سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس اور چینی کمیونسٹ پارٹی (پانچواں/آخری حصہ)

برطانوی اورآئرش کمیونسٹ تنظیم

مترجم: شاداب مرتضی

بیسویں کانگریس نے نظریاتی اہمیت کے حامل دو خصوصی معاملات کی بطورِ خاص نفی کی۔ اسٹالن کی تصنیف ‘سوویت یونین میں سوشلزم کے معاشی مسائل’ ، جس میں اجناسی (کموڈٹی) سوشلزم کے نظریے کو غلط ثابت کیا گیا تھا اورجس میں انقلاب کو آگے بڑھانے کے لیے درکار معاشی ترقی کا خاکہ پیش کیا گیا تھا، اسے غلط قرار دیا گیا۔ دوئم، اسٹالن کا نظریہ (یا لینن کے نظریے پر اصرار) کہ سوشلزم کے پورے دور میں، طبقاتی جدوجہد جاری رہتی ہے بلکہ شدید تر ہوتی ہے، اسے بھی غلط قرار دیا گیا۔

چینی کمیونسٹ پارٹی نے ‘معاشی مسائل’ پر مبنی تصنیف کی نفی کو بلاواسطہ انداز سے (یعنی ‘تاریخی تجربے پر مزید’ دستاویز میں اس بیان سے کہ اسٹالن کو ‘کاروباری اداروں کی جمہوری طریقوں سے انتظام کاری ‘ کو فروغ دینا چاہیے تھا اور ‘ایک جانب ، ریاستی اداروں اورمختلف کاروباری اداروں کا انتظام چلانے والے اداروں کے درمیان، اوردوسری جانب، عوام الناس کے درمیان، قریبی روابط’ قائم کرنا چاہیے تھے’؛ کیا اور نومبر 1957ء میں ماؤزے تنگ کی جانب سے ‘سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی طرف سے زراعت کی ترقی ‘ اور’صنعت اور تعمیر کی انتظام کاری کی تنظیم نو کے عقلمندانہ اقدامات’ کی منظوری سے’۔

اس وقت کے ٹھوس حالات میں یہ بیانات سوویت اور مشرقی یورپی معیشتوں میں صرف مارکیٹ کے رشتوں کی حمایت کے بطور ہی کام کرسکتے تھے (جنہیں عموما ‘جمہوریت’ کے بطور بیان کیا جاتا ہے) ۔ماؤزے تنگ کے 1957ء کے بیان کے وقت تک مارکیٹ سوشلزم کا نظریہ کافی ترقی کرچکا تھا اور مارکیٹ اصلاحات بڑے پیمانے پر ہوچکی تھیں۔)

جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ طبقاتی جدوجہد کی شدت کے نظریے کی خصوصیت کے ساتھ ‘تاریخی تجربے پر مزید’ دستاویز میں مذمت کی گئی۔

20۔ 1957/1958ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے اسٹالن پر خروشچیف کے مؤقف کی عوامی حمایت کی۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں نے سوویت کمیونسٹ پارٹی کے نمائندوں سے نجی بات چیت میں جو کہا وہ بظاہر چینی کمیونسٹ پارٹی کے عوامی بیانات سے مختلف ہے۔ جو چیز طبقاتی جدوجہد کی سیاست میں اہمیت رکھتی ہے وہ عوامی بیانات ہیں۔(ماسکو میں 1957ء میں ماؤزے تنگ نے، مولوٹوف، کاگانووچ وغیرہ کے ‘پارٹی مخالف گروہ’ کے خلاف، جو خروشچیف ازم کی راہ روکنے کے لیے اسٹالن کے دور کی قیادت کی باقیات کی ایک تاخیری تحریک تھی، خروشچیف کے اقدامات کی حمایت کی۔)

21۔ ثقافتی انقلاب کے آغاز کے بعد چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے اسٹالن کی تنقید سوشلزم کے پورے دور میں جاری رہی:’نظریاتی طور پر اسٹالن یہ تسلیم کرنے میں ناکام رہا کہ طبقے اور طبقاتی جدوجہدیں مزدور طبقے کی آمریت کے پورے دور میں موجود رہتی ہیں’۔ (‘ایک عظیم تاریخی دستاویز’ کے مطالعے کے لیے حوالہ جاتی مواد، 1967)۔

یہ بات اس حوالے سے 1956ء میں اسٹالن پر کی جانے والی تنقید کی ضد ہے۔ 1956ء میں اسٹالن پر کی جانے والی تنقید گو کہ غلط تھی تاہم اس میں کم ازکم اسٹالن کے حقیقی مؤقف کا حوالہ دیا گیا تھا۔ (سوشلزم میں) طبقاتی جدوجہد کے اتار (خاتمے) کا نظریہ، جسے 1937ء میں اسٹالن سے منسوب کیا گیا، اسے اسٹالن نے کبھی پیش نہیں کیا تھا۔ اس نے 1937ء میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی اپنی رپورٹ میں اسے قطعی مستردکردیا تھا۔ اور ٹیٹوازم کے ساتھ تنازعے میں دوبارہ یہ دوہرایا گیا کہ سوویت یونین میں طبقاتی جدوجہد جاری تھی۔

22۔ یہ بالکل واضح ہے کہ 1955ء-1960ء کے اہم سالوں کے دوران ، ٹیٹو ازم کے ساتھ مفاہمت، بیسویں کانگریس کی نوعیت اوراسٹالن کے سوالوں جیسے اہم مسائل پر چینی کمیونسٹ پارٹی کے اقدامات اورعوامی بیانات کو لن بیاؤ کے ان دعووں سے مطابقت میں نہیں لایاجا سکتا جو اس نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی نویں کانگریس کی رپورٹ میں کیے۔ جیسے کہ:جب خروشچیف کی ترمیم پسندی ابھرنا شروع ہی ہوئی تھی تب ہمارے عظیم رہنما چیئرمین ماؤزے تنگ نے یہ پیش بینی کرلی تھی کہ جدید ترمیم پسندی عالمی انقلاب کے آدرش کو کس قدر عظیم نقصان دے گی۔۔۔۔

سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد:

23۔ لن بیاؤ دعوی کرتا ہے: “بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں اور ملک میں طبقاتی جدوجہد کے نئے رجحانوں میں ترمیم پسندی کی کثرت کے پیشِ نظر ، چیئرمین ماؤزے تنگ نے اپنی عظیم تصنیف ‘لوگوں کے مابین تضادات سے درست طریقے سے نپٹنے پر’ میں پوری پارٹی کی توجہ اس مندرجہ ذیل حقیقت کی طرف دلائی۔’ (یعنی یہ کہ چین میں طبقاتی جدوجہد ہنوز جاری تھی)۔ ‘اس طرح، پہلی باربین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کے نظریے اورعمل میں، واضح طور پر اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ طبقات اورطبقاتی جدوجہد تب بھی موجود رہتے ہیں جب ذرائع پیداوار کی ملکیت کی سوشلسٹ منتقلی بڑی حد تک مکمل ہوچکی ہو، اوریہ کہ (تب بھی) مزدور طبقے کو انقلاب جاری رکھنا چاہیے۔’

سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد کے جاری رہنے کے بارے میں یہ ایک مکمل واضح بیان ہے۔ یہ بیان کرتے ہوئے اسٹالن کوئی نیا نظریہ تیار نہیں کررہا تھا۔ وہ محض ایک بالشویک مؤقف کا اعادہ کررہا تھا جسے لینن نے تشکیل دیا تھا۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے 1956ء میں اسٹالن پر کی گئی تنقید اس نکتے سے تعلق رکھتی ہے: “طبقوں کے خاتمے کے بعد، طبقاتی جدوجہد کے شدید ہونے پر مستقل زور نہیں دینا چاہیے جیسا کہ اسٹالن نے کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوشلسٹ جمہوریت کی صحت مند ترقی میں رکاوٹ ہوئی۔ اس معاملے میں اسٹالن کی غلطیوں کی ثابت قدمی سے درستگی میں سوویت کمیونسٹ پارٹی بالکل درست تھی۔” (صفحہ 21)

اگراسٹالن کا مؤقف تھا کہ طبقوں کے خاتمے کے بعد بھی طبقاتی جدوجہد جاری تھی تو یہ یہ یقینا احمقانہ بات ہوتی۔ لیکن اسٹالن اس بات سے متفق نہیں تھا کہ سوویت یونین میں طبقے ختم کردیے گئے تھے۔ بین الاقوامی سطح پر اورسوویت یونین میں طبقوں کی مسلسل موجودگی کی روشنی میں ہی اسٹالن نے طبقاتی جدوجہد میں شدت کانظریہ اختیار کیا۔

حالیہ برسوں میں، خصوصا (چین میں) ثقافتی انقلاب کے آغٖاز کے وقت سے، چینی کمیونسٹ پارٹی نے اسٹالن پر اس کے برعکس تنقید کی جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے: یعنی یہ کہ وہ (اسٹالن) یہ دیکھنے میں ناکام رہا کہ 1930ء کے وسط کے بعد سوویت یونین میں طبقاتی جدوجہد جاری رہی۔ درحقیقت طبقاتی جدوجہد میں اتراؤ کے نظریے کو اسٹالن نے 1937ء میں بطور خاص مسترد کیا تھا، جیسا کہ ہم نے دیکھا۔ تاہم، چینی کمیونسٹ پارٹی نے خروشچیف کے زمانے کے ابتدائی سالوں میں اس نظریے کی حمایت کی۔

25۔ لن بیاؤ کا یہ دعوی کہ ماؤزے تنگ کی تصنیف “‘تضادات سے درست انداز سے نپٹنے پر’۔۔۔بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں ترمیم پسندی کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر” لکھی گئی تھی خود اس دستاویز سے یا اس دستاویز کی جانب بین الاقوامی ترمیم پسند تحریک کے ردعمل سے ثابت نہیں ہوتا۔ ماوزے تنگ کی اس دستاویز میں اس بات کے کوئی آثار نہیں ملتے کہ وہ خروشچیف ازم کی ترمیم پسند فطرت سے اس وقت واقف تھے۔ یہ دستاویز خروشچیف کی ترمیم پسندی پر تنقید نہیں کرتی۔ اوراس دستاویز کو خروشچیف پسندوں نے عمومی طور پر خوش آمدید کہا تھا اوروہ اسے 1957ء کے اپنے مؤقف کی حمایت کے طور پر دیکھتے تھے۔

نہ ہی یہ بیان کرنا بالکل درست ہے کہ (اس حقیقت کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہ یہ نظریہ لینن اوراسٹالن پہلے ہی ثابت کرچکے تھے) اس دستاویز میں ” واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ طبقات اورطبقاتی جدوجہد تب بھی موجود رہتے ہیں جب ذرائع پیداوار کی ملکیت کی سوشلسٹ منتقلی بڑی حد تک مکمل ہوچکی ہو “۔ لن بیاؤ نے طبقاتی جدوجہد کے جاری رہنے پر ماؤزے تنگ کے بیان کا جو اقتباس دیا ہے وہ خاص طور پر چین سے تعلق رکھتا ہے، جہاں پرانا سرمایہ دار طبقہ، اورطفیلی سرمایہ دار اورزمیندارطبقے، ہنوز موجود ہیں۔ لن بیاؤ کا اقتباس بیان کرتا ہے: “چین میں، حالانکہ ملکیت کے نظام کے حوالے سے سوشلسٹ تبدیلی بڑی حد تک مکمل ہوگئی ہے۔۔۔(تاہم) بیدخل کیے گئے زمینداروں اور طفیلیوں کی باقیات ہنوز موجود ہیں، سرمایہ دار ہنوز موجود ہے، اورچھوٹے سرمایہ دار طبقے (پیٹی بورژوا) کو نئے سانچے میں ڈھالنے کا کام ابھی صرف شروع ہی ہوا ہے۔” (لن بیاؤ نے جس بات کو چھوڑ دیا وہ یہ ہے:”اور حالانکہ سابق انقلابی ادوار میں بڑے پیمانے کی اور ہنگامہ خیز طبقاتی جدوجہدیں بڑی حد تک اختتام پذیر ہوچکی ہیں”۔)

“یہ سوال کہ کون فتح یاب ہوگا، سوشلزم یا سرمایہ داری، ہنوز اب تک طے نہیں ہوا ہے۔ مزدور اورسرمایہ دار کے درمیان طبقاتی جدوجہد، مختلف سیاسی قوتوں کے مابین طبقاتی جدوجہد، اور نظریاتی میدان میں مزدور اورسرمایہ داری کے درمیان نظریاتی جدوجہد طویل اور کٹھن ہوگی اوربعض اوقات شدید ہوجائے گی۔” (ماؤزے تنگ مزید تبصرہ کرتے ہیں: “نظریاتی جدوجہد ، جدوجہد کی دوسری شکلوں کی طرح نہیں ہوتی۔ اس جدوجہد میں جو واحد طریقہ استعمال کیا جاتا ہے وہ نہایت صبر و تحمل سے استدلال کرنا ہوتا ہے نہ کہ خام انداز سے جبر کرنا”۔)

لن بیاؤ نے جو اقتباس دیا ہے وہ بطورخاص چین کے حالات کا حوالہ دیتا ہے، جہاں پرانا سرمایہ دار اور چھوٹے سرمایہ دار طبقے ، اورحتی کہ زمیندار اورطفیلی طبقوں کی باقیات ہنوز موجود ہے اورجہاں زرعی اجتماع کاری اور سوشلسٹ صنعتکاری ابھی صرف شروع ہی ہوئی ہے۔ (سوویت یونین میں، جب اسٹالن نے 1937ء میں طبقاتی جدوجہد کی شدت کے نظریے پر دوبارہ زور دیا، تو پرانا سرمایہ دار اورزمیندار طبقہ مزید وجود نہیں رکھتا تھا، ان معنی میں کہ ذرائع پیداوار پر ان کا کنٹرول نہیں تھا، اور، مناسب انداز سے کہا جائے تو، مزدور طبقے کے ساتھ صرف کسان ہی ایک طبقے کی حیثیت سے وجود رکھتے تھے۔)

ماؤزے تنگ کے مشاہدات اس بیان پر مبنی نہیں کہ سوویت یونین میں طبقاتی جدوجہد ہنوز جاری تھی، اور وہ بیک وقت چینی کمیونسٹ پارٹی کے اس بیان کی تردید نہیں کرتے کہ سوویت یونین میں طبقوں کا خاتمہ ہوچکا تھا، اور یہ کہ اسٹالن نے طبقاتی جدوجہد کی شدت کے نظریے کو پیش کرکے غلطی کی تھی۔

26۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی دستاویز”لینن ازم یا سوشل امپریلزم؟”، جسے لینن کے صد سالہ جشن پیدائش کے موقع پر اپریل 1970ء میں شائع کیا گیا، کہتی ہے: “بہت پہلے ، جب خروشچیف نے اپنی ترمیم پسند صفات کوظاہر کرنا شروع کیا تو کامریڈ ماؤزے تنگ نے شدت سے اس بات کی نشاندہی کی: ‘میرا خیال ہے کہ دو ‘تلواریں ‘ہیں: ایک لینن ہے اوردوسری اسٹالن۔ روسیوں نے اسٹالن کی تلوار کو چھوڑ دیا ہے۔ جہاں تک لینن کی تلوار کا تعلق ہے، کیا اسے بھی اب سوویت یونین کے بعض رہنماؤں نے کسی حد تک ترک نہیں کردیا ہے؟ میرے خیال میں، اسے بڑی حد تک ترک کردیا گیا ہے۔ کیا اکتوبر انقلاب اب بھی مؤثر ہے؟ کیا یہ اب بھی تمام ملکوں کے لیے ایک مثال ہوسکتا ہے؟ بیسویں کانگریس میں خروشچیف کی رپورٹ کہتی ہے کہ پارلیمانی راستے سے سیاسی اقتدار حاصل کرنا ممکن ہے، یعنی، تمام ملکوں کے لیے اب یہ مزید ضروری نہیں کہ وہ اکتوبر انقلاب سے سیکھیں۔ ایک بار جب یہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے، تو لینن ازم کو بڑی حد تک باہر نکال پھینکا جاتا ہے۔ “

اس کا ماخذ 15نومبر1956ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی آٹھویں مرکزی کمیٹی کے دوسرے توسیعی اجلاس کی تقریر ہے۔ شن ہوا نیوز ایجنسی نے ، جس نے وہ دستاویز شائع کی تھی جس سے یہ اقتباس لیا گیا ہے، انکوائری کرنے پر یہ انکشاف کیا کہ ماؤزے تنگ کی یہ تقریر نہ انگریزی میں دستیاب ہے اور نہ چینی میں۔ چنانچہ، اس کی اہمیت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ لیکن ایک سال بعد ماسکو میں ماؤزے تنگ نے غیرمبہم انداز سے کہا کہ سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کا ہراول دستہ تھی۔ وہ ایسا نہ کہتے اگر ، جیسا کہ مندرجہ بالا اقتباس سے پتہ چلتا ہے، انہیں بیسویں کانگریس کی اہمیت کا اورخروشچیف ازم کی فطرت کا ادراک ہوتا۔)

27۔ سوشلزم کے دور میں طبقاتی جدوجہد کے جاری رہنے کے بارے میں اسٹالن کے حقیقی خیالات کو قائم کرکے ہم اس غرض سے کسی مردہ معاملے کو دوبارہ نہیں اٹھا رہے کہ ترمیم پسندی کے خلاف تحریک میں الجھنوں کو مزید گہرا کیا جائے۔ یہ ایسا سوال ہے جسے خود چینی کمیونسٹ پارٹی نے اسٹالن کے وفات کے بعد سے دو اہم مواقعوں پر خود ایک مسئلہ بنا دیا ہے (حالانکہ اسے اس کی وفات سے پہلے مسئلہ نہیں بنایا گیا)۔ 1956ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے خروشچیف کے ساتھ مل کر یہ الزام لگایا کہ سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد کے جاری رہنے کے بارے میں اسٹالن کا نظریہ غلط تھا اور سوشلزم کی ترقی میں سنگین غلطیوں اور دھچکوں کا باعث تھا۔
ساٹھ کی دہائی کے وسط میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے الزام لگایا کہ اسٹالن کی جانب سے یہ تسلیم کرنے میں ناکامی کہ سوشلزم میں طبقاتی جدوجہد جاری رہتی ہے سنگین غلطیوں کا سبب تھی اور اس نے خروشچیف کی ترمیم پسندی کی ترقی میں سہولت فراہم کی۔

یہ دونوں متضاد بیانات درست نہیں ہیں۔ پہلا اس لیے غلط ہے کہ سوویت یونین میں، تیس کی دہائی کے اواخر سے پچاس کی دہائی تک، طبقاتی جدوجہد میں واقعی تیزی آئی۔ دوسرا اس لیے درست نہیں کیونکہ اسٹالن نے اس عرصے میں طبقاتی جدوجہد کے جاری رہنے اوراس کی شدت بڑھنے کو تسلیم کیا اور اس کی نشاندہی کی۔

نتائج:

اس دستاویز میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں انہیں برطانوی اورآئرش کمیونسٹ تنظیم نے 1965ء میں اپنی ابتداء کے وقت سے زیر بحث رکھا ہے اوران کی تحقیق کی ہے۔ تب سے ہی دونوں تنظیموں نے ان کے بارے میں برطانیہ اور یورپ میں موجود ماؤاسٹ گروپوں سے بات چیت کی ہے۔ جن گروپوں سے ہم نے بات کی ان میں سے کسی نے بھی بیسویں کانگریس بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کی جانب سے اس پر ردعمل کی آزادنہ تحقیق نہیں کی۔

جب برطانوی اورآئرش کمیونسٹ تنظیم نے اس معاملے پر اپنے خیالات (جنہیں بنیادی طور پر اوپر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے) کو بیان کیا تو حقائق کے اعتبار سے ان میں کوئی نقص نہیں تھا۔ اس پر عمومی ردعمل کے جذبات یہ تھے کہ اس دور کی زیادہ قریب سے تحقیق نہیں کرنا چاہیے۔

پانچ سال قبل برطانوی اورآئرش کمیونسٹ تنظیم کو یہ محسوس ہوا کہ ترمیم پسندی کے خلاف تحریک ترقی نہیں کرسکتی تھی اگر وہ اس پیش رفت کی تحقیق سے انکار کرتی جس نے اسے تاریخی طور پر ناگزیر بنا دیا تھا (یعنی بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں خروشچیف کی ترمیم کے غلبے کا ابھار)، اور اگر وہ تاریخی حقیقت کی ٹھوس زمین سے پسپا ہو کر فریبِ نظر کی دلدل میں اتر جاتی۔ پانچ سال کے عملی تجربے نے اس خیال کی درستگی کی تصدیق کردی ہے۔ 1965ء میں آئرلینڈ اوربرطانیہ میں جتنے بھی ترمیم پسندی کے مخالف گروہ موجود تھے ،برطانوی اورآئرش کمیونسٹ تنظیم ان معدودے چند میں سے ایک ہے جو اب تک موجود ہیں ، اور یہ واحد گروہ ہے جو اس عرصے کے دوران نظریاتی اورتنظیمی دونوں اعتبار سے مضبوط ہوا ہے۔ اس کے برعکس ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ کمیونزم فریبِ نظر پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ گزشتہ سال میں پورے یورپ اور امریکہ میں فریبِ نظر پرقائم تنظیمیں بکھرتی رہی ہیں اور زیادہ سے زیادہ الجھن کا شکار ہوئی ہیں۔

اس دستاویز میں بیان کیے گئے تاریخی حقائق سے کیا نتیجہ سامنے آتا ہے؟ صرف ایک ہی لازمی نتیجہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت، بشمول ماؤزے تنگ ، نے خروشچیف کی ترمیم پسندی کی ارتقاء کو مارکسزم لینن ازم کی مزید ترقی سمجھنے کی غلطی کی، اور یہ کہ اس نے بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں خروشچیف ازم کو غلبہ حاصل کرنے میں(1957ء اور 1960ء کی میٹنگوں میں اس غلبے کو باضابطہ بنا کر) سرگرم سہولت فراہم کی۔

ان حقائق سے چینی کمیونسٹ پارٹی اور سوویت کمیونسٹ پارٹی کے درمیان تعلقات میں بعد میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں ، یا چینی کمیونسٹ پارٹی میں اندرونی طور پر ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں، کوئی لازمی نتیجہ اخڈ نہیں ہوتا۔ان سوالات کے بارے میں حقائق کو بھی ٹھوس تحقیقات کے ذریعے ثابت کرنا چاہیے، اوران سے مستقبل کی دستاویز میں نمٹا جائے گا۔

پالیسی بیان نمبر 3، نومبر 1970ء۔ جنوری 1972 ء اورجنوری 1973ء میں دوبارہ شائع کیا گیا۔

Leave a Comment