فلسفہ کیا ہے؟ (چھٹی قسط)

وہ علم جو ہمیشہ پُرشباب رہتا ہے

بعض اوقات لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ فلسفے کو سائنس کا مرتبہ اس لیے نہیں حاصل ہوسکتا کیونکہ فلسفہ ازل سے انہی پرانے سوالات کو سلجھانے میں لگا ہوا ہے جبکہ سائنس ایک مسئلے کو حل کرنے کے بعد پھر اس کی جانب نہیں پلٹتی، بلکہ نئے سوالات اٹھانے کے بعد ان کی تشریح کرتی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ فلسفے کے مسائل کو “ازلی” اس لیے نہیں قرار دیا جاتاکہ ان کا حل ممکن نہیں بلکہ یہ سوال اس باعث ازلی سوال ہو جاتے ہیں کہ ہر دور کے انسان ان سوالات کو اپنے مخصوص انداز میں اٹھاتے ہیں۔چونکہ معاشرے اور حالات زندگی میں تغیرات رونما ہوتے ہیں، ذخیرہ علم بڑھتا ہے، فطرت اور خود اپنی زندگی پر انسان زیادہ قابو پاتا چلا جاتا ہے، اس لیے اپنے گرد و پیش سے انسان کے رشتوں میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔

فلسفیوں نے ہمیشہ ہی اس امر پر غور کیا ہے کہ دنیا میں اس تغیر و تبدل کا سبب کیا ہے ،اور مظاہرو واقعات کا یہ کثرت و تنوع کیونکرہے۔ قدیم انڈین لوگوں کا خیال تھا کہ انسان کے اطراف میں نظر آنے والی تمام اشیاء خدائے اعلی کے چار بیٹوں میں کشمکش کا نتیجہ تھیں۔ قدیم ایرانیوں کا خیال تھا کہ کائنات دو قوتوں اہرمان(تخلیق کا دیوتا) اور ہر مز(تباہی کا دیوتا)کی جنگ کا نتیجہ ہے اور ان کی ازل تا ابد کشمکش کا اکھاڑہ ہے اور انہوں نے باہمی مفاہمت کے نتیجے میں یہ طے کرلیا ہے کہ دنیا پر تاریکی اور روشنی کی دو قوتوں کی حکمرانی رہے گی ۔باالفاظ دیگر قدیم لوگوں کے نزدیک کائنات ایسی مافوق البشر ہستیوں کے باہمی ربط ضبط کا شاخسانہ ہے جو خود انسان سے مشابہ ہیں۔

کچھ عرصے بعد جب انسان نے فطرت سے اپنے آپ کو ممیزکرنا سیکھ لیا اور عمومی تصورات کی مدد سے غور و فکر کرنے کے قابل ہوگیا تو اس نے کائنات میں ہونے والے تغیروتبدل کے اسباب مافوق الفطرت قوتوں میں تلاش کرنے کے بجائے خود فطرت میں ان اسباب کی جستجو شروع کر دی۔ چنانچہ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ عمومی تصورات کے بل پر غور و فکر کرنے والے زیادہ بالغ نظر انسانوں نے فلسفیانہ مسائل بھی نئے انداز سے اٹھائے۔

, مختلف ٹھوس علوم کی ترقی و نشوونما کے ساتھ ساتھ تصورات بھی بدلتے ہیں۔ چنانچہ ایک عرصے تک فلسفیوں اور عالمان دین کا یہ خیال تھا کہ خدا کی ایک تخلیقی کاوش کے نتیجے میں انسان کا زمین پر ظہور ہوا، کہ انسان خدا کی تخلیقات میں سب سے مشرف ہے اور چنانچہ اس کا مسکن یعنی زمین کائنات کا مرکز ہے ۔تاہم پولینڈ کے ماہر فلکیات، نکولس کوپرنیکس کی دریافت کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ زمین نظام شمسی میں ایک ذرے کے سوا کسی اور حیثیت کی حامل نہیں۔ بعدازاں یہ ثابت ہوا کہ خود نظام شمسی بھی ستاروں کے ہجوم کا ایک جزو ہے۔ اس ہجوم کو کہکشاں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ دریافتیں انسان کی اشرافی حیثیت اور اس کے انفراد کے علاوہ اس امر پر بھی سوالیہ نشان ڈال دیتی ہیں کہ اسے خدا ؤں نے خود اپنے ہاتھ سے بنایا۔

کچھ فلسفیانہ مسائل صرف اسی صورت میں اٹھ سکتے ہیں کہ معاشرے نے ترقی کی ایک خاص سطح حاصل کر لی ہو۔ مثلا ترقی پسندانہ سماجی نشوونما کا تصور ایک ایسے تناظر میں ہی اٹھ سکتا تھا جب سرمایہ دارانہ رشتوں کی تشکیل و ترقی ہو چکی ہو اور پیداوار کی مسلسل بڑھوار معیشت کا غالب وصف بن چکی ہو۔ اس وقت سے قبل ترقی اور تبدیلی کی سمت کا سب سے غالب نظر یہ یہی تھا کہ ترقی کولہو کے بیل کی مانند ایک دائرے میں مقید رہتی ہے۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم عصر سرمایہ دارانہ معاشروں میں ترقی کا تصور پھر ذرا کم مقبول ہوگیا ہے اور اس کی جگہ ایک بار پھر ترقی کی گردش دو امی کے تصور نے لے لی ہے۔ اس بات سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ آج کا سرمایہ دارانہ معاشرہ سماجی ترقی کی شاہراہ سے بھٹک گیا ہے اور اس کے فلسفیانہ تصورات میں بھی اس گمراہی کی عکاسی ہوتی ہے۔ فریڈرک نیٹشے، اسوالڈ اسپینگلر، آرنلڈ ٹوائن بی اور پیٹرم سوروکن جیسے ممتازسرمایہ دار مفکروں کی فکر میں معاشرے کے ارتقا کے بارے میں یاسیت آمیز تصورات کی قدر مشترک پائی جاتی ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے کے تمام گوشوں اور پہلوؤں میں،معیشت، سیاست ،علوم ،ثقافت میں ترقی کی سطح کے سیاق و سباق میں ہی فلسفیانہ مسائل اٹھتے بھی ہیں، اور اسی تناظر میں انہیں حل بھی کیا جاتا ہے۔ فلسفہ اپنےدور کانچوڑ ہوتا ہے اور اپنے وقت کا شعور ہوتا ہے۔انسانیت نے اپنی ترقی کے کسی مخصوص مرحلے پرجس قدرتحصیل و تخلیق کی ہوتی ہےفلسفہ اس کا لب لباب اورعطرعطیر ہوتا ہے۔

Leave a Comment