عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا آخری دہشت گرد حملہ 2014ء میں ہوا اور اس کے بعد ملٹری آپریشن کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کا مکمل خاتمہ ہو گیا، جبکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ لف کیے گئے چارٹ میں سال 2010ء سے سال 2020ء تک کیے گئے حملوں کے اعداد و شمار موجود ہیں۔ سال 2020ء کے اعداد و شمار نامکمل ہیں، جس میں کل حملوں کی تعداد 149 رہی۔
سال 2021ء کے آغاز سے ہی ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ جنوری میں 17، فروری میں 15، مارچ میں 29، یعنی سال کے صرف پہلے تین مہینوں میں، ٹی ٹی پی نے کم از کم 61 حملوں کا دعویٰ کیا، جن میں سے زیادہ تر ٹی ٹی پی کے سابق گڑھوں یا پاکستان کے مغربی سرحدی علاقوں میں ہوئے، جبکہ کچھ شہری علاقوں میں بھی ہوئے۔ اپریل میں ٹی ٹی پی نے کوئٹہ کے ایک ہوٹل پر خودکش حملے کا دعویٰ کیا۔ مئ اور جون میں بھی حملے جاری رہے۔ جولائ کے مہینے میں کل 26 حملے ہوئے، جس میں سے 5 صرف ایک دن (30 جولائ 2021ء) میں ہوئے۔
ٹی ٹی پی کی طرف سے لاحق خطرے کا اندازہ لگانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے الگ الگ دھڑوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ جماعت الاحرار اور حزب الاحرار دونوں پاکستان کے اندر انتہائی مہلک حملوں کے ذمہ دار رہے ہیں، جو حالیہ برسوں میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کی سطح کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، جماعت الاحرار نے 2015 سے 2018ء کے درمیان کم از کم نو حملوں میں داعش خراساں کے ساتھ تعاون کیا، جس میں 219 افراد ہلاک اور 490 زخمی ہوئے۔ 2018ء کے وسط اور 2020ء کے وسط کے درمیان حزب الاحرار ملک بھر میں کم از کم تیرہ مہلک حملوں میں ملوث تھی، جس میں دو خودکش حملے بھی شامل ہیں۔ حزب الاحرار کے حالیہ حملوں میں مئی 2019ء میں لاہور میں ایک مشہور صوفی مزار پر خودکش حملہ اور جنوری 2020ء میں کوئٹہ کی ایک مسجد میں دھماکہ شامل ہے۔
اگست 2020ء میں، عمر میڈیا (ٹی ٹی پی میڈیا ونگ) نے اعلان کیا کہ جماعت الاحرار اور حزب الاحرار باضابطہ طور پر ٹی ٹی پی میں ضم ہو گئے ہیں، اس انضمامی اکٹھ کی میزبانی القاعدہ نے افغانستان میں کی۔ نور ولی محسود جس نے 2018ء میں ٹی ٹی پی کی قیادت سنبھالی تھی، انضمام کے بعد بھی تمام دھڑوں کا اس قیادت پر اتفاق رہا۔ نور ولی محسود بظاہر عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں 2019ء سے شامل ہے۔ جولائی 2020ء میں کچھ چھوٹے دھڑے بھی ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کر چکے تھے، جس میں مخلص یار کے تحت حکیم اللہ محسود گروپ، القاعدہ سے وابستہ امجد فاروقی گروپ شامل ہیں۔
دہشت گرد حملوں سے ہٹ کر، ٹی ٹی پی اپنے میڈیا ونگ، عمر میڈیا کے ذریعے اپنے نظریات اور اہداف کی تشہیر کے لیے بھی سرگرم رہی۔ 2016ء میں اپنا پہلا میگزین جاری کیا۔ اگست 2019ء میں مختلف اشتہارات کے زریعے میران شاہ، شمالی وزیرستان کے شہریوں کو خبردار کرتی رہی کہ وہ موسیقی نہ بجائیں اور خواتین اپنے سرپرست کے بغیر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ پاکستانی پولیس کو بھی پمفلٹس کے ذریعے علاقہ چھوڑنے کے لیے خبردار کیا گیا۔ جنوری 2020ء میں ایک نئی ویب سائٹ کا آغاز کیا گیا۔ اپنی اشاعتوں میں تیزی سے ٹی ٹی پی نے “جہاد” کی عالمگیریت پر زور دیا کہ ہماری لڑائ صرف پاکستان تک محدود نہیں۔
اپریل 2020ء میں الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا، “ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار، یا دیگر پاکستان مخالف گروہ مکمل طور پر ختم ہوچکے ہیں، ان کا سیٹ اپ موجود ہے اور وہ کسی منصوبے کے تحت فی الحال خاموش ہیں”۔
مارچ 2021ء میں عورتوں کے حقوق کی حمایت کرنے والے عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف رجعت پسند گروہوں نے جہاں توہین مذہب اور فحاشی کا الزام لگایا، وہیں ٹی ٹی پی نے منتظمین کے قتال کا فتوی جاری کیا، جس کی وجہ سے کچھ منتظمین کو ملک بدر بھی ہونا پڑا۔
جولائ 2021ء میں سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے نور ولی محسود نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کو دہرایا اور قبائلی اضلاع کو ایک الگ ریاست بنانے کا منصوبے کا بھی اعلان کیا۔
ٹی ٹی پی کا پاکستانی ریاست کے خلاف طویل المیعاد اعلانیہ جنگ، بار بار جاری کردہ اشتہارات، اس کے سابقہ گروہوں کا دوبارہ انضمام، انضمام کے بعد مسلسل جاری حملے اور مقامی برادریوں کو خوفزدہ کرنے کے واقعات، ایک ایسی پراکسی تنظیم کے آثار ہیں جو خود کو دوبارہ زندہ کرچکی ہے۔