مضامینِ سبطِ حسن: زندگی کی نقش گری (تیسرا حصہ)

انسانی قبیلے خانہ بدوشی کی یہ زندگی غاروں یا کوہستانی پناہ گاہوں میں گزارتے تھے البتہ میدانی علاقوں میں وہ اپنے رہنے کے لیے زمین میں گڑھا کھود لیتے تھے اور گڑھے کے اوپر گھاس پھوس کی چھت ڈال لیتے تھے۔ ان میں وہ جھونپڑیوں کے آثار جنوب مشرقی یورپ میں ملے ہیں۔ جنگلی جانور ان کا کھانا پینا اور اوڑھنا بچھونا تھے۔ ان جانوروں کا گوشت وہ بطور غذا استعمال کرتے تھے۔ چربی سے چراغ جلاتے تھے۔ کھال اوڑھی اور بچھائی جاتی تھی۔ موٹی ہڈیوں سے شکار کے اوزار مثلاً نیزے کی انیاں اور تیروں کے پھل بنتے تھے اور پتلی ہڈیوں سے سینے کی سوئیاں، انتڑیوں اور نسوں سے دھاگے اور رسی کا کام لیا جاتا تھا۔ یہ لوگ آگ کے استعمال سے واقف ہوچکے تھے اور شکار کو بھون کر کھاتے تھے۔

برفانی دور کے ان شکار پیشہ قبیلوں کے آلات اور اوزار لکڑی، پتھر یا ہڈی کے ہوتے تھے۔ ہتھوڑے، کلہاڑیاں، نیزے، چاقو، سوئیاں وغیرہ سب انہیں چیزوں سے بنائی جاتی تھیں۔ شکار کے لیے بڑے بڑے بلم یا لاٹھیاں استعمال کی جاتی تھیں۔ ان کے سرے پر پتھریا ہڈی کی تیز اور نکیلی انی لگی ہوتی تھی۔ ان ہتھیاروں کی مار زیادہ دور تک نہیں تھی لہٰذا شکاریوں کو چھپ چھپا کر جانوروں کے بہت قریب تک جانا پڑتا تھا۔ مگر میمتھ، ہاتھی اور بیسن جیسے دیو پیکر جانوروں کو بھالوں یا لاٹھیوں سے مارنا ناممکن نہ تھا۔ ان کے قریب جانے میں جان کا خطرہ بھی تھا اس لیے ان کے بڑے جانوروں کو ہانکا کر کے کسی گڑھے یا کھڈ کی سمت لے جاتے تھے جب وہ گڑھے میں گر پڑتا تھا تو اسے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیتے تھے۔ فرانس میں ایسے کئی کھڈ ملے ہیں جن میں ہزاروں بیسنوں کی ہڈیاں ایک ہی جگہ پر موجود ہیں۔

لیسکا کے غار میں ایک مقام پر اس طرزِ شکار کی باقاعدہ منظر نگاری بھی کی گئی ہے۔ اس منظر میں چند جنگلی گھوڑے ایک گڑھے میں چھلانگ لگا رہے ہیں۔ گھوڑوں کے درمیان چٹان میں جو قدرتی نشیب موجود ہے، اس کو گڑھے کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ تصویر کو دیکھنے سے یہی تاثر قائم ہوتا ہے کہ یہ عاجز اور پریشان گھوڑے واقعی گڑھے میں چھلانگ لگا رہے ہیں۔ بعض خطوں کے لوگ بھالے کو دور تک پھیکنے کے لیے نیزہ انداز آلے بھی بنانے لگے تھے۔ جنوبی اسپین اور افریقہ کے قدیم حجری انسان نے تیر کمان بھی بنالی تھی۔

برفانی دور کا انسان چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ ہر قبیلہ در اصل ایک گھرانا ہوتا تھا جو اجتماعی زندگی گزارتا تھا۔ آلات و اوزار مشترکہ ہوتے تھے اور شکار میں جو کچھ ملتا تھا اسے بھی آپس میں بانٹ کر کھا لیتے تھے۔ قبیلے کے ہر فرد کا تحفظ پورے قبیلے کا فرض ہوتا تھا۔ قبیلے کے اندر تقسیم کار کا طریقہ رائج تھا۔ مرد شکار کرتے تھے، عورتیں ساگ پات، جنگلی پھل اور جڑیں وغیرہ اکھٹا کرتی تھیں۔ یہ چیزیں خوراک کے کام آتی تھیں۔ شکار میں بھی عورتیں ہانکے میں شریک ہوتی تھیں۔ حصول غذا کے علاوہ عورتوں کا کام بچوں کی دیکھ بھال کرنا، کپڑے سینا اور غار کو صاف ستھرا رکھنا ہوتا تھا۔ مردوں کا بنیادی پیشہ یوں تو فقط ایک ہی تھا یعنی شکار مگر ان میں بھی تقسیم کار پائی جاتی تھی۔

قبیلے کے ہر فرد کو پتھر کاٹنے، آلات واوزار بنانے، نشانہ لگانے اور شکار کرنے کا فن سیکھنا پڑتا تھا لیکن بعضوں کا نشانہ قدرتی طور پر اچھا ہوتا تھا۔ بعضوں میں صناع بننے کی صلاحیت دوسروں سے زیادہ ہوتی تھی۔ بعضوں کو مصوری یا کندہ کاری کا شوق ہوتا تھا۔ چنانچہ اسی ہنرمندی، صلاحیت اور شوق کے مطابق ان کے کاموں کی تقسیم بھی ہوتی تھیں اور وہ آہستہ آہستہ اپنے فن کے ماہربن جاتے تھے۔ مصوری سے ملا ہوا سحر کا فن تھا۔ یہ فن ان کی شکار پیشہ زندگی کا لازمی جز تھا اور اس کی اہمیت شکار سے کم نہ تھی۔ ساحر قبیلے کا روحانی پیشوا ہوتا تھا۔ وہ شکار کی تصویریں بناتا اور سحر کی رسمیں ادا کرتا تھا۔ اس کے عوض قبیلہ اس کی ضروریات زندگی کی کفالت کرتا تھا۔ خود شکاریوں کے بھی درجے ہوتے تھے۔ ان میں بعض ماہر شکاری ہوتے اور بعض بالکل مبتدی جن کو ہانکا کرنے کا کام سپرد کیا جاتا تھا۔ شکار کے بعد شکار کی تقسیم ہوتی تھی۔ گوشت عورتوں کو دیا جاتا تھا اور انتڑیاں، کھال، نسیں اور ہڈیاں الگ کرکے ان لوگوں میں تقسیم کردی جاتی تھیں، جو ان چیزوں سے سامان بناتے تھے۔

غاروں کے اندر جو مدفون ڈھانچے ملے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ برفانی دور کا انسان اپنے مردوں کو باقاعدہ قبر میں دفن کرتا تھا۔ زمین سے پودوں اور بوٹوں کو اگتا دیکھ کر شاید اسے یہ خیال گزرا ہو کہ اگر مردے کو زمین میں دفن کر دیا جائے تو وہ بھی اوپر آجائے گا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قبر کی شکل عورت کے اسی عضو بدن سے بہت مشابہ ہوتی ہے جہاں سے بچہ نکلتا ہے۔ چنانچہ برفانی دور کا انسان اپنے مردے کے گھنٹوں کو پیٹ سے ملا دیتا تھا اور اس طرح اس کی پوزیشن قریب قریب وہی ہو جاتی تھی جو بچے کی ماں کے پیٹ میں ہوتی ہے۔ لاش کے سر کے نیچے پتھر کا تکیہ رکھ دیا جاتا تھا اور قریب ہی گوشت کے ٹکڑے، ہڈیاں اور شکاری آلات واوزار قرینے سے سجادیے جاتے تھے۔ تب قبر کا منھ بند کر کے اوپر پتھر کی سل رکھ دی جاتی تھی۔

یہ قبریں آباد غاروں میں بنائی جاتی تھیں۔ بعض قبریں تو چولہے کے بالکل پاس ہی ملی ہیں۔ شاید لوگوں کا عقیدہ ہوکہ آگ کی گرمی سے مردے کے ٹھنڈے جسم کو زندگی کی حرارت دوبارہ حاصل ہو جائے گی۔ حیات اور حرارت میں جو رشتہ ہے اس سے وہ لوگ پوری طرح آگاہ تو نہ تھے مگر اس رشتے کا ایک مبہم سا تصور ان میں ضرور موجود تھا۔ البتہ وہ حرارت کو زندگی کی علامت نہیں بلکہ اس کی علت سمجھتے تھے۔ گوان کے مردے کبھی نیند سے نہ جاگے اور چولہے کی گرمی نے کبھی زندگی کی حرارت نہ بخشی مگر رسم و رواج کی آہنی زنجیریں بڑی مشکل سے ٹوٹتی ہیں۔

قدیم حجری انسان ہنوز مذہب کے تصور سے آشنا نہ ہوا تھا۔ وہ کسی مافوق القدرت طاقت یا طاقتوں کو نہیں مانتا تھا اور نہ کسی دیوی، دیوتا کی پرستش کرتا تھا البتہ سحر پر اس کا عقیدہ بہت پختہ تھا۔ مذہب اور سحر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مذہب کا محرک قدرت کی اطاعت اور خوشنودی کا جذبہ ہے۔ اس کے برعکس سحر کا محرک تسخیر قدرت کا جذبہ ہے۔ سحر در اصل سائنس کی بالکل ابتدائی شکل تھی اسی لیے فریزر نے سحر کو ’’ساقط سائنس اور ناقص آرٹ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔

علمائے آثار کا خیال ہے کہ برفانی دور کا انسان کوئی زبان ضرور بولتا تھا البتہ اب تک یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ زبان کیا تھی۔ آیا تمام قبیلے ایک ہی بولی بولتے تھے یا محتلف خطوں میں مختلف بولیاں بولی جاتی تھیں۔ غاروں میں جو آثار ملے ہیں ان سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ قدیم انسان نقش گری، مصوری، مجسمہ سازی، موسیقی اور رقص کے فن سے آگاہ تھا لیکن ایسی کوئی شہادت اب تک نہیں ملی ہے، جس سے اس کی زبان کے بارے میں کوئی بات یقین سے کہی جا سکتی ہو۔

برفانی دور میں شرح اموات بہت زیادہ تھی، خصوصاً شیر خوار بچے بڑی تعداد میں فوت ہوجاتے تھے۔۔۔ بیماریوں میں سب سے عام بیماری گٹھیا کی تھی۔ لوگ طب اور جراحی کے فن سے واقف نہ تھے لیکن آدمیوں کے بعض ڈھانچے ایسے ملے ہیں جن کے پاؤں کی ہڈیوں پر عمل جراحی کے آثار نظر آتے ہیں۔ شاید ان شکاریوں کے پاؤں شکار میں ٹوٹے ہوں اور پھر ان کو کسی طرح جوڑا گیا ہو۔

یہ ہے ایک دھندلا سا خاکہ قدیم حجری دور کے انسان اور اس کے ماحول اور معاشرے کا، مگر جب ہم اس عہد کے غاروں کے رنگین نقش و نگار اور حسین مجسموں کو دیکھتے ہیں تو اس شکاری انسان کی صناعی، ہنر مندی، فنکاری اور ذہانت پر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ قدیم حجری دور کے بعد آج تک دنیا کی کسی قوم نے کسی ملک اور کسی عہد میں بھی جنگلی جانوروں کی حسی کیفیات سے لبریز اتنی جاندار اور متحرک، اتنی خوش رنگ اور خوش آہنگ، اتنی موزوں اور متناسب تصویریں نہیں بنائیں۔ قدیم حجری دور کا انسان اپنے فن میں یکتا وبے مثال ہے کیوں کہ کسی دوسرے دور میں انسان کو جانوروں سے اتنا گہرا لگاؤ نہیں رہا اور نہ جانوروں کے کردار، مزاج، عادات و اطوار اور جسم کے مطالعے پر اس کی زندگی کا دار و مدار ہوا۔ قدیم حجری دور کے فنکار کی عظمت کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ دور جدید کے کتنے ہی عظیم فنکار اس کی نقالی پر ہی اپنی شہرت کا پرچم اڑاتے ہیں۔

Leave a Comment