تحریر: رفائیل مارٹینیز
مترجم: شاداب مرتضی
(نوٹ: 1974ء میں چین نے “سیاسی معیشت کی مبادیات” کے عنوان سے چین کے دیہی علاقوں میں جا کرکام کرنے والے نوجوانوں کی خود تعلیمی کے لیے ایک نصابی کتاب شائع کی تھی جس کی بنیاد “مارکسزم-لینن ازم اورفکرِ ماؤزے تنگ” پررکھی گئی تھی۔ رفائیل مارٹینیز نے اس کتاب کا تنقیدی جائزہ لیا ہے جس کے ایک حصے کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔)
اس میں اوراگلے حصے میں ہم معاشی نظام کے ان دو متعلقہ پہلووں کا احاطہ کریں گے جن کی وکالت شنگھائی نصابی کتاب کے مصنف کرتے ہیں۔ اس بات کا زکر کرنے سے پہلے کہ ہماری رائے میں شنگھائی نصابی کتاب کے منصنفوں کی جانب سے ان مارکسی لینی اصولوں کی منظم خلاف ورزی کیا ہے جوعبوری معیشت اور سوشلسٹ معاشیات میں بھاری صنعت کے کردار کا تعین کرتے ہیں، یہ آسان ہوگا کہ پہلے ہم ان کی معاشی فکر کے ایک خاص پہلو کا جائزہ لیں۔ ہم خصوصا اس مفروضے کی وضاحت کریں گے کہ چینی معیشت میں زراعت معیشت کی بنیاد ہے۔ اس مفروضے کو آج ہم جس طرح جانتے ہیں یہ اس حالت میں چین کے معاشی لٹریچر میں پہلے پنج سالہ منصوبے کے اختتام سے موجود ہے۔ حالانکہ ہم اسے عمومی طور پر چینی کمیونسٹوں کی معاشی سوچ میں ایک ایسے دائمی عنصر کے طور پرنہیں پاتے جو بالکل واضح ہو، تاہم مزید تحقیق اس معاملے پر اورزیادہ روشنی ڈال سکتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ مفروضہ مارکس سے پہلے کی معاشی فکر میں گہرائی سے پیوست ہے اور شاید اس وجہ سے یہ مارکس سے پہلے کے چینی مفکروں سے کسی ایک یا دوسری طرح سے متاثرہو سکتا ہے۔
اگلے حصے میں ہم پہلے پنج سالہ منصوبے کی خاصیت بیان کرنے والے معاشی ڈیٹا کی خصوصیت کے ساتھ بات کریں گے اور اس سے اس چیز کی وضاحت ہو گی کہ معیشت کی دوسری شاخوں کے حوالے سے بھاری صنعت کی نسبتی ترقی کس طرح معیاری (کیفیتی) زوال کا شکار ہوئی، خصوصا 1960ء کی دہائی کی شروعات میں کی جانے والی اقتصادی اصلاحات کے بعد سے۔ بھاری صنعت کو ترجیح دینے کے مارکسی-لیننی اصول پر 1950ء کی دہائی میں عمل کیا گیا۔ 1957ء کے آس پاس، چینی قیادت نے اس بارے میں سنجیدہ تحفظات ظاہر کرنا شروع کردیے کہ ملک کی صنعتکاری کا عمل پہلے پنج سالہ منصوبے کی روح سے مختلف انداز سے آگے بڑھانا چاہیے۔ ملک کی صنعتکاری کی ضرورت سے کبھی انکار نہیں کیا گیا، نہ ہی پنج سالہ منصوبے سے پہلے یا اس کے بعد؛ تاہم، ایک نئی سوچ پیدا ہونا شروع ہوئی جو یہ تھی کہ معیشت کے دوسرے سیکٹر مبینہ طور پر نظر انداز کردیے گئے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب چینی قیادت معیشت کے مختلف شعبوں میں نئے توازن اورنئے رشتے قائم کرنے کی ضرورت کے معاملے کو اٹھاتی ہے۔ شنگھائی نصابی کتاب لکھنے کے وقت تک یہ نئی معاشی سوچ بہت پہلے سے ہی پختہ ہوچکی تھی:
“سوشلسٹ صنعتکاری کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے، یہ یقینا ضروری ہے کہ بھاری صنعت کی ترقی کو ترجیح دی جائے۔ لیکن، بھاری صنعت کی ترقی کو ترجیح دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زراعت اورہلکی صنعت کو لازما نظر انداز کردیا جائے” (ایڈ۔ جارج سی۔ وانگ، “سیاسی معیشت کی مبادیات”، ایم۔ای۔ شارپ، وائٹ پلینز، نیویارک 10603، 1977، ص، 383۔ یہ ایک ترجمہ ہے جو دوجلدوں میں “سیاسی معیشت کی مبادیات” رائٹنگ گروپ، شنگھائی، (شنگھائی پیپلز پریس، 1974ء) میں مرتب کیا گیا تھا۔)
یہاں صنعت کے قائدانہ کردار کا انکار نہیں کیا جاتا؛ تاہم، ترجیح کے تصور میں بنیادی تبدیلی ہوتی ہے، جیسا کہ ہم نیچے دیکھیں گے۔ کتاب کے مصنفین بھاری صنعت کے ترقی پسند کردار سے، یا سائنس اور ٹیکنالوجی اور زیادہ جدید اور افزودہ زرائع پیداوار میں ان کے استعمال سے کبھی انکار نہیں کرتے۔ تیکنیکی پیش رفتوں کے استعمال کے فوائد اور پھلتی پھولتی بھاری صنعت کو دیہی علاقوں کی مشین کاری کے لیے بہت اہم عنصر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، جس کے حؤالے سے مصنفین واضح طور پرسنجیدہ ہیں۔ اس قسم کے بیان کے زریعے مصنفین رسمی طور پر، صرف ایک بیان کی حد تک، بھاری صنعت کی ترقی کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ، وہ معیشت کی مختلف شاخوں کے درمیان رشتے کی ایک نہایت مختلف تشریح کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جیسا کہ دوسرے حصے میں اورزیادہ تفصیل سے واضح کیا جائے گا، اس قسم کا بیان ترمیم پسندی کے لیے راستہ کھولتا ہے اورمصنفین اسے مختلف مواقعوں پر بعض بنیادی معاملات سے نپٹنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ایک مارکسی کے لیے جو بھاری صنعت اورمعیشت کے دوسرے شعبوں کے درمیان رشتے کو سمجھتا ہے یہ کہنا فضول ہے کہ زراعت کو نظر انداز کیے بغیر صنعت کو ترجیح دینا چاہیے۔ وسیع تر سماجی پیداوارِ نو کے لیے مارکسی-لیننی اسکیم سوشلزم کی تعمیر میں نظریاتی اورعملی، دونوں طرح سے، اچھی طرح تسلیم شدہ ہے۔ سرمایہ دار اوردائیں بازو کے ترمیم پسند عام طور پر اس قسم کے بیانات کے ساتھ سامنے آتے ہیں: سوویت یونین میں صنعتکاری ایک ایسے ماڈل سے مطابقت رکھتی ہے جس میں بھاری صنعت کو صنعت کے دوسرے شعبوں کے خرچ پر ترقی دی جاتی ہے، خصوصا، پسماندہ ملکوں میں (جیسے کہ انقلاب سے پہلے کا روس اورچین)، کسانوں کی وسیع عوام کے خرچے پر۔ یہ دقیانوسی خیال (اسٹیریوٹائپ) اس وقت سے باربار دوہرایا گیا ہے جب سے انقلابیوں نے صنعتکاری کے قیام کی کوششیں کی ہیں۔ ایک مارکسی بخوبی جانتا ہے کہ وسیع پیمانے کی زرعی اجتماع کاری کا واحد ممکنہ راستہ دیہی علاقوں میں محنت کو مشینی بنانا ہے۔ اور یہ کام ایک پھلتی پھولتی گھریلو بھاری صنعت کی ترقی کے بغیر ناممکن ہے۔ بظاہر، نصابی کتاب کے مصنف اس خیال سے اختلاف کرتے ہیں، اوراس لیے خود کو ایک ایسا “نظریاتی” ڈھانچہ قائم کرنے پر مجبور پاتے ہیں جو ان کے خیال میں انہیں زمین کو ہلا دینے والے بہت سے نتائج اخذ کرنے کے قابل بنائے گا۔
ہماری رائے میں، اوپر دیے گئے بیان کا مارکسی لیننی سیاسی معیشت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ سرمایہ دارانہ اوردائیں بازو کے ترمیم پسندوں کی اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کا ہم نے اوپر زکر کیا ہے۔ آئیے اب ان دو نکات کا جائزہ لیں جنہیں سیاسی معیشت کے با ب میں شنگھائی نصابی کتاب نے پچھلے اقتباس میں پیش کیا ہے: یعنی بھاری صنعت کی ترقی کو ترجیح دینے کے تصور کا مطلب اوریہ دعوی کہ زراعت کو ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کتاب کے مصنف کھل کر یہ بیان کرتے ہیں کہ زراعت ہی قومی معیشت کی بنیاد ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
“قومی معیشت کی ترقی کی تنظیم کاری کرنے میں، سوشلسٹ ملک کو شعوری طور پر اس معروضی قانون کو لازما استعمال کرنا چاہیے کہ زراعت قومی معیشت کی بنیاد ہے۔” (ایضا، ص، 368)
یہ بیان اس سوچ سے کہیں زیادہ آگے جاتا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جس کی غالب اکثریت کسانوں پر مشتمل ہے وہاں زراعت کا کردار نہایت اہم ہے اس وجہ سے کہ معاشی ترقی کی ابتداء میں وہاں واضح طور پرمعاشی عدم تناسب ہوتا ہے۔ یہاں ہمارا سامنا چین جیسے نسبتا پسماندہ ملک میں عبوری معیشت کی ترقی کی سمت کی ایک نئی سوچ سے ہے۔ شنگھائی نصابی کتاب کے مصنف جب یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ زراعت ہی قومی معیشت کی بنیاد کا اصول ہے تو وہ دراصل یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ قومی معیشت میں زراعت کو ترجیح دی جائے۔ وہ کہتے ہیں:
“چونکہ زراعت ہی قومی معیشت کی بنیاد ہے، لہذا یہ ضروری ہے کہ زراعت کی ترقی کو قومی معیشت کی بنیاد کی حیثیت سے ترجیح دی جائے۔ ہلکی صنعت، بھاری صنعت اور دوسرے معاشی، ثقافتی اورتعلیمی ادارے صرف تب ہی ترقی کرسکتے ہیں جب زراعت کو قومی معیشت کی بنیاد کی حیثیت سے ترقی دی جائے۔” (ص، 370)
اس مقام پر ایک بظاہر منطقی مگر نہایت گہری مارکسزم مخالف دلیل کو استعمال کیا گیا ہے۔ ہم اس کی مزید تفصیل سے وضاحت نیچے کریں گے۔ مصنفین کے مطابق، اگر زراعت کو ترقی نہیں دی جاتی تو صنعت بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ یہ فرض کیا جاتا ہے کہ قومی معیشت صرف تبھی چل سکتی ہے جب پوری قومی معیشت کی بنیاد کی حیثیت سے زراعت کو ترقی دی جائے۔ مصنفین کے مطابق، صنعت کی ترقی کا تعین زراعت کی ترقی سے ہوتا ہے۔ معاملہ اس کے برعکس نہیں ہے۔ اس مقام پر یہ اسکیم ایک خیالی، فرضی، تجریدی رشتے کے بطور پیش کی جاتی ہے۔ پہلی نظر میں یہ واضح نہیں کہ صنعت کو زراعت کے ماتحت کرنے کے اس رشتے میں کیا تناسبات (Proportions) درکار ہیں۔ جیسا کہ اگلے حصے میں مقداری (کمیتی) تجزیے (Quantitative Analysis) سے زیادہ واضح ہوجائے گا، اس اسکیم کا مدعا یہ ہے کہ بھاری صنعت میں سرمایہ کاری کی سطح کا تعین زراعت میں اورہلکی صنعت میں سرمایہ کاری کی سطح سے ہوتا ہے، اس کے برعکس نہیں۔
یہ بات اس مفروضے سے بھی مزید تقویت پاتی ہے کہ زراعت کو بھاری صنعت کی اولین مارکیٹ بننا چاہیے اوراس لیے بھاری صنعت میں سرمایہ کاری کی سطح زراعت کی ضرورتوں سے متعین ہوتی ہے۔ ایک کم یا زیادہ جدید زراعت ایک کم یا زیادہ جدید بھاری صنعت کی عکاسی کرے گی، کیونکہ زراعت ہی پیداواری عمل کی ابتداء اور اس کا اختتام ہے۔
کتاب کے مصنفین لکھتے ہیں:
“اس وقت، لوگوں نے اب تک واضح طور پر اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا ہے کہ بھاری صنعت کو لازمی طور پر زراعت کو اپنی اولین مارکیٹ بنانا چاہیے۔ زرعی ٹیکنالوجی کی ہموار پیش قدمی اوراس کی نہ رکنے والی تجدید کے ساتھ، کھاد، پانی کا تحفظ اوربجلی اور نقل و حمل کے زرائع، زراعت کے لیے دستیاب ہوں گے اور نجی صرفے (کنزمپشن-Consumption)) کے لیے زیادہ ایندھن اور تعمیری سامان مہیا ہوگا، تب جا کر لوگ اس بات کو مکمل طور پر سمجھ پائیں گے کہ زراعت ہی بھاری صنعت کے لیے اولین مارکیٹ ہے۔” (ایضا، ص، 369، ماؤزے تنگ کی تصنیف “عوام کے مابین تضادات سے درست انداز سے نپٹنے کے بارے میں”، ماؤزے تنگ کی منتخب تصانیف، 1965ء، ص 362)۔
اس بیان کا حقیقی مطلب کہ زراعت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اس مفروضے کی شکل میں بالکل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے جس میں معیشت کے تین اہم شعبوں کے درمیان محنت کی تقسیم کے تناسبات کی بات کی گئی ہے۔ عبوری معیشت کی ترقی کی ترجیحات کے حوالے سے شنگھائی نصابی کتاب کے مصنفین نے واضح ہدایات تیار کی ہیں: پہلے زراعت، پھر ہلکی صنعت، اوراس کے بعد بھاری صنعت۔
کتاب کہتی ہے: “سوشلزم کی تعمیر کی عام لائن کی اور قومی معیشت کی ترقی کی عام پالیسی کی رہنمائی میں، چین کے قومی اقتصادی منصوبے کو چیئرمین ماؤ کی تجویز پراس طرح ترتیب دیا گیا ہے: زراعت، ہلکی صنعت، اوربھاری صنعت۔ یعنی، قومی اقتصادی منصوبے کو ترتیب دیتے ہوئے، ہمیں لازمی طور پر زراعت سے آغاز کرنا چاہیے اور زراعت کو اولین مقام دینا چاہیے۔ خواہ کیپٹل فنڈ ہو یا مادی سامان کی سپلائی ہو، زراعت کی ضروریات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔”
نصابی کتاب کے مصنفین ان ترجیحات کو سر کے بل کھڑا کردیتے ہیں جنہیں مارکسزم-لینن ازم کے بانیوں نے قائم کیا ہے۔ وہ مارکسی معاشیات کے بنیادوں کو ہی مسترد کرتے ہیں۔ وہ پیداوارِ نو اور وسیع تر پیداوارِ نو کے بارے میں اورسوشلزم کے بارے میں مارکس اور اینگلز کی تھیوری کو اور سوشلزم کے بارے میں ان کی پیش گوئیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ وہ سیاسی معیشت پر لینن کی تعلیمات کی اورسوویت روس کی صنعتکاری میں اس کی جدوجہد کی بیخ کنی کرتے ہیں۔ وہ ایک وسیع زرعی ملک میں صنعتکاری کے عملی تجربے اورزبردست کوششوں کو، سوویت یونین میں سوشلزم کی اہم بنیاد کی تعمیر کو رد کردیتے ہیں۔ وہ مارکسی سیاسی معیشت کو ختم کردیتے ہیں اوراسے ایک پیٹی بورژوا (مڈل کلاس) جعلی سائنس میں لپیٹ دیتے ہیں جو باہر سے مارکسی دکھتی ہے لیکن اندر سے مارکسزم کے سائنسی مواد سے خالی ہے۔ انقلابی لفاظی کا استعمال کرتے ہوئے شنگھائی نصابی کتاب کے مصنف یہ اورایسے دوسرے مارکسزم مخالف خیالات پیش کرتے ہیں جنہیں وہ مارکسزم-لینن ازم کی ترقی کے طور پر مشتہر کرنے کی جرآت بھی کرتے ہیں! کیا یہ واقعی مارکسزم لینن ازم کی سائنس کی ترقی ہے یا پھر یہ اس ٹھوس تاریخی دور میں مارکس سے پہلے کی معاشی فکر کا سرقہ(Plagiarism) ہے جب مارکسزم -لینن ازم پر ہر قسم کے دائیں بازو کے نظریات اورعمل کے زریعے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس کے بعد حملہ کیا جا رہا تھا؟
اب تک ہم نے اس مفروضے کا جائزہ لیا ہے کہ معیشت کی بنیاد زراعت ہے۔ اس دعوے کو چینی معیشت دان سیاسی معیشت کی سائنس میں ایک نیا خیال قرار دیتے ہیں۔
اس مفروضے کا زیادہ محتاط تجزیہ یہ دکھاتا ہے کہ اس بیان کا جوہر، جو کہ اس اقتصادی فکر میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے، جس کی وکالت شنگھائی نصابی کتاب کے مصنف کرتے ہیں، بنیادی طور پرِ مارکس سے پہلے کا ہے اورلینن نے بہت پہلے ہی اس کے جوہر کو بے نقاب کیا تھا، خصوصا سیاسی معیشت پر اپنے ابتدائی کام میں۔
مارکس کی پیروی کرتے ہوئے، لینن نے سسمنڈی (Sismondi) اور نرودنکوں (Narodniks) کی غطیوں کو بے نقاب کیا اور روس میں سرمایہ داری کی ترقی کے تجزیے کے پس منظر میں سماجی پیداوار کی قدر کے حوالے سے ان کی غلطیوں کی بنیادوں کو بھی بے نقاب کیا۔ لینن نے یہ دکھایا کہ مارکس سرمایہ دارانہ پیداوارِنو کے اپنے نظریے کو اس لیے تخلیق کرسکا کیونکہ اس نے کلاسیکل سرمایہ دارانہ معیشت کی دو بڑی غلطیوں پر قابو پا لیا تھا۔ پہلی غلطی یہ ہے کہ سماجی پیداوار کی قدر (ویلیو) سے مستقل سرمائے کو خارج کردیا جائے اور اس طرح اسے دو حصوں میں گھٹا دیا جائے (جو مزدور اورسرمایہ دارسے تعلق رکھتے ہیں)۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ انفرادی صرفے کو پیداوارکے صرفے سے الجھایا جائے، جو پیداوارِ نو اورعمومی وسیع تر پیداوارِ نو کے تجزیے میں پیداوارکے صرفے کو نظر انداز کرنے کی جانب لے جاتی ہے۔
لینن نے باضمیری اور منظم انداز سے نرودنکوں کی رجعتی اکنامک تھیوری کے خلاف لڑائی کی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے پیداوارِ نو کی مارکسی تھیوری میں ایک تنقیدی منہاجی بیان کو ترقی دی، یعنی انفرادی اورپیداواری صرفے کے درمیان رشتے کو۔ سرمایہ دارانہ سیاسی معیشت کے کلاسیک، ایڈم اسمتھ اورڈیوڈ ریکارڈو، نے انفرادی اورپیداواری صرفے کو الجھاتے ہوئے تمام صرفے کو انفرادی صرفے تک گھٹا دیا، جس نے انہیں سماجی پیداوار کے ممکن ہونے کے عمل کو سمجھنے سے محروم رکھا۔ اس نے انہیں سرمائے کی پیداوارِ نو کے عمل کو سمجھنے سے بھی باز رکھا۔ طریقہِ پیداوار کوئی بھی ہو، سیاسی معیشت کے ان بنیادی مسائل کو حل کرنا صرف تبھی ممکن ہے جب ذرائع پیداوار کی پیداوار (پہلا شعبہ) اور زرائع استعمال (صرفے) کی پیداوار (دوسرا شعبہ) کے درمیان فرق کو صاف رکھا جائے۔ مارکس کی تصنیف “سرمایہ” میں ان سوالوں سے تفصیلی طور پر نپٹا گیا ہے۔ اس حوالے سے “سرمایہ” کی چوتھی جلد خصوصی طور پر اہم ہے۔
سماجی پیداوار کو دو حصوں میں بانٹ دینا ایک ایسی غلطی ہے جو مارکس سے پہلے کی اقتصادی فکر میں مشترک ہے اوراس کا ایک معروضی مواد ہے۔ اس چیز کو “نظرانداز” کرنے کی وجہ سرمایہ دارانہ پیداوار کا ایک ایسے وقت میں سطحی طور پر تجزیہ کرنا ہے جب سرمایہ دارانہ پیداوار، بڑے پیمانے کی صنعت کے آٖغاز سے پہلے، اپنی ترقی کے ابتدائی مرحلے پر تھی۔ اس غلطی کی جڑ معروضی اس لیے ہے کیونکہ اس کی بنیاد ٹھوس تاریخی اقتصادی حالات پر ہے، جو مارکس سے پہلے کی اقتصادی فکر کو پہلے سے ہی متعین کرتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بڑے پیمانے کی مشینی صنعت کی ترقی کے حوالے سے، جس سے چینی ماہرین معاشیات متاثر تھے، چین میں معروضی حالات ان سے بہت زیادہ مختلف نہیں تھے جنہوں نے روس میں نرودنکوں کے خیالات کو متاثر کیا۔
اس بات کا اظہار کتاب میں اس طرح کیا گیا ہے:
“پرانا چین ایک نیم کالونیل اور نیم جاگیردار ملک تھا۔ سامراجیت، جاگیرداری اوربیوروکریٹک سرمایہ داری کے جبرتلے، پیداوار کی سطح شدید پسماندہ تھی۔ جوچند جدید صنعتیں موجود تھیں وہ بنیادی طور پر ہلکی صنعت اور ٹیکسٹائل کی صنعت پر مشتمل تھیں۔ جب 1949ء میں ملک کو آزاد کرایا گیا، تب اسٹیل کی سالانہ پیداوار صرف 158،000 ٹن تھی۔ بہت سے اہم صنعتی شعبوں میں تو کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔” (ایضا، ص، 383)
اس تناظر میں، آگے بیان کیے گئے دعوے میں سوشلزم کے تحت وسائل کو مختص کرنے کے کمیتی تخمینے کے پیچھے موجود دلیل کو سمجھنا بہت آسان ہے، جو بصورت دیگر کافی مضحکہ خیز معلوم ہوگی:
“بیک وقت، ہمیں لازما اس بات کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ بھاری صنعت اور قومی معیشت کے دوسرے شعبوں کی ترقی اناج، خام مال، کیپٹل فنڈز، اور لیبرفورس کی اس مقدار سے تجاوز نہیں کرسکتی جو زراعت مہیا کرتی ہے”۔ (ایضا، ص، 388)۔
کلاسیکی سرمایہ دارانہ سیاسی معیشت اور اس کے روسی مقلدین کے طریقہِ کار کی غلطی کو دوہراتے ہوئے، شنگھائی نصابی کتاب کے مصنفین نہ صرف اسی معروف نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ زراعت ہی قومی معیشت کی بنیاد ہے، بلکہ وہ اس سماجی پیداوارکے تناسب کے لیے بھی ایک بالائی حد مقرر کرتے ہیں جو بھاری صنعت میں شامل ہوسکتی ہے۔ لہذا، اس “سوشلسٹ” منصوبے میں بھاری صنعت کے لیے مختص کیے گئے وسائل اورسرمایہ کاری کا تعین زراعت کی ترقی سے کیا جاتا ہے، جو کہ معیشت کا وہ شعبہ ہے جس میں محنت کی افزودگی (Productivity of Labor) کی سطح کم ہوتی ہے۔ آیا کہ چین جیسے معاشی طور پر پسماندہ ملک میں اس وقت مجموعی سماجی پیداوار بھاری صنعت میں شامل کل سماجی پیدوار کی مقدارسے کافی بڑی ہے، یہ بات کوئی بنیادی اہمیت نہیں رکھتی۔ یہاں ہم سوشلسٹ معیشت کی بنیاد کی تعمیر کے بارے میں عمومی دعوے کے حوالے سے بات کر رہے ہیں ۔
شنگھائی نصابی کتاب کے مصنفین نرودنکوں سے متفق ہیں کہ زراعت کی ترقی کے بغیرقومی معیشت کی ترقی ناممکن ہے اوراس لیے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قومی معیشت کی ترقی کا تعین زراعت کی ترقی سے ہوتا ہے۔ تاہم، یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنے ابتدائی مرحلوں میں سرمایہ داری کی ترقی کسان معیشت کے سکڑاؤ کے باوجود ہوئی کیونکہ زرائع پیدوار کی مارکیٹ وسیع تر ہوئی۔ سوشلزم کے تحت، انفرادی پیداوار کرنے والےعوامی گروہ سرمایہ داری کی ترقی کے دباؤ کے تحت دیہی علاقوں سے غائب نہیں ہوجاتے، اور نہ ہی کسانوں کی مارکیٹ صنعت کی ترقی کی وجہ سے سکڑجاتی ہے، جیسا کہ سرمایہ داری میں ہوتا ہے۔ اس کے کافی برعکس،عبوری معیشت میں زراعت میں پیداواری قوتوں کی ترقی کا پھیلاؤ بنیادی طور پر بھاری صنعت کے زریعے ہوتا ہے۔ یہ یقین کرنا کہ چین جیسے نسبتا پسماندہ ملک میں زراعت کی ترقی سادہ تعاون کے زریعے، ٹھوس بنیادوں پر قائم بھاری صنعت کی شکل میں ریاستی مدد کے بغیر، ہوسکتی ہے ایک فضول خیال ہے جو مارکسی سیاسی معیشت کی بنیادی باتوں کی سمجھ بوجھ سے گہری ناواقفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ سوشلزم کی تعمیر کی معاشی تاریخ یہ دکھاتی ہے کہ اس خیال کو اپنانا اوراس پرعمل کرنا معاشی عمل میں بالآخر دیہات میں سرمایہ داری کی ترقی کی جانب لے جاتا ہے۔ تاہم، شنگھائی نصابی کتاب کے مصنفین اس معاملے میں نرودنکوں کی طرح بالکل ہی الٹ نتائج اخذ کرتے ہیں جب وہ روس میں سرمایہ داری کی ترقی کے امکانات پرسوال اٹھاتے ہیں۔
“یقینا، آئیے اس سوال کے جواب کے بارے میں تصور کریں: ‘کیا روس میں سرمایہ داری ترقی کرسکتی ہے جب کہ عوام غریب ہے اورمزید غریب ہورہی ہے؟’ کوئی اس سوال کے جواب میں یہ کہے گا: ‘ہاں، ایسا ہوسکتا ہے، کیونکہ سرمایہ داری اشیائے صرف کی بنیاد پر ترقی نہیں کرے گی، بلکہ زرائع پیداوار کی بنیاد پر ترقی کرے گی۔’ ظاہر ہے کہ ایسا جواب اس قطعی درست خیال پر مبنی ہے کہ کسی سرمایہ دار قوم کی مجموعی پیداوار بنیادی طور پر زرائع پیداوار کی وجہ سے بڑھتی ہے (یعنی، اشیائے صرف سے زیادہ زرائع پیداوار کی وجہ سے؛'” (لینن، نام نہاد مارکیٹ کے سوال پر، مجموعہ تصانیف، چوتھی جلد، انگریزی ایڈیشن، پروگریس پبلشرز، ماسکو، 1972ء، ص 110)۔
روس میں سرمایہ داری کی ترقی کے بارے میں نرودنکوں کے خیالات کے ماقبلِ مارکس کردار کا لینن کی جانب سے کلاسیکی مارکسی تجزیہ ہمارے اس تجزیے کے لیے بالکل درست ہے جس میں ہم نے شنگھائی نصابی کتاب کے مصنفین کی جانب سے کیے گئے ان مارکس مخالف انحرافات کا جائزہ لیا ہے جن کی وکالت وہ قومی معیشت کی بنیاد کے لیے زراعت کی دلیل کی شکل میں کرتے ہیں۔
“وہ گھریلومارکیٹ کے’سکڑاؤ’ کو اور کسانوں کی قوتِ خرید کی ‘کمی’ کو روس میں سرمایہ داری کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی ‘رکاوٹ’ قراردیتا ہے”۔
“اس ‘ہمیشہ نئی’ تھیوری کی (روسی نرودنکوں کی تھیوری کی) حماقت کی جڑیں کہاں ہیں؟
“کیا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا مصنف ‘زرائع پیدوار کی پیداوار کو زرائع پیداوار’ سمجھنے کی اہمیت سے بے بہرہ رہا ہے’؟ یقینا نہیں، جناب نک-اون اس قانون کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ حتی کہ وہ یہ ذکر بھی کرتے ہیں کہ یہ قانون ہمارے ملک میں بھی عمل کرتا ہے (صفحات 186، 203-204)۔ یقینا، تضادات میں مبتلاہوکرخود پر طعنہ زنی کرنے کی ان کی صلاحیت کے پیش نظر، وہ بعض اوقات (ص 123) اس قانون کے بارے میں بھول جاتے ہیں، لیکن یہ صاف ظاہر ہے کہ ایسے تضادات کی درستگی مصنف کے بنیادی (اوپردی گئی) دلیل کی بالکل بھی تصیح نہیں کرے گی۔”(لینن، نام نہاد مارکیٹ کے سوال پر، مجموعہ تصانیف، چوتھی جلد، انگریزی ایڈیشن، پروگریس پبلشرز، ماسکو، 1972ء، ص 122-123)۔
شنگھائی نصابی کتاب کے مصنفین کی جانب سے یہ اور دوسرے معاشی دعوے سیاست کے اس پرولتاری جوہر سے متضاد ہیں جس کی رہنمائی مارکسزم-لینن ازم کرتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے حصوں میں واضح کیا جائے گا، کتاب کے مصنفین انقلابی (اوربعض اوقات مہا انقلابی) لفاظی کو استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے بہت سے اہم دعووں کے ماقبل مارکس اور دائیں بازو کے ترمیم پسندانہ جوہر پرپردہ ڈال سکیں۔ ایک مستقل مزاج مارکسی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ کہنا ایک بے معنی بات ہو گی کہ عوام کو پرولتاری پالیسیوں پرعمل کرنے کا درس دیا جائے جب کہ مصنفین کی تجویز کردہ معاشی اصلاحات بنیادی طور پر پیٹی بورژوا ہوں۔ ان کا طبقاتی جوہر، ان کے مارکس مخالف کرداراور نرودنک معاشی فکر کے ساتھ، بہت پہلے بے نقاب کیا جا چکا ہے۔ ہم ان لوگوں سے اپیل کرتے ہیں جو زراعت کے معاشی تھیسس کو معیشت کی بنیاد کے طور پر دیکھے جانے کو پرولتاری پالیسی سمجھتے ہیں کہ وہ احتیاط کے ساتھ ان مسائل سے نپٹیں اور معاشی مظہر کے جوہر پر زیادہ توجہ دیں:
“نرودنک مزدور طبقے کو انقلاب کا ہراول طبقہ نہیں سمجھتے تھے۔ وہ پرولتاریہ کے بغیر سوشلزم کے حصول کا خواب دیکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ بنیادی انقلابی قوت کسان طبقہ ہے، جس کی قیادت دانشور اورکسان کمیون کرتی ہے، جسے وہ سوشلزم کی بنیاد اور اس کا جنین (Embryo) سمجھتے تھے۔” (سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی (بالشویک) کی تاریخ، 1939ء، انٹرنیشنل پبلشرز، ص 12)
رفائیل مارٹینیز کی تصنیف “شنگھائی سیاسی معیشت کی نصانی کتاب پر” کے باب “معیشت کی بنیاد کے طور پر زراعت کے مفروضے کی ماقبل مارکس خاصیت” کا ترجمہ۔