مترجم: شاداب مرتضی
برطانوی اورآئرش کمیونسٹ تنظیم
بیسویں کانگریس کا معاملہ
11۔فروری 1956ء میں سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس کے موقعے پر خروشچیف کے ترمیم پسند نقطہِ نظر کو جامع انداز سے عوامی سطح پر بیان کیا گیا تھا (ٹیٹو کی جانب سے مناسب ‘تہنیتی پیغام’ کے ساتھ)۔ بہت سی پارٹیوں میں مزدور طبقے کی ممبرشپ کے معاملے پر نئی پالیسیوں پر نہایت سخت اختلاف تھا۔ لیکن خروشچیف پرستوں نے قیادت کی اکثریت جیت لی، جس میں دانشوربہت بااثر تھے، اس کے باوجود کہ مزدور طبقے کی حزبِ اختلاف نے، جو غیرمنظم اورنظریاتی طور پر کمزور تھی،ان پالیسیوں کی بڑی مخالفت کی، مگر یہ پارٹیاں خروشچیف ازم کے اختیار میں آگئیں۔ لیکن ٹیٹو ازم کے ساتھ مفاہمت کے زیرِ اثر، بیسویں کانگریس، اور اکتوبر 1956ء میں ہنگری کے واقعات کے سبب ہزاروں کی تعداد میں مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے بہترین کمیونسٹوں نے کمیونسٹ پارٹیوں کو چھوڑ دیا۔
1956ء میں خروشچیف ازم کے فتح اس حقیقت کی وجہ سے ممکن ہوئی کہ کسی ایک کمیونسٹ پارٹی نے بھی خروشچیف ازم کی مخالفت یا مزدور طبقے کی جانب سے اس کی مخالفت کو قیادت فراہم نہیں کی۔ کسی ایک پارٹی نے، کسی ایک بااثر کمیونسٹ رہنما نے بھی 1956ء میں وہ نہیں کیا جو لینن نے 1914ء میں کیا تھا۔
12۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نے بیسویں کانگریس کے بارے میں اپنا نقطہِ نظر دو پمفلٹوں میں شائع کیا جنہوں نے 1956ء میں وسیع پیمانے پر لوگوں کو متاثر کیا۔ ان میں سے ایک “مزدورآمریت کے تاریخی تجربے پر” تھا جو اپریل 1956ء میں شائع ہوا اوردوسرا “مزدور آمریت کے تاریخی تجربے پر مزید” تھا جو دسمبر 1956ء میں شائع ہوا۔ ان میں سے پہلا پمفلٹ بیان کرتا ہے:
“سوویت کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس نے بین الاقوامی تعلقات اور خانگی تعمیر دونوں میں حاصل کیے گئے تازہ تجربے کا خلاصہ کیا۔ اس نے مختلف سماجی نظاموں کے حامل ممالک کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے امکانات، سوویت جمہوریت کی ترقی، پارٹی کی اجتماعی قیادت کے اصول کی مکمل پابندی ، پارٹی کے اندر خامیوں پر تنقید، اور قومی معیشت کی ترقی کے لیے چھٹےپنج سالہ منصوبے کے حوالے سے لینن کی پالیسی پر ثابت قدمی سے عمل درآمد کے سلسلے میں کئی اہم فیصلے لیے۔
“بیسویں کانگریس کے مباحثوں میں شخصیت پرستی کا مقابلہ کرنے کے سوال نے ایک اہم مقام حاصل کیا۔ کانگریس نے فرد کی شخصیت پرستی کے پھیلاؤ کو تیزی سےبے نقاب کیا جس نے سوویت زندگی میں ایک طویل عرصے تک کام میں بہت سی غلطیوں کو جنم دیا اور اس کے برے نتائج برآمد ہوئے۔ سوویت کمیونسٹ پارٹی کی اپنی ماضی کی غلطیوں پر اس جرات مندانہ خود تنقیدی نے پارٹی کی اندرونی زندگی میں اصول کی اعلیٰ سطح اور مارکسزم-لینن ازم کی عظیم قوت کا مظاہرہ کیا”(ص 3)۔
یہ خیال دوسرے پمفلٹ میں دوہرایا گیا جسے ہنگری میں 1956ء کے واقعات کے حوالے سے شائع کیا گیا تھا۔
13۔ بیسویں کانگریس کے مؤقف کو سوشلسٹ ملکوں کے رہنما مؤقف کی حیثیت سے 12 سوشلسٹ ملکوں کی کمیونسٹ پارٹیوں کے اعلامیے میں باضابطہ طور پر منظور اورتسلیم کیا گیا جسے نومبر 1957ء میں ماسکو کی میٹنگ میں شائع کیا گیا تھا۔ (چینی کمیونسٹ پارٹی کے وفد کی قیادت ماؤزے تنگ نے کی۔) اعلامیہ بیان کرتا ہے:
“کمیونزم کے بحران کے مضحکہ خیز دعووں کے برعکس کمیونسٹ تحریک بڑھ رہی ہے اورمضبوط ہوری ہے۔ سوویت کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس کے تاریخی فیصلے نہ صرف سوویت کمیونسٹ پارٹی کے لیے اور سوویت یونین میں کمیونزم کی تعمیر کے لیے زبردست اہمیت رکھتے ہیں ۔ بلکہ انہوں نے عالمی کمیونسٹ تحریک میں ایک نئے مرحلے کا آغاز کیا ہےاورمارکسزم لینن ازم کے خطوط پر اس کی مزید ترقی کو آگے بڑھایا ہے۔ چین، فرانس، اٹلی اوردوسرے ملکوں کی کمیونسٹ پارٹیوں کی کانگریسوں کے نتائج نے حالیہ وقتوں میں واضح طور پر پارٹی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی کو ثابت کیا ہے ۔۔۔یہ میٹنگ ۔۔۔کمیونسٹ تحریک کی بین الاقوامی یکجہتی کو ثابت کرتی ہے۔”
نومبر 1960ء میں ماسکو میں (چینی کمیونسٹ پارٹی سمیت) 81 کمیونسٹ پارٹیوں کے بیان میں بیسویں کانگریس کی ترمیم پسند لائن کی حمایت پر دوبارہ زور دیا گیا۔ بیان میں کہا گیا:
“آج سرمایہ داری کی بحالی نہ صرف سوویت یونین میں بلکہ دیگر سوشلسٹ ممالک میں بھی سماجی اور معاشی طور پر ناممکن بنا دی گئی ہے۔۔۔سوشلسٹ کیمپ کے اندر تقسیم کی سامراجی، متعصب اور ترمیم پسندانہ امیدیں ریت پر کھڑی ہیں اور ناکامی ان کا مقدر ہے۔” (یہاں ترمیم پسندی سے مراد صرف ٹیٹو ازم ہے۔ نومبر 1956 ءکے ہنگری کے واقعات سے پیدا ہونے والے اختلافات نے خروشچیف اور ٹیٹو کی ترمیم پسندیوں کے درمیان تعلقات کو عارضی طور پر بگاڑ دیا تھا۔)
“کمیونسٹ پارٹیوں نے نظریاتی طور پر اپنی صفوں میں ترمیم پسندوں کو شکست دی ہے جنہوں نے انہیں مارکسی لیننی راستے سے ہٹانا چاہا۔۔۔کمیونسٹ پارٹیوں نے متفقہ طور پر بین الاقوامی موقع پرستی کی یوگوسلاف قسم کی مذمت کی ہے جوجدید ترمیم پسند ‘نظریات’ کی مجتمع شدہ شکل ہے۔۔۔
“کمیونسٹ اور ورکرز پارٹیاں اعلان کرتی ہیں کہ سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی عالمی کمیونسٹ تحریک کا عالمی طور پر تسلیم شدہ ہراول دستہ رہا ہے اور رہے گا۔۔۔سوویت کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس کے تاریخی فیصلے نہ صرف سوویت کمیونسٹ پارٹی اور سوویت یونین میں کمیونسٹ تعمیر کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں بلکہ انہوں نے عالمی کمیونسٹ تحریک میں ایک نئے مرحلے کا آغاز کیا ہے، اور مارکسزم-لیننزم کی بنیاد پر اس کی ترقی کو فروغ دیا ہے۔”
14۔ ترمیم پسندی کے خلاف تحریک میں اس بارے میں مختلف آراء ہیں کہ آیا ‘تاریخی تجربے پر’ مبنی پمفلٹوں نے ماؤ زے تنگ کے موقف کا اظہار کیا یا انہیں ان کی مخالفت کے باوجود جاری کیا گیا۔ اس مؤقف کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ انہوں نے ان پمفلٹوں کے نقطہِ نظر کی مخالفت کی تھی:(یعنی) خروشچیف کی ترمیم پسندی کے لیے مکمل حمایت کی لائن۔ اور اس بات کا ناقابل تردید ثبوت موجود ہے کہ انہوں نے خروشچیف کی ترمیم پسندی کی حمایت کی۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی آٹھویں کانگریس سے اپنے افتتاحی خطاب میں، جو بیسویں کانگریس کے چھ ماہ بعد منعقد ہوئی، ماؤزے تنگ نے کہا:
“اکتوبر انقلاب کے بعد، لینن نے باربارمطالعہ کرنے کا کام سوویت کمیونسٹ پارٹی کے سامنے رکھا۔ ہمارے سوویت کامریڈوں اور سوویت عوام نے لینن کے اس حکم کے مطابق عمل کیا۔ وقت زیادہ نہیں گزرالیکن کامیابیاں انتہائی شاندار رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل منعقد ہونے والی اپنی بیسویں کانگریس میں، سوویت کمیونسٹ پارٹی نے بہت سی درست پالیسیاں مرتب کیں اور پارٹی میں پائی جانے والی خامیوں پر تنقید کی۔ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کے کام میں بہت بڑی پیش رفت ہو گی۔ “(پیپلز چائنا، 1 اکتوبر 1956ء)
ماسکو میں، 6نومبر1957ء میں ، بیسویں کانگریس کے تقریبا دو سال بعد، ماؤزے تنگ نے ایک تقریر میں کہا: “عملی فرائض سے نمٹنے میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے مارکسزم لینن ازم کےتخلیقی اطلاق نے سوویت عوام کے تعمیری کام میں بلاتعطل کامیابی کو یقینی بنا دیا ہے۔ بیسویں کانگریس میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے پیش کیا گیا لڑاکا پروگرام ایک اچھی مثال ہے۔ فرد کی شخصیت پرستی پر قابو پانے، زراعت کو ترقی دینے، صنعت اورتعمیر کی انتظام کاری کی تنظیمِ نو کرنے، وفاق کی جمہوریاؤں اور مقامی تنظیموں کے اختیارات میں اضافہ کرنے، پارٹی مخالف گروہ کی مخالفت کرنے، پارٹی میں اتحاد کو مستحکم کرنے اور سوویت فوج اوربحریہ میں پارٹی کو اورپارٹی کے سیاسی کام کو بہتر بنانے کے سوالوں پر سوویت کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی جانب سے اختیار کی گئی تدابیر بے شک سوویت یونین میں اٹھائی گئی تمام ذمہ داریوں کی مزید ترقی اوراستحکام کو فروغ دیں گی۔ “
ماسکو میں رہنے کے دوران، 17 نومبر کو، چیئرمین ماؤزے تنگ نے سوویت یونین میں موجود تین ہزار چینی طلبا ء اورتربیت پانے والوں سے ملاقات اورخطاب کیا۔۔۔انہوں نے کہا کہ یہ نہایت اہمیت کا حامل واقعہ تھا کہ 68 ملکوں کی کمیونسٹ اورورکرز پارٹیوں نے تقریبات میں شرکت کی تھی۔۔۔اس سے دنیا بھر میں کمیونسٹ اورورکرزپارٹیوں کی یکجہتی ظاہر ہوتی ہے۔ سوشلسٹ کیمپ کے پاس لازما ایک رہنما ہونا چاہیے اور۔۔۔وہ رہنما، چیئرمین ماؤ نے مزید کہا، سوویت یونین ہے۔ تمام ملکوں کی کمیونسٹ اورورکرز پارٹیوں کا بھی لازما کوئی رہنما ہونا چاہیے اور وہ رہنما سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی ہے۔ دو حقائق، یعنی بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کا اتحاد اور سوویت یونین کی جانب سے دو مصنوعی سیاروں کو فضا میں بھیجنا، دو بڑے کیمپوں کے درمیان نسبتی طاقت میں اہم موڑ کی نشاندہی کرتے ہیں۔” (پیپلز چائنا،16 دسمبر1957)۔
پیکنگ میں اگست 1958ء میں خروشچیف اورماؤزے تنگ کی گفتگو کے بعد جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں چینی کمیونسٹ پارٹی اور سوویت کمیونسٹ پارٹی کے “غیرمتزلزل اتحاد” کا حوالہ دیا گیا۔
15۔ 1963ء کی دستاویز”ہماری اورسوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کے درمیان اختلافات کا ماخذ اور نشوونما” میں کہا گیا: “بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں اصولی اختلافات کا تمام سلسلہ سات سال سے پہلے شروع ہوا۔ خصوصیت سے کہا جائے تو یہ 1956ء میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس کے ساتھ شروع ہوا”۔۔۔”بیسویں کانگریس کی غلطیوں نے بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں شدید نظریاتی الجھن پیدا کی اور اسے ترمیم پسند خیالات میں ڈبونے کا سبب بنی۔ سامراجیوں، ترمیم پسندوں اور ٹیٹو کے جتھے کے ہمراہ، بہت سے ملکوں میں کمیونزم کے بھگوڑوں نے مارکسزم لینن ازم پر اوربین الاقوامی کمیونسٹ تحریک پر حملہ کیا۔”
یہ بیسویں کانگریس کے تجزیے کے بارے میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے 1956ء کے ان عوامی بیانات سے واضح طور پر پھرجانےکے مترادف ہے جنہیں اس کی(بیسویں کانگریس کی) حمایت میں 1957ء کے اعلامیے میں اور 1960ء کے بیان میں دوہرایا گیا تھا۔ لیکن اس دستاویز میں یہ دعوی کیا گیا کہ اس بارے میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے جائزے میں درحقیقت کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے!
“ہم نے شروع سے ہی یہ مؤقف اپنایا تھا کہ بیسویں کانگریس میں عصری بین الاقوامی جدوجہد اور بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کے بارے میں پیش کیے جانے والے بہت سے خیالات غلط تھے، (اور) مارکسزم لینن ازم کی خلاف ورزی کے مساوی تھے”۔۔۔”چینی کمیونسٹ پارٹی نے سوویت کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس کے بارے میں اپنے مؤقف میں ہمیشہ اصولی اختلاف کیا ہے ، اور سوویت کمیونسٹ پارٹی کے اہم کامریڈز ہمیشہ اس سے واقف رہے ہیں۔ کئی مواقعوں پر بیسویں کانگریس کے بعد اندرونی بحث مباحثوں میں۔۔۔چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اہم کامریڈزنے قطعی سنجیدگی کے ساتھ سوویت کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی غلطیوں پر تنقید کی ہے”۔ 1956 کی دو دستاویزوں ‘تاریخی تجربےپر’ وغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دستاویز کہتی ہے کہ انہوں نے (چینی کمیونسٹوں نے) “مدبرانہ انداز سے لیکن واشگاف طور پر بیسویں کانگریس کے غلط دعووں پر تنقید کی۔” تاہم، “دشمنوں کے خلاف اتحاد کی خاطر اور سوویت کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کی مشکل صورتحال کے پیشِ نظر، ان دنوں ہم نے بیسویں کانگریس کی غلطیوں پر کھلی تنقید سے گریز کیا، کیونکہ تمام ملکوں کے سامراجی اوررجعت پسندان غلطیوں کا فائدہ اٹھا رہے تھے اور سوویت یونین، کمیونزم اورعوام کے خلاف جنونی انداز سے سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے، اوراس وجہ سے بھی کہ سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماوں نے مارکسزم لینن ازم سے اس قدر زیادہ انحراف نہیں کیا تھا جتنا بعد میں کیا۔ چنانچہ، ہم نے ہمیشہ مثبت پہلوؤں کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور عوامی مواقعوں پر انہیں وہ تمام مدد دی جو ضروری اورمناسب تھی۔”