آئیے اب قدیم حجری درو کے گمنام فنکاروں کے ایک زمین دوز نگار خانے کی سیر کریں۔ یہ نگار خانہ لاسکا کے غار میں ہے۔ اب تک جتنے غار دریافت ہوئے ہیں لاسکا کا غار ان سب میں ممتاز ہے۔ اس کی رنگین تصویروں پر موسمی تغیرات کا بہت کم اثر پڑا ہے۔ یہ تصویریں ابھی تک اپنی اصلی حالت پر ہیں اور ان کے رنگ کی آب و تاب میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ لاسکا کا غار دریائے وزیر کے شمالی ساحل پر ایک گھنے جنگل کے اندر واقع ہے۔ وہاں کوئی آبادی نہیں ہے البتہ ندی کے دوسرے کنارے پر ایک چھوٹا سا فرانسیسی گاؤں ہے۔ التمیرا کی مانند یہ غار بھی اتفاقیہ طور پر دریافت ہوا اور وہ بھی 1940ء میں۔ ہوا یوں کہ نواحی مدرسے کے چار لڑکے جنگل میں کھیل رہے تھے۔ ان کا کتا ایک گڑھے میں جو کافی گہرا تھا، گر پڑا۔ لڑکے کتے کو نکالنے گئے تو انہیں غار کا دہانہ نظر آیا۔
تلاش و جستجو کی یہ عمر انہیں غار میں لے گئی مگر دہانہ اتنا تنگ تھا کہ لڑکوں کو پیٹ کے بل رینگنا پڑا۔ ملبے کے ڈھیر سے رینگتے ہوئے وہ داخل ہوئے تو داہنی جانب بیس فٹ کی گہرائی پر انہیں ایک بڑا سا ہال ملا جو بیضاوی شکل کا تھا۔ سو فٹ لمبا، 33فٹ چوڑا اور بیس فٹ اونچا۔ اس ہال کی چھت اور دیواریں بیلوں، گھوڑوں اور ہرنوں کی بڑی بڑی رنگین تصویروں سے آراستہ تھیں۔ لڑکوں نے یہ ماجرا اپنے استاد موسیو لاوالؔ سے بیان کیا، انہوں نے ایبے بروئیلؔ کو خبر دی۔ ایبے بروئیل ؔنے غار کا معائنہ کیا۔ اسے آری ناسی دور کا شاہکار قرار دیا اور اس طرح مہذب دنیا کو چالیس ہزار برس پرانا ایک نایاب دفینہ ہاتھ آیا۔
لاسکا کے ہال میں داخل ہوتے ہوئے پہلی تصویر ایک سیاہ گھوڑے کی نظر آتی ہے۔ ا س کے بعد ایک عجیب و غریب جانور بنا ہے جس کے دو متوازی سینگ آگے کو نکلے ہوئے ہیں۔ پیٹ پھولا ہے اور جسم پر گول گول نشان ہیں۔ پھر چند بہت بڑے بڑے بیل ہیں جن میں سے چار اب تک محفوظ ہیں۔ ان کی لمبائی چار تا چھ گز ہے۔ وہ بیل جن کے خاکے سیاہ لکیروں سے بنے ہیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں اور ان کے درمیان خالی جگہ میں پانچ سرخ، زرد رنگ کے ہرن بنے ہیں۔ پہلے بیل کے اوپر لال رنگ کا ایک بڑا ساگھوڑا دوڑ رہا ہے۔ اس کے کھر اور ایال کالے ہیں۔ دوسرے بیل کے عقبی حصے میں لال رنگ کی ایک گائے بھی ہے جو چر رہی ہے۔ بیلوں کے درمیان بالائی حصے میں ایک اور لال گھوڑا ہے جس کی تھوتھنی دوسرے بیل کے سینگوں کے اندر ہے البتہ اس کے پاؤں غائب ہیں۔ بظاہر یہ چند جانوروں کی تصویریں ہیں مگر غور سے دیکھا جائے تو ان کی ایمائیت واضح ہو جاتی ہے اور ان میں ترتیب و آہنگ بھی نظر آنے لگتا ہے۔
بیل یوں تو بڑے مہیب اور قومی ہیکل ہیں لیکن مصور نے انہیں ساکت اور جامد بنا دیا ہے۔ وہ نہ حملہ کر سکتے ہیں اور نہ حرکت۔۔۔ وہ بالکل بے بس گم سم کھڑے ہیں، کیوں کہ وہ سحر زدہ ہیں۔ ان کے جسم پر بھالے کے چھوٹے چھوٹے نشان ہیں۔ اس کے برعکس گھوڑے بہت مگن دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سرپٹ دوڑ رہے ہیں، اور بارہ سنگھوں کا نڈر پن دیکھو کہ وہ ان خون خوار بیلوں کے درمیان بڑی بے فکری سے کھڑے چہلیں کر رہے ہیں۔ رنگ زندگی کی علامت ہے، اسی لیے گھوڑے اور بارہ سنگھے رنگین ہیں اور بیلوں کو اس سے محروم کردیا گیا ہے۔ داہنی جانب والے بیل کی ناک سے تو خون بھی نکل رہا ہے۔
ہال کے عقبی حصے میں چھت بہت نیچی ہو جاتی ہے اور زمین کی ڈھلوان بڑھ جاتی ہے۔ وہاں سے ہم ایک تنگ راستے میں داخل ہوتے ہیں تو عین دہانے کی چھت پر ایک ہرن اور اس کے ہم جنس دوسرے جانوروں کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ آگے بڑھیے تو چھت پر لال رنگ کی نہایت حسین گائیں اور مختلف نسلوں کے چھوٹے بڑے بہ کثرت گھوڑے بنے ہیں، گایوں کی نازک اور حساس تھوتھنیاں اور پتلی پتلی سڈول سینگیں اپنی ساخت میں بڑے ہال کے بیلوں سے مختلف ہیں، یہاں پہنچ کر راستہ اور تنگ ہوجاتا ہے مگر اس تنگی سے بھی فن کار نے فائدہ اٹھایا ہے۔ ایک دوڑتی ہوئی گائے کی تصویر اس انداز سے بنائی ہے کہ اس کے اگلے پاؤں دہانے کے ایک سرے پر ہیں اور پچھلے پاؤں دوسرے سرے پر۔ درمیان میں چھت کے نصف دائرے پر گائے کا پورا جسم پھیلا ہوا ہے اوریوں محسوس ہو رہا ہے کہ گویا یہ گائے خلا میں چھلانگ لگا رہی ہے اور آگے بڑھو تو ایک بے حد لمبی چوڑی گائے ایک جالی نما نشان کی جانب جست لگا رہی ہے۔ یہ نشان مستطیل ہے اور اس میں تین متوازی لکیریں بھی ہیں۔
یہ نشان یا تو ہم رنگ زمین جال کی علامت ہے جس میں گائے کو پھنسایا جا رہا ہے یا سحر کی۔ اور آگے بڑھو تو دو جنگلی گدھے ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک حاملہ ہے۔ آخر میں چھت نیچی ہونے لگتی ہے اور موڑ آجاتا ہے۔ وہاں بھورے رنگ کا ایک گھوڑا ایک گڑھے میں گرتا نظر آتا ہے۔ اس کے چاروں پاؤں ہوا میں ہیں۔ یہاں چٹانوں میں جو قدرتی نشیب ہے، فنکار نے اس سے گڑھے کا کام لیا ہے۔
غار کے دوسرے گوشے میں پتھر پر کندہ کاری کے بہ کثرت نشان ملیں گے۔ یہ تصویریں ایک کے اوپر ایک کھدی ہیں، شاید یہ جگہ نوآموز فنکاروں کی مشق کے لئے تھی۔ یہاں کسی جگہ فقط کھربنے ہیں، کہیں دم، کہیں سر، کہیں کوہان مگر ان میں بڑی صفائی اور روانی پائی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا یہ خاکے ہاتھ کی ایک ہی جنبش سے بنے ہیں۔ ایک اور گوشے میں پتوں والی ایک بیل کندہ ہے۔ یہ واحد شجری نمونہ ہے جو حجری دور کے کسی غار میں ملا ہے۔ ایک اور گوشے میں کئی گھوڑے اور گھوڑیاں ہیں۔ گھوڑیاں حاملہ ہیں اور ان کے جسم میں بھالے پیوست ہیں۔ ایک گھوڑے کے جسم میں سات بھالے چبھے ہوئے ہیں۔ ایک بہت بڑی سیاہ گائے بنی ہے جو حاملہ ہے۔ اس کے پاؤں کے پاس کئی مستطیل نشان ہیں۔ ایک جگہ دوبھورے رنگ کے بیسن پیٹھ جوڑے کھڑے ہیں۔۔۔ ایک چھت پر پانچ نہایت خوب صورت ہرن ندی میں تیرتے دکھائی دیتے ہیں، اس منظر کی لمبائی 16فٹ ہے۔
مگرلاسکا کا سب سے حیرت خیز منظر وہ ہے جو غار کے سب سے پوشیدہ، تاریک اور مشکل مقام پر بنایا گیا ہے۔ در اصل یہ بیس فٹ گہرا ایک کنواں ہے۔ کنوئیں کے ایک طرف کی دیوار کو کاٹ کر اس میں سیڑھیاں نکالی گئی ہیں۔ کنوئیں میں اترنے کا راستہ شاید یہی تھا۔ اس کنوئیں کی دیوار پر ایک آدمی کی اقلیدسی شکل سلہوٹ میں بنی ہے۔
اس کا سر اور چونچ پرندے کی ہے البتہ نچلا دھڑ آدمی کا ہے۔ اس کے دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں لیکن ہاتھوں میں انگلیاں فقط چار ہی ہیں۔ اس کا عضو تناسل اِستادہ ہے اور وہ زمین میں گرتا نظر آتا ہے یا مردہ پڑا ہے۔ اس کی پشت کی جانب ذرا ہٹ کر ایک چھڑی زمین میں گڑی ہے۔ اس چھڑی پر ایک چڑیا بیٹھی ہے۔ اس چڑیا کا سر آدمی کے سر سے بہت مشابہہ ہے۔ پاس ہی بھالا پھینکنے والا ایک اوزار پڑا ہے۔ اس اوزار سے زاویۂ قائمہ بناتا ہوا ایک بھالا ہے جو ایک سیاہ رنگ کے بیسن کے پیٹ اور پیٹھ کے آر پار ہو گیا ہے، بیسن کی انتڑیاں باہر نکل آئی ہیں، اس کی دم اٹھی ہوئی ہےاور اس کی پیٹھ اور گردن کے بال کھڑے ہیں۔ اس کا سر حملے کے انداز میں جھکا ہوا ہے اور اس کی سینگوں کا رخ آدمی کی طرف ہے۔ اس کے پاؤں کی سختی اور اس کے جسم کا داخلی تناؤ بتا رہا ہے کہ وہ حملہ کرنے کے لیے بے چین ہے مگر حرکت سے معذور ہے۔ حملہ آور کے اندرونی تناؤ اور خارجی بے بسی کے درمیان جو تضاد ہے وہ اس تصویر سے نمایاں ہے۔ آدمی سے تھوڑے فاصلے پر ایک گینڈا بنا ہے جس کی پیٹھ آدمی کی طرف ہے اور وہ دور ہٹ رہا ہے۔ اس کے دو سینگ ہیں۔ یہ غار کا واحد گینڈا ہے۔ گینڈے اور آدمی کے درمیان چھ بڑے بڑے سیاہ دھبے بنے ہیں، دو دو کی قطار میں۔
اس غیرمعمولی منظر کی اب تک کوئی معقول تشریح نہیں ہوسکی ہے۔ بعض عالموں کا خیال ہے کہ یہ تصویر یادگاری ہے۔ اس کا تعلق کسی قبیلے کی زندگی کے کسی اہم واقعے سے ہے۔ شاید قبیلے کا سردار گینڈے یا بیسن کے شکار میں مارا گیا تھا۔ اس وقت اس نے چڑیے کا سوانگ بھر رکھا تھا کہ یہ طریقہ بہت عام تھا۔ (چنانچہ بہیلیے اور چڑی مار اب تک یہی کرتے ہیں) مصور نے اس حادثے کی منظر کشی کر کے مؤرخ کے فرائض انجام دیے ہیں لیکن اس تشریح سے ان چھ نقطوں کی توجیہ نہیں ہوتی جو آدمی اور گینڈے کے درمیان بڑے قاعدے سے لگائے گئے ہیں۔ نہ بیسن کی بے بسی کا سبب واضح ہوتا ہے اور نہ گینڈے کے فرار کی تشریح ہوتی ہے۔ یہ راز بھی نہیں کھلتا کہ اگر اس تصویر کا تعلق سحر کی کسی نہایت خفیہ رسم سے نہیں ہے تو پھر اس کو انتہائی پوشیدہ اور تاریک کنوئیں میں کیوں بنایا گیا تھا۔