مترجم: شاداب مرتضی
یوگوسلاویہ کے وفد سے ماؤزے تنگ کی گفتگو (بیجنگ، 1956ء)
چین کا مستقبل سوشلزم پر ٹکا ہوا ہے۔ چین کو ایک دولت مند اور طاقتور ملک میں بدلنے میں پچاس سے سو سال کا وقت لگے گا۔ اب چین کی راہ میں کوئی زبردست و خوفناک قوت رکاوٹ نہیں ہے۔ چین ایک وسیع و عریض ملک ہے جس میں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ہے۔ تاہم، دنیا کی ترقی میں اس کی حصہ داری کو اس کی آبادی کے حجم کے مطابق بنانا ابھی باقی ہے اوراس صورتحال کو بدلنا ہوگا، حالانکہ میری نسل اورحتی کہ میرے بیٹے کی نسل بھی شایداس تبدیلی کوہوتا ہوا نہ دیکھ سکے۔ مستقبل میں یہ تبدیلی کیسے ہوگی اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ چین کس طرح ترقی کرتا ہے۔ چین غلطیاں کرسکتا ہے اوربدعنوان (کرپٹ) بھی ہو سکتا ہے؛ موجودہ اچھی صورتحال برا موڑ مڑ سکتی ہے اور بری صورتحال میں اچھا موڑ بھی آسکتا ہے۔ تاہم، اس بات میں زیادہ شک نہیں کہ اگرچین کی صورتحال خراب ہوبھی جائے تب بھی یہ اس قدر زوال پذیر معاشرہ نہیں بن سکتا جتنا چیانگ کائی شیک کا چینی معاشرہ تھا۔ اس قیاس آرائی کی بنیاد جدلیات ہے۔ اثبات، نفی اورپھر اثبات اورپھر نفی۔ مستقل کا راستہ لازمی طور پر دشوار گزار ہوگا۔
کرپشن، بیوروکریسی، غلبہ پرستی اورغرور، یہ سب چیزیں چین میں اثرانداز ہوسکتی ہیں۔ تاہم، چینی لوگ معتدل ہونے اوردوسروں سے سیکھنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کی ایک توجیہ تو یہ ہے کہ ہمارے پاس “سرمایہ” کم ہے: پہلی بات تو یہ کہ مارکسزم ہم نے ایجاد نہیں کیا بلکہ اسے دوسروں سے سیکھا؛ دوسری بات یہ کہ ہم نے اکتوبر انقلاب کا تجربہ نہیں کیا اور 1949ء میں فتح حاصل کی، یعنی اکتوبر انقلاب کے قریبا تیس سال بعد؛ تیسری بات یہ کہ دوسری عالمی جنگ میں ہم صرف شاخی فوج (Branch Army) تھے، بنیادی فوج نہیں؛ چوتھی بات یہ کہ معمولی جدید صنعت کے ساتھ ، ہمارے پاس صرف زراعت اورخستہ حال اوربکھری ہوئی دستکاری ہے۔ حالانکہ ہمارے درمیان بعض ایسے لوگ ہیں جو مغرور نظر آتے ہیں لیکن وہ کسی بھی طرح مغرور ہونے کی حالت میں نہیں ہیں؛ زیادہ سے زیادہ وہ صرف یہ کرسکتے ہیں کہ اپنی دم کو ایک یا دو میٹر اونچا کرکے دکھا دیں۔ لیکن مستقبل میں ہمیں اس چیز کو لازما روکنا ہوگا: دس یا پندرہ سال کے عرصے میں یہ خطرناک بن سکتی ہے اور چالیس یا پچاس سال کے عرصے میں یہ اورزیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔
میرے رفیقوں، مجھے آپ کو یہ نصیحت کرنے دیں کہ آپ کو بھی اس ممکنہ استعداد پر نظر رکھنا چاہیے۔ آپ کی صنعت کافی جدید ہے اور اس نے زیادہ تیزی سے ترقی کا تجربہ کیا ہے؛ اسٹالن نے آپ کو مصیبت میں ڈالا اوراس لیے انصاف کا پلڑ ہ آپ کی طرف ہے۔ تاہم، یہ سب کچھ آپ کے لیے بوجھ بھی بن سکتا ہے۔
چین کے حوالے سے اوپر بیان کی گئی اسٹالن کی غلطیاں ہمارے لیے بھی بوجھ بن سکتی ہیں۔ جب آنے والے سالوں میں چین صنعتی ملک بن جائے گا، تو مغرور بن جانے کا زیادہ امکان ہوگا۔ آپ اپنے ملک واپس جا کرنوجوانوں کو یہ ضرور بتائیں کہ اگرمستقبل میں چین اپنی دم ٹانگوں میں دبائے رکھے، خواہ اس کی دم دس ہراز میٹر بلند ہوجائے، تب بھی انہیں لازما چین پرتنقید کرنا چاہیے۔ آپ کو لازمی طور پر چین پر نظر رکھنا چاہیے اورپوری دنیا کو لازما چین پر نظررکھنا چاہیے۔ اس وقت میں یقینا یہاں نہیں ہوں گا: میری مارکس کے ساتھ ملاقات ہورہی ہوگی۔
ہمیں افسوس ہے کہ پہلے ہم نے آپ کو دکھ پہنچایا۔ قتل کا ہرجانہ لازمی طور پر زندگی سے اور قرض کی ادائیگی لازمی طور پر نقد رقم سے کرنا چاہیے۔ ہم نے پہلے آپ پر تنقید کی ہے، لیکن آپ اب بھی خاموش کیوں ہیں؟ اسٹالن پر (خروشچیف کی )تنقید سے پہلے، ہم بعض معاملات کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی اس حالت میں نہیں تھے جس میں اب ہیں۔ سفیر بابکوویشی سے اپنی سابقہ بات چیت میں میں صرف یہی کہہ سکتا تھا کہ جب تک سوویت یونین اسٹالن پر تنقید نہیں کرتا ہم بھی ایسا کرنے کی حالت میں نہیں ہوں گے؛ جب تک سوویت یونین یوگوسلاویہ کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال نہیں کرتا ہم بھی آپ کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرسکتے۔ اب ان معاملات پر کھل کر بات کی جا سکتی ہے۔ میں نےسوویت کامریڈوں سے چین کے بارے میں اسٹالن کی چار غلطیوں کے بارے میں پہلے ہی بات کرلی ہے؛ میں نے (سوویت سفیر پاویل) یودن سے اس بارے میں بات کی، اورمیں خروشچیف سے بھی اس بارے میں اگلی ملاقات میں بات کروں گا۔ میں آپ سے یہ بات اس لیے کررہا ہوں کہ آپ ہمارے کامریڈ ہیں۔ تاہم، ہم یہ بات اب بھی اخباروں میں شائع نہیں کرسکتے کیونکہ سامراجیوں کو اس بارے میں پتہ نہیں چلنا چاہیے۔ ہم مستقبل میں اسٹالن کی ایک یا دو غلطیوں کے بارے میں کھل کربات کرسکتے ہیں ۔ ہماری صورتحال آپ سے کافی مختلف ہے: ٹیٹو کی خودنوشت اسٹالن کا ذکر اس لیے کرتی ہے کیونکہ آپ پہلے ہی سوویت یونین سے الگ ہوچکے ہیں۔
اسٹالن جدلیاتی مادیت کی وکالت کرتا تھا مگر بعض اوقات اس میں ما دیت پسندی کی کمی تھی اوراس کے بجائے وہ مابعدالطبعیات پر عمل کرتا تھا؛ اس نے تاریخی مادیت کے بارے میں بھی لکھا، لیکن اکثر و بیشتر وہ تاریخی خیال پرستی میں مبتلا رہا۔ اس کے بعض رویے، جیسے کہ انتہا پسندی کی طرف جانا، ذاتی افسانوں کو تقویت دینا، دوسروں کو شرمندہ کرنا، کسی بھی لحاظ سے مادیت پسندی نہیں ہے۔
اسٹالن سے ملنے سے پہلے اس کے بارے میں میرے جذبات کچھ اچھے نہیں تھے۔ میں اس کی تحریروں (تصانیف) کو پسند نہیں کرتا تھا، اور میں نے اس کی صرف ایک تصنیف “لینن ازم کی اساس” ہی پڑھی ہے جو ایک طویل مضمون ہے جس میں وہ ٹراٹسکی پر تنقید کرتا ہے، اور اس کی تصنیف “کامیابی کے نشے میں غلطاں” وغیرہ پڑھی ہے۔ چینی انقلاب پر اس کے مضامین تو مجھے اوربھی زیادہ برے لگے ہیں۔ وہ لینن سے بہت مختلف تھا: لینن دوسروں سے اپنے دل کی بات کہتا تھا اوردوسروں کو اپنے برابر سمجھتا تھا جبکہ اسٹالن سب سے اوپر رہنا اوردوسرے کو ترتیب میں رکھنا پسند کرتا تھا۔ اس کے اس اسلوب کا سراخ اس کی تحریروں میں ملتا ہے۔ اس سے ملنے کے بعد میں اورزیادہ بیزار ہوگیا: میں نے ماسکو میں اس سے بہت لڑائی کی۔ اسٹالن مزاج کا ہلکا تھا۔ جب وہ مشتعل ہوتا تھا تو گھٹیا قسم کی باتیں کرتا تھا۔
میں نے مجموعی طور پر اسٹالن کی تعریف میں تین ٹکڑے لکھے ہیں۔ پہلا یانان میں اس کی ساٹھویں برسی (21 دسمبر 1939ء) کو منانے کے لیے لکھا تھا ، دوسری تہنیتی تقریر تھی جو میں نے ماسکو میں (دسمبر1949ء) میں کی تھی اور تیسرا ایک مضمون تھا جس کی درخواست اخبار پراودا نے اس کے انتقال (مارچ 1953ء) کے بعد کی تھی۔ میں نے ہمیشہ دوسروں کو مبارکباد دینے اورخود مبارکبار وصول کرنے کو ناپسند کیا ہے۔ جب میں ماسکو میں اس کی سالگرہ منانے کی تقریب میں تھا تو میں اسے مبارکباد دینے کے سوا اورکیا کرسکتا تھا؟ کیا اس کے بجائے میں اسے برا بھلا کہتا؟ اس کے انتقال کے بعد سوویت یونین کو ہماری مدد کی ضرورت تھی اور ہم بھی سوویت یونین کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ، میں نے اس کی خوبیوں اورکامیابیوں کی تعریف میں وہ مضمون لکھا۔ وہ مضمون اسٹالن کے لیے نہیں تھا؛ وہ سوویت کمیونسٹ پارٹی کے لیے تھا۔ جہاں تک اس تحریر کا تعلق ہے جو میں نے یانان میں لکھی تو اس کے لیے مجھے اپنے ذاتی جذبات کو نظر انداز کرنا پڑا اوراسے ایک سوشلسٹ ملک کے لیڈر کے طور پر برتنا پڑا۔ لہذا، وہ تحریرزیادہ پرجوش تھی جبکہ دوسر ی دو تحریریں (سیاسی) ضرورت کا نتیجہ تھیں، میرے دلی جذبات یا میرے ارادے کا نہیں۔ انسانی زندگی بھی اسی طرح متضاد ہے: آپ کے جذبات آپ کو یہ تحریریں نہ لکھنے کا کہتے ہیں، لیکن آپ کی قومیت آپ کو ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
اب جبکہ ماسکو اسٹالن پر تنقید کرچکا ہے تو ہم ا ن معاملات پر بات کرنے میں آزاد ہیں۔ آج میں نے آپ کو اسٹالن کی چار غلطیوں کے بارے میں بتایا لیکن سوویت یونین کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے کے لیے ہم انہیں اخباروں میں شائع نہیں کرسکتے۔ چونکہ خروشچیف کی رپورٹ میں صرف شوگرپلانٹ پر تنازعے کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ اسٹالن کی غلطیوں پر بات ہمارے حوالے سے کی گئی ہے، اس لیے ہم اسے عوام کے سامنے لانا نامناسب سمجھتے ہیں۔ تنازعات سے تعلق رکھنے والے دیگر معاملات بھی ہیں۔
عمومی انداز سے کہا جائے تو سوویت یونین اچھا ملک ہے۔ یہ چارعناصر کی وجہ سے اچھا ہے: مارکسزم-لینن ازم، اکتوبر انقلاب، (سوشلسٹ کیمپ کی) بڑی قوت، اورصنعتکاری۔ ان کے منفی پہلو بھی ہیں، اورانہوں نے غلطیاں بھی کی ہیں۔ تاہم، ان کی کامیابیاں (ان کے ماضی کا) اہم حصہ ہیں جبکہ ان کی خامیاں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ اب جب کہ دشمن اسٹالن پر تنقید کا فائدہ اٹھا رہا ہے تاکہ اسے عالمی پیمانے کے حملے میں بدل سکے، تو ہمیں سوویت یونین کی مدد کرنا چاہیے۔ وہ یقینا اپنی غلطیوں کو ٹھیک کر لیں گے۔ خروشچیف پہلے ہی یوگوسلاویہ کے بارے میں کی گئی غلطی کو ٹھیک کرچکا ہے۔ وہ پہلے ہی وانگ منگ کی غلطیوں سے واقف ہوچکے ہیں، حالانکہ ماضی میں وہ وانگ منگ کی غلطیوں پر تنقید سے خوش نہیں تھے۔ انہوں نے (مجھ پرسے) “نیم دل ٹیٹو” کی چٹ بھی ہٹا لی ہے اوراس طرح تمام نیم دل ٹیٹووں کا خاتمہ کردیا ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ نیم دل ٹیٹو کا ٹھپہ مٹا دیا گیا ہے۔
ہمارے کچھ لوگ اب بھی اسٹالن پر تنقید سے خوش نہیں ہیں۔ تاہم، اس قسم کی تنقید کے مثبت اثرات ہوتے ہیں کیونکہ یہ اساطیر (Mythologies) کو تباہ کردیتی ہے اور (سیاہ) ڈبے کو کھول دیتی ہے۔ اس کا مطلب ہے “آزادی” اور یقینا “آزادی کی جنگ”۔ اس کے ساتھ، لوگ اس قدر باہمت ہورہے ہیں کہ وہ اپنے دل کی بات کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ان معاملات پر سوچنے کے قابل بھی ہور ہے ہیں۔