قدیم حجری دور کے فنکار تین بنیادی رنگ استعمال کرتے تھے۔ سرخ، زرد اور سیاہ۔ نیلے اور سبز رنگ کے آثار کہیں نہیں ملتے۔ شاید یہ لوگ نیلا اور سبز رنگ نہیں بنا سکتے تھے۔ یہ رنگ چونکہ جلد خراب ہو جاتے ہیں اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ ہزاروں سال بعد اب یہ اڑ چکے ہوں۔ یہ رنگ اشیا سے بنائے جاتے تھے نہ کہ نباتات سے۔ کالے رنگ کے لیے تو لکڑی کا کوئلہ یا چراغ کا دھواں موجود ہی تھا البتہ سرخ اور زرد رنگ مینگینز، سیندور اور لوہے کے آکسائڈ سے بنائے جاتے تھے۔ یہ معدنی اشیا خود غاروں میں یا نواح میں افراط سے پائی جاتی تھیں۔ ان معدنی رنگوں کے باریک سفوف کو جانور کے خون، چربی اور انڈے کی سفیدی میں گوندھ لیا جاتا تھا۔ موقلم کی جگہ ابتدا میں انگلیوں سے کام لیا گیا، پھر درخت کی پتلی پتلی شاخوں یا پرندوں کے پرکو کچل کر ان سے قاز بنائے گئے۔ زیادہ باریک کام کے لیے ہڈی کی پتلی پتلی تیلیوں کو پتھر پر رگڑ کر نوک نکال لیتے تھے۔ ان رنگوں کو پتھر کی تھالیوں میں رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ غاروں میں رنگوں کی تھالیاں اور برش کثرت سے ملے ہیں۔ کندہ کاری پتھر کے نکیلے ٹکڑوں سے کی جاتی تھی۔
یہ فن پارے ایک سال یا ایک صدی کے اندر نہیں بنائے گئے بلکہ وہ انسان کی ہزاروں سال کی محنت کا ثمر ہیں، شکاریوں کے قافلے آتے، چند مہینے یا چند سال ایک مقام پر رہتے۔ اپنی ضرورت، ذوق اور صلاحیت کے مطابق غاروں میں نقش ونگار بناتے اور پھر شکار کے تعاقب میں کسی اور سمت راہ لیتے۔ برسوں بعد وہاں کسی دوسرے قبیلے کا گزر ہوتا تو وہ ان غاروں کو دوبارہ روشن کرتا اور اپنی ضرورت اور صلاحیت کے مطابق تصویریں بناتا۔ کبھی پرانی تصویروں سے ہٹ کر کبھی ان کےپہلو میں، اور کبھی انہی کے اوپر۔
چنانچہ بعض غاروں میں تصویروں کے خط اور رنگ آپس میں اس طرح گڈمڈ ہوگئے ہیں کہ ان کو الگ کرنا بہت مشکل ہے۔ اس گڈمڈ کی وجہ سے تصویروں کو فنی نقصان ضرور پہنچا ہے لیکن ماہرین آثار کے لیے اب ان تصویروں کے مختلف عہد اور ادوار متعین کرنا آسان ہو گیا ہے۔ مثلاً ایبے بروئیل اور اوپرمیئر نے فقط فونت دے گام کے غار میں سات مختلف ادوار کا سراغ لگایا ہے۔ بعض غاروں میں تو تیرہ چودہ ادوار کے آثار موجود ہیں لیکن ہنوز یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ ان ادوار میں ایک سو سال کا فرق ہے یا ایک ہزار سال کا۔ بعض اوقات یوں بھی ہوا کہ ایک قبیلے نے چند تصویریں بنائیں اور رخصت ہوگیا اور جب دوسرا قبیلہ آیا تو اس نے ان تصویروں کو جوں کا توں رہنے دیا البتہ چند تصویروں کا اضافہ کرکے ایک نیا منظر ترتیب دے دیا۔
بہر حال قدیم حجری دور کے اس فن نے ارتقا کی خواہ کتنی منزلیں کیوں نہ طے کی ہوں اور وقت اور قبیلوں کے فرق کے سبب سے خواہ اس فن میں کتنی تبدیلیاں کیوں نہ آئی ہوں مگر ان کے فن کی غرض وغایت اور نوعیت اور خصوصیت میں کبھی فرق نہیں آیا اور نہ اس کی بنیادی ہیئت بدلی۔ ہردورمیں آرٹ کا محور، مرکز اور محرک شکاری جانور ہی رہا، وہ جانور جس کی افزائشِ نسل پر اور جس کے شکار پر خود انسان کی پوری زندگی کا دارومدار تھا۔ اس پورے عہد میں جانورں کی جو شکلیں بنائی گئیں وہ اصل کے عین مطابق ہیں۔ بالکل سچی اور نمائندہ تصویریں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ابتدائی زمانے میں ناتجربہ کاری کے باعث یہ تصویریں نسبتاً بھونڈی اور ناقص تھیں۔
ان تصویروں کی عمر کی بابت اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان میں سب سے قدیم وہ ہیں جو کم سے کم چالیس ہزار سال پرانی ہیں اور جدید سے جدید نقش و نگار بھی دس ہزار برس پرانے ضرور ہیں۔
قدیم حجری دور میں مصوری، کندہ کاری اور مجسمہ سازی کے فن کی ابتدا کیسے ہوئی۔ انسان نے سب سے پہلا نقش کیوں اور کیوں کر بنایا۔ وہ کون سے محرکات تھے جنہوں نے اسے اس ایجاد پر آمادہ کیا۔ کیا وہ پیدائشی فنکار تھا اور نقش گری اس کی فطرت اور جبلت میں داخل تھی یا خارجی حالات، اثرات نے اس میں یہ شعور پیدا کیا۔ کیا کسی وجدانی اور غیر شعوری جذبے نے اس میں تصویر کشی کی امنگ پیدا کی اور اس نے دیواروں پر خط اور رنگ کے حسین مرقعے بنانے شروع کردیے یا اس تخلیق ِ فن کے اسباب مادی اور تاریخی ہیں؟ مگر ان سوالوں کے جواب کیوں نہ خود فنکاروں سے پوچھیں۔ گو ان کی زبانیں مدت گزری بند ہوچکی ہیں اور ان کے موقلم بھی ہزاروں برس سے سوکھے پڑے ہیں لیکن شاید ان کی تصویریں اور ان کے نقوش ہماری کچھ مدد کرسکیں۔
غاروں کے نقش و نگار کا بغور مطالعہ کرنے سے پیشتر ہمیں ایک نہایت اہم نکتہ ذہن نشیں کرلینا چاہئے۔ وہ یہ ہے کہ مصوری کے فن کو ایجاد کرتے وقت انسان کو قطعاً یہ احساس نہ تھا کہ وہ کسی فن کی داغ بیل ڈال رہا ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے کلچر کی بحث میں ایک جگہ لکھا ہے کہ کلچر بسا اوقات وہ لوگ تخلیق کرتے ہیں جن کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ وہ کلچر تخلیق کر رہے ہیں۔ یہی حال قدیم حجری دور کے انسان کا تھا۔ وہ نہ تو فن کی اصطلاح سے واقف تھا اور نہ فن کی خاطر فن پیدا کر رہا تھا۔
آئیے، اب ایک غار میں چلیں۔ اس غار میں آپ کو چٹانوں پر چند نشان کھدے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ نشان آدمیوں نے نہیں بنائے بلکہ برفانی عہد کے بڑے بڑے ریچھوں نے اپنے ناخنوں سے کھودے تھے۔ ریچھ قدیم حجری دور کے انسانوں کا ہم عصر تھا اور آدمیوں کی مانند غاروں میں رہتا تھا۔ وہ اپنے سامنے کے پنجوں کو تیز یا صاف کرنے کی خاطر چٹان پر رگڑتا تھا۔ اس کے پنجے اتنے مضبوط اور اس کے دانت اتنے تیز تھے کہ ان کو رگڑنے سے پتھر پر نشان پڑ جاتے تھے۔ اب ذرا ان نشانوں کا مقابلہ ان نشانوں سے کیجئے جو التمیرا کے غار میں انسان نے اپنی انگلیوں سے دیوار کی مٹی پر کھینچے ہیں۔ ریچھ نے ناخنوں سے جو کیاریاں بنائی ہیں اور انسان نے جو جلیبیاں اور سویّاں بنائی ہیں ان میں بڑی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اسی بنا پر علمائے آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ قدیم انسان نے ریچھ کی دیکھا دیکھی یہ نشان بنائے تھے۔
مگر انسان نے ریچھ کی نقل کیوں کی!
اس لیےکہ اس نے ریچھ میں اور اپنے آپ میں بہت سی باتیں مشترک باتیں پائیں۔ ریچھ انسان کی مانند غار میں رہتا تھا۔ اس کے جسم پر بھی بڑے بڑے بال تھے۔ وہ اپنے سامنے کے پاؤں سے قریب قریب وہی کام لیتا تھا جو انسان اپنے ہاتھوں سے لیتا تھا۔ شاید اس کے بڑے بڑے ناخنوں والے بال دار ہاتھ ریچھ کے ناخن اور پنجوں سے ملتے جلتے ہوں۔ ریچھ انسان کی مانند پاؤں پر کھڑا ہو جاتا تھا۔ انسان ہی کی طرح درختوں پر چڑھ کر پھل توڑتا تھا اور جانوروں کا شکار کرتا تھا مگر بہت سی باتوں میں وہ انسان سے افضل تھا۔ مثلاً وہ انسان سے کہیں زیادہ طاقتور تھا۔ ریچھ کی جنسی قوت کی جو حکایتیں سنی جاتی ہیں ممکن ہے قدیم انسان نے اس قوت کا مشاہدہ بھی کیا ہو، شاید قدیم انسان نے ریچھ کی جسمانی طاقت کا مرکز اس کے ہاتھوں اور ناخنوں کو سمجھا ہو اور یہ سوچا ہو کہ اگر میں بھی پتھر پر انگلیوں سے نشان بناؤں تو میرے ہاتھوں میں بھی وہی طاقت آجائے گی جو ریچھ میں ہے چناں چہ اوبر میئر اوبر میسر کہتا ہے،
“ان جھجکے جھجکے سے ناقص نشانوں کی ابتدا بلاشبہ خارجی اثرات سے ہوئی۔ اس کے لیے ہمیں کم سے کم مغربی یورپ میں غار میں رہنے والے ریچھ کا ممنون ہونا چاہئے، مگر اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ انسانی تحت الشعور میں فنی رجحان پہلے سے موجود تھا۔ ریچھ کے کھرچے ہوئے نشانوں کی بدولت انسان نے جو ابتدائی کوششیں کیں انہیں ہم آرٹ کانام دیں یا نہ دیں لیکن یہ طے شدہ امر ہے کہ قدیم انسان میں اگر ایسی صلاحیت ابتداہی سے ودیعت نہ کی گئی ہوتی جو فنی اثر قبول کرلے اور پھر خود فن کی تخلیق کرسکے تو وہ کبھی فنکار نہیں بن سکتا۔”
غرض کہ کندہ کاری کی سب سے پہلی مشق جلیبیوں اور سویوں کے سے وہ لہراتے اور بل کھاتے نشان تھے جو انسان نے ریچھ کی دیکھا دیکھی غار کی دیواروں پر جمی ہوئی گیلی مٹی پراپنی انگلیوں سے کھینچے۔ ان نشانوں میں بڑی حرکت اور روانی ہے۔ مگر انسان ریچھ کی اس نقالی سے بہت جلد آزاد ہوگیا۔ اس کا تشکیلی اور تصویری شعور ابھر آیا اور وہ ان سویوں جیسی لکیروں ہی سے جانوروں اور عورتوں کے خاکے بنانے لگا۔ اس نے انگلیوں کا استعمال ترک کردیا اور ان خاکوں کے لیے دوشاخی، سہ شاخی سینگ یا لکڑی کے ٹکڑوں سے کام لینے لگا۔ گیلی مٹی میں کھدے ہوئے یہ خاکے چونکہ بہت جلد خراب ہو جاتے تھے اس لیے اس نے پتھر کے نکیلے اور تیز ٹکڑوں کی مدد سے یہ خاکے چٹانوں میں کھودنے شروع کردیے۔
پروفیسر جوہانز مارنگز کا خیال ہے کہ رنگین تصویروں کی ابتدا کا زمانہ بھی وہی ہے جو کندہ کاری کا ہے اور فن مصوری کے عہد ترقی کی تاریخ بھی غاروں کے بغور مطالعے سے بآسانی مرتب ہو سکتی ہے۔ پروفیسر کی رائے میں سب سے پرانی تصویریں وہ ہاتھ ہیں جو برفانی انسان نے دیواروں پر بنائے۔ ہاتھوں کے یہ چھاپے ابتدائی عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ چھاپے سلہوٹ ہوتے تھے۔ انسان اپنا ہاتھ گیلی چٹان پر رکھ دیتا تھا۔ انگلیوں کو پھیلا دیتا تھا اور پھر ایک نالی کے ذریعے رنگین سفوف کو انگلیوں کے گرد پھونکتا تھا یا رنگ کو پانی میں گھول کر ہاتھ اس میں ڈبو دیا جاتا تھا۔ پھر اس کی چھاپ دیوار پر لگادی جاتی تھی۔ ایسے سرخ، بادامی، اودے، زرد، سیاہ اور سفید چھاپے متعدد غاروں میں ملے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ ہاتھ غائب ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ رنگین لہریے لے لیتے ہیں۔ یہ لہریے انگلیوں کو رنگ میں ڈبوکر بنائے جاتے تھے۔ ابتدا میں بھری مٹی پر انگلیوں سے جو بے رنگ نشان کھینچے جاتے تھے، ان کے مقابلے میں یہ رنگین نشان زیادہ جاذبِ نظر ہوتے ہوں گے اور غار کے اندھیرے میں سرخ اور زرد رنگوں کی چمک کا اثر ابتدائی انسان کے جذبات اور احساسات پر بہت شدید ہوتا ہوگا۔ ان لہریوں کے درمیان جانوروں کی ابتدائی شکلیں بھی ملنے لگتی ہیں۔