ملکیت کیا ہے؟ (پانچویں قسط)
محنت کی تقسیم اور تعاون کی وجہ سے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ پیداواری عمل کے دوران لوگوں کی محنت اور سرگرمی میں تبادلہ ہو۔ انفرادی کارخانوں کے اندر چونکہ مختلف اقسام کی سرگرمیاں باہم جڑی ہوئی ہوتی ہیں اس لئے محنت کے تبادلے کا یہ عمل پیداوار میں شریک مختلف لوگوں کے درمیان براہ راست رابطے کے ذریعے انجام پا جاتا ہے لیکن پورے معاشرے کی سطح پر محنت کا یہ تبادلہ محنت کے نتیجے میں تیار ہونے والی اشیاء کے تبادلے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ مشین بنانے والے کارخانے ایک جانب تو دھات بنانے والے اور دیگر کارخانوں کے لیے ساز و سامان تیار کرتے ہیں اوردوسری جانب وہ خود دھات بنانے والے کارخانوں کا تیار کردہ سامان استعمال کرتے ہیں۔
چنانچہ پیداواری عمل کے دوران لوگوں کے درمیان محنت کے تبادلے کے جو رشتے پیدا ہوتے ہیں وہ خود اس پیداواری عمل کا جزولاینفک ہوتے ہیں ۔
تاہم محنت کے نتیجے میں تیار ہونے والی چیز کی زندگی پیداواری عمل کے ساتھ ختم نہیں ہوجاتی۔ پیداواری عمل سے نکل کر باہر آنے کے بعد اس چیز کو اصراف یا استعمال کے مرحلے تک پہنچنے کے لیے طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ پہلی ضرورت تویہی ہے کہ یہ چیز پیداواری عمل میں شریک لوگوں میں تقسیم ہو۔ اس چیز کا الگ الگ پیداوار کرنے والے دوسرے لوگوں کی ان اشیاء سے تبادلہ ہو جن کی ضرورت پہلی چیز کی پیداوار کرنے والے لوگوں کو ہو ۔تبادلےکا یہ عمل ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے یہ اشیاء اصراف یا استعمال کے حلقے میں پہنچتی ہیں اور وہاں معدوم ہو جاتی ہیں۔ یہ اصراف ذاتی بھی ہو سکتا ہے اور مزید پیداوار کے لیے بھی۔
کسان کی خودکفیل معیشت میں پیداوار کی تقسیم کا عمل سادہ بھی تھا اور عیاں بالذات بھی۔ چنانچہ اناج کے ایک حصے کو بیج اور چارے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا تاکہ خاندان آئندہ سال کھیت بو سکے اور اپنے مال مویشیوں کو کھلا پلا سکے جبکہ دوسرے حصے کو خود کسان کے خاندان کے ذاتی اصراف کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا ۔چونکہ یہ خاندان ایک معاشی اکائی ہوتا تھا اس لیے یہ دوسرے خاندانوں کے ساتھ پیداواری رشتوں میں منسلک نہیں ہوتا تھا۔ اس کی معیشت ایک بنداور علیحدہ معیشت تھی اور یہ خاندان جو پیدا کرتا تھا وہی کچھ استعمال کرتا تھا ۔تاہم آج کل بالعموم کسی شے کی پیداوار کرنے والے لوگ خود اسے استعمال نہیں کرتے (یا جزوی طور پر ایسا کرتے ہیں) جب کہ وہ کتنی ہی ایسی اشیاء کو استعمال کرتے ہیں جن کی پیداوار میں انہوں نے حصہ نہیں لیا ہوتا۔
چنانچہ پیداوار کے بعدپیداواری عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شے کی تقسیم ہوتی ہے۔اگرچہ تقسیم کا یہ عمل وسیع معاشی مظاہر اور عوامل پر مشتمل ہے تاہم بالعموم ماہرین معاشیات اس تقسیم سے محنت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اشیاء کی تقسیم ہی مراد لیتے ہیں۔
کسی بھی سماجی نظام میں ان اشیاء کی تقسیم کا مسئلہ بنیادی طور پر اس سوال پر مبنی ہوتا ہے کہ ان اشیاء کو کون ہتھیا لیتا ہے اور وہ کہاں اور کس طرح جا کر دم لیتی ہیں؟ اسی سوال پر اس بات کا انحصار ہے کہ ان کا کون سا حصہ پیداوار میں واپس چلا جائے گا اور کون سا حصہ ذاتی استعمال کے علاوہ دوسرے لوگوں کے استعمال میں بھی آئے گا۔
پیداوار کی تقسیم کا طریقہ کار خود پیداواری عمل پر بھی گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ چنانچہ معاشرے کے اراکین میں اشیائے صرف کی تقسیم ہی کام کے بارے میں ان کے رویوں کو بڑی حد تک متعین کرتی ہے۔ یہ تقسیم ہی کام کرنے یا نہ کرنے کے لیے ان میں رغبت یا بے اعتنائی پیدا کرتی ہے۔
پیداوار کا بٹوارا اشیاء کی پیداوار سے متعین ہوتا ہے۔ باالفاظ دیگر ،اشیاء کی تقسیم کے طریقہ کار کا انحصار طریق پیداوار پر ہوتا ہے۔ صرف یہ سادی صداقت ہی پیداوار پر تقسیم کے انحصار کا اظہار کر دینے کے لیے کافی ہے کہ صرف وہی اشیاءتقسیم کی جا سکتی ہیں جن کو پیدا کر لیا گیا ہو اور اس معنی میں تقسیم ہمیشہ ہی پیداوار کے بعد ہی ہو سکتی ہے اور اس کی نوعیت کا انحصار بھی پیداوار پر ہی ہوتا ہے۔
تاہم پیداوار پر تقسیم کے انحصار سے یہ وضاحت نہیں ہو پاتی کہ یہ اشیاء معاشرے میں کس طور پر تقسیم ہوں گی؟ یہ تقسیم کس اصول پر ہوگی؟ اوران اشیائے صرف کی کون سی مقدار یں معاشرے کے اراکین تک پہنچیں گی۔ اس بات کا انحصار ایک اورطرز کی ایسی تقسیم پر ہوتا ہے جو خود پیداوار کا اندرونی لازمی وصف ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مختلف افراد ،سماجی گروہوں اور طبقوں کے مابین ذرائع پیداوار کس طور پر منقسم ہیں۔ مختلف افراد، سماجی گروہوں اور طبقوں میں پیداوار کی تقسیم کی صورت اور طریقہ کار اور ان کی ملنے والے مقداروں کا دارومدار اسی بات پر ہوتا ہے کہ پیداوار کے شرکاء میں زرائع پیداوار کی تقسیم کی صورت کیا ہے؟
آئیے یہاں ہمیں اس امرکی یاد دہانی ہو جائے کہ ثمر اتِ محنت کا تبادلہ بنیادی طور پر سرگرمی یا محنت کے عمل کے تبادلوں پر مشتمل تھا یعنی ثمراتِ محنت کے تبادلے کے عمل میں مختلف اقسام کی محنتوں یا کاموں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ان مختلف اختصاصی پیداواری لوگوں کے درمیان محنت کے ثمرات یعنی مصنوعہ اشیاء کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔ مخصوص حالات میں ان ثمراتِ محنت کے تبادلے کا عمل اشیائے خرید و فروخت کی صورت اختیار کر سکتا ہے جو کہ تبادلے کی ایک ایسی مخصوص صنف ہیں جو ایک ایسی صورتحال میں رونما ہوتی ہے جب کہ مختلف پیداواری عمل یا پیداواری لوگ معاشی طور پر دوسرے سے دور ہوں۔اشیائے خریدوفروخت کے تبادلے کی یہ صورت اس بات کو فرض کرتی ہے کہ پیداوار صارفین تک منڈی کے وسیلے یعنی خرید و فروخت کے ذریعے پہنچتی ہے۔
پیداواری عمل کا نمو، وجود اورارتقاء ہوا ہی اس لیے کہ انسانی ضروریات کی تشفی ہو۔ یہ ضروریات مادّی بھی ہوسکتی ہیں اور روحانی بھی اور ان کی تشفی انواع و اقسام کی اشیاء تیار کرکے کی جاتی ہے۔ مثلا مادی ضروریات کی تشفی کے لئے روٹی یا دودھ پیدا کیا جاتا ہے اور روحانی تسکین کے لئے موسیقی یا کتابیں۔ ان ضروریات کو پیداواری ضروریات (یعنی زرائع پیداوار کی تیاری یا پیداوار کرنے کے لیے درکار آلات اورمشینوں وغیرہ کی تیاری) اور ذاتی ضروریات (یعنی اشیائے صرف یا استعمال کی چیزوں کی تیاری) میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پیداواری اصراف خود پیداواری عمل کا جز ہے۔ پیداواری عمل کے دوران زرائع پیداوار مثلا پیداواری آلات اور پیداواری معروض کو استعمال یا صرف کر کے اشیاء کو تیار کیا جاتا ہے۔
ذاتی اصراف (استعمال) سے کھانہ، کپڑا ،جوتے اور رہائش وغیرہ کی ایسی چیزوں کا اصراف مراد ہے جو خود لوگ کرتے ہیں۔ یہ اصراف پیداواری عمل کے دائرہ کار سے باہر رہتا ہے یعنی پیداواری عمل میں فوری طور پر جو اصراف ہو رہا ہوتاہے اس سے اس کا تعلق نہیں ہوتا۔تمام پیداوار کی فطری آخری منزل یہی ہوتی ہے۔ ذاتی اصراف کے دوران محنت کا ثمر مکمل طور پر استعمال ہو جاتا ہے۔ اس کا کام تمام ہو جاتا ہے۔