شروع میں جانوروں کی یہ شکلیں در اصل خاکے ہیں جن کے لیے دو یا تین متوازی لکیروں سے کام لیا گیا ہے۔ تب کہیں واحد لکیروں کی باری آئی ہے۔ یہ واحد لکیریں بھی پہلے موٹی ہیں، پھر پھیکی پھیکی سی جیسے کسی نے انہیں سوختے سے خشک کیا ہو اور تب وہ باریک ہوتی گئی ہیں۔ خاکوں میں رنگ بھرنے کا دور بہت بعد میں آیا۔ ابتدا میں جانوروں کے خاکے بھونڈے ہوتے تھے۔ ان کے اعضا اکڑے اکڑے سے اور سخت ہوتے تھے اور جسم کے وہی حصے بنائے جاتے تھے جو قریب اور سامنے سے نظر آتے ہیں مگر کچھ عرصے کے بعد خاکوں میں روانی آجاتی ہے اور وہ متحرک نظر آنے لگتے ہیں۔
قدیم حجری دور میں فن مصوری کا آغاز ہاتھ کے چھاپوں سے کیوں ہوا، جانوروں کی تصویروں سے کیوں نہیں ہوا؟ اس کی سب سے معقول توجیہ میکس رفیل نے کی ہے۔
“در اصل جو چیز انسان کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کے ہاتھ ہیں۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انسان کی بقا اور ترقی میں دماغ اور زبان کی اہمیت کم ہے، مگر جس عضوِ بدن کی بدولت وہ دوسرے جانوروں سے الگ ہوا، جو اس کا سب سے کارآمد اور مؤثر حربہ اور اوزار ثابت ہوا اور جس کی مدد سے اس نے تسخیر قدرت کی ابتدا کی، وہ اس کے ہاتھ ہی تھے۔”
دانشوروں میں اب تک اس بات پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ فکر اور گویائی کی طاقت فقط انسان کا خاصہ ہے یا دوسرے جانور بھی اپنے اپنے انداز میں سوچتے اور بولتے ہیں۔ بعض دانشور کہتے ہیں کہ دماغ اور زبان انسان کا اجارہ ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نہیں، دوسرے جانوروں کے پاس بھی دماغ اور زبان موجود ہے اور ثبوت میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جس چیز کو ہم سریا بھیجا کہتے ہیں تمام جانوروں کے پاس ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ان کو قوتِ فکر سے محروم قرار دیں۔ اسی طرح وہ اعضا بھی جو کلام کے لیے ضروری ہیں یعنی زبان، دانت، حلق، منھ اور سر، اکثر جانوروں میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ اکثر جانور منھ سے طرح طرح کی آوازیں بھی نکالتے ہیں۔ لہٰذا فقط اس بنا پر کہ ہم ان آوازوں کا مفہوم نہیں سمجھ سکتے، ہم ان کو بے زبان کہنے کا حق نہیں رکھتے۔ مگر اس بات پر تمام دانشوروں کا اتفاق ہے کہ جس عضو بدن کو ہم ہاتھ کہتے ہیں، وہ فقط انسان کو نصیب ہے اور اس عضو سے جو کام انسان لیتا ہے، دوسرا کوئی جانور اپنے کسی عضو سے وہ کام نہیں لے سکتا۔
در اصل انہی ہاتھوں نے انسان کو صحیح معنی میں انسان بنایا۔ ان ہاتھوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے ذریعے انسان نے تخلیق کا عمل شروع کیا۔ اس نے ان کی مدد سے نئی چیزیں پیدا کیں۔ دنیا کا کوئی دوسرا جانور مظاہر قدرت میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا بلکہ اس کی اطاعت پر مجبور ہے کیونکہ وہ خود کوئی چیز پیدا کرنے اور بنانے پر قادر نہیں ہے۔ اس کے بر عکس انسان پیدا آور جانور ہے۔ اس نے پتھر کے ٹکڑوں کو رگڑ کر آگ پیدا کی ہے، آلات و اوزار بنائے ہیں، پوشاک تیار کی ہے، مٹی کے برتن گڑھے ہیں، زمین کھود کر نئی فصلیں اگائی ہیں، اونچی اونچی عمارتیں کھڑی کی ہیں، تحریر کا فن ایجاد کیا ہے، کارخانے اور فیکٹریاں تعمیر کی ہیں اور برقی اور ایٹمی طاقت پیدا کی ہے اور یہ ساری تخلیقیں اور ایجادیں براہ راست ہاتھوں سے ہوئی ہیں۔
ہزاروں سال پیشتر کا ابتدائی انسان دماغ کے پراسرار اور پوشید عمل سے واقف نہیں ہوسکتا تھا اور نہ وہ ذہن اور ہاتھوں کے تخلیقی عمل میں جو رشتہ ہے اس کا ادراک کر سکتا تھا البتہ وہ ہاتھوں کی معجز نمائیوں کو دیکھ سکتا تھا، محسوس کر سکتا تھا، اس کا سارا سرمایۂ حیات واقعی یہی ہاتھ تھے۔ پھر وہ اس دولت آفریں عضو بدن کو سحر سے معمور کیوں نہ خیال کرتا۔
ہاتھ اس کے نزدیک جسمانی طاقت کی علامت تھے، اس لیے بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ہاتھوں ہی سے شکار کرتا تھا۔ چناں چہ اس کی منطق یہ تھی کہ اگر کسی ترکیب سے ہاتھوں کی تعداد بڑھائی جا سکے تو شکار کی تعداد بھی بڑھ سکتی ہے۔ چھاپے چونکہ ہاتھ کا ہو بہو عکس ہوتے تھے، اس لیےقدیم انسان کے نزدیک ان میں ہاتھوں کی تاثیر کا ہونا لازمی تھا۔ وہ چھاپوں کو بے جان تصویریں نہیں سمجھتا، کیوں کہ جاندار اور بے جان کے فرق سے ہنوز اس کا ذہن نا آشنا تھا۔
کوئی فن ایک دن میں نہیں آتا بلکہ اس کو سیکھنے کے لیے پیہم مشق کرنی پڑتی ہے۔ آج کل تو خیر حصول فن کے لیے درس گاہیں موجود ہیں جہاں کہنہ مشق استاد اپنے نوآموز شاگردوں کو فن کی تعلیم دیتے ہیں مگر کیا اب سے چالیس ہزار سال پیشتر بھی استاد اور مدرسے ہوتے تھے؟ شواہد کہتے ہیں کہ استاد شاگرد کا رشتہ اس وقت بھی موجود تھا اور قبیلے کے نوجوانوں کو مصوری اور کندہ کاری کا فن باقاعدہ سکھایا جاتا تھا۔ مثلاً لیموئیل کے غار میں ایک ہی مقام پر پتھر کی 137چھوٹی چھوٹی تختیاں ملی ہیں جن پر نقاشی کی مشق کی گئی ہے۔ ان میں بعض خاکے بہت اچھے ہیں اور بعض بے حد ناقص۔ ان پر جابجا کسی استاد کی اصلاح بھی نظر آتی ہے۔ اسی طرح پاریالو (اسپین) کے غار میں پتھر کی 1430 تختیاں ملی ہیں جن پر تصویریں کھدی یا بنی ہیں۔
پتھر کا ایک ایسا ٹکڑا بھی ملا ہے جو تصویروں سے لپا ہوا ہے۔ الٹی سیدھی، آڑی ترچھی، اوپر تلے، پشت پر غرض کہ سیکھنے والے نے اس ایک ٹکڑے پر لاتعداد شکلوں کی مشق کی ہے، ہونہار شاگرد تعلیم سے فارغ ہو کر خود استاد بن جاتے تھے۔ سحر کی رسوم بھی یہی فنکار ادا کرتے تھے، ابتدا میں ان ساحروں اور فنکاروں کی حیثیت قبیلے کے دوسرے افراد سے مختلف نہ تھی اور نہ انہیں خاص کر رعایتیں حاصل تھیں مگر فن کے تقاضے اور ادائیگی رسوم کی ضرورتیں بڑھیں تو ساحروں کو شکار یعنی حصولِ غذا کے فرائض سے مستثنیٰ کردیا گیا۔ وہ اپنے سحر اور فن کے ذریعے قبیلے کو شکار حاصل کرنے میں مدد دیتے تھے اور قبیلہ اس کے عوض ان کو غذا فراہم کرتا تھا۔
غاروں کے نقش و نگار خود پکار پکار کہہ رہے ہیں کہ ہم اناڑی ہاتھوں کی تخلیق نہیں ہیں بلکہ ہمیں بڑے کہنہ مشق استادوں نے بنایا ہے۔ ایسے صاحب فن استاد جن کی آنکھوں نے اپنے گرد و پیش کے جانوروں کا، ان کے عادات و خصائل کا، کردار، مزاج اور حرکات کا بہت گہرا مطالعہ کیا تھا۔ یہ فنکار جانتے تھے کہ حملہ کرتے وقت یا دوڑتے وقت جانور کے جسم کی داخلی اور خارجی کیفیت کیا ہوتی ہے اور جانور زمین پر بیٹھا یا آرام کرتا ہو تو اس کی دھج کیا ہوتی ہے۔ تجربے اور مشاہدے سے اس نے یہ بھی سیکھ لیا تھا کہ جسم کے کس حصے پر بھالے کی ضرب سے جانور کو گرایا جاسکتا ہے۔
غار کی تصویروں پر نیزوں اور بھالوں کی مشق کے جو نشان بنے ہیں، ممکن ہے کہ ان کا مقصد نو آموز شکاریوں کی تعلیم ہو۔ ابتدائی حجری دور کا انسان کفایت شعاری کرنے پر مجبور تھا۔ اس کے پاس نہ تو آلات واوزار کی فراوانی تھی اور نہ جانوروں کی۔ وہ نہ تو آلات شکار ضائع کرسکتا تھا اور نہ شکار۔ یوں بھی بعض جنگلی جانور بڑے خطرناک ہوتے تھے اور چونکہ وار بہت قریب سے کیا جاتا تھا، اس لئے اندیشہ رہتا تھا کہ وار خالی ہونے کی صورت میں شکار کہیں پلٹ کر حملہ نہ کردے لہٰذا دور اندیشی کا تقاضا تھا کہ جانوروں کے ہوبہو مجسمے اور تصویریں بنائی جائیں اور نئے شکاریوں سے ان پر نیزہ اندازی کی مشق کرائی جائے تاکہ نشانہ پختہ ہو جائے، تب انہیں شکار کی مہم میں شریک ہونے کی اجازت دی جاتی تھی۔ آج کل جو چاند ماریاں یا فوجی مشقیں ہوتی ہیں ان کا بھی یہی مقصد ہے۔۔ پرانے زمانے میں دیو پیکر جانوروں کا شکار جنگی مہم سے کم خطرناک نہ ہوتا تھا۔
ہر عہد کا فن روحِ عصر کا ترجمان یا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس میں معاشرے کے اجتماعی اور انفرادی ہیجانات و اضطراب کی جھلک پائی جاتی ہے۔ وہ معاشرے کی کلفتوں اور اذیتوں، آرزؤوں اور امنگوں کا اظہار کرتا ہے، اس کی خوشیوں اور کامرانیوں کے گیت گاتا ہے، اس کی قدروں کی پاسداری کرتا ہے اور اس کے مروجہ عقائد وتصورات کی خدمت کرتا ہے۔ چناں چہ قدیم مصری آرٹ کا محور اور محرک مردہ پرستی ہے کیوں کہ مصر کے فرعونوں اور پروہتوں نے بڑی چالاکی سے پوری قوم کو حیات بعد الموت کے جال میں پھنسا رکھا تھا۔ خود نہایت عیش و آرام کی زندگی گزارتے تھے اور عام رعایا کو دوسری دنیا کا سبز باغ دکھاتے تھے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ رعایا فرعون اور دوسرے برگزیدہ بندوں کی بے چوں چرا خدمت کرتی رہے۔
اسی طرح یونان اور ہندوستان کے فنون کی بنیاد صنم پرستی پر ہے اور قرونِ وسطیٰ کے مغربی فن کی مسیحی عقائد کی ترویج و اشاعت پر۔ فن اور معاشرے کا یہ تعلق فقط مقصد اور ماہیت تک محدود نہیں ہے بلکہ فن کی ہیئت اور طرز ادا میں بھی روح عصر کا پرتو صاف نظر آتا ہے۔ مثلاً زراعت کی ایجاد کے بعد ہر ملک کا فن اقلیدسی اصول کا پابند ہو گیا۔ چنا نچہ مصر اور بابل کے تمام مجسمے، تصویریں اور عمارتیں دراصل ایک مثلث ہیں۔ اس کے برعکس جسم انسانی سے لذت لینے والے یونانیوں اور ہندوستانیوں کا تمام آرٹ، جسم انسانی کی بنیادی ساخت کے تابع ہے۔ ایک خط مستقیم ہے جو ریڑھ کی ہڈی کی مانند پوری تصویر کا بوجھ برداشت کرتا ہے اور جس طرح جسم انسانی میں تناسب موجود ہے، یعنی ریڑھ کی ہڈی کے ایک سمت ایک ہاتھ ہوتا ہے اور دوسری سمت دوسرا ہاتھ، یادو آنکھیں اور دوپاؤں ہوتے ہیں، اسی طرح ان ملکوں کی تصویروں میں بھی تناسب پایا جاتا ہے۔