یہ بات بجا طور پر ہمارے خطے کے لوگوں کے لیے باعثِ افتخار ہے کہ تمام دنیا کی طرح پوری انسانی تاریخ میں ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے اور مظلوم طبقے کی آزادی، برابری اور خوشحالی کی امنگوں کو جلا بخشنے اور ان کی نمائندگی و رہنمائی کرنے والوں میں برصغیر کسی سے پیچھے نہیں رہا. یہاں شہید شاہ عنایت سے لیکر بھگت سنگھ، حسن ناصر اور نذیر عباسی جیسے عوام دوست اور انسان کی محکومی، غلامی اور ظلم کے خلاف اندرونی اور بیرونی ظالم حکمران اشرافیہ طبقوں سے بے جگری اور بہادری سے انتھک لڑائی لڑنے والے سورما پیدا ہوئے۔ ان کی جدوجہد اور جانوں کا نذرانہ اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ ظالم اور مظلوم طبقوں کے درمیان آزادی اور برابری کی جنگ جاری ہے۔ جو کوئی بھی اس طبقاتی جنگ کی موجودگی سے انکار کرتا ہے وہ انسانی تاریخ اور معاشرے کی بنیادی حقیقت سے انکار کا مرتکب ہوتا ہے۔ اور جو کوئی بھی یہ سمجھتا ہے یا اس بات کا پرچار کرتا ہے کہ انسانی نابرابری، ناانصافی، ظلم و استحصال جیسی سماجی بیماریاں ظالم حکمران طبقے اور مظلوم عوام کے درمیان محض گفت و شنید، بحث مباحثے، مزاکرات و مکالمے، برداشت اور رواداری اور امن پسندی سے ختم ہو سکتی ہیں وہ صرف شیخ چلی کے خواب دیکھتا ہے۔
شہید بھگت سنگھ نے 23 سال کی عمر میں لبرل برطانوی سامراج کے وحشیانہ شکنجوں سے ہندوستان کے محکوم عوام کی آزادی کی خاطر جدوجہد میں پھانسی کی سزا پائی لیکن برطانوی سامراج کی موت کے بعد وہ آج بھی دنیا بھر کے سامراج مخالف، سرمایہ دارانہ نظام کے بیری اور انسان کے ہاتھوں انسان پر ظلم سے نفرت کرنے والوں کے لیے جدوجہد کا ایک عظیم استعارہ ہے۔ ظلم کے خلاف آج بھی برسرِ پیکار انسانوں کی جدوجہد میں وہ ایک ایسے عظیم حوالے کے طور پر زندہ ہے جس سے وہ امید، حوصلہ، عزمِ پیہم اور قربانی کے عظیم اور مقدس انسانی جذبات کو تروتازہ کرتے رہتے ہیں۔
سامراج اور سرمایہ داری نظام کے ظلم و جبر، بربریت و استحصال، وحشت ناکی اور سفاکیت کے خلاف مظلوم عوام کی جاری و ساری جدوجہد میں دنیا بھر کے عوامی ہیروز کی طرح، شے گویرا، فیدل کاسترو، ولادیمیر لینن، جوزف اسٹالن، تھامس سینکارا، فلپ مورس، ماؤزے تنگ وغیرہ کی طرح، شہید بھگت سنگھ بھی ایک مشعلِ راہ ہے۔ دنیا بھر کے اور خصوصا برصغیر کے عوام دوست سیاسی و سماجی کارکن و رہنما شہید بھگت سنگھ کی لازوال جدوجہد سے جذبہِ حریت کشید کرتے ہیں اور اس کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے دلوں میں جدوجہد کے عزم کو تقویت دیتے ہیں۔
عوام کو محکوم و مجبور رکھنے، انہیں جبر و غلامی کا طوق پہنانے والے ظالم حکمران طبقوں کی یہ خصلت رہی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ عوام کی آزادی اور ظلم کے خاتمے کے لیے آواز اٹھانے والے عوامی انقلابی رہنماؤں کو پہلے پہل تو قید و بند کی صعوبتیں دے کر، پھانسی کے پھندوں پر لٹکا کر یا بدترین ازیت و تشدد کا نشانہ بنا کر ان کا حوصلہ توڑنے اور آزادی کی امنگ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہے اور پھر ناکام ہوجانے کے بعد انہیں عوام کی نظروں میں گرانے کے لیے ان کی کردارکشی کر کے انہیں کسی نہ کسی طرح عوام میں بدنام کرنے کی سفلی، مکروہ اور نیچ حرکت کی ہے۔
یہ مظلوم عوام اور ظالم عوام دشمن حکمرانوں میں مصالحت کی ایک فریبانہ کوشش ہے تاکہ عوام اپنے استحصال کے خلاف بغاوت کرنے کا راستہ تلاش کرنے سے باز رہیں، ظلم سہنے کی روش اپنا لیں، ظلم کے خاتمے کے لیے بوقتِ ضرورت طاقت کا استعمال کرنے سے گریز کریں اور جو کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے اسے تشدد پرست اور دہشت گرد سمجھ کر مسترد کردیں۔
بھگت سنگھ کے ساتھ بھی عوام دشمن اور عوامی بغاوت کے خوف میں مبتلا برصغیر کے حکمران طبقوں اور ان کے کاسہ لیس سیاسی و سماجی گروہوں نے کچھ ایسا ہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف بھگت سنگھ ظلم اور ناانصافی کے خلاف عوامی مزاحمت، بغاوت اور انقلاب کا استعارہ ہے وہاں دوسری طرف بعض حلقوں کی جانب سے اسے ایک تشدد پرست اوردہشت گرد شخص کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ظالم حکمران طبقوں کے ظلم کا جواب جمہوری اور پرامن انداز سے دینے کے بجائے ظالم کو طاقت کا جواب طاقت سے دینے کی بات کرتا ہے اور عملی طور پر کبھی ظالم انگریز پولیس افسروں کو گولی مار کر ہلاک کرتا ہے اور کبھی انگریز سامراج کی کٹھ پتلی اسمبلی میں بم پھاڑتا ہے۔
بھگت سنگھ کی تمام انقلابی جدوجہد کو تشدد پرستی یا دہشت گردانہ اقدامات سے منسوب کرنا پرلے درجے کی لاعلمی، دھوکے بازی اور دانشورانہ منافقت ہے۔ بھگت سنگھ کی جدوجہد میں سوائے چند ایک بار کے ایسے واقعات ناپید ہیں کہ جب اس نے تشدد کا سہارا لیا ہو۔انارکسٹ نظریات سے جدوجہد شروع کرنے والا بھگت سنگھ 1927 میں محققین کے مطابق اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ مارکس ازم اور عوامی جدوجہد ہی انقلاب کی کامیابی کا راستہ ہے۔ 1931 میں اپنے ایک خطاب میں اس نے کہا کہ “ابتداء میں بم کے استعمال کے فوائد تھے لیکن اب یہ کافی نہیں۔ پوری دنیا میں یہ طریقہِ کار ناکام ہو چکا ہے۔۔۔۔ہم تشدد پسندی کو مکمل طور پر ترک نہیں کر رہے لیکن ہمیں اسے مزدور انقلاب کے نکتہ نظر سے پرکھنا ہوگا۔۔۔” بھگت سنگھ نو عمر ہونے کے سبب مارکسی لیننی انقلابی نظریات سے گہری واقفیت نہیں رکھتا تھا۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ مطالعے اور عملی جدوجہد سے نظریاتی گہرائی تک پہنچنے کے عمل سے گزر رہا تھا۔
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے سائمن کمیشن کے خلاف پرامن مظاہرے پر پولیس کے وحشیانہ لاٹھی چارج سے ہلاک ہونے والے عمر رسیدہ رہنما لالہ لجپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کے لیے انگریز پولیس افسر کو قتل کیا۔ یہ عمل انگریز سامراج کی درندہ صفت پولیس کی سفاکیت کے خلاف ایک ردعمل تھا۔ اسمبلی میں اس طرح معمولی بم پھوڑ کرکہ کسی کو نقصان نہ پہنچا، بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے رضاکارانہ گرفتاری دی تاکہ اپنے مقدمے کے زریعے وہ انگریز سامراج کے مکروہ چہرے اور نظامِ انصاف کی منافقت کی حقیقت عوام تک پہنچا سکیں۔
بھگت سنگھ کے لاعلم اور منافق ناقد اور مطلق امن کے پجاری یہ بات سمجھنے سے قاصر ہی رہیں گے کہ جلیانوالہ باغ کے وحشیانہ قتلِ عام کے ردعمل میں اگر برطانوی سامراج کے نمائندوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا تو یہ عمل کیوں غلط ہوتا؟ صرف اس بانجھ خیال پرستانہ اصول کی وجہ سے کہ تشدد کا جواب تشدد نہیں؟ کہ وحشی، سفاک اور درندہ صفت سامراج کے خلاف پرامن جدوجہد کا خیالی پلاؤ ہی عوام کی محکومی اور حکمران طبقے کے ظلم کے خاتمے کا واحد حل ہے؟ امن کے ہوائی قلعے بنانے والے ایسے لوگ عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے حکمران طبقے کے تشدد اور اس ظلم کے خلاف بغاوت کرنے والے عوام کے پرتشدد اقدامات میں فرق کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کے نزدیک پر تشدد اقدامات مطلقا ناجائز ہیں خواہ یہ ظالم ظلم کرنے کے لیے اختیار کرے یا مظلوم اپنے دفاع اور تحفظ کے لیے اختیار کرنے پر مجبور ہو۔ یہ ظالم اور مظلوم میں تمیز نہیں کر سکتے سو ان کے اقدامات کے فرق کو سمجھنا بھی ان کے لیے ناممکن ہے۔ ان کی منطق کی رو سے اگر کوئی نہتا معصوم شخص اپنے دفاع میں جارح شخص کے خلاف طاقت استعمال کرے تو یہ بھی ناجائز عمل ہوگا! یا ایک عورت خود کو ریپ سے بچانے کے لیے اگر حملہ آور کو قتل کردے یا اسے چوٹ پہنچائے تو یہ عمل بھی پرتشدد ہونے کے سبب ان بھوسہ بھرے دماغوں کے لیے ناجائز ہو گا!
ہمیں اپنے معاشرے کی ترقی کے لیے یورپ کی روشن خیالی، عقلیت پسندی، انسانی آزادی، مساوات اور جمہوریت کی مثالیں دینے والے عدم تشدد کے پرچارک یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انقلابِ فرانس اور برطانوی انقلاب جن کے نتیجے میں یورپ میں بادشاہت اور جاگیرداری ختم ہوئی اور جمہوریت قائم ہوئی ان میں بادشاہوں اور جاگیرداروں کے ظلم سے کچلے ہوئے مظلوم باغی عوام نے بادشاہوں، نوابوں اور امراء کے سر کاٹ کر ان کے ظلم کا خاتمہ کیا تھا اور اس طرح یورپ میں جمہوریت اور سیکیولرازم کے زریعے “عوامی اقتدار” کو سرفراز کیا تھا!
عوام امن پسند ہوتے ہیں۔ لیکن ظالم حکمران طبقے کبھی اپنا ظالمانہ اقتدار پر امن طریقے سے عوام کو منتقل نہیں کرتے۔ عوامی مزاحمت، بغاوت اور انقلابی جدوجہد کو روکنے، کمزور کرنے، توڑنے، کچلنے اور ختم کرنے کے لیے وہ ہر قسم کی طاقت اور تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔ ان حالات میں پرامن نہتے عوام کے پاس اپنے تحفظ، دفاع اور بغاوت کو یقینی اور کامیاب بنانے کے لیے عارضی طور پر پرتشدد اقدامات کا سہارا لینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا ورنہ ظالم حکمران طبقے ظلم کے خلاف ان کی بغاوت کو بے رحمی سے کچل ڈالتے ہیں