قبیلوں کے لیے اپنی زندگی کی بقا اور اپنی نسل کی افزائش اتنی ہی اہم تھی جتنی شکار کی تلاش۔ آبادی کی قلت کے باعث جنگلی جانوروں کے شکار میں بھی دشواری پیش آتی تھی۔ قبیلے کی آبادی زیادہ ہوتی تو شکار بھی زیادہ ہاتھ آتا تھا۔ آبادی کم ہوتی تو شکار بھی کم ملتا تھا اور جب شکار کم ملتا تو آبادی کی قوتِ مدافعت گھٹنے لگتی اور قبیلے کی تعداد اور کم ہوجاتی۔ غرض پورا معاشرہ بدی کے ایک چکر میں مبتلا تھا اور اس چکر سے نکلنے کی بس یہی ایک صورت تھی کہ نسل انسانی میں جس طرح بھی ہو، اضافہ کیا جائے۔ چنانچہ افزائش نسل کے لیے مادرتخلیق کے مجسمے بنائے گئے تاکہ تخلیق کے سحر میں کام آسکیں۔ یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ سحر کیا تھا۔ شاید عورت اور مرد مباشرت سے پہلے اس مجسمے کو چھوتے ہوں یا اپنے بعض اعضا کو اس پر رگڑتے ہوں یا جب عورت یا مرد سنِ بلوغ کو پہنچتا تو جادوگر ان کو پاس بٹھا کر کوئی منتر پڑھتا یا کوئی خاص رسم ادا کرتا۔
بعض پرانی قوموں میں اب بھی یہ رواج ہے کہ لڑکی کو جب پہلی بار حیض آتا ہے تو بستی میں بڑی خوشی منائی جاتی ہے۔ لڑکی کو سرخ رنگ کی پوشاک پہنائی جاتی ہے کہ سرخ رنگ قدیم سے زندگی کی علامت ہے اور پھر سب لوگ اسے مبارک باد دیتے ہیں۔ یہ رسمیں اسی زمانے کی یادگار ہیں جب افزائشِ نسل ایک اہم سماجی عمل تھا۔ بہرحال برفانی انسان کے لیے یہ مجسمے تخلیق کی علامت تھے۔ اس سے غرض نہیں کہ وہ ان کو چھوتا تھا یا ان پر منتر پڑھتا تھا البتہ یہ ثابت شدہ بات ہے کہ وہ ان مجسموں کی پرستش نہیں کرتا تھا کیوں کہ ابھی تک اس میں اپنے سے افضل واعلیٰ کسی خارجی طاقت کا شعور پیدا نہیں ہوا تھا۔ ان غاروں میں جہاں یہ مجسمے تھے، پرستش کے کوئی آثار بھی نہیں ملے ہیں نہ چڑھاوے کی چیزیں نکلی ہیں اور نہ قربانی کے نشان۔ البتہ کئی ہزار سال بعد جب آنے والی نسلوں نے دیوی دیوتا بنائے تو اس مادرِ تخلیق نے کہیں عشتار کا روپ دھار ا، اور کہیں وہ ناہید، افرودیتی یا وینس کی شکل میں لوگوں کی عبادت کا مرکز بن گئی۔
مادر تخلیق کے یہ مجسمے تاریخی اعتبار سے سب سے قدیم ہیں اور ان کا محرک نسلِ انسانی کی افزائش کا جذبہ ہے البتہ بعد میں جب آبادی بڑھ گئی اور نسلِ انسانی کی افزائش سے زیادہ جانوروں کی افزائش کو ضروری خیال کیا جانے لگا تو عورتوں کے ان مجسموں کی جگہ حاملہ جانوروں کی تصویروں نے لے لی۔ چنانچہ اسپین اور فرانس کے غاروں میں حاملہ جانوروں کی کثرت ہے۔
نسل انسانی کی افزائش اور بقا کے علاوہ برفانی انسان کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اپنے قبیلے کے لیے غذا اور دوسری ضروریات ِ زندگی کیوں کر حاصل کی جائیں۔ یہ ضروریات زندگی فقط جانوروں کے شکار سے پوری ہوتی تھیں، شکار کی یہ مہمیں آج کل کے مرغابی یا ہرن کے شکار کی مانند نہ تھیں بلکہ ان میں جان جوکھم کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جنگل میں شیر، بھالو، گینڈا اور دوسرے درندے ہوتے تھے۔ ہڈی کے تیر اور پتھر کے نیزے ان پر اثر نہ کرتے تھے۔
دوسرے جانور بھی مشکل سے ہاتھ آتے تھے۔ اس لیے شکار کی مہم سے پیشتر ہلاکتی یا تخریبی سحر کی ضرورت پڑتی تھی۔ کبھی وہ ایک رسم کے تحت دیوار پر بنی ہوئی تصویروں پر تیر، نیزے اور بھالے مارتے تھے (اس نشان بازی کے نشان تصویروں پر اب تک موجود ہیں) اور ان کو یقین ہوجاتا تھا کہ ان کا شکار ہلاک ہوگیا یا ہو جائے گا۔ کبھی ساحر انہیں ان تصویروں کے روبرو لے جاتا تھا جن میں جانوروں کو جال میں پھنسا ہوا یا سحر کے اثر سے بے بس اور لاچار دکھایا گیا ہے یاجن کے جسم میں زخم کے نشان بنے ہیں اور وہ خون آلودہ ہیں یا جن کے جسم میں آلاتِ شکار پیوست ہیں۔ ان رسموں کے بعد شکاری بڑی خود اعتمادی اور یقین سے اپنی مہم پر روانہ ہوجاتے تھے۔ اگر کامیاب لوٹے تو سحر کی گرفت ان کے ذہنوں پر اور مضبوط ہو جاتی تھی۔ ناکام ہوئے تو اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتے تھے کہ ادائیگی رسم میں ہم سے کوئی بھول ہوگئی ہو گی۔
رضا جوئی کا سحر درندوں اور دوسرے خطرناک جانوروں کی خوشنودی کے لیے مخصوص تھا۔ برفانی انسان ان درندوں کو ہلاک کرتے ڈرتا تھا کہ مبادا وہ یا ان کی نسل خفا ہوکر ہمیں کوئی گزند پہنچادے چنانچہ یہ لوگ شکاری درندوں کو مارنے کے بعد ایک رسم کے تحت ان کی خوشامد کرتے تھے تاکہ ان کی خفگی دور ہوجائے۔ فرانس کے ایک غار میں مٹی کا بنا ہوا ریچھ کا ایک مجسمہ ملا ہے جس کا سر ندار د ہے البتہ اس کی گردن کے پاس خون کے نشان ہیں اور آس پاس کئی ریچھوں کی کھوپڑیاں پڑی ہیں۔ علمائے آثار نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ برفانی انسان ریچھ کا شکار کرنے کے بعد اس کا سر (جسے وہ جسم کا سب سے اہم حصہ سمجھتا تھا) مٹی کے دھڑ سے جو ڑ دیتا تھا اور یہ سمجھ لیتا تھا کہ ریچھ کو اس کے ہاتھوں کو ئی ضرر نہیں پہنچا ہے بلکہ وہ دوبارہ زندہ ہوگیا ہے۔ تب وہ ریچھ کے جسم کو کھا لیتا تھا اور اس کی کھال سے اپنے لیے پوشاک تیار کرتا تھا۔
کتنا کار آمد تھا یہ سحر۔ التمیرا کے سقف میں اسی طرح بیسنوں کی رضا جوئی کی نقشہ کشی کی گئی ہے۔ چین اور جاپان کی پرانی رسم ہے کہ باورچی سبزیوں کو پکانے سے پہلے میز پر قرینے سے سجا دیتے ہیں اور ان کے سامنے دو زانو بیٹھ کر اور ہاتھ جوڑ کرسبزیوں سے معافی کی دعا مانگتے ہیں۔
قدیم حجری دور کے ہم پر بڑے احسانات ہیں۔ اس دور میں انسان جانور سے آدمی بنا۔ تہذیب کی ابتدا ہوئی، آدمی نے آگ کا استعمال معلوم کیا، آلات اور اوزار بنائے، تسخیر قدرت کی کوششیں شروع کیں اور مادے کی ہیئت و ماہیت میں تبدیلیاں کر کے سائنس کی جانب پہلا قدم اٹھایا۔ اس نے مصوری اور مجسمہ سازی جیسے دو نہایت دلکش فن ایجاد کیے۔ حجری انسان کی فنی تخلیقات کی دریافت سے ہمارے تہذیبی سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہی نہیں ہوا ہے بلکہ جدید انسان کا نقطۂ نظر بھی بدلا ہے۔ ان دریافتوں سے پیشتر دورِ حاضر کے لوگ حجری دور کے انسانوں کو جنگلی اور وحشی خیال کرتے تھے اور ان کو جمالیاتی ذوق اور لطیف احساسات سے قطعاً عاری سمجھتے تھے۔ غاروں کے حسین نقوش نے ثابت کردیا کہ حجری انسان کا تخلیقی شعور بیدار ہوچکا تھا۔ اس کا عزم جوان تھا اور ہمت شکن حالات کے آگے سپر ڈالنے کے بجائے وہ بڑی خود اعتمادی سے ان حالات کا مقابلہ کرتا تھا اور ان کو بدلنے میں حتی المقدور کامیاب بھی ہوتا تھا۔