلاؤ اورنفوذ ٹہر جاتا ہے۔

سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں

محنت کش طبقوں کی جدوجہدوں کی تاریخ دو قسموں کی جماعتوں سے وابستہ ہے: سوشل ڈیموکریٹک اورسوشلسٹ۔ سوشل ڈیموکریٹک جماعتیں پہلی بار انیسویں صدی میں منظر عام پرآئیں۔ یہ ایک طویل روایت کی وارث ہیں اوربیشتر ممالک میں یہ محنت کش طبقے پرکافی اثرورسوخ رکھتی ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنی رکنیت کے اعتبار سے اب محنت کشوں کی جماعتیں نہیں رہی ہیں اوراب ان کی سماجی بنیادیں ادنی (چھوٹے) سرمایہ دار طبقے اورمتوسط پرتوں پر مشتمل ہیں ۔تاہم، ان جماعتوں کے حوالے سے یہ بات بنیادی نوعیت کی نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ ہم عصر سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں نے انفرادی سماجی اصلاحات کے پروگرام کو اپنا لیا ہے۔علاوہ ازیں، انہوں نے اس تصور کورد کردیا ہے کہ سرمایہ دارمعاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔سوشلسٹوں کی یہ مصالحانہ پالیسی بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں کرتی۔چنانچہ، یہی وجہ ہے کہ بعض ممالک کے اجارہ دارسرمایہ دارایسی حکومتوں کے قیام کے مخالف نہیں جن کے سربراہ یا پوری کی پوری قیادت سوشلسٹ ہو۔تاہم، ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اس قسم کی اشتراکی جماعت کی صفوں کے اندربائیں بازو کی بااثرقوتیں جنم لے سکتی ہیں۔ایسی صورت میں یہ جماعت رجعت کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے ایک طاقتورتنظیم کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔اجارہ دارسرمایہ داربھی اس امکان کو پیش نظررکھتے ہیں۔چنانچہ، جونہی حالات موقع فراہم کرتے ہیں، دائیں بازو کی قوتیں سوشلسٹوں کو نکال باہرکرتی ہیں اورانہیں حکومت تشکیل نہیں کرنے دیتیں۔

کمیونسٹ جماعتیں

یہ محنت کش طبقے اورسیاسی اعتبار سے باشعور محنت کش مردوں اورعورتوں کی بااصول انقلابی تنظیمیں ہیں۔ان کے نزدیک جدوجہد کا آخری ہدف یہی ہے کہ انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے علاوہ اس استحصال کے اسباب کا مکمل سدباب ہو۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری قوتیں کمیونسٹوں کے خلاف مسلسل غیر مصالحانہ جدوجہد کرتی ہیں۔ اس جنگ میں وہ سرمایہ دارریاست کو بھی استعمال کرتی ہیں۔جن ملکوں میں فوجی آمرانہ حکومتیں براجمان ہیں اورسرمایہ دارانہ جمہوری اداروں اورروایات کو کچلا جاچکا ہے وہاں کمیونسٹ جماعتوں کو غیر قانونی قراردے دیا گیا ہے۔ تاہم جن ملکوں میں سرمایہ دارانہ جمہوری ادارے نسبتا مستحکم ہیں اوردایاں بازو کمزور ہےوہاں کمیونسٹ جماعتوں پرسرکاری پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔

سرمایہ داروں کی اجارہ داریاں کمیونسٹ جماعتوں کو کہیں سیاسی طورپرتنہا کردیتی ہیں،کہیں ان کی سرگرمیوں پرپابندی عائد کردیتی ہیں، تو کہیں انہیں مکمل طورپرممنوع قراردے دیا جاتا ہے۔بڑے سرمایہ داروں کی جماعتیں کمیونسٹ جماعتوں کی سیاسی حریف ہیں۔ یہ جماعتیں کمیونسٹ جماعتوں کے اہداف اورحکمت عملی کو توڑ مروڑ کرپیش کرنے کے لیے ابلاغ عامہ (میڈیا) کے اداروں کو استعمال کرتی ہیں اورکمیونسٹ دشمن افسانے پھیلاتی ہیں۔ ان تمام باتوں کا اثر بائیں بازو کی سرمایہ دارانہ جمہوری جماعتوں اورسوشل ڈیموکریٹک جماعتوں پر بھی پڑتا ہے جو بعض اوقات اپنے آپ کو کمیونسٹوں کے ساتھ صف آراء کرنے کے بجائے دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ صف بند ہوجاتی ہیں۔

بعض معاملات میں دیگرجماعتوں کے ساتھ اشتمالی جماعتوں کے معاہدوں کو روکنے کے لیے بھی مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں، حتی کہ ان حقیقت پسندسیاست کاروں کو قتل تک کیا جاتا ہے جو کمیونسٹ جماعت کے اثرورسوخ کے پیش نظر اس کے ساتھ تعلقات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ اٹلی میں کرسچین (عیسائی) ڈیموکریٹک پارٹی کے سابقہ صدر آلدومورو کو قتل کردیا گیا۔مورو ایک سرمایہ دارسیاست کار تھا جسے یہ احساس ہوا کہ ملک کے اندرسیاسی استحکام کی تحصیل کے لیے ضروری ہے کہ اطالوی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ افہام و تفہیم کرلی جائے۔اس اتحاد کے امکان نے اٹلی کی رجعتی سیاسی قوتوں کو خوفزدہ کردیا اور چنانچہ مورو کو قتل کردیا گیا۔

Leave a Comment