عام طور پر لبرل ازم کے نکتہ نظر سے سرمایہ دارانہ نظریے پر مبنی ریاست کو نظریاتی ریاست نہیں سمجھا جاتا۔ صرف مذہب، قومیت (ہٹلر کا نازی جرمنی اور مسولینی کا اٹلی) یا کمیونزم کے نظریے پر قائم ریاست کو ہی نظریاتی ریاست قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم لبرل ازم کی اقدار پر قائم سرمایہ دار ریاست بھی نظریاتی ریاست ہی ہوتی ہے جس میں سرمایہ دار طبقے کے نکتہ نظر سے اختلاف کرنے والوں پر زندگی کا دائرہ تنگ کردیا جاتا ہے۔ حتی کہ خود لبرل ازم کی اقدار کو بھی پامال کرنے سے باز نہیں رہا جاتا۔ اس کی بے شمار اور سنگین مثالیں موجود ہیں۔ انیس سو چالیس اور پچاس کی دہائی میں امریکہ میں میکارتھی ازم کے دور میں اور برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کے دور میں ریاستی نکتہ نظر سے اختلاف رکھنے والوں کے خلاف سخت ترین مہم چلائی گئی جس میں ہزاروں ادیبوں، صحافیوں، فنکاروں، سیاسی کارکنوں، دانشوروں، اسکالروں اور سائنسدانوں کو کمیونسٹ ہونے یا کمیونزم کے نظریے سے ہمدردی رکھنے یا کمیونسٹ سمجھے جانے والے لوگوں سے تعلق کی بناء پر طویل سزائیں دی گئیں۔ امریکہ میں سائنسدان میاں بیوی جولیس اور ایتھیل روزنبرگ کو سوویت یونین کے لیے جاسوسی کرنے کے جھوٹے الزام میں سزائے موت دے دی گئی۔ فرانس، اٹلی اور اسپین جن میں سے کوئی بھی مذہبی یا کمیونسٹ ریاست نہیں تھی وہاں بھی ریاستی بیانیے سے اختلاف کرنے والوں کو بدترین سلوک کا نشانہ بنایا گیا اور پھانسی پر چڑھایا گیا۔ حال ہی میں امریکا کے حلیف یوکرین نے کمیونزم کے نکتہ نظر کو غیر قانونی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔ نہ امریکا اور نہ یوکرین میں ریاست مذہبی یا کمیونسٹ ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ، اسپین، فرانس، اٹلی اور یوکرین وغیرہ کس نظریے پر قائم ریاستیں ہیں جس سے اختلاف رکھنے والوں کے بنیادی انسانی، سیاسی اور جمہوری حقوق سلب کر لیے جاتے ہیں اور انہیں سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں؟ یہ تمام ریاستیں لبرل ازم کے نظریے یعنی فرد کی آزادی، آزاد تجارت، نجی ملکیت کی آزادی، اور سرمائے کی آزادی کی اقدار پر قائم سرمایہ دار ریاستیں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کا نظریہ تحریری اور زبانی طور پر انسانی برابری، عدل اور انصاف کا داعی ہے لیکن عمل میں اس کے خلاف ہے۔ اور نظریے کی کسوٹی عمل ہوتا ہے۔ کمیونزم کے نظریے پر قائم ریاستوں نے انسانی برابری، عدل و انصاف اور مساوات کے دعووں کو عملا پورا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ سوویت یونین ہو، سوشلسٹ افغانستان ہو، ماؤزے تنگ کا چین ہو یا مشرقی یورپ کی سوشلسٹ ریاستیں ہوں ان سب میں جمہور یعنی عوام کی حالتِ زار میں انتہائی کم وقت میں زبردست ترقی ہوئی، پسماندہ، محروم اور کچلے ہوئے طبقات نے تیزی سے تعلیمی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی ترقی کی۔ صنفی امتیاز کا خاتمہ ہوا اور امن و امان کا دور دورہ ہوا جسے عالمی سرمایہ دار طبقے نے جنگوں، خانہ جنگیوں اور سازشوں کے ذریعے تباہ کرنے کی بھرپور کوششیں کیں اور بڑی حد تک کامیاب بھی رہا۔ یقینا سوشلسٹ ریاستوں نے بھی مخالفین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا لیکن اسے بلاجواز اور بلا امتیاز کہنا نہایت ناانصافی ہو گی۔ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے عناصر جب حد سے تجاوز کرنے لگیں تو طاقت کا استعمال ضروری ہو جاتا ہے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ مخالفین کون ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں۔ اچھے اور برے، صحیح اور غلط، جائز اور ناجائز کی تفریق کرنا ضروری ٹہرتا ہے۔ فیصلہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ مخالفین کا مقصد عوام کی بہتری ہے یا ایک اقلیتی گروہ کی اجارہ داری کا تحفظ۔۔ اس ضمن میں بھی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن فی الحال پڑوسی ملک افغانستان، مشرقی جرمنی اور سوویت یونین کی مثالیں کافی ہوں گی۔
افغانستان میں ثور انقلاب کے بعد بادشاہت اور جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا گیا۔ زمین کسانوں میں تقسیم کردی گئی اور صنفی امتیاز ختم کردیا گیا اور خاتون ڈاکٹر اناہتا رتیب زاد نے وزیرِ تعلیم کی حیثیت سے لڑکیوں کے لیے تعلیم کے دروازے کھول دیے۔ لبرل امریکہ کی سرپرستی میں افغان مجاہدین کے ہاتھوں افغانستان کا حال آج ہمارے سامنے ہے۔ مشرقی جرمنی میں انقلاب کے بعد تعلیم، علاج، رہائش کو ریاستی ذمہ داری بنا کر ان سہولیات کو عام کر دیا گیا۔ جس کا براہِ راست اور فوری فائدہ عوام الناس کو پہنچا۔ ان حاصلات کا موازنہ ہٹلر کے دور کے جرمنی سے اور دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد کے دور سے کیا جائے تو ترقی اور تنزلی کا فرق نمایاں دکھائی دے گا۔ مشرقی جرمنی میں بچوں کی غذا کو مفت کر دیا گیا اور ڈے کیئر سینٹر کا نظام متعارف کرایا گیا۔ آج بھی دنیا بھر میں مشرقی جرمنی کے بچوں کی نگہداشت کے نظام کی مثالی حیثیت سے پیروی کی جاتی ہے۔ سوویت یونین میں جاگیرداری ختم کر کے زمین کسانوں میں تقسیم کر دی گئی، معاشی، سیاسی، صنفی اور سماجی تفریق کا خاتمہ کردیا گیا۔ تعلیم، صحت اور رہائش کی سہولیات مفت کر دی گئیں۔ چنانچہ اس شاندار عوامی ترقی کے نتیجے میں سوویت یونین دنیا کی دوسری سب سے مضبوط اور ترقی یافتہ معیشت بن کر ابھرا۔ سائنسی اور تیکنیکی میدان مٰیں زبردست ترقی کر کے سب سے پہلے خلاء میں اور چاند پر پہنچا۔ یہ تمام اقدامات عوامی فلاح و بہبود کے اقدامات تھے جن کی مخالفت کرنے والوں کو پہلے بحث و مباحثے اور گفت و شنید کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کی گئی اور جب مخالفین نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تو عوامی ریاست بہ امرمجبوری اپنی بقاء کے لیے طاقت کا استعمال کرنے پر مجبور ہوئی۔ لیکن ایسا عوام الناس کے مفاد میں کیا گیا نا کہ ایک چھوٹے اقلیتی گروہ، سرمایہ دار طبقے، کے مالی مفاد کے تحفظ کے لیے۔
حالیہ عہد میں کیوبا کمیونزم کے نظریے پر قائم ایک ریاست ہے جہاں غذا، تعلیم، علاج اور رہائش مفت ہے اور روزگار فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کیوبا تعلیمی معیار، صحت کی سہولیات کے اعتبار سے دنیا میں سرِفہرست ہے۔ کیوبا کے لوگوں کی اوسط عمر دنیا میں سب سے زیادہ اور بچوں کی شرح اموات سب سے کم ہے۔ دنیا کے ایک سو بیس ملکوں کے بیس ہزار طالبعلم کیوبا میں میڈیکل کی تعلیم مفت حاصل کرتے ہیں جن میں بہت سے طالب علم امریکہ جیسے انتہائی ترقی یافتہ لبرل ریاست کے شہری ہیں جو امریکہ میں میڈیکل کی نہایت مہنگی تعلیم اور نہایت مہنگے تعلیمی قرضوں کے سبب مفت تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیوبا جاتے ہیں۔ یہ اقدامات حقیقی معنی میں ایک عوام دوست ریاست ہی اٹھا سکتی ہے ایک ایسی ریاست جس کا نظریہ اپنے عوام کی بہتری، ترقی اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ پوری انسانیت کی فلاح و بہبود ہو۔پوری انسانی تاریخ میں ہمیں ایسی ریاست کی مثال صرف کمیونزم کے نظریے پر استوار ریاست میں ہی ملتی ہے۔