مضامینِ سبطِ حسن: زندگی کی نقش گری (آٹھواں حصہ)

مگر قدیم حجری دور میں انسانی معاشرے کے بارے میں ہماری معلومات اتنی مختصر اور ناکافی ہیں کہ اس عہد کے فن کے مقاصد ومحرکات کی تہہ تک پہنچنا آسان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آثار قدیمہ کے عالموں میں غاروں کی تصویروں، کندہ کاریوں اور مجسموں کی غرض وغایت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ فن پارے دراصل وقت کاٹنے کے مشغلے تھے۔ بارش، برف باری یا شدید سردمی میں لوگ جب غاروں میں بیکار بیٹھتے تھے تو دل بہلانے کی خاطر تصویریں بنایا کرتے تھے۔ اسی سے ملتا جلتا وہ ددبستانِ فکر ہے جس کا خیال ہے کہ یہ تصویریں فقط ذوق جمال کی تسکین اور اظہار حسن کے جذبے کے تحت بنائی گئیں۔ ان تصویروں کا مقصد فقط غاروں کی آرائش وزبیائش تھی۔ مگر ان جمالیاتی اور تفریحی نظریوں کے خلاف بکثرت داخلی اور خارجی شہادتیں موجود ہیں۔

اول یہ کہ قدیم انسان نے یہ تصویریں ان غاروں میں نہیں بنائیں جن میں وہ رہتا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مصور غاروں میں بود و ماند کے کوئی آثار نہیں ملتے۔ وہاں نہ جانور کی ہڈیاں پائی گئی ہیں اور نہ کوئلے اور راکھ کے ڈھیر۔ اس کے برعکس فنکاروں نے بسا اوقات غیر آباد غاروں کے کسی نہایت تاریک اور تنگ گوشے کو چنا ہے۔ ان غاروں میں روشنی کا گزر نہ تھا۔ وہاں پہنچنے کے لیے انہیں رینگ کر جانا ہوتا تھا اور تصویر بنانے کے لیے زمین پر لیٹ کر کام کرنا ہوتا تھا۔ ظاہر ہے کہ تفریح کے لیے یاذوق جمال کی تسکین کے لیے کوئی اتنے پاپڑ نہیں بیلتا۔

دوسرے یہ کہ بکثرت تصویریں غاروں کے ایک مخصوص حصے میں ایک دوسرے کے اوپر بنائی گئی ہیں۔ حالانکہ بالکل قریب کی چٹانیں بالکل خالی پڑی ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سحر پر اعتقاد رکھنے والے قدیم انسانوں کی نظر میں ان مخصوص جگہوں کی بڑی اہمیت تھی۔ یہ جگہیں بڑی سبھاگی تھی۔ بڑی آور تھیں۔ ایک کے اوپر دوسری تصویر بنانے کی روایت غالباً اس طرح پڑی ہوگی کہ پہلے کسی قبیلے نے اپنے سحر کے لیے غار کا ایک حصہ چنا ہوگا اور وہاں شکاری جانوروں کی تصویریں بنائی ہوں گی اور افزائش نسل اور ہلاکت نسل کے سحر میں کامیاب ہوئے ہوں گے، یعنی جانوروں کی نسلیں بڑھی ہوں گی اور شکار بھی افراط سے ہاتھ آیا ہوگا۔ اس قبیلے کے چلے جانے کے بعد دوسرا قبیلہ آیا ہوگا۔ اس متبرک مقام کا علم ممکن ہے، اسے پہلے سے ہو یا وہاں پہنچ کر اس راز سے آگاہ ہوا ہو۔ زبیائش و آرائش سے نہ تو اس کے پیش روؤں کو کوئی دلچسپی تھی، نہ نوواردوں کا مقصد زیبائش و آرائش تھا۔ ورنہ وہ اپنے پیش روؤں کے شاہکار کو خراب نہ کرتے اور نہ پرانی تصویروں کے اوپر دوسری تصویریں بناتے۔ اس عمل کا مقصد یہ تھا کہ ان کا افزائشِ نسل اور ہلاکت نسل کا سحر بھی اسی طرح کامیاب ہو جس طرح ان کے پیش رؤوں کا ہوا تھا۔

تیسرے یہ اکثر دیواری تصویروں کے ارد گرد عجیب وغریب اقلیدسی علامتیں بنی ہوئی ہیں۔ یہ علامتیں جمالیاتی اور فنی نقطۂ نظر سے بہت بھونڈی اور بے جوڑ ہیں اور تصویروں کے حسن ترتیب و آہنگ سے میل نہیں کھاتیں اور نہ اصل تصویر کا جز معلوم ہوتی ہیں۔ در اصل سحر کے علاوہ ان علامتوں کی اور کوئی توجیہہ ہوہی نہیں سکتی۔ اسی طرح بہ کثرت تصویریں ایسی ہیں جن میں بھالے، نیزے، تیر وغیرہ کے نشان بنے ہیں جو صاف بتاتے ہیں کہ فنکار نے شکار کے مناظر کی نقشہ کشی کی ہے۔ بہت سی مصور چٹانوں پر تو بھالے، نیزے اور تیراندازی کے نشان تک موجود ہیں، ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تصویروں کی تکمیل کے بعد کسی خاص رسم سحر کے تحت ان پر ہتھیار پھینکے گئے تھے یا نشانے کی مشق کی گئی تھی۔

آلاتِ شکار پر بھی جانوروں کی تصویریں اسی سحر کے ماتحت بنائی گئی ہیں کیوں کہ برفانی دور کے انسان کا عقیدہ تھا کہ ہڈی، ہاتھی دانت اور پتھر کے آلاتِ شکار پر جانوروں کے نقش کھودنے سے اصل جانور آلات کے قابو میں آجاتے ہیں۔ ہڑپا، موہن جودوڑو، مصر، عراق اور ایران وغیرہ میں قدیم زمانے کے جو نقشی ظروف ملے ہیں ان کے نقوش کا تعلق بھی عمل سحر سے ہے۔ ظروف سجاوٹ کے لیے نہیں بنائے گئے تھے اور نہ روز مرہ کے استعمال میں آئے تھے مگر اس بحث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برفانی دور کا انسان ذوقِ جمال یا جمالی ذوق سے خالی تھا۔

اس کی فنی آگہی کا سب سے بڑا ثبوت اس کی تصویریں ہیں، جن میں اس نے فن کے تمام تقاضے بڑی خوبصورتی سے پورے کیے ہیں۔ وہ ان تصویروں کو بڑی محنت اور محبت سے بناتا تھا۔ ان تصویروں میں خطوط کی روانی، اختصار اور سادگی، ان کے لیے اثر انگیز اور معنی خیز رنگوں کا انتخاب، ان کی گہرائی اور موزونیت غرض جس پہلو سے بھی دیکھئے ان قدیم فنکاروں کے شعور کی داد دینی پڑے گی۔ ہونہار مصوروں کو باقاعدہ تصویر کشی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ وہ برسوں مشق کرتے تھے تب کہیں انہیں متبرک مقامات پر تصویر بنانے کی اجازت ملتی تھی۔ گھٹیادرجے کی تصویریں رد کردی جاتی تھیں۔ عمدہ تصویروں کے نمونے اور چربے دور دور بھیجے جاتے تھے یا محفوظ رکھ لیے جاتے تھے۔ یہ ساری کاوش ومشق، یہ ردو قبول بتاتی ہے کہ ان کا اپنا ایک معیارِ حسن اور میزانِ فن ضرور تھا۔ البتہ وہ فقط ذریعہ تھا اصل مقصد کی تسکین کا۔

بعض تصویریں ایسی ضرور ہیں جن کی حیثیت تاریخی یا یادگاری ہے۔ شاید ان کا تعلق قبیلے کی زندگی کے اہم حادثے سے ہو یا کوئی ایسا سانحہ پیش آیا ہو جس سے پورا قبیلہ متاثر ہوا ہو۔ مثلاً لیسکا کے غار میں موت کا منظر یا ریچھ اور آدمی کی لڑائی یا التمیرا کے سقف کی تصویریں۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ برفانی انسانوں نے نمائندہ تصویریں کیوں بنائیں۔ تجریدی تصویریں کیوں نہیں بنائیں۔ پروفیسر ہینز کون کا خیال ہے کہ برفانی انسان کا ذہن فقط ٹھوس حقیقتوں کا تصور کرسکتا تھا۔ وہ جو کچھ دیکھتا تھا اس کی ہوبہو نقل بنا سکتا تھا، مگر ابھی اس کے ذہن نے اتنی ترقی نہ کی تھی کہ وہ ان ٹھوس حقیقتوں کی تجرید کر سکے۔ و ہ درختوں کو دیکھ سکتا تھا، مگر جنگل کا تصور نہ کر سکتا تھا۔

پروفیسر ہیوگواوبر میئرؔ اور ایبے بروئیلؔ اس نظریے کو نہیں مانتے۔ وہ اپنی تائید میں آدمیوں کی وہ مجرد تصویریں پیش کرتے ہیں جو جانوروں کی نمائندہ تصویروں کی ہم عصر بلکہ ان کا جز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برفانی انسان ہو بہو اور نمائندہ تصویریں بھی بنا سکتا تھا اور تجریدی عمل سے بھی واقف تھا اور حسب ضرورت ان دونوں طریقوں سے کام لیتا تھا۔ اس نے جانوروں کی نمائندہ تصویریں اس لیے بنائیں کہ ان پر آلات شکار کی مشق کرنی ہوتی تھی یا اس لیے بنائیں کہ ایک نئے اور حقیقی جانور کو اپنے سحر کے زور سے عدم سے وجود میں لانا تھا یا اسے ہلاک کرنا تھا۔ برفانی انسان کی مثال اس ریڈانڈین کی ہے جس نے ایک آرٹسٹ کو بیسن کی تصویریں بناتے دیکھ کر شکایت کی تھی کہ تم نے ہمارے کئی بیسن اپنی کتاب میں بند کرلیے ہیں۔

برفانی دور کا انسان تین قسم کے سحر پر اعتقاد رکھتا تھا،

(1) سحر تخلیق

(2) سحرِ تخریب

(3) سحرِ رضاجوئی

ان میں سب سے قدیم تخلیق کا سحر ہے۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ برفانی عہد کے سب سے پرانے فن پارے وہی ہیں جن کا تعلق تخلیق کے سحر سے ہے۔ یہ فن پارے عورتوں کے مجسمے ہیں۔ یہ مجسمے مشرق میں جھیل بیکال سے اسپین کی شمالی سرحد تک پائے گئے ہیں۔ یعنی اس پورے خطے میں جو عہد قدیم میں برف سے ڈھکا ہوا نہیں تھا۔

یہ مجسمے جن کی تعداد 130سے تجاوز کر گئی ہےاسپین، فرانس، جرمنی، اٹلی، آسٹریلیا، روس اور چیکوسلو واکیہ کے غاروں میں ملے ہیں۔ ان کی ساخت میں قبیلوں کی فنی روایتوں اور جغرافیائی حالات کے اختلاف کے باعث تھوڑا بہت فرق ضرور پایا جاتا ہے مگر اپنی نوعیت اور ماہیت کے اعتبار سے سب مجسمے یکساں ہیں۔ مثلاً پتھر کے یہ مجسمے قریب قریب سب ہی عورتوں کے ہیں اور ان میں فنکار کی توجہ کا مرکز عورتوں کے جنسی اعضا ہیں۔ ان اعضا کو بڑے مبالغے کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے البتہ دوسرے اعضا کو مثلاً آنکھ، ناک، منھ کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ یہ مجسمے بالکل برہنہ ہیں مگر بعض مجسموں میں عورتیں زیور پہنے ہوئے ہیں۔ یہ مجسمے ’’ماں‘‘ کے ہیں جو تخلیق کا سرچشمہ ہے۔

ان میں سب سے مشہور مجسمہ وہ ہے جو 1908ء میں وِلن دراف (آسٹریلیا) کے مقام پر دریافت ہوا۔ عورت کا یہ بت ساڑھے چار انچ بڑا ہے۔ اس کے سر کے بال شہد کے چھتے کی طرح ہیں۔ اس کی چھاتیاں مشک کی مانند پھولی ہوئی اور لوکی کی مانند نیچے کو لٹکی ہوئی ہیں۔ اس کے کولھے بہت چوڑے ہیں اور پیٹ بہت بڑا ہے۔ اس کی بانہیں بہت پتلی ہیں اور پیڑو پر رکھی ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی کنواری لڑکی یا بانجھ عورت کا مجسمہ نہیں ہے بلکہ ایسی عورت کا مجسمہ ہے جو ماں بن چکی ہے یا ماں بننے والی ہے۔

فنی اعتبار سے پونے چھ انچ کا وہ مجسمہ بھی نہایت حسین اور مکمل ہے جو جنوبی فرانس میں ملا ہے۔ یہ مجسمہ بھی عورت کا ہے جس کے جنسی اعضا کو بڑھا چڑھا کر بتایا گیا ہے۔ قدیم انسان کے لیے جنسی اعضا کو بالخصوص عورت کے جنسی اعضا کو تخلیق کی علامت قرار دینا قدرتی بات تھی۔ اس تخلیقی عمل میں مرد کے کردار کا انسان کو شاید شعور نہ ہو لیکن عورت کے بارے میں تو کسی شک اور شبہے کی گنجائش نہ تھی کیوں کہ وضعِ حمل کے کچھ عرصے کے بعد عورت کے جسم میں تبدیلیاں ہونے لگتی تھیں اور ایک دن جب مرد شکار سے واپس آتا تو غار میں اسے نومولود بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی تھی۔

تخلیق کے یہی مظاہر اس نے جانوروں میں بھی دیکھے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عقیدے میں عورت کی اہمیت مرد سے زیادہ تھی۔ لہٰذا عورت کا جسم تخلیق کی علامت بن گیا۔ اس وقت کے انسان کو خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت نہ تھی۔ بلکہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ افزائش نسل تھا کیوں کہ آبادی بہت کم تھی۔ موسم نہایت سخت تھا۔ برف کے طوفان آتے اور ٹھنڈی اور بھیگی ہواؤں کے تیر ہڈیوں میں پیوست ہو جاتے تھے۔ بچے موسم کی اس سخت گیری کی تاب نہ لاسکتے اور بیمار ہوکر مر جاتے۔ دوا علاج کا بھی کوئی انتظام نہ تھا نتیجہ یہ تھا کہ صغر سنی کی موت عام تھی۔

Leave a Comment