ٹراٹسکی کا محاسبہ: ہیری ہیوڈ

ٹراٹسکی کا محاسبہ

مترجم: سحر راحت

ہمارے تعلیمی کورسوں کے علاوہ ہم نے لینن ازم اور سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ کے بارے میں اپنی ابتدائی تعلیم اسٹالن کی قیادت میں مرکزی کمیٹی کی اکثریت اورٹراٹسکی کے درمیان ہونے والی اندرونِ پارٹی جدوجہد کی تپش میں حاصل کی۔ ہم مشرقی محنت کش عوام کی کمیونسٹ یونیورسٹی کے طلباء صرف کنارے پرکھڑے ہوکرتماشہ دیکھنے والوں میں سے نہیں تھے بلکہ جدوجہد کے سرگرم شرکاء تھے۔ اکثر طلباء ، اورامریکہ سے آنے والے ہمارے گروپ کے سب افراد، اسٹالن اور مرکزی کمیٹی کی اکثریت کے پرجوش حامی تھے۔

لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔اوٹو نے مجھے بتایا کہ 1924ء میں ، اس کے آنے سے ایک سال پہلے ، اسکول میں طلباء کی اکثریت ٹراٹسکی کے حامیوں پر مشتمل تھی۔ ٹراٹسکی پرانے بالشویک قائدین کی مخالفت میں پارٹی کے نوجوانوں کو متاثر کرنے کی کوشش کررہاتھا۔ ہمیشہ کی طرح اپنی لفاظی سے، اس نے دعوی کیا کہ پرانی قیادت انقلاب سے غداری کررہی تھی اور “تھرمیڈورین ردِ انقلاب” کے راستے پر چل رہی تھی۔ اس صورتحال میں ، اس نے کہا کہ طلباء اور نوجوان ہی “پارٹی کے سب سے سچے بیرومیٹر(بادپیما) تھے۔”

لیکن جب تک سیاہ فام امریکی طلباء پہنچے،ٹراٹسکی کی طرف عارضی کشش واپس ہوچکی تھی۔ اسکول میں ٹراٹسکی کے خلاف جدوجہد میں شامل مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ان مسائل کا تعلق سوویت یونین میں سوشلزم کے مقدر سے تھا۔ سوویت لوگوں کو کس راستے پر جانا تھا؟ان کی معاشی ترقی کی سمت کیا ہونی تھی؟ کیا سوشلسٹ معاشی نظام قائم کرنا ممکن تھا ؟ یہ سوالات نہ صرف نظریاتی تھے بلکہ زندگی اور موت کےمسائل تھے۔ ان مسائل پر بحث کے دوران ملک کی معاشی زندگی ساکت نہیں کھڑی رہے گی اورانتظار نہیں کرے گی۔

لینن اور بالشویکوں کی قیادت میں سوویت مزدور طبقے نے دنیا کے ایک بٹا چھ حصے پر سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دے دی تھی؛ اس کی معاشی طاقت کو چکنا چور کردیا تھا؛ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کوبے دخل کردیا تھا؛ فیکٹریوں ، ریلوے اور بینکوں کو سماجی ملکیت میں تبدیل کردیا تھا؛اور ریاستی ملکیت میں سوشلسٹ صنعت کی تعمیر کا آغاز کررہی تھی۔ سوویت حکومت نےزراعت میں لینن کے امدادِ باہمی کے منصوبوں کا اطلاق شروع کردیا تھا اور سوشلسٹ معاشی نظام کو مکمل ترقی دینا شروع کردی تھی۔یہ زبردست کام مزدوروں کو کسانوں کے ساتھ کرنا تھا۔
کتوبر انقلاب سے لے کر 1921ء تک ، معاشی نظام کا کردار جنگی کمیونزم کا تھا۔بنیادی صنعت قومی بنالی گئی تھی ، اور تمام سوالات خانہ جنگی اور سرمایہ دارملکوں کی مداخلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عسکری ضروریات کی تکمیل کے ماتحت تھے۔

لیکن 1921ء تک ،وہ غیر ملکی حکومتیں جنہوں نے سوویتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی ،انہیں بڑی حد تک روس کی سرحدوں سے باہرنکالا جا چکا تھا۔ اس وقت ضروری تھا کہ معیشت کو امن کے دور کی صورتحال کے مطابق ڈھالا جائے۔1921ءمیں دسویں پارٹی کانگریس میں وضع کی گئی نئی اقتصادی پالیسی (NEP) وہ پالیسی تھی جسے جنگی کمیونزم سے سوشلزم کی تعمیر میں منتقلی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اس نے جنس کی صورت میں ٹیکس کے ذریعے اضافی محصول کے نظام کو بدل دیا جس سے کسانوں پر بوجھ کم ہوگیا۔ نئی اقتصادی پالیسی سوشلسٹ شکلوں سے ایک عارضی پسپائی تھی: چھوٹی صنعتوں کو چلانے کے لئے انہیں نجی سرمائے کو لیز پر دیا گیا؛ کسانوں کو اپنی اضافی فصل آزاد منڈیوں میں فروخت کرنے کی اجازت دی گئی۔ معیشت کے کافی حصے پرسے مرکزی کنٹرول کم کردیا گیا۔امن کے دور میں معیشت کو چلانے کے لیے یہ سب کرنا ضروری تھا۔ یہ ایک ایسا اقدام تھا جس کا مقصد شہروں اور دیہاتوں کے درمیان اجناس کے تبادلے کو بحال کرنا تھا جو خانہ جنگی اورسامراجی مداخلت کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوا تھا۔ یہ سرمایہ داری کی تمام باقیات پربیک وقت حملہ کرنے سے عارضی پسپائی تھی ، سوشلسٹ ریاست کے لئے ایک موقع تھا کہ اپنی بنیادیں مستحکم کرے ، ایک اور پیش قدمی کے لئے طاقت اکٹھی کرے۔ ایک سال بعد گیارہویں پارٹی کانگریس میں ، لینن نے اعلان کیا کہ پسپائی ختم ہوگئی تھی اور پارٹی کو “نجی سرمائے پر حملے کی تیاری کرنے” کی ہدایت دی۔
اس نے “مستقل انقلاب” کے نام سے اپنا نظریہ وضع کیا اور دعوی کیا کہ سوویت یونین میں سوشلزم کی حقیقی پ قدمی تبھی ممکن ہو گی جب ترقی یافتہ صنعتی ریاستوں میں سوشلسٹ انقلاب کامیاب ہوگا۔

بائیں بازو کی لفاظی کا اچھا خاصا مظاہر ہ کرنے کے باوجود ٹراٹسکی کے نظریات نہایت شکست خوردہ اورطبقاتی مصالحت پر مبنی تھے۔ مثال کے طور پر، 1922ء میں لکھے گئے “امن کے پروگرام” کے ضمیمے میں اس نے دعوی کیا کہ” جب تک دوسرے یورپی ملکوں میں سرمایہ داراقتدار میں رہیں گے ، تب تک ہم معاشی تنہائی کے خلاف اپنی جدوجہد میں سرمایہ دار دنیا کے ساتھ معاہدے کی کوشش کرنے پر مجبور رہیں گے؛ بیک وقت یہ بھی یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ معاہدے زیادہ سے زیادہ یہ کہ کسی حد تک ہماری معاشی خرابیوں کو کم کرنے ،کوئی ایک یا دوسرا قدم آگے بڑھانے میں، ہماری مدد کرسکتے ہیں ، لیکن روس میں سوشلسٹ معیشت کی حقیقی ترقی صرف اہم یورپی ملکوں میں مزدور طبقے کی فتح کے بعد ہی ممکن ہوسکے گی۔”

اس شکست خوردگی کی بنیاد میں ٹراٹسکی کا یہ مؤقف تھا کہ کسان سوشلزم کے مخالف ہوں گے ، کیونکہ پرولتاریہ کو” نہ صرف جاگیردارانہ بلکہ سرمایہ دارانہ ملکیتی رشتوں میں بھی نہایت گہری دخل اندازی کرنا ہوگی۔ ” چنانچہ، ٹراٹسکی نے دعوی کیا کہ مزدور طبقہ”نہ صرف ان تمام سرمایہ دار گروہوں سے تصادم میں آجائے گا جنہوں نے انقلابی جدوجہد کے پہلے مرحلے کے دوران پرولتاریہ کی حمایت کی ، بلکہ اس وسیع تر کسان عوام کے ساتھ بھی ، جس کی مدد سے یہ اقتدار میں آیا ہے۔ ایک پسماندہ ملک میں جس کی غالب اکثریت کسان آبادی ہے وہاں مزدور حکومت کی حالت میں تضادات کو عالمی پرولتاری انقلاب کے میدان میں ہی حل کیا جا سکتا ہے۔”

لہذا ، یہ ممکن نہیں ہوگا کہ روس جیسے پسماندہ ، کسان ملک میں ، سوشلزم تعمیر کیا جائے۔ کسان عوام انقلاب کے سرمایہ دارانہ جمہوری فرائض کی تکمیل سے پہلے ہی، یعنی جاگیردارانہ جاگیروں کو توڑنے اور کسانوں میں زمین کی تقسیمِ نو سے پہلے ہی، اپنی انقلابی صلاحیت ختم کرلے گی۔ ٹراٹسکی نے یہ مؤقف ،جو کسانوں کے کردار کو کمترسمجھتا ہے ، 1915ء کے اوائل میں اپنے مضمون ” اقتدار کے لیے جدوجہد” میں پیش کیا تھا۔ وہاں اس نے یہ دعوی کیا کہ سامراجیت کی وجہ سے کسانوں کا انقلابی کردار زوال پزیر ہورہا تھا اور اس طرح اس نے “زمینی جاگیریں ضبط کرلو!” کے بالشویک نعرے کی اہمیت کو گھٹایا۔

جیسا کہ ہماری کلاسوں میں اس کی نشاندہی کی گئی تھی ، ٹراٹسکی نے کسانوں کو ایک غیر متفرق مجموعےکے طور پر پیش کیا۔ اس نے ان کسانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جو اپنی زمین پر خود کام کرتے تھے (زمیندار کسان) اور وہ ظالم پرت جو مزدور کرائے پر لیتی تھی(امیر کسان)۔ اس نے جو نتائج اخذ کیے وہ لینن کی تیار کردہ بالشویکوں کی اس حکمتِ عملی سے متضاد تھے جس میں پرولتاریہ کی آمریت کی اساس مزدوراور کسان اشتراک کی تعمیر ہے۔ مزید یہ کہ وہ کسی بھی حقیقت پسندانہ معاشی یا سماجی تجزیے سے بالکل مختلف تھے۔

ٹراٹسکی کا پورا مؤقف سوویت عوام، جس کی کثیر اکثریت کسان تھی، اس کی طاقت اور وسائل پر اعتماد کے فقدان کی عکاسی کرتا تھا۔ چونکہ اس کے مؤقف نے کسانوں کی انقلابی صلاحیت کا انکار کیا تھالہذا اس کے نزدیک انقلاب کی کامیابی داخلی قوتوں سے حاصل نہیں کی جا سکتی تھی ، بلکہ اس کا دارومدار مغربی یورپ کی ترقی یافتہ اقوام میں پرولتاری انقلابوں کی کامیابی پر تھا۔ اس قسم کے انقلابوں کی عدم موجودگی میں ، سوویت یونین کے اندر انقلابی عمل کو بھی معطل ہونا پڑتا ، اور پرولتاریہ ، جس نے کسانوں کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا ، اسے ریاستی اقتدار برقرار رکھنے کے لیے دوسرے تمام طبقوں کے ساتھ تنازعے میں آنا پڑتا۔

ٹراٹسکی کی انقلابی لفاظی کے پیچھے ایک سادہ سوشل ڈیموکریٹک خیال تھا جو سوشلزم کے لیے طبقاتی جدوجہد کو محض سرمائے کے خلاف مزدور کی جدوجہد سمجھتا تھا ۔طبقاتی جدوجہد کا یہ تصور زمیندار وں کے خلاف یا زارشاہی کے خلاف کسانوں کی جدوجہد کو سوشلزم کی جدوجہد کا ایک ناگزیرجزو نہیں سمجھتا تھا۔ اس کی عکاسی 1905ء کے اوائل میں، ٹراٹسکی کے اس نعرے میں نظرآئی “کوئی زار نہیں ، بلکہ مزدوروں کی حکومت” جو کہ، جیسا کہ اسٹالن نے کہا تھا ، “کسانوں کے بغیر انقلاب کا نعرہ” تھا۔

اس وقت کی انقلابی قوتوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ مؤقف خطرناک طور پر شکست خوردہ تھا۔مثال کے طور پر ، 1923ء میں یورپ میں انقلابی لہر کی گراوٹ کادور تھا؛ جرمنی ، اٹلی ، پولینڈ اور بلغاریہ میں یہ کمیونسٹ تحریکوں کی شکست کا سال تھا۔ تب ، اسٹالن نے پوچھا ، ہمارے انقلاب کے لئے کیا باقی رہ گیا ہے؟ کیا یہ”عالمی انقلاب کا انتظار کرتے ہوئے اپنے ہی تضادات میں گھر کرگل سڑ جائے؟” ٹراٹسکی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اسٹالن کا جواب تھا کہ سوویت یونین میں سوشلزم تعمیر کیا جائے۔ کسانوں سے اشتراک کرکے، سوویت مزدور طبقے نے سیاسی طور پر اپنے سرمایہ دار طبقے کو ختم کردیا تھا اور وہ معاشی طور پر اپنا فرض نبھانے اور سوشلسٹ معاشرہ تعمیر کرنے کے قابل تھا۔

اسٹالن کے مؤقف کا مطلب سوویت یونین کوتنہا کرنا نہیں تھا۔ سرمایہ دارانہ بحالی کا خطرہ اب بھی موجود تھا اور غیر طبقاتی معاشرے کے آغاز تک موجود رہتا۔ سوویت لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ اس بیرونی خطرے کو اپنی کوششوں سے ختم نہیں کرسکتے ، کہ اسے حتمی طور پر تب ہی تباہ کیا جا سکتا ہے جب کم از کم مغرب کے کئی ملکوں میں انقلاب کامیاب ہو۔جب تک بیرونی خطرہ موجود ہے تب تک سوویت یونین میں سوشلزم کی فتح حتمی نہیں ہوسکتی۔ لہذا ، سرمایہ دارانہ مغرب میں انقلابی قوتوں کی کامیابی سوویت لوگوں کے لئے ایک اہم معاملہ تھا۔
ٹراٹسکی کی مستقل انقلاب کی اسکیم نے نہ صرف کسانوں کی انقلابی قوت کو نیچا دکھایا ، بلکہ پرانی زارشاہی سلطنت کے اندر مظلوم عوام کی قومی آزادی کی تحریکوں کو بھی کمتر جانا۔ چنانچہ اپنے مضمون “اقتدار کی جدوجہد” میں اس نے لکھا کہ “سامراج سرمایہ دارانہ قوم کو پرانی حکومت کے مدمقابل نہیں لاتا بلکہ مزدور طبقے کو سرمایہ دارقوم کے مدمقابل کھڑا کرتا ہے۔ “

جب کہ ٹراٹسکی نے سامراجی عہد میں قومی نوآبادیاتی سوال پر زور دینے کی مخالفت کی ، لینن نے، دوسری جانب، اس کی نئی اہمیت پر زور دیا۔ لینن نے کہا ، “سامراج کا مطلب ہے کہ مٹھی بھرعظیم طاقتوں کے ذریعے دنیا کی اقوام کا استحصال مستقل شدید ہوتا جائے؛ اس کا مطلب ہے اول الذکر کے مابین جنگوں کا دور تاکہ قوموں کے استحصال کو وسیع اورمستحکم کیا جائے۔”

بین الاقوامی منظر نامے پر ٹراٹسکی کے مستقل انقلاب کے تصور کے مضمرات کو پوری طرح سے سمجھنے میں مجھے کچھ وقت لگا۔سب سے زیادہ ڈرامائی مثال اسپین میں1936-1939ء کی ہسپانوی خانہ جنگی تھی۔ٹراٹسکائی تنظیم نے کاتالونیا میں نراجیت پرستوں (انارکسٹ) کی تحریک میں دراندازی کر لی تھی اور “سوشلسٹ جمہوریہ” اور “مزدور حکومت” کے نعروں کے ساتھ وفاداروں کی حکومت کے خلاف بغاوت کو اکسایا تھا۔ وفادار حکومت جس کی قیادت جان نیگرین نامی ایک لبرل ریپبلکن کررہا تھا تمام جمہوری پارٹیوں کے اشتراک پر مشتمل تھی۔ اس میں سوشلسٹ ، کمیونسٹ ، لبرل ریپبلکن اور انارکسٹ شامل تھے۔ یہ سب فرانکو کے زیر قیادت اور ہٹلر اور مسولینی کے حمایت یافتہ فاشسٹ ردِ انقلاب کے خلاف اشتراک میں شامل تھے۔ وفادارحکومت کے خلاف بغاوت انقلابی عمل کے سرمایہ دارانہ جمہوری مرحلے کو عجلت میں طے کرنے کی ٹراٹسکائی کوششوں کا مخصوص نمونہ تھی۔اس کا نتیجہ “خانہ جنگی کے اندر خانہ جنگی” تھا، اور اگر ان کی حکمت عملی کامیاب ہوجاتی تو اس سے جمہوری اتحاد تقسیم ہوجاتا اور فاشسٹوں کو قابل ذکر مدد ملتی۔

متحدہ امریکہ میں ، میں نے یہ دیکھا کہ طبقاتی جدوجہد کے بارے میں ٹراٹسکی کا خالص تصور منطقی طور پر طبقاتی جدوجہد کی ایک منفرد خاصیت کی حیثیت سے سیاہ فام جہدِ آزادی کے، جو بذاتِ خود انقلابی تھی، انکار کی جانب لے گیا۔ نتیجےمیں ، امریکی ٹراٹسکائیوں نے تیس کی دہائی میں بغاوت کی بڑی لہر کے دوران خود کو اس تحریک سے الگ تھلگ پایا۔ لیکن یہ سب بعد میں ہوا۔

جس وقت میں مشرق کے محنت کشوں کی یونیورسٹی میں تھا تب تک ٹراٹسکی ازم بین الاقوامی منظر نامے پر ایک خاص رجحان کے طور پر سامنے نہیں آیا تھا۔میں نے مستقبل میں اس کے کردار کی پیش بینی ایک ایسی خلل انگیز قوت کے طور پر نہیں کی تھی جو بین الاقوامی انقلابی تحریک کے کناروں پرموجود تھی۔اس وقت ، میں خود بھی بہت سے نظریاتی سوالوں پرواضح نہیں تھا۔ یہ کچھ عرصے بعد ہوا کہ قومی اور نوآبادیاتی سوال پر – خاص طور پر افریقی امریکی سوال پر- میری سمجھ بوجھ گہری ہوئی اورٹراٹسکی کے مستقل انقلاب کے نظریےکے مضمرات مجھ پر پوری طرح عیاں ہو گئے۔

ہم طلباء نے محسوس کیا کہ ٹراٹسکی کا مؤقف سوویت انقلاب کی کامیابیوں کو مسترد کرتا ہے۔ہمیں روس کی پسماندگی اور سوشلزم تعمیر کرنے میں اس کی نااہلی کے بارے میں یا مستقل انقلاب کے اپنے نظریہ کے بارے میں اس کا مستقل اصرار پسند نہیں تھا۔ سوویت یونین ہم سب کے لئے حوصلہ افزائی کی ایک مثال تھا اور اس ملک میں ہمارے تجربے سے اس خیال کی تصدیق ہوتی تھی۔ ہر وہ چیز جو ہم دیکھ سکتے تھے وہ ٹراٹسکی کی منطق کو مسترد کرتی تھی۔

اس کی تحریریں پورے اسکول میں آسانی سے دستیاب تھیں اور جدوجہد کےمسائل ہمارے اجتماعات کے ایجنڈے میں مستقل شامل رہتے تھے۔ہماری کلاسوں میں ان پر تبادلہ خیال کیا جاتا تھا اسی طرح جس طرح پورے ملک میں فیکٹریوں ، اسکولوں اور کسان تنظیموں میں ہوتا تھا۔

مہینے میں تقریبا ایک بار اجتماع کی ملاقات ہوتی اور پارٹی کے نمائندوں – کبھی مقامی ، کبھی ریون (شہر کے علاقے) اور ضلع ماسکو سے ، اور کبھی سینٹرل کمیٹی ہی کی طرف سے، رپورٹ دی جاتی تھی جس میں اندرونِ پارٹی جدوجہد کی تازہ ترین پیشرفتوں کا احاطہ کیا جاتا تھا جیسے کہ کسانوں کے سوال پر ٹراٹسکی اور لینن کے خیالات کیا ہیں؛ نئی اقتصادی پالیسی پر،کہ اس نے اپنی افادیت کس طرح ثابت کی اور اب اسے مرحلہ وار کیسےختم کیا جارہا ہے؛ جنگی کمیونزم اور پارٹی کے قواعد کے بارے میں ٹراٹسکی کے مؤقف پر کہ پرولتاریہ کی آمریت کیا ہے ، اور کیا وہ کسانوں کے ساتھ اشتراک میں آمریت ہوسکتی ہے یا کسانوں سے ماورا۔ اس رپورٹ کے بعد کھلی بحث ہوتی تھی۔ اس وقت تک یونیورسٹی میں ٹراٹسکائی کسی بھی طرح قائل نہ ہونے والے لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ تک سکڑ گئے تھے۔

یہ جدوجہد پانچ سال (1922-27) سے زیادہ عرصہ جاری رہی جس دوران ٹراٹسکائی محاذ کو پریس تک رسائی حاصل تھی اور ٹراٹسکی کی تحریریں کو وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جاتا تھا تاکہ ہر کوئی انہیں پڑھ سکے۔ ٹراٹسکی کو افسر شاہی فیصلوں یا پارٹی پر اسٹالن کے کنٹرول سے شکست نہیں ہوئی، جیسا کہ اس کے مقلدین اور ٹراٹسکائی مؤرخوں کا دعوی ہے۔ اسے شنوائی کا پورا موقع ملا اوربالآخر وہ اس لیے ہارا کیونکہ سوویت یونین کے اورعالمی حقائق اس کے مؤقف کو غلط ثابت کرتے تھے۔ اسے شکست ہونا ہی تھی کیوں کہ اس کے نظریات غلط تھے اور معروضی حالات سے اورسوویت عوام کی ضروریات اور مفادات سے مطابقت پیدا کرنے میں ناکام ہوگئے تھے۔

یہ میری بڑی بدقسمتی تھی کہ میں اس وقت ہاسٹل سے باہر تھا جب سیاہ فام طلباء کو کمیونسٹ انٹرنیشنل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ساتویں توسیعی اجلاس میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا جو اس وقت، 1926ء کے آخر میں کریملن میں ہورہا تھا۔میں اس وقت باہر نکلا ہوا تھا اور ڈھونڈا نہیں جا سکتا تھا اس لیے وہ میرے بغیر اجلاس میں چلے گئے۔ میں ایک تاریخی موقعےسے محروم رہا جو ٹراٹسکی کو عملی طور پر دیکھنے کا میرے لیے واحد موقع تھا۔ اس با ت سے مجھے سخت مایوسی ہوئی۔ جب میں ہاسٹل واپس پہنچا تو میرے ہندوستانی دوست سخاروف نے مجھے بتایا کہ وہ کہاں گئے ہیں۔ صبح سویرے واپس آکر ، انہوں نے مجھے اپنا منتظر پایا۔ انہوں نے سیشن اور ٹراٹسکی کی شاندار کارکردگی کو بیان کیا۔

روسی وفد کی رپورٹ اسٹالن نے بنائی تھی، جس پر اپنے مؤقف کا دفاع کرنے کے لیے ٹراٹسکی نے دو گھنٹے کا وقت مانگا؛ اسے ایک گھنٹہ دیا گیا۔اس نے روسی زبان میں بات کی ، اور پھر اپنی تقریر کا جرمنی میں اورپھر فرانسیسی میں خود ترجمہ کیا اورتقریر کی۔ کل ملا کراس نے تین گھنٹے لیے۔

اوٹو نے کہا کہ اس نے خطابت کا ایسا نظارہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ، ٹراٹسکی اور اس کے حلیف (زینوویف اور کامینیف) کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا ، جس میں انہیں پورے اجلاس سے صرف دو ووٹ ملے۔سوویت یونین کے باہر سے آنے والے نمائندوں نے ٹراٹسکی کے اس نظریے کو قبول نہیں کیا کہ ایک ملک میں سوشلزم انقلاب سے غداری ہے۔ اس کے برعکس ، سوشلزم کی تعمیر میں سوویت یونین کی کامیابی بین الاقوامی انقلاب کے لیے مثالی تھی۔

اوٹو نے مجھے بتایا کہ بحث کے دوران یہ نکتہ بار بار اٹھایا گیا۔ کچھ دنوں بعد اطالوی کمیونسٹ پارٹی کے نوجوان رہنما ، ارکولی (ٹوگلیاٹی)، نے روسی پارٹی اورانقلاب کی کامیابیوں کا دفاع کرتے ہوئے اسے “دنیا کی انقلابی قوتوں کے لیے طاقتور ترین محرک” قرار دے کر اس نکتے کا بہت خوبی کے ساتھ خلاصہ کیا۔

امریکی پارٹی اسٹالن کے دفاع میں فرقہ وارانہ اختلاف بھلا کر متحد ہوگئی۔ اوراس طرح ٹراٹسکائی حزبِ اختلاف، جسے سوویت یونین کے اندر پہلے ہی شکست ہوچکی تھی، اب بین الاقوامی سطح پر بھی ریزہ ریزہ ہوگئی۔ اس کے بعد سے ٹراٹسکی کی زوال پذیری کا آغاز ہوا۔ میں نے خود ٹراٹسکائی حزبِ اختلاف کے محاذ کو پارٹی کے اندر ایک غیراصولی فرقے سے زوال پذیر ہو کر پارٹی اورسوویت یونین کے خلاف ردِ انقلاب سازش میں بدلتے دیکھا۔ ہمیں ماسکو سے باہر، سلور ووڈز کے علاقے میں، خفیہ، غیرقانونی اجلاسوں کی، فرقہ ورانہ پرنٹنگ پریس کے قیام کی، خبریں ملیں جو پارٹی کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی تھی۔ انقلاب کی سالگرہ کے دن، 7 نومبر1927ء کو، ان کی سرگرمیاں اپنی انتہا کو پہنچ گئیں۔
(اکتوبر انقلاب کی) دسویں سالگرہ کے موقع پر ، ٹراٹسکی کے پیروکاروں نے روایتی جشن کی مخالفت میں جوابی مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔مجھے وہ منظر اچھی طرح یاد ہے جب ہمارے اسکول کا دستہ ریڈ اسکوائر کی طرف مارچ کررہا تھا ۔ جب ہم ہوٹل ماسکو سے گزرے تو ہم پر ٹراٹسکائی پرچوں کی برسات ہوگئی اور ہوٹل کی کھڑکیوں پر خطیب نمودار ہوئے جو “اسٹالن مردہ باد” کے نعرے لگا رہے تھے۔

ان نعروں کا جواب نیچے کی گلیوں میں موجود لوگوں کے ہجوم نے جوابی نعروں سے دیا۔ہم نے ٹراٹسکائی پرچے پکڑے اور ان کو پھاڑ دیا۔ پارٹی کے خلاف عوام کو اکسانے کی یہ کوشش مکمل طور پر ناکام رہی اور عوام میں کوئی رد عمل پیدا نہ ہوا۔یہ بغاوت کے مترادف تھا اور یہ مظاہرہ ٹراٹسکائی حزب اختلاف کا آخری کھلے عام عمل تھا۔ اگلے مہینے کے دوران، ٹراٹسکی ، کامینیف اور زینوویف کو ان کے74 اہم حامیوں سمیت ملک سے نکال دیا گیا۔ ان کومعمولی لوگوں کے ساتھ وسطی ایشیاء میں سائبیریا کی طرف جلاوطن کردیا گیا۔ٹراٹسکی کو ترکستان کے شہر الماتا بھیج دیا گیا جہاں سے اسے 1929 ءمیں پہلے ترکی اوربالآخر میکسیکو جانے کی اجازت مل گئی۔
بعد میں ، ٹراٹسکی کے بہت سے پیروکاروں نے خود پر تنقید کی اور انہیں پارٹی میں واپس قبول کرلیا گیا۔ لیکن ان میں ناقابلِ اصلاح لوگوں کا ایک ایسا بنیاد پرست گروہ تھا جس نے عوام کے سامنے خود پر تنقید صرف ا س لیے کی تھی تاکہ پارٹی کے اندر سے اسٹالن کی قیادت کے خلاف جدوجہد جاری رکھ سکے۔ ان کی تلخی بڑھتی گئی اوربعد میں 1930ء کی دہائی میں وہ ایک ایسی سازش کے حصے کے طور پر سامنے آئے جس کے تانے بانے نازی جرمنی سے ملتے تھے۔

اس ساری جدوجہد کے دوران ، اسکول میں ہم سیاہ فام طلباء اسٹالن اور مرکزی کمیٹی کے مؤقف کے پرجوش حامی رہے تھے۔یقینی طور پر ہم اسٹالنسٹ تھے یعنی وہ لوگ جن کی پالیسیوں کو ہم نے لینن کی پالیسیوں کے تسلسل کے طور پر دیکھا۔ وہ لوگ جو آج کل “اسٹالنسٹ” کی اصطلاح کو بطوردشنام استعمال کرتے ہیں وہ اصل سوال سے کتراتے ہیں یعنی یہ کہ کیا اسٹالن اور مرکزی کمیٹی حق پر تھے؟ مجھے یقین ہے کہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ وہ برحق تھے۔

(ہیری ہیوڈ کی کتاب”سیاہ فام بالشویک: ایک افریقی-امریکی کمیونسٹ کی خودنوشت” کے چھٹے باب کا ترجمہ)


:حوالہ جات

انقلابِ فرانس کے دوران، 27 جولائی 1794ء کو (انقلابی کلینڈر کے مطابق تھرمیڈور کی نویں تاریخ) ایک گروہ، جسے بعد میں تھرمیڈورین کہا گیا، نے اقتدار پر قبضہ کرلیا، اورروبسپئر ، سینٹ جسٹ سمیت 80 سے زیادہ جیکوبن انقلابیوں کو قتل کردیا۔ اس کے نتیجے میں ردِ انقلاب شروع ہوا جو 1799ء میں نپولین کی آمریت کی جانب اور1815ء میں متععد یورپی شاہی ریاستوں کی بحالی کی جانب لے گیا۔

اسٹالن کی تصنیفات، جلد 5، صفحہ 394

سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی (بالشویک) کی تاریخ – مختصر نصاب (نیویارک، انٹرنیشنل پبلشرز، 1939ء) صفحہ 257۔ اس تصنیف میں مرکزی کمیٹی نئی اقتصادی پالیسی پر لینن کے مؤقف کا اس طرح خلاصہ کرتی ہے: “تجارت کی مخصوص آزادی کسانوں کو معاشی فائدہ دے گی، انہیں پیداوار بڑھانے پر اکسائے گی، اورسرعت کے ساتھ زراعت کی بہتری کی جانب لے جائے گی۔۔۔اس بنیاد پر، ریاستی ملکیت میں موجود صنعتیں بحال ہوں گی اورنجی سرمایہ بے دخل ہوگا۔۔قوت اوروسائل کو مجتمع کرکے، سوشلزم کی معاشی بنیاد کے لیے ایک طاقتور صنعت قائم کی جا سکتی ہے، اور پھر ملک میں سرمایہ داری کی باقیات کو تباہ کرنے کی خاطر پرعزم حملے کی ذمہ داری اٹھائی جاسکتی ہے۔ “

ایضا، صفحہ 257

اسٹالن کی تصنیف سے حوالہ، جلد 6 صفحہ 393

اسٹالن کی تصنیف سے حوالہ، جلد 6، صفحہ384-383

وی۔آئی۔لینن، مجموعہ تصانیف (ماسکو، پروگریس پبلشرز، 1964ء)، جلد 21، صفحہ 418-419۔ یہیں لینن، ٹراٹسکی سے اختلاف کرتے ہوئے، یہ دکھاتا ہے کہ سامراج، اورخصوصا جنگ نے “ان معاشی اورسیاسی عناصر کو مستحکم کیا جنہوں نے چھوٹے سرمایہ دارطبقے کو، بشمول کسان، بائیں بازو کی جانب دھکیلا۔”

اسٹالن، تصنیفات، جلد 6، صفحہ 384۔ اسٹالن نے نشاندہی کی کہ” لینن مزدور طبقے اورکسانوں کی محنت کش پرتوں کے اشتراک کی بنیاد پر پرولتاریہ کی آمریت کی بات کرتا ہے۔جبکہ ٹراٹسکی کو “پرولتاریہ ہراول” اور”کسانوں کی وسیع عوام” کے درمیان “مخالفانہ ٹکراؤ” دکھائی دیتا ہے۔”
اسٹالن، تصنیفات، جلد 6، صفحہ 382

ایضا، صفحہ 385

لینن ، مجموعہ تصانیف ، جلد 21 ، صفحہ 421

لینن، “انقلابی مزدور طبقہ اورقوموں کا حقِ خودارادیت”، ایضا، صفحہ 409

1950ء اور1960ء کی دہائیوں میں بہت سی کمیونسٹ پارٹیوں نے اپنے انقلابی اصول فراموش کردیے اوراسٹالن پر وحشیانہ حملے کرتے ہوئے عارضی طور پر ٹراٹسکی ازم کی واپسی کا راستہ کھول دیا۔ نئی نسل نے براہِ راست یہ سیکھا کہ ٹراٹسکی ازم کس طرح انقلابی لفاطی کو ہر ترقی پسند تحریک پر اپنے حملوں کو چھپانے کے لیے استعمال کرتا ہے اورسوشلسٹ چین پردشنام طرازی کرنے کے ہر موقع کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ انہوں نے ایسے نعروں کا پرچار کیا جیسے کہ “پورے انڈو چین کو لازما کمیونسٹ ہوجانا چاہیے” تاکہ ویتنام کے قومی محاذِ آزادی کی عوامی مقبولیت کی مخالفت کا جواز تراش سکے۔ سیاہ فام تحریک ِ آزادی کی موجودہ جدوجہد میں ، انہوں نے جدوجہد کے انقلابی پروگرام کی ضرورت کو تحلیل کردیا ہے اوراس کے بجائے عدالتوں پر انحصار کرنے اوردوسری قسموں کی اصلاح پرستی کو فروغ دے رہے ہیں

بین الاقوامی پریس خط و کتابت، 12 جنوری 1997ء، صفحہ 63۔

Leave a Comment