محترم بھائی مظہر حیدر نوازش نامے میں لکھتے ہیں کہ “آپ کی تحریریں بہت سے لوگوں کے لئے یقیناً قابل ستائش ہیں لیکن برا نہ مانیں تو عرض کروں کہ ہمارے جیسے افراد آپ کی گفتگو سمجھنے سے ہی عاجز ہیں۔ آپ نہ کہیں کارل مارکس کا حوالہ دیتے ہیں نہ لینن کا۔ آپ نے تو لگتا ہے اپنے آپ کو ان زنجیروں سے بالکل آزاد کر لیا ہے۔ آپ داس کیپیٹل کا دوبارہ مطالعہ کیجئے تاکہ آپ کی بات میں کچھ وزن پیدا ہو سکے۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ جو مارکس، لینن، اینجلز اور ماو کہہ گئے ہیں وہ حرف آخر ہے، باقی کو صرف دیوانے کی بڑ ہی کہا جا سکتا ہے”۔
چند ہفتے قبل یہ پیغام ملا تو اسے ایک سے زائد بار پڑھنا پڑا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ مارکسزم کا کوئی حامی بقائمی ہوش و حواس ایسا پیغام لکھ سکتا ہے۔ مگر پھر مظہر حیدر کی کچھ حالیہ تحریروں اور پیغامات کو الٹ پلٹ کر دیکھا تو واضح ہوگیا کہ صاحب تحریر کا منشا بہرصورت وہی ہے جو ان سطروں میں لگی لپٹی بغیر بیان کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ مظہر حیدر کے لئے تو مختصر رد عمل ہی کافی ہے کہ داس کیپیٹل اور دوسرے مخطوطوں کو بار بار پڑھنے اور مذکورہ رہنماوں کے جابجا حوالے دینے سے تحریر میں جو وزن پیدا ہوگا میں اس میں چنداں دلچسپی نہیں رکھتا۔ غضب ہے کہ جس نے دنیا بھر کے مزدوروں کو مژدہ دیا تھا کہ ان کے پاس کھونے کے لئے زنجیروں کے سوا کچھ نہیں ہے، اب اس کے نام پر اندھی تقلید اور شخصیت پرستی کا درس دیا جا رہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ ایسے مریدان باصفا کو ان کے حال پر چھوڑ کر ان نکات کو بیان کرنے کی کوشش کی جائے جنہیں ہمارے محترم بھائی نے ”دیوانے کی بڑ” کہا ہے۔
خاکسار نے نوجوانی اور مارکسزم کی دنیا میں ایک ساتھ قدم رکھا تھا۔ خواب وہی تھا جو سب انسان نسل در نسل دیکھتے آئے ہیں۔ آزادی، مساوات اور انصاف کا خواب۔ انسانوں کو محرومی، جہالت اور استحصال سے نجات ملے۔ انسان ایک ایسے سیاسی بندوبست میں زندہ رہ سکے جہاں وہ اپنے انفرادی اور اجتماعی امکان کو پوری طرح بروئے کار لا سکے۔ پھر ایسا ہوا کہ مارکسزم کے مطالعے اور سیاسی جدوجہد میں شرکت کے کچھ ہی عرصے بعد انحراف کی صورتیں پیدا ہونے لگیں۔ مارکسی فکر و نظر کے جو نکات سوچ اور مشاہدے اور مطالعے کی کسوٹی پر پورے اترے، انہیں رد کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ مارکسزم کی فلسفیانہ بنیاد مادی ہے، سو مادیت کا فلسفہ اب بھی قابل اعتبار سمجھتا ہوں۔ مادے کی تفہیم کے ذرایع کچھ بھی ہوں، مادے سے ورا کسی تفہیم کا تصور میرے لئے فی الحال ممکن نہیں۔ تاریخ کی مادی تشریح کو درست سمجھتا ہوں۔ سیاسی بند و بست میں مارکسزم سیاست اور مذہب کی علیحدگی کا قائل ہے۔ میں بھی سمجھتا ہوں کہ مذہبی طور پر غیر جانبدار ہوئے بغیر ریاست شہریوں کے حقوق پورے نہیں کر سکتی۔ مارکسی فکر کے ساتھ خاکسار کا اشتراک بس یہیں تک ہے اور اس کے بعد انحراف کی ایک طویل فہرست ہے۔ دیانت داری کا تقاضہ ہے کہ یہ نکات بھی بیان کر دیے جائیں۔ اپنی رائے کے درست ہونے پر اصرار نہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ دیگر اصحاب فکر ان نکات اور مارکسزم میں تطبیق کی کچھ بہتر صورتوں سے آگاہ ہوں۔
تاریخ کی تشریح کرتے ہوئے کارل مارکس نے پرولتاریہ کی آمریت کے ذریعہ غیر طبقاتی سماج کے ظہور کی جو پیش گوئی کی تھی وہ درست ثابت نہیں ہوئی۔ تجربہ نے بتایا کہ آمریت بہرصورت استخراجی ہوتی ہے اور آمریت میں اختیار کا دائرہ ناگزیر طور پر سکڑتا رہتا ہے۔ چنانچہ پرولتاریہ کی آمریت سماج کے تمام طبقات کو انصاف کیا فراہم کرتی خود پرولتاریہ کے نام پر ایک ٹولے کے ہاتھ میں پہنچ جاتی ہے۔ فیصلہ سازی اور وسائل کی تقسیم پر اس ٹولے کی اجارہ داری میں آمریت کے تمام روایتی زاویے پائے جاتے ہیں۔ سازش نا اہلی اور استبداد آمریت کا ناگزیر نتیجہ ہوتے ہیں، خواہ یہ آمریت پرولتاریہ کے نام پر قائم کی جائے یا اسے کوئی اور خوشنما نام دیا جائے۔
محنت اور قدرِ زائد کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کارل مارکس نے سرمایہ اور انتظامی بند و بست کی اہمیت کو نظر انداز کیا۔ ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ علم کے پھیلتے ہوئے آفاق میں پیداوار کی بدلتی ہوئی صورتوں کی پیش بینی کرنا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ دولت کی تقسیم کا نسخہ تو آزمایا گیا لیکن دولت کی پیداوار اور نئے ذرایع پیداوار کی تخلیق کا زاویہ نظر انداز کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ پرولتاریہ کی مساوات غربت اور محرومی کی مساوات ثابت ہوئی۔ بیسویں صدی میں ایک تہائی انسانیت نے عشروں تک اشتراکی نظام کا تجربہ کیا اور آج بھی ان میں سے کوئی ایک ملک انسانی ترقی کے اشاریوں میں پہلی صف کا رکن نہیں ہے۔ انسانوں نے اپنے تجربے سے معلوم کیا کہ پیداوار کے لئے تحریک صرف مالی یافت کی صورت میں نہیں ہوتی۔ انسان اپنا معنی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ معنی تلاش کرنے کی تحریک ایک طرف منافع اور ملکیت سے وابستہ ہے اور دوسری طرف انفرادی اور شہری آزادیوں سے منسلک ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ ادب، فنون لطیفہ، سماجی علوم اور قدرتی سائنس میں مغرب کی ہم پلہ ریاستوں نے اشتراکی نظام اپنایا تو علم کا چشمہ سوکھ گیا۔ علم کا جمود پیداواری ذرائع کی پسماندگی پر منتج ہوتا ہے۔ اشتراکی دنیا کا معاشی اور سیاسی جمود کسی سازش کا نتیجہ نہیں تھا۔ علم تخلیق، پیداوار اور سرمایہ کے چار چشموں پر بند باندھ دیا جائے تو معیشت اور معاشرت ناگزیر طور پر بحران کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اشتراکی تجربہ سے معلوم ہوا کہ آزادی کی قیمت پر انصاف پیدا کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی۔ انصاف کی بالادستی کے لئے آزادی کا احترام بہت ضروری ہے۔ دیکھیے سرد جنگ کی نصف صدی میں لوگ اشتراکی بلاک سے منحرف ہوکر مغرب کی طرف فرار ہوتے تھے۔ اہل مغرب نے اشتراکی جنت میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس لئے کہ استخراجی سیاسی فکر جبر اور استبداد سے خالی نہیں ہو سکتی۔
اشتراکی تجربہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ریاست اور حکومت کو علیحدہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ حکومت معاشرے میں موجود متنوع سیاسی مفادات اور افکار کا اظہار ہے جب کہ ریاست شہریوں کے ساتھ حقوق اور تحفظات کا ایک مستقل معاہدہ ہے۔ ریاست اور حکومت کی امتیازی لکیر ختم کر دی جائے تو شہری اپنے سیاسی اظہار سے محروم ہوجاتا ہے۔ ریاستی اہلکار سیاست کی شیرازہ بندی کی ذمہ اٹھا لیتا ہے۔ چنانچہ ناگزیر طور پر آزادیاں ختم ہوتی ہیں اور انتقال اقتدار کا شفاف ضابطہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے اقتدار کی مسلسل کشمش جنم لیتی ہے۔
مارکسی فکر میں ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ مقاصد طریقہ کار کو متعین کرتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک اصول ہے۔ ریاست کے ڈھانچے کو سیاسی اقتدار پر اجارہ بخش دیا جائے تو ریاست غیر حقیقی مقاصد متعین کرتی ہے۔ کسی بھی قوم کے لئے حقیقی مقاصد وہی ہو سکتے ہیں جو معیشت کی حرکیات، علوم کے پھیلاو اور شفاف سیاسی مکالمے کے نتیجے میں جنم لیتے ہیں۔ قوم کے مقاصد کا تعین ریاست نہیں کرسکتی۔ اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے تو پالیسی کی بجائے نعرہ فوقیت حاصل کر جاتا ہے۔ ہر شہری کو روزگار مہیا کرنے کا نعرہ دراصل موجودہ ذرایع پیداوار کو مستقل کر دینے کے مترادف ہے۔ موجودہ ذرایع پیداوار اور پیوستہ مفادات میں گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ منڈی کی معیشت طلب اور رسد کے سادہ اصولوں کی بنیاد پر قدیم اور جدید روزگار میں توازن پیدا کرتی ہے۔ اشتراکی معیشت اور سیاست کے ڈھانچے میں ایسی تبدیلی کا ادارہ جاتی اہتمام مجروح ہوتا ہے۔
مارکسزم کے تجربے پر تنقیدی نظر ڈالنا زیادہ مشکل نہیں۔ رقبے، آبادی، مدت اور جغرافیائی تنوع کی موجودگی میں اشتراکی بندوبست کے مختلف نمونوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ لیکن حقیقی چیلنج یہ ہے کہ کھلی منڈی کی معیشت اور جمہوری سیاست میں غریب، بے وسیلہ اور پچھڑے ہوئے انسانوں کے مفاد کا تحفظ کیسے کیا جائے۔ ہم ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں معیشت میں خام مال اور افرادی قوت کی اہمیت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ بڑی سرمایہ کار کمپنیاں اپنے معاشی اثر و نفوذ میں ریاستوں سے بھی زیادہ طاقتور ہو رہی ہیں۔ نئی معیشت کو القا کرنے والے علوم پر بھی سرمایہ کا اجارہ ہے۔ ایسے میں معیشت کی آزادی اور فرد کی محرومی میں توازن کیسے پیدا کیا جائے۔ سرمایہ کی ماورائے اخلاق یلغار کے سامنے وہ کون سا سیاسی بندوبست پیش کیا جائے جو آزادی اور انصاف میں مطلوبہ توازن قائم کر سکے۔ مارکس کا خواب زندہ ہے، زمینی حقائق بدل گئے ہیں۔ چنانچہ اس خواب کی تعبیر کے لئے نیا نسخہ دریافت کرنا ہوگا۔
نوٹ: یہ مضمون ‘ہم سب’ پر شائع ہوا تھا لیکن قارئین کے لیے جواب سمیت یہاں بھی محفوظ کیا جا رہا ہے۔