ماؤزے تنگ کی موقع پرستی: (آخری حصہ)

مترجم: شاداب مرتضی

یوگوسلاویہ کے وفد سے ماؤزے تنگ کی گفتگو (بیجنگ، 1956ء)

آزادی، مساوات اوراخوت (Liberty, Equality and Fraternity) سرمایہ دار طبقے کے نعرے ہیں، لیکن اب ہمیں ان کے لیے لڑنا ہے۔ کیا (ماسکو کے ساتھ ہمارے تعلقات) باپ اوربیٹے کے درمیان رشتوں جیسے یا بھائیوں کے درمیان رشتے جیسے ہیں؟ ماضی میں یہ باپ اوربیٹے جیسے تعلقات تھے؛ اب یہ کم و بیش بھائیوں کے درمیان رشتے جیسے ہیں، لیکن باپ اوربیٹے کے رشتوں کا سایہ مکمل طور پر نہیں مٹا ہے۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کیونکہ تبدیلیاں کبھی بھی ایک دن میں مکمل نہیں ہوتیں۔ مخصوص کشادگی کے ساتھ، لوگ اب اس قابل ہیں کہ آزادی اورخودمختاری کے ساتھ سوچ سکیں۔ اب، ایک معنی میں، جاگیرداری مخالف ماحول موجود ہے: باپ اوربیٹے کا رشتہ اب بھائی کے رشتے کو راستہ دے رہا ہے، اورپدرسر ی نظام کا تختہ الٹا جا رہا ہے۔ (اسٹالن) کے دور میں لوگوں کے دماغ اس قدر سختی سے کنٹرول کیے گئے تھے کہ جاگیردارانہ کنٹرول کو بھی پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا۔ روشن خیال جاگیردار یا شہنشاہ بھی تنقید کو قبول کرسکتے تھے لیکن (اسٹالن) کسی تنقید کو برداشت نہیں کرتا تھا۔ یوگوسلاویہ کے پاس بھی غالبا ایسا ہی کوئی حکمران (آپ کی تاریخ میں) ہو سکتا ہے جو شاید اپنے سامنے خود پر لوگوں کی تنقید کو برداشت کر لیتا ہو۔ سرمایہ دارانہ سماج نے جاگیردارانہ سماج سے ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔ امریکہ میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں کو ایک دوسرے سے جھگڑنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

ہم سوشلسٹ ملکوں کو لازمی طور پر زیادہ بہتر حل تلاش کرنا چاہیے۔ یقینا، ہمیں ارتکاز اور اتحاد کی ضرورت ہے؛ بصورتِ دیگر، یکسانی کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ لوگوں کے ذہنوں میں موجود یکسانی ہمارے مفاد میں ہے اورہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم کم ترین وقت میں صنعتکاری کا ہدف حاصل کرسکیں اور سامراجیوں سے نپٹ سکیں۔ تاہم، اس میں کچھ خامیاں بھی شامل ہیں، یعنی، لوگوں کو اپنے دل کی بات کہنے پر خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ لہذا، ہمیں لازمی طور پرایسے ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے دل کی بات کہنے کے لیے لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ ہمارے پولٹ بیورو کے ساتھی حال ہی میں ان معاملات پر غوروغوص شروع کرچکے ہیں۔

چین میں چند ہی لوگوں نے مجھ پر کھلی عوامی تنقید کی ہے۔ چین کے لوگ میری خامیوں اورغلطیوں کو برداشت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کے لیے اچھائی کرتے ہیں۔ حالانکہ، ہم بھی بعض اوقات تحکم اور بیوروکریسی کو بھگتتے ہیں، مگر لوگوں کو یقین ہے کہ ہم نے برے کاموں کی نسبت اچھے کام زیادہ کیے ہیں اوراس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ہم پر تنقید کرنے سے زیادہ ہماری تعریف کرتے ہیں۔ چنانچہ، ایک بت تیار ہوگیا ہے: جب بعض لوگ مجھ پر تنقید کرتے ہیں تو دوسرے ان کی مخالفت کرتے ہیں اور ان پر لیڈر کی ہتک کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ ہرروز میں اور مرکزی قیادت کے دیگر ساتھی لگ بھگ کوئی سو خط وصول کرتے ہیں، جن میں سے کچھ ہمارے بارے میں تنقیدی ہوتے ہیں۔ یہ خطوط البتہ یا تو دستخط شدہ نہیں ہوتے یا ان پر فرضی نام لکھے ہوتے ہیں۔ خط لکھنے والوں کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ ہم ان پر جبر کریں گے بلکہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ ان کے اردگرد موجود لوگ انہیں مصیبت میں ڈالیں گے۔

آپ نے میری تحریر “دس رشتوں کے بارے میں” کا ذکر کیا۔ یہ میرے اور پینتیس وزیروں کے درمیان ڈیڑھ ماہ کے بحث مباحثے کا نتیجہ تھی۔ ان کے بغیر میں اپنے طور پر کوئی رائے کیسے پیش کرسکتا تھا؟ میں نے صرف ان کی تجاویز کا خلاصہ کردیا اور میں نے کوئی چیز تخلیق نہیں کی۔ ہر تخلیق کو مواد اور فیکٹریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، میں اب مزید کوئی اچھی فیکٹری نہیں رہا۔ میرے تمام اوزار پرانے ہوچکے ہیں۔ مجھے اسی قدر بہتری اورنئے سازوسامان کی ضرورت ہے جتنی کہ برطانیہ کی فیکٹریوں کو۔ میں بوڑھا ہورہا ہوں اور مزید کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکتا سوائے معمولی، چھوٹے حصہ کاکردار ادا کرنے کے۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے پارٹی کی قومی کانگریس کے دوران لیو شاؤ چی، چو این لائی، ڈینگ ژیاؤ پنگ اوردوسروں کے بنیادی کاموں کے مقابلے میں چھوٹا کردار ادا کیا ۔

ماخذ: ماؤزے تنگ کی منتخب سفارتی دستاویزات (بیجنگ: تاریخی دستاویزات کی مرکزی پریس، 1993ء)، 251-262۔ ترجمہ اور تفسیر از ژانگ شو گوانگ اور چین جیان ۔

Mao Zedong waijiao wenxuan [Selected Diplomatic Papers of Mao Zedong] (Beijing: The Central Press of Historical Documents, 1993), 251-262. Translated and Annotated by Zhang Shu Guang and Chen Jian

Leave a Comment