مترجم: شاداب مرتضی
برطانوی اورآئرش کمیونسٹ تنظیم
1957ء کا وہ اعلامیہ جس میں ‘بیسویں کانگریس کے تاریخی فیصلوں ‘ کو ‘سوویت یونین میں کمیونزم کی تعمیر کے لیے۔۔۔زبردست اہمیت کے’ حامل اور’کمیونسٹ تحریک میں ایک نئے مرحلے کا آغاز’قراردینے کا اعلان کیا گیا، اس کے بارے میں یہ دستاویز کہتی ہے: “اصول کے بہت سے اہم سوالوں پر بیسویں کانگریس کے غلط خیالات کو مسترد کیا گیا اور 1957ء میں برادرانہ پارٹیوں کی میٹنگ میں انہیں درست کیا گیا۔”
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اس صورت میں اس اعلامیے نے دراصل بیسویں کانگریس کی اہمیت کی اتنی تعریف کیوں کی تھی، یہ دستاویز کہتی ہے: “ہم نے بیسویں کانگریس کے حوالے سے اتفاق نہیں کیا۔۔۔اور تبدیلیوں کی تجویز دی۔ لیکن اس وقت سوویت کمیونسٹ پارٹی کی مشکل صورتحال کے سبب ہم نے تبدیلیوں پر اصرار نہیں کیا۔”یہ رعایت “وسیع تر مفاد کے پیشِ نظر” دی گئی تھی۔ (سرمایہ داری سے سوشلزم میں) پرامن منتقلی کی تشکیل پر رعایت ” سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کے اس مسلسل اصرار کے پیشِ نظر دی گئی کہ یہ تشکیل بیسویں کانگریس کے ساتھ ربط کو کسی طرح ظاہر کرے”۔
1960ء کی میٹنگ میں پھر سے کہا گیا: “ہم نے بیسویں کانگریس کے سوالوں پر اختلاف کیا۔۔۔اور سرمایہ داری سے سوشلزم میں منتقلی کی شکلوں پر، لیکن سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی اور دیگر برادرانہ پارٹیوں کی ضرورتوں کے پیشِ نظر ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ان دونوں سوالوں پر وہی الفاظ شامل کیے جائیں جو کہ 1957ء کے اعلامیے میں استعمال کیے گئے تھے۔ لیکن ہم نے اس وقت سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں پریہ بھی واضح کردیا کہ یہ آخری بار ہو گا کہ ہم بیسویں کانگریس کے بارے میں اس قسم کی تشکیل کی گنجائش پیدا کررہے ہیں”۔
اسٹالن کا معاملہ
16۔ جدید ترمیم پسندی کے ارتقاء کا اور1936-1953 کے دوران عالمی کمیونسٹ تحریک کی اسٹالن قیادت پرتنقید کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ٹیٹو ازم اورخروشچیف ازم دونوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ اسٹالن پر تنقید بیسویں کانگریس کی بنیاد تھی اورچینی کمیونسٹ پارٹی نے اس کی حمایت کی اوراسے دوہرایا۔ پمفلٹ “مزدورآمریت کے تاریخی تجربے پر” میں کہا گیا: “(بیسویں) کانگریس نے بڑی وضاحت کے ساتھ فرد کی شخصیت پرستی کے پھیلاؤ کو بے نقاب کیا جس نے سوویت زندگی میں طویل عرصے تک کام میں کئی غلطیوں کو جنم دیا تھا اورخراب نتائج کی طرف لے گئی تھی”۔(صفحہ 3) “چینی کمیونسٹ پارٹی سوویت کمیونسٹ پارٹی کوفرد کی شخصیت پرستی کے خلاف تاریخی جدوجہد میں حاصل ہونے والی عظیم کامیابیوں پر مبارک باد دیتی ہے” (صفحہ 13)۔ وہ دعوی کرتی ہے کہ “اپنی زندگی کے بعد کے حصے میں، اسٹالن کو فرد کی شخصیت پرستی میں زیادہ سے زیادہ مزہ آنے لگا” اور اس کے نتیجے میں وہ “مغرور اورنادان بن گیا” ، اور”اس کی سوچ میں موضوعیت اور یکطرفہ پن پیدا ہوگیا”۔ اس نے “غلطی سے خود اپنے کردار کو مبالغہ آرائی سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور انفرادی تحکم کو اجتماعی قیادت کے مدمقابل کھڑا کیا”۔
اسٹالن پر چینی کمیونسٹ پارٹی کی تنقید کو دوسرے پمفلٹ ‘مزدورآمریت کے تاریخی تجربے پر مزید’ میں اوربڑھا کرپیش کیا گیا (جسے امریکہ کی جانب سے خروشچیف کی ‘خفیہ تقریر’ کی اشاعت کے چھ ماہ بعد شائع کیا گیا تھا)۔ اس میں یہ الزام دوہرایا گیا کہ اسٹالن مغرور اور داخلیت پسند بن گیا تھا۔ ‘اسے ملنے والی کامیابیوں کے سلسلے اورتعریفوں نے زندگی کے بعد کے سالوں میں اس کا دماغ پلٹ دیا۔ اس نے فکر کے جدلیاتی مادیت پسند طریقے سے جزوی، لیکن بنیادی انحراف کیا، اور موضوعیت پسندی کا شکار ہوگیا۔ وہ ذاتی عقل اورتحکم پر اندھا یقین کرنے لگا: وہ پیچیدہ حالات کا سنجیدگی سے مطالعہ اورتفتیش نہیں کرتا تھا اور اپنے کامریڈوں کی آراء کو اورعوام کی آواز کو توجہ سے نہیں سنتا تھا۔۔۔وہ اکثر طویل عرصے کے لیے ٖغلط پالیسیوں پر اڑا رہتا تھا اور اپنی غلطیوں کو بروقت درست کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا’۔ (صفحہ 14)۔ ان دستاویزوں میں اسٹالن سے منسوب غلطیوں کی مندرجہ ذیل فہرست دی گئی تھی:
“اس نے رد انقلابیوں کی سرکوبی کا دائرہ وسیع کردیا تھا؛ فاشسٹ مخالف جنگ کی شام وہ ضروری نگرانی سے غافل تھا؛ وہ زراعت کی مزید ترقی اور کسانوں کی فلاح وبہبود کی جانب مناسب توجہ دینے میں ناکام رہا؛ اس نے بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کے معاملے پر بعض غلط مشورے دیئے، اورخصوصا، یوگوسلاویہ کے سوال پر غلط فیصلہ کیا۔'”(مزدورآمریت کے تاریخی تجربے پر، صفحہ 10)
“بعض شعبوں میں اور ایک خاص حد تک، اس نے جمہوری مرکزیت اورپارٹی قیادت کی بیخ کنی کی۔” (تاریخی تجربے پر مزید'( صفحہ 23))۔ اس “نے برادر پارٹیوں اورملکوں کے ساتھ عظیم قوم کے شاونزم (نسلی تفاخر) کے رجحانوں کامظاہرہ کیا۔” (صفحہ 28)
مزیدبرآں:” طبقوں کے خاتمے کے بعد، طبقاتی جدوجہد کے شدید ہونے پر مستقل زور نہیں دینا چاہیے جیسا کہ اسٹالن نے کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوشلسٹ جمہوریت کی صحت مند ترقی میں رکاوٹ ہوئی۔ اس معاملے میں اسٹالن کی غلطیوں کی ثابت قدمی سے درستگی میں سوویت کمیونسٹ پارٹی بالکل درست تھی۔” (صفحہ 21)
حالانکہ یہ بیان کیا گیا تھا کہ ‘ہمیں اسٹالن کو تاریخی نقطہِ نظر سے دیکھنا چاہیے، اوریہ دیکھنے کے لیے باضابطہ اور مجموعی تجزیہ کرنا چاہیے کہ وہ کہاں درست اور کہاں غلط تھا’، لیکن چینی کمیونسٹ پارٹی نے ایسا کوئی تجزیہ نہیں کیا۔ اسٹالن پر اس کی تنقید محض نام نہاد غلطیوں کی ایک فہرست پر مبنی رہی، جسے اکثر مبہم انداز سے تشکیل دیا گیا تھا اورجو مکمل طور پر تاریخی شہادت سے عاری تھی۔
17۔ 1963ء کی چینی کمیونسٹ پارٹی کی دستاویز، “اسٹالن کے سوال پر”، بیان کرتی ہے کہ” چینی کمیونسٹ پارٹی نے مستقل مزاجی کے ساتھ اسٹالن کی خوبیوں اورخامیوں کا تاریخی مادیت کے طریقے سے مجموعی، معروضی اور سائنسی تجزیہ کرنے اور تاریخ کو اسی طرح پیش کرنے پر جیسی وہ حقیقت میں تھی اصرار کیا ہے۔”بدقسمتی سے، حالانکہ یہ کہا گیا کہ اسٹالن کے سوال پر یہ رویہ اپنانا چاہیے، لیکن اسے اس طرح سے نہیں دیکھا گیا۔
1963ء کی غلطیوں کی فہرست کے مطابق:”اسٹالن نے جدلیاتی مادیت سے انحراف کیا اور بعض سوالوں پر مابعدالطبعیات (میٹافزکس) اورموضوعیت پسندی کا شکار ہوگیا اورنتیجتا بعض اوقات وہ عوام سے کٹ گیا۔ پارٹی کے اندر اورباہر جدوجہد میں، بعض مواقعوں پر اوربعض معاملات میں اس نے دوقسم کے تضادوں کو آپس میں الجھایا جو فطرتا مختلف ہیں، یعنی اپنے اوردشمن کے درمیان تضاد ات اورعوام کے مابین تضادات، اور ان سے نپٹنے کے مختلف طریقوں کو بھی آپس میں الجھایا۔ ردانقلابیوں کو کچلنے کے کام میں جس کی قیادت اسٹالن نے کی، بہت سے ردانقلابیوں کو قرار واقعی سزا ملی، لیکن اسی دوران، معصوم لوگ بھی تھے جنہیں غلط سزا ملی: اور 1937ء میں اور1938ء میں ردانقلابیوں کی سرکوبی کے دائرے کو وسیع کرنے کی غلطی ہوئی۔ پارٹی اورحکومتی تنظیموں کے معاملے میں، اس نے مزدور مرکزیت کو مکمل طور پر استعمال نہیں کیا اور، کسی حد تک، اس کی خلاف ورزی کی۔ برادر پارٹیوں اورملکوں سے پیش آنے کے معاملے میں بھی اس نے کچھ غلطیاں کیں۔ اس نے بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں بھی کچھ غلط مشورے دیے۔”
1956ء میں بیان کی گئی کئی غلطیوں کا ذکر 1963ء میں چھوڑ دیا گیا۔ طبقاتی جدوجہد میں تیزی لانے کے بارے میں اسٹالن کے نظریے کو غلطیوں کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ اسے یوگوسلاویہ کے معاملے پر غلطی کرنے کے کا خصوصی قصوروار قرار نہیں دیا جاتا۔ اسے اپنی داخلی مسرت و اطمینان کے لیے جان بوجھ کر اپنی شخصیت پرستی کو مضبوط کرنے کا ملزم نہیں ٹہرایا جاتا۔ شخصیت پرستی کے خلاف خروشچیف کی جدوجہد کی اب مزید حمایت نہیں کی جاتی: اسے درحقیقت (اب) ردِانقلاب کو چھپانے کا حربہ قرار دیا جاتا ہے۔
18۔ 1963ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے شائع کی گئی ایک اوردستاویز “اختلافات کا ماخذ اورنشوونماپر” میں یہ کہا جاتا ہے: “بیسویں کانگریس میں اسٹالن پر تنقید۔۔۔اصولی طور پر اورطریقہ کار کے اعتبار سے، دونوں طرح سے، غلط تھی”۔۔۔”اپریل 1956ء میں ، بیسویں کانگریس کے دو ماہ بعد، کامریڈ میکویان سے۔۔۔گفتگو میں۔۔۔کامریڈ ماؤزے تنگ نے اسٹالن کے سوال پر ہمارے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ اسٹالن کی “خوبیاں اس کی خامیوں سے بڑھ کرہیں” اوریہ ضروری تھا کہ اسٹالن کا “ٹھوس تجزیہ” اور”مجموعی جائزہ” لیا جائے۔ ۔۔23 اکتوبر 1956ء کو، چین میں سوویت سفیر کا استقبال کرتے ہوئے، کامریڈ ماؤزے تنگ نے نشاندہی کی کہ”اسٹالن تنقید کا مستحق ہے، لیکن ہم تنقید کے طریقہ کار سے متفق نہیں، اور دیگر معاملات بھی ہیں جن سے ہم اتفاق نہیں کرتے”۔۔۔30 نومبر 1956ء کو، چین میں سوویت سفیر کا استقبال کرتے ہوئے، کامریڈ ماؤزے تنگ نے دوبارہ نشاندہی کی کہ اسٹالن کے دور اقتدارمیں بنیادی پالیسی اورلائن درست تھیں اور یہ کہ دشمنوں کے خلاف استعمال کیے جانے والے طریقوں کو ہرگز اپنے کامریڈوں کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے۔۔۔سوویت کمیونسٹ پارٹی کے کامریڈوں کے ساتھ کئی مواقعوں پراپنی اندرونی بات چیت میں، چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اہم رہنماؤں نے بین الاقوامی صورتحال اور بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کی حکمتِ عملی پر اپنے خیالات کو بیسویں کانگریس کے براہِ راست حوالے کے ساتھ منظم انداز سے واضح کیا۔۔۔”۔۔۔”حقیقت یہ ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی نے کبھی بھی اورکسی جگہ بھی۔۔۔اسٹالن کو مکمل طور پرمسترد کرنے سے اتفاق نہیں کیا”۔
19۔ یہ سچ ہے کہ 1956ء میں اسٹالن کو “مکمل” مسترد کرنے سے عوامی سطح پر اختلاف کیا گیاتھا۔ لیکن اس کا حوالہ ٹیٹو تھا خروشچیف نہیں۔ اس نے اسٹالن کے معاملے پر سوویت کمیونسٹ پارٹی کے مؤقف سے اتفاق کا اظہار کیا تھا۔”تاریخی تجربے پر” دستاویز یہ بیان کرتی ہے کہ :”سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی اسٹالن کی عظیم حصہ داری کی توثیق کرتے ہوئے، اس کی غلطیوں کے جوہر کا صاف طور پر انکشاف کرنا ضروری سمجھتی ہے”۔ اور اس دوران “خفیہ تقریر” کی اشاعت کے باوجود، “تاریخی تجربے پر مزید” دستاویزچینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے اسٹالن کے بارے میں خروشچیف کے مؤقف کی حمایت کرتی ہے۔ (اوریہ ایک حقیقت ہے کہ “خفیہ تقریر” نےاسٹالن کی کسی مکمل نفی کو ظاہر نہیں کیا تھا۔ اس نے 1934ء تک اسٹالن کے نقطہِ نظر سے عمومی اتفاق ظاہر کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے بعض بنیادی معاملات پر اختلاف کیا جن کی نفی ردِ انقلاب کے مفاد میں ضروری تھی)۔