انقلابِ چین: اسٹالن اور ماؤ زے تنگ کی خط و کتابت (پہلا حصہ)

مترجم: شاداب مرتضی

پس منظر:1945ء میں جاپان کے ہتھیار ڈالنےکے بعد چین کے اتحاد کے پرامن حصول کے لیے ایک امکان پیدا ہو گیا تھا۔ 10 اکتوبر 1945ء کو چونگ کنگ میں ہونے والے مذاکرات کے موقع پر کومینتانگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے مندوبین کے درمیان کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ ان میں کومینتانگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی مسلح افواج کے درمیان فوجی دشمنی کے خاتمے،چینی کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں کو قانونی حیثیت دینے، اس کی مسلح افواج کو چینی فوج کے ایک جزو کے طور پر تسلیم کرنے کے معاہدے شامل تھے۔ چین کی تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل سیاسی مشاورتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔ لیکن سیاسی مشاورتی کونسل کے افتتاح کے موقع پر اس کے وہ فیصلےجن پر چیانگ کائی شیک نے کومینتانگ کی یک جماعتی حکمرانی کے خاتمے، جمہوری عناصر پرظلم و ستم ختم کرنے، جمہوری طور پر منتخب قومی اسمبلی کو طلب کرنے کا وعدہ کیا تھا، پورے نہیں ہوئے۔

1946ء کے موسم گرما میں کومینتانگ نے، امریکہ کی مدد سے جس نے اپنی فوجیں چین میں اتاریں اوربڑی تعداد میں ہتھیار، فضائی طاقت، بحری جہاز اور بھاری مقدار میں خوراک کے ذخیرے کے ساتھ ساتھ اسے مالی وسائل فراہم کیے، چینی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف خانہ جنگی دوبارہ شروع کردی۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے دستوں کو شمال مغربی اور شمالی علاقوں کو چھوڑنا پڑا جو اس کے کنٹرول میں تھے۔ تاہم، چینی عوام پر جبر کی کومینتانگ کی پالیسی کے خلاف بڑھتے ہوئے عدم اطمینان، ملک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی، ملک کی اقتصادی صورت حال میں تیزی سے بگاڑ، کومینتانگ کے فوجی گروہ کے ظلم اور اس کے ساتھ ساتھ چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی کامیاب دفاعی حکمت عملیوں اور گوریلا جنگ کی وجہ سے یہ حالت پیدا ہوئی کہ 1947ء کے آخر تک کومینتانگ پیپلزلبریشن آرمی کے خلاف اپنی 30 لاکھ کی مضبوط فوج کے ایک تہائی سے زیادہ دستے کھو چکی تھی۔

1948 ءکے موسم گرما اور خزاں کے درمیان نانجنگ حکومت کے فوجیوں کو پیپلز لبریشن آرمی کے دستوں کے ہاتھوں بھاری شکستوں کے سلسلے کاسامنا کرنا پڑا۔ ستمبر سے نومبر 1948ء تک پیپلز لبریشن آرمی کی تین بڑی کارروائیوں میں سے ایک چیانگ کائی شیک کی فوجوں کے خلاف عمل میں آئی ، یعنی لاؤشین کی جنگ، جس کے دوران شمال مشرقی چین کا پورا علاقہ آزاد کرالیا گیا۔ اس عرصے کے دوران حکومت کی فوج کے سپاہیوں، افسروں اور جرنیلوں کی کافی بڑی تعداد رضاکارانہ طور پر پیپلز لبریشن آرمی کی طرف چلی گئی۔ ہوائی ہی کا آپریشن نومبر میں شروع ہوا جس کے دوران کومینتانگ نے 555 ہزار سے زیادہ افراد کو کھو دیا، اور دسمبر میں آخری آپریشن – بنگ کنگ آپریشن – کے نتیجے میں پورے شمالی چین کو آزاد کرالیا گیا۔

چانگ جیانگ (یانگسی) کے شمالی کنارے پر پیپلزلبریشن آرمی کی آمد کے بعد بھاری فوجی دھچکے اور نانجنگ اور شنگھائی کو براہ راست فوجی خطرے کے پیش نظر، چیانگ کائی شیک نے یکم جنوری 1949 ءکو شائع ہونے والی اپنے نئے سال کی تقریر میں پیپلز لبریشن آرمی کے کمانڈ ہیڈکوارٹر کو جنگ بندی کرنے کی تجویز دی، جس کا مقصد اس طرح سے مہلت حاصل کرنااور اپنے دفاع کو مضبوط کرناتھا۔

اس وقت کومینتانگ نے اپنی ‘پرامن جارحیت’ کو ‘بین الاقوامی’ بنانے کی کوشش کی۔ نانجنگ حکومت کی وزارت خارجہ نے امریکہ، انگلینڈ، فرانس اور سوویت یونین کی حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ کومینتانگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے درمیان امن کے تصفیے میں ثالثی کریں۔

1948ء میں بین الاقوامی حالات بہت کشیدہ تھے۔ برلن کے سوال پر سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان تعلقات بگڑ گئے تھے اور انگلستان اور فرانس (‘برلن کے بحران’) میں موخرالذکر کی (امریکہ کی) حمایت کر رہے تھے۔

1945 ءکے اواخر سے امریکہ میں سوویت یونین پر ایٹم بموں کے ذریعے حملہ کرنے کے سلسلے میں کئی منصوبے زیر غور تھے جن کا واحد مالک امریکہ تھا۔ ان میں سے ایک منصوبے کے مطابق جس نے ‘ڈراپ شاٹ’ نامی خفیہ نام پایا تھا، امریکہ مشرق بعید میں کومینتانگ اور دیگر رجعتی حکومتوں کی افواج کو ‘براعظم چین’ سے باہر اپنے اڈوں سے اپنی فضائیہ اور بحریہ کے زریعے مدد فراہم کر کے استعمال کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

اس پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال میں، جو چین میں خانہ جنگی میں امریکہ کی طرف سے فوجی مداخلت کے خطرے سے بھری تھی، سوویت حکومت نے ماؤزے تنگ کے ساتھ اس موقف پر بات کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ سوویت یونین کی قیادت کے مطابق، کومینتانگ فوجیوں اور چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے درمیان فوجی دشمنی کے خاتمے کے لیے چار ریاستوں کی ثالثی پر نانجنگ حکومت کی تجویز کے حوالے سے اختیار کرنا ضروری تھا۔ روسی فیڈریشن کے صدر کے آرکائیوز سے شائع شدہ دستاویزات واضح طور پر ‘چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سوویت قیادت کی بے حسی اور شکوک و شبہات’ کے بارے میں پائے جانے والے خیالات کی تردید کرتی ہیں اور ساتھ ہی اس مؤقف کی بھی کہ سوویت یونین پیپلز لبریشن آرمی کی جانب سے چیانگ جیانگ کو عبور کرنے اورکومینتانگ کی آمریت سے پورے چین کو آزادی دلانے کے خلاف تھا۔

ماہر تعلیم، سی -ایل۔تخونسکی

نمبر 1:
10جنوری 1949ء کو جے وی اسٹالن کا ماؤ زے تنگ کو ٹیلیگرام

کامریڈ ماؤزے تنگ،

9 جنوری کو ہمیں نانجنگ حکومت کی طرف سے ایک نوٹ موصول ہوا جس میں سوویت حکومت کو تجویز دی گئی تھی کہ وہ نانجنگ حکومت اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے درمیان دشمنی کے خاتمے اور امن کے قیام کے سوال پر ثالثی کرے۔ اس کے ساتھ ہی اسی طرح کی تجویز امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں کو بھی بھیجی گئی ہے۔ نانجنگ حکومت کو ابھی تک ان حکومتوں کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ سوویت حکومت نے بھی ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ ہر طرح سے یہ ظاہر ہے کہ (نانجنگ)حکومت کی تجاویز امریکیوں کے حکم پر دی گئی ہیں۔ ان تجاویز کا مقصد نانجنگ حکومت کو جنگ کے خاتمے اور امن قائم کرنےکا حامی ظاہر کرنا اور چینی کمیونسٹ پارٹی کو جنگ کی حامی قرار دینا ہے اگر وہ ( چینی کمیونسٹ پارٹی) نانجنگ والوں کے ساتھ امن مذاکرات کرنے سے فوراً انکار کر دیتی ہے۔ ہم مندرجہ ذیل طریقے سے جواب دینے پر غور کر رہے ہیں: سوویت حکومت چین میں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام پرقائم رہی ہےاور رہے گی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ ثالثی کے لیے اپنی رضامندی دے وہ یہ جاننا چاہے گی کہ کیا دوسرے فریق، چین کی کمیونسٹ پارٹی،نے سوویت یونین کی ثالثی کو قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس کے پیش نظر سوویت یونین چاہے گا کہ دوسرے فریق، یعنی چینی کمیونسٹ پارٹی کو، چینی (نانجنگ) حکومت کے امن اقدام سے آگاہ کیا جائے اور سوویت یونین کی ثالثی کے حوالے سے اس کی رضامندی کے بارے میں پوچھا جائے۔ ہم اس طرح جواب دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور آپ سے درخواست ہے کہ ہمیں بتائیں کہ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ اگر آپ متفق نہیں ہیں تو مزید مناسب جواب دیں۔

اسی طرح، ہمارا خیال ہے کہ آپ کا جواب، اگر آپ سے پوچھا جائے، تو عارضی طور پر اس طرح ہونا چاہیے: کمیونسٹ پارٹی ہمیشہ چین میں امن کی حامی تھی کیونکہ چین میں خانہ جنگی کمیونسٹ پارٹی نے نہیں بلکہ نانجنگ حکومت نے شروع کی تھی جسے جنگ کے نتائج کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کومینتانگ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے تاہم، ان جنگی مجرموں کی شرکت کے بغیر جنہوں نے چین میں خانہ جنگی شروع کی۔ چینی کمیونسٹ پارٹی بغیر کسی غیر ملکی ثالث کے کومینتانگ کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لیے تیار ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی خاص طور پر ایسی غیر ملکی طاقتوں کی ثالثی پر غور(نہیں) کرتی ہے جو خود چینی پیپلز لبریشن آرمی کے خلاف اپنی فضائیہ اور بحریہ کا استعمال کرتے ہوئے خانہ جنگی میں حصہ لے رہی ہیں، کیونکہ ایسی طاقت کو چین میں جنگ کو روکنے کے مقصد میں غیر جانبدار اورمعروضی تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔ ہمارا خیال ہے کہ عارضی طور پر آپ کا جواب یہی ہونا چاہیے۔

اگر آپ متفق نہیں ہیں تو ہمیں اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

آپ کے ماسکو کے دورے کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ مذکورہ بالا حالات کے پیش نظر آپ کو بدقسمتی سے ایک بار پھر روانگی کو کچھ وقت کے لیے ملتوی کر دینا چاہیے کیونکہ ایسے حالات میں دشمن آپ کے ماسکو کے دورے کو چینی کمیونسٹ پارٹی کو ایک ایسی قوت کے طور پر بدنام کرنے کے لیے استعمال کریں گے جو ماسکو پر انحصار کرتی ہے۔ یقیناً یہ چینی کمیونسٹ پارٹی اور سوویت یونین کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

آپ کے جواب کا انتظار ہے،

فلیپوف (اسٹالن)

Leave a Comment