کیوبا کے مرحوم سوشلسٹ لیڈر فیدل کاسترو نے 1962 میں اقوامِ متحدہ کے اجلاس سے خطاب میں بتایا کہ جب کیوبا کا وفد لبرل امریکہ پہنچا تو مقامی ہوٹلوں کو ہدایت کی گئی کہ اسے رہائش نہ دی جائے. ہارلیم میں سیاہ فام لوگوں کے ایک ہوٹل میں جہاں کیوبن وفد ٹہرا اسے امریکی میڈیا نے چکلہ قرار دے ڈالا. فیدل کاسترو نے کہا کہ اگر کیوبن انقلابی ایسے بکنے والے ہوتے تو سامراج کب کا انہیں خرید چکا ہوتا لیکن اب اسے اچھی طرح اندازہ ہو چکا ہو گا کہ سامراجی مالیاتی سرمایہ ایسی فاحشہ ہے جو کیوبن انقلابیوں کو ورغلا نہیں سکتی. کیوبا کی انقلابی اور بعدازاں سوشلسٹ ریاست نے امریکہ نواز لبرل جمہوری ریاست کے نظام کو تبدیل کر کے کیوبا کے شہریوں کی سابقہ پست حالی میں جو انقلابی تبدیلیاں کیں آئیے ان کا مختصر جائزہ لیں اور امریکی لبرل ریاست سے اس کا موازنہ کریں.
کیوبا کے بچوں کی صورتحال کیا ہے اس بارے میں کیوبا میں اقوامِ متحدہ کے بچوں کے تحفظ کے ادارے یونیسیف کے نمائندے جوز جوآن اورٹز کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کے حقوق بری طرح سے پامال کیے جارہے ہیں لیکن کیوبا “بچوں کی جنت” ہے. وہ مزید کہتے ہیں کہ یونیسیف کے نمائندے کی حیثیت سے وہ دنیا بھر میں دورے کرتے ہیں اور متوفی بچوں کو دفنانے میں وقت گزارتے ہیں لیکن کیوبا وہ واحد ملک ہے جہاں وہ بچوں کے ساتھ کھیلنے میں اپنا وقت بسر کرتے ہیں. ان کا دعوی ہے کہ کیوبا بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پچھلے پچاس سال سے دنیا کے لیے ایک ماڈل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے مسائل حل کرنے کے لیے وسائل سے زیادہ سیاسی ارادے کی ضرورت ہے جو کیوبا کی سوشلسٹ ریاست و حکومت میں موجود ہے.
اس کے برعکس امریکی ادارہِ شماریات کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال تک امریکہ میں اکیس فیصد بچے “غربت” اور خوراک کی کمی کا شکار تھے. سال 2011 میں ترقی یافتہ ملکوں میں سب سے زیادہ غریب بچے (16 فیصد سے زائد) امریکہ میں تھے. اس سال جون میں آئی ایم ایف نے امریکہ میں بڑھتی ہوئی غربت پر امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کم از کم اجرت میں فوری اضافہ کرے اور خواتین کو زچگی کی چھٹی تنخواہ کے ساتھ دے.
تعلیم کے میدان میں کیوبا صفِ اول میں ہے. شرح خواندگی قریبا سو فیصد ہے اور ہر سطح کی تعلیم مفت ہے. کیوبن انقلاب سے قبل کیوبا میں شرح خواندگی صرف چالیس فیصد کے قریب تھی. اشرافیہ یا متوسط درمیانے طبقے کے لوگ ہی تعلیم سے مستفید ہو سکتے تھے. انقلاب کے بعد عوام کے لیے تعلیم کے دروازے کھول دیے گئے. ریاست نے تعلیم کو ہر شہری کا حق تسلیم کیا اور صرف دوسال کے اندر ہنگامی پروگرام کے ذریعے خواندگی کی شرح کو نوے فیصد تک پہنچایا گیا. تاہم امریکی محکمہِ تعلیم کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 21 فیصد شہری پرائمری تعلیم بھی مکمل نہیں کرپاتے جبکہ 3 کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ شہری پڑھنا تک نہیں جانتے. امریکہ میں ہائی اسکول کے بعد تعلیم مفت نہیں ہے.
چونکہ لبرل معیشت میں تعلیم ایک کاروبار مانی جاتی ہے اس لیے عام امریکی شہری کو کالج کی یا اعلی تعلیم پیسے دے کر “خریدنی” پڑتی ہے. سوشلزم کی لبرل سرمایہ داری پر برتری کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ہر سال کئی امریکی طلباء مفت میڈیکل ایجوکیشن کے لیے کیوبا جاتے ہیں کیونکہ منافع خوری کی ہوس کا شکار امریکی لبرل معیشت اپنے شہریوں کو اعلی تعلیم مفت فراہم نہیں کرتی بلکہ تعلیمی کاروبار سے دولت جمع کرنے کے لیے انہیں تعلیمی قرضوں کے جال میں جکڑ دیتی ہے. دی اکنامسٹ کے مطابق 4 کروڑ 30 لاکھ امریکی طلباء کے تعلیمی قرض کا حجم 1.3 ٹریلین ڈالر ہے. ایک طالبعلم اوسطا 30 ہزار ڈالر کا مقروض ہے! بجائے یہ کہ لبرل امریکی ریاست انہیں مفت تعلیم دے اس نے اپنے طلباء کو سود خوری سے دولت کمانے کا چارہ بنا رکھا ہے.
کیوبا پر گذشتہ 56 سال سے سامراج نے سماجی اور اقتصادی پابندیاں عائد کر کے اس سوشلسٹ ریاست کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہے. اس کے باوجود کیوبا نے ہر شعبہِ زندگی میں شاندار عوامی ترقی کو یقینی بنایا ہے اور بعض شعبوں مثلا تعلیم اور صحت کے میدان میں بہت سے لبرل سرمایہ دار اور امیر ترین مغربی ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے. یونیسیف کے مطابق کیوبا میں بچوں کی خوراک کی کمی کو ختم کردیا گیا ہے. بچوں کی شرح اموات کیوبا میں کم ترین ہے جبکہ اوسط عمر بلند ترین ہے. تاہم امریکی محکمہِ مردم شماری کے مطابق امریکہ میں 21 فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور 4 کروڑ 30 لاکھ افراد “غریب” ہیں یعنی دو ڈالر یومیہ سے کم کمانے والے.
کیوبا میں معذور افراد اور بزرگوں کی دیکھ بھال ریاست کی ذمہ داری ہے. کیوبا میں صنفی امتیاز ناپید ہے. کیوبن پارلیمان میں قریبا نصف تعداد خواتین کی ہے. کیوبا میں صنف کی بنیاد پرتنخواہ یا کسی بھی دیگر شعبہ زندگی میں عورتوں کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جاتا. عورت کو مرد کے برابر تنخواہ دی جاتی ہے. اس کے برعکس امریکہ میں اب تک صنف کی بنیاد پرتنخواہ میں امتیاز ختم نہیں کیا گیا ہے. آئی ایل او کے مطابق امریکی کی 5 کڑوڑ 30 لاکھ ملازمت پیشہ خواتین کو اب بھی مردوں سے 17 فیصد کم تنخواہ ملتی ہے. امریکہ کے وفاقی قانون میں اب تک ملازمت پیشہ خواتین کوتنخواہ کے ساتھ زچگی کی چھٹیوں کا حق نہیں دیا گیا ہے! جسم فروشی اور پورنوگرافی کیوبا میں جرم ہے جبکہ امریکہ میں اس پر کوئی پابندی نہیں.
کیا کیوبا میں فیدل کاسترو نامی کمیونسٹ کی سوشلسٹ آمریت تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کیوبا میں 90 فیصد ووٹر ووٹ ڈالتے ہیں. امریکہ میں قریبا آدھے رائے دہندگان ووٹ نہٰیں ڈالتے. کیوبا میں الیکشن میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ لینے والا نمائندہ ہی الیکشن جیت سکتا ہے جبکہ امریکہ میں مجموعی ووٹ کا محض بیس فیصد لینے والا صدر تک بن جاتا ہے! یہ بھی لبرل جمہوریت کا حسن ہے!
کیوبا کا نوجوان حقیقی معنی میں نوجوان ہے. مفت تعلیم اورکھیلوں کی سہولیات کے ساتھ وہ روٹی, کپڑا, مکان اور بے روزگاری کےخوف سے ماورا ہے. وہ اعلی تعلیم حاصل کرتا ہے اور ریاست میں اپنی پسند کے کسی بھی شعبے میں اپنے ملک کی بہتری کے لیے محنت اور لگن سے کام کرتا ہے. امریکہ میں چونکہ ہائی اسکول کے بعد تعلیم مفت نہیں اس لیے وہاں نوجوانوں کو یا تو تعلیم کو خیرباد کہہ کر گزر اوقات کے لیے روزگار ڈھونڈنا پڑتا ہے یا وہ تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے نوکری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں. امریکہ میں 4 کروڑ 17 لاکھ نوجوانوں میں سے 40 فیصد کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے. 17 فیصد خطِ غربت سے نیچے ہیں. پچھلے سال امریکہ میں کیے گئے ایک سروے میں قریبا 37 ہزار نو عمر اور غیر شادی شدہ نوجوان ایسے تھے جو بے گھر تھے جبکہ 10 ہزار کے قریب شادی شدہ نوجوان بے گھر تھے. یہ امریکہ میں بے گھر افراد کی تعداد کا محض 8 فیصد ہیں. امریکی ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کے مطابق امریکہ میں ہر سال 1 کروڑ 70 لاکھ نوجوان بے گھری سے متاثر ہوتے ہیں. کیوبا کا کوئی نوجوان بے گھر نہیں اگرچہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس عالیشان گھر نہ ہو. اسے سڑک, فٹ پاتھ, پارک, ریلوے اسٹیشنوں وغیرہ پر نہیں سونا پڑتا.
اکتوبر میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں لبرل امریکہ کی جانب سے عائد سماجی اور معاشی پابندیوں کے خاتمے کے لیے قرار داد پر 191 ملکوں نے پابندیاں ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے لیکن امریکہ پابندیاں ختم نہ کرنے کی “جمہوری” ضد پر اڑا ہوا ہے. اقوامِ متحدہ کی رائے ہے کہ ہر ریاست کو دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ تجارت کی آزادی ہے چنانچہ امریکہ کیوبا پر بین الاقوامی پابندی عائد نہیں کر سکتا. کیوبا کے مطابق امریکہ کی عائد کردہ پابندیوں کے سبب اسے اب تک 116 بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے.
امریکہ میں طبی امداد و سہولیات کے وفاقی ادارے سی ایم ایس کے مطابق امریکی شہری اوسطا سالانہ 10 ہزار ڈالرعلاج معالجے پر خرچ کرتا ہے. ادارے کے مطابق اس رقم میں گزشتہ دس سال میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جو سال 2023 تک جاری رہنے کا امکان ہے. کیوبا میں علاج مکمل مفت ہے اور کیوبا طبی سہولیات اور امداد میں دنیا بھر میں سرِ فہرست ہے.
امریکہ کو قیدیوں کی قوم کہا جاتا ہے. 22 لاکھ امریکی جیلوں میں قید ہیں جو دنیا بھر میں جیلوں میں قید افراد کی سب سے بڑی تعداد (ایک چوتھائی) ہے. جبکہ امریکہ کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا محض 5 فیصد ہے. اس سال صرف امریکی پولیس نے 870 سے زائد شہری, خصوصا سیاہ فام, ماورائے عدالت قتل کر ڈالے ہیں. کیوبا اور امریکہ میں جرائم کا کوئی موازنہ ہی نہیں بنتا. اس کے برعکس امریکہ میں, ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق, گزشتہ سال پرتشدد جرائم کے قریبا 12 لاکھ واقعات ہوئے. ریپ کے واقعات میں 6 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا اور پراپرٹی سے متعلق جرائم کے واقعات کی تعداد لگ بھگ 18 لاکھ رہی. اس قدر بڑی تعداد میں اور پرتشدد جرائم کیوبا میں ناپید ہیں. سیاحتی کمپنیوں کے مطابق کیوبا تحفظ کے حوالے سے سیاحتوں کے لیے محفوظ ترین ملکوں میں شامل ہے جہاں پرتشدد جرائم اور بندوق بردار جرائم ناپید ہیں. البتہ جیب کترنے اور رہزنی کے معمولی واقعات ہو جاتے ہیں.
کیوبا اقوامِ متحدہ کے متعین کردہ MDGs بھی پورے کر چکا ہے اور اس سلسلے میں کیوبا کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے سراہا گیا ہے.
کیوبا میں نسل پرستی, انتہا پسندی, مذہبی منافرت, فرقہ واریت جیسی سماجی لعنتیں ناپید ہیں جبکہ امریکہ نہ صرف سیاہ فام نسل کشی آگ میں جھلس رہا ہے بلکہ انتہا پسندی کی آگ بھی امریکی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے.
سماجی اور اقتصادی اشاریوں, یعنی انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے کیوبا کی سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت نے آزاد تجارت کی حامی لبرل معیشت کی جانب سے عائد کی گئی سفاک اور منافقانہ پابندیوں کے باوجود لبرل معیشت سے زیادہ سماجی ترقی کرکے سوشلزم کی لبرل ازم اور سرمایہ دارای نظام پر برتری کو بہترین انداز سے ثابت کیا ہے اور اس آفاقی سچائی کی ایک اور عظیم مثال پیش کی ہے کہ کمیونزم ہی انسانی معاشرے کے مسائل کے حل اور ہمہ گیر ترقی کا ضامن ہے. لبرل ازم اور سرمایہ داری نظام انسانی معاشرے کی ترقی کی راہ میں صرف رکاوٹ ہیں.