فلسفہ کیا ہے؟ (پہلی قسط)

فلسفہ کیا ہے؟ (پہلی قسط)

کوئی انسان علمی تحقیق سیاسی جدوجہد اورانقلابی تحریک سے کتنا ہی بیگانہ کیوں نہ ہو وہ امکانی حد تک اس عمل کی پیش بینی ضرور کرنا چاہتا ہے کہ مستقبل میں دنیا کیسی ہوگی ؛انسان کو کیا کچھ پیش آنے والا ہے؛ جنگ کے نتیجے میں عالمگیر بربادی یا پر امن زندگی؛ کرہِ ارض کی کیفیت کیا ہوگی؟ یہ عالم فطرت برقرار رہے گا یا علمی اور ٹیکنیکی ترقی کے نتیجے میں تباہ ہوجائے گا؟جبر اور سماجی ناانصافی دنیا سے غائب ہو جائیں گے یا یونہی ہمیشہ قائم و دائم رہیں گے؟ یہ وہ عمومی آفاقی سوال ہیں جو کرہ ِارض پر بسنے والے ہر ذی حیات شخص کو درپیش رہتے ہیں ۔ان سوالوں کے صحیح جواب کے لئے ضروری ہے کہ انسان فلسفے کے علم سے آگاہ ہو۔ فلسفے کالفظ دو یونانی الفاظ سے مرکب ہے “سوفی” جس کا مطلب ہے محبت اور”فلو” جس کا مطلب ہے عقلمندی۔ چنانچہ، لفظ فلسفے کا مفہوم ہے علم و دانش سے محبت۔

ہمارے اطراف میں پھیلی ہوئی دنیا لامحدود ہے۔ انسان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس کی پہیلیوں کو بتدریج ،رفتہ رفتہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ کبھی بھی دنیا کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ فلسفہ اسی لامحدود کائنات کو سمجھنے کے لیے انسان کی مسلسل کوشش کا نام ہے۔ انسان تمام موجودچیزوں کے “مبداؤں اور اسباب” کو جاننے اور اس فکری عمل میں اپنے تمامح حاصلات کی مزید چھان بین کرنے میں ہر دم مصروف رہتا ہے۔ زمانہِ قدیم کے عظیم فلسفی، افلاطون نے کہا تھا کہ حیرت و استعجاب اورتحیر فلسفے کا سرچشمہ ہے۔

ماضی بعید میں فلسفہ اور فلسفے کے مقاصد کے بارے میں طرح طرح کے تصورات کی نمو ہوئی۔ عظیم مفکر ،ارسطو کا یہ مؤقف تھا کہ” فلسفے کے سوا تمام دوسرے علوم کسی مخصوص مقصود کے متلاشی ہوتے ہیں” ۔ تمام علوم میں صرف فلسفہ ہی وہ علم ہے جو کسی مقصد سے آزاد و بے پرواہ ہو کر صرف اپنے لیے زندہ ہے ۔تاہم عظیم مفکر اور خطیب، سسرو،نے بالکل ہی الٹ مؤقف اختیار کیا۔ اس نے کہا: “ہم تیری سمت ہی رجوع کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد کے طالب ہیں۔اے زندگی کی شمعِ راہ،اے اصولِ حیات ،اے فلسفہ تیرے بغیر ہمارا بلکہ خود حیاتِ انسانی کا وجود ہی ناممکن ہے”۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فلسفہ اور مذہب لانیفک ہیں اور فلسفہ مذہبی ادعائی عقیدے کی فہم میں مددگار ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرے اس رائے کےحامل تھے کہ چونکہ فلسفہ تشکیک اور عقل پر قائم ہے جبکہ مذہب کی بنیاد اندھا عقیدہ ہے، اس لیے فلسفے اور مذہب میں کوئی مطابقت نہیں۔

جدید مفکروں میں فلسفے کی ماہیت اور مقصد کے بارے میں اور بھی زیادہ اختلافات رائے ہیں ۔ان میں سے کچھ کا خیال ہے کہ فلسفہ علومِ قطعیہ کے بارے میں بحث کرتا ہے جبکہ دیگر اسے فنون کی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں ،جبکہ کچھ اور لوگ مثلافرانسیسی مصنف اور فلسفی البرٹ کامیو کا خیال ہے کہ خودکشی کا مسئلہ فلسفے کا بنیادی مسئلہ اور موضوع ہے ۔مفکروں کاایک گروہ ایسا بھی ہے جو فلسفہ کی اصطلاح ہی کو فارغ خطی دینے کے لیے تیار ہے۔

آراء کے اس تنوع میں اپنے فکری لنگر اور سمت کی تلاش میں آئیےہم فلسفے کی ابتداء کی جانب رجوع کریں ۔کب اور کہاں فلسفے کی نمو ہوئی؟ کچھ معاشروں میں فلسفیانہ فکر کیونکرتیزی سے ترقی پذیر ہوئی جبکہ دوسروں میں یہ کیونکر سست رفتار رہی؟ کیا تمام لوگ فلسفے کے سمندر میں غوطہ لگا کر فلسفیانہ علم و دانش کو سمجھ سکتے ہیں؟ ہم اس کتاب میں ان اقسام کے سوالات سے بحث کریں گے۔

ایک بیدار کن خیال

ظاہر ہے کہ وجود کے بارے میں عمومی سوالات پر غور و فکر صرف اسی صورت میں شروع ہو سکتا ہے کہ انسان کو دنیا کے بارے میں کچھ علم ہو ۔یہ علم ہی وہ امور ومسائل فراہم کرسکتا ہے جو قابلِ غور و فکر ہوں۔ ایک عرصے سے بلکہ ہزاروں سال سے سورج گرہنوں اوردریائی سیلابوں اورطغیانیوں جیسے فطری مظاہر انسانی یاداشت پر اپنے نقوش ثبت کرتے رہے ہیں۔ انسان نے ان کے اسباب کے بارے میں کچھ تاثرات قائم کئے اور زندگی کی نمو اور پھر اس کی فطری موت اور انسانی جسم کی ساخت وغیرہ کے بارے میں کچھ قیاس آرائیاں کیں۔

تاہم قدیم دنیا کا انسان اس قابل نہ تھا کہ وہ انفرادی واقعات کا طویل عرصے تک مطالعہ کرکے ان کے بارے میں تعمیمات قائم کرے ۔اس کے ذہن کی ابھی اتنی ارتقاء نہیں ہو پائی تھی کہ وہ اشیاء کے بارے میں عمومی تصورات قائم کرے ۔وہ ابھی تک خصوصی انفرادی مظاہر کی تجرید نہیں کر پایا تھا۔ مثلا،ہم یہ جانتے ہیں کہ “خیر” کا تصور ایک مجرد عمومی تصور ہے ۔ہم نے متعدد اچھے اور برے لوگوں سے اپنی واقفیت اور مختلف خاص صورت ِاحوال میں ان کی خوشح خصالی اور شفیق ومہربان رویوں کو دیکھ کر ہی اس عمومی تصور کی تشکیل کی ہے یعنی اس تصور کو اپناتے وقت ہم خصوصی واقعات کی غیر ضروری وضع وقطع کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے اہم اور بنیادی اوصاف پر توجہ مرکوز کرکے” خیر” کے اس عمومی تصور کی تجرید کر لیتے ہیں۔ چنانچہ، “شر”کی مانند” خیر” بھی کسی ٹھوس وجود یا شے کی صورت میں موجود نہیں ہوتا ۔یہ دونوں ہی مخصوص لوگوں اور ان کی حرکات و سکنات کے ایک پہلو یا وصف سے زیادہ کچھ اور نہیں۔ تاہم قدیم لوگوں کے نزدیک یہ تجریدی تصورات بھی ٹھوس اشیاء کی مانند وجود رکھتے تھے۔ وہ ان مجرد تصورات اور ان کے ٹھوس مظاہر میں تفریق نہیں کر پاتے تھے۔ چنانچہ، پنڈورا کے صندوق کے بارے میں قدیم یونانی اسطوری کہانی میں “شر”کی یوں تصویر کشی کی گئی ہے کہ جیسے وہ کوئی ٹھوس وجود ہو۔ اس صندوق میں ابیمیتوس کے گھر کے تمام انسانی مصائب بند تھے۔ اس کی بیوی نے تجسس میں اس صندوق کو کھول دیا اوران آلائشوں کو باہر نکال دیا اور یوں انسانوں کی صفوں میں شرکی آمد ہوئی۔

انسانی گروہوں کے ارتقا کے ایک خاص مرحلے پر تمام انسانی گروہوں کی فکر کا یہ وصف مشترک رہا ہے ۔یہ سب ہی کسی ٹھوس مرئی شکل کےوسیلے سے عمومی تصورات کا ادراک کر سکتے تھے۔ چنانچہ، ایک افریقی قبیلے ‘اشانتی’ کی ایک دیوکہانی میں ہمیں علم و دانش کے تصور کا ایسا ہی ایک مادی تصور ملتا ہے۔انانی نام کی ایک مکڑی دنیا میں گھومتی پھرتی علم و دانش کے دانے جمع کر کے انہیں ایک مٹکےمیں ڈالتی جاتی۔ جب مٹکا بھر گیا تو انانی نے اسے ایک درخت میں چھپانے کا بندوبست شروع کیا ۔اس دوران اسے اپنے ایک بیٹے پر غصہ آ گیا اور اس نے مٹکے کو زمین پر دے مارا ۔مٹکا ٹوٹ گیا اور دانش کے دانے پیڑ کے آس پاس بکھر گئے۔ جو لوگ انہیں تیزی سے اٹھا سکے انہوں نے یہ دانے اٹھا لیے جبکہ جو لوگ رہ گئے وہ بڑے احمق اور بے علم رہ گئے۔

ایک طویل عرصے تک انسانی زبان میں گردوپیش کی اشیاء اور واقعات کے عمومی اوصاف و خصوصیات کو بیان کرنے کے لیے کوئی الفاظ موجود نہ تھے۔ مثلا، مشرق کی قدیم ترین زبان ‘سمیر ائی’ میں قتل کے تصور کے لیے کوئی لفظ موجود نہیں تھا۔ اگر لوگ کسی شخص کے قتل کے بارے میں ایک دوسرے کو بتانا چاہتے تو وہ اس مقصد کے لیے جو لفظ استعمال کرتے تھے اس کا مفہوم یہ تھا:’ سر پر ڈنڈے سے ضرب لگانا’۔

تعمیمات کرنے کی صلاحیت اشیاءاور واقعات کے لازمی اور حادثاتی اوصاف اور علل و معلول کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت کی متقاضی ہوتی ہے۔ یہ صلاحیت اچانک پیدا نہیں ہو گئی۔ قدیم انسان اشیا ءاور مظاہر میں خارجی مشابہتوں کی نشان دہی کی بنیاد پر ہی یہ نتیجہ قائم کر لیتا تھا کہ یہ مشابہ اشیاء ایک دوسرے سےلانیفک رشتے میں جڑی ہوئی ہیں۔ چنانچہ، جنوبی امریکہ میں وادیِ’ اور ینوکو’ میں رہنے والے ریڈانڈین قبیلے کا خیال تھا کہ صرف عورتوں کو فصلیں بونی چاہییں۔وہ یہ دلیل دیتے تھے کہ عورتیں بچہ دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس لیے اگر عورتوں کے ہاتھ سے بیج بوئے جائیں گے تب ہی زمین اچھی فصل دے گی ۔آج بھی یوگنڈا میں لوگوں کا خیال ہے کہ بانجھ عورت اپنے شوہر کے کھیت اور باغ کو بنجر کرنے کا باعث ہوگی۔

قدیم زمانے میں انسان اپنے آپ اور فطرت میں تمیز نہیں کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ فطرت بھی خود اس کی ذات سے مماثل موجودات سے آباد ہے۔ وہ آگ ،ہوا اور زمین کی ارواح وغیرہ میں یقین رکھتا تھا۔ آج بھی فطرت کو انسان کی مثال پر’مشخص’ کر کے دیکھنے کے باقیات مل جاتے ہیں۔مثلا، یوگنڈا کے کچھ قبیلوں کے عقائد اسی نوعیت کے ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ انسان کے گردوپیش کی دنیا میں ہزاروں روحیں کلبلا رہی ہیں۔ وہ ان روحوں کو ‘جوڈک’ کہتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ روحیں بالکل ٹھوس اور فی الحقیقت موجود شخصیات ہیں۔ موت کے بعد خود انسان بھی ‘جوڈک’ بن جاتا ہے اور قبیلے کے سردار کی اعانت کرتا ہے اور دیگر ہم قبیلہ لوگوں کی مدد بھی کرتا ہے۔ اور ان لوگوں کو سزائیں بھی دیتا ہے۔

اس طرح قدیم انسان کے شعور میں عالم ِفطرت اور عالمِ انسانی، اشیاء اورروحیں ایک دوسرے میں گندھے ہوئے تھے۔ انسان قدر تی قوتوں کو اسی طرح برتتے تھے جیسے وہ ذی حیات ہو ں۔اگر طوفان آجائے ،اولے پڑ جائیں، یا خشک سالی ہو تو وہ ناراض ہو جاتا ،اور فصل لہلانے لگے تو وہ زمین کا شکر بجا لاتا، یا اگر بارش ہو جائے تو آسمان کا شکر گزار ہوتا۔

چنانچہ، قدیم انسان کے شعور کا یہ بنیادی وصف تھا کہ وہ تجریدی تصورات کی تشکیل کرنے اور لازمی اور غیر لازمی اوصاف کے درمیان تمیز قائم کرنے سے قاصر تھا اور اس کے یہاں عقل پر جذبات کو غلبہ حاصل تھا ۔ہمارے عہد کے ایک عظیم ترین شاعر اور مفکر، رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی ایک نظم میں اس ذہن کی زکاوت آمیز تشریح کی ہے:

یہ احمق ذہن
بے سود تاریخ میں اپنا متلاشی ہے
وہ بے مقصد،
بند کمروں سے کھلے میدانوں
دور دراز میدانوں اور گھنے جنگلات میں
سرگرداں ہے
غصے میں زمین پر اپنےپاؤں مارتا ہے،
خاک اڑاتا ہے
غراتا ہے
درختوں سے سر ٹکراتا ہے،
اگر کہیں روشنی نظر آجائے
تو اس کو پکڑنے کے لیے
اس کے عقب میں بھاگتا ہے
اس کے پیچھے پیچھے چکر لگاتا جاتا ہے
پھر ایک بچے کی مانند چکر کھا کر گر جاتا ہے
اس کو نہیں پتہ کہ سر اب کیا ہے
اورزندگی ادھر

قدیم انسانی شعور اور جدید انسان کے جذبات و افکار کے مابین مکمل اختلاف کی بنیاد پر کچھ مفکر اس نتیجے کے قائل ہوگئے ہیں کہ فلسفہ انسانی شعور کے فطری ارتقاء کے نتیجے میں خودکار طور پر نمو نہیں پا سکتا تھا ۔ان کے نزدیک فلسفہ ایک خصوصی تحفہ ہے جو کسی مافوق البشری ، الہی قوت نے چنیدہ لوگوں، بالخصوص مغربی لوگوں کو عطا کیا۔19ویں صدی کے انگریز فلسفی اور ماہر عمرانیات ،ہربرٹ اسپنسر کی رائے میں حبشی لوگ فطرتا تجریدی فکر کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔نیگروصرف ٹھوس شبیہہ کے وسیلے سے ہی سوچتا ہے اور اس کے جذبات اس کی عقل پر حاوی رہتے ہیں ۔وہ پیچیدہ فلسفیانہ تصورات کا ادراک نہیں کر سکتا ۔

بیسویں صدی میں ایک اور نظریہ بہت مقبول ہو گیا تھا۔ اس نظریے کے داعیوں کا خیال ہے کہ علم کی جستجو میں انسان فطرت اور دوسرے لوگوں سے بے آہنگ ہو گیا ہے ۔صرف ایشیائی لوگوں نے اپنے خصوصی جبلی اوصاف کے باعث فطرت سے اپنی قدیم ‘ہم بستگی’ اور ہم آہنگی برقرار رکھی ہوئی ہے ۔چنانچہ ان لوگوں کے نزدیک تجریدی عقلی فکر اور فلسفہ کرنے کی عدم صلاحیت کوئی نقص نہیں بلکہ ایک سعادت ہے ۔سینیگال کا ایک شاعر ،فلسفی اور مدبر، لیوپولڈ سیدار سنگھور، کہتا ہے :”سیاہ فاموں کو جذبات ودیعت ہوئے اور یونانیوں کو عقل”۔(حوالہ: ایل ، ایس ، سنگھور، “حبشیت اورانسان دوستی”، پیرس، 1964، ص 24۔) “افریقی فکر تخیلاتی اور شاعرانہ ہے “۔’افریقی شخصیت ‘کے تصور کے حامی بھی اسی نسل پرستانہ نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ افریقی خود اپنے طور پر علوم اور فلسفے کی تخلیق کرنے کے اہل نہیں۔

درج بالا بحث سے ثابت ہے کہ اگرچہ فلسفے کی شرائط اولین کے مسئلے کا عصری مسائل سے بظاہر دور کا واسطہ بھی نہیں ہے تاہم اس میں بھی نظریاتی کشمکش پنہاں ہے۔

آئیے دیکھیں کہ قدیم انسان کے شعور و فکر کی خصوصی نوعیت کے اسباب کیا تھے۔اغلب یہی ہے کہ ہمیں یہ اسباب اس کی عملی سرگرمیوں کے حال احوال میں ہی دستیاب ہوں گے، یعنی اس کی محنت، روزمرہ زندگی اور دیگر افراد کے ساتھ اس کے ربط ضبط کی صورتوں میں ہی یہ اسباب مضمر ہونے چاہییں۔ بلا استثناء ، تمام لوگ ایک ایسے مرحلے سے گزرے ہیں جب آلاتِ محنت بہت بھونڈےتھے۔ صرف غذا کے حصول کے لیے انسان کو گھنٹوں جسم کوچورچور کر دینے والی کٹھن مشقت کرنی پڑتی تھی۔ یہ انسان مکمل طور پر فطرت اور اس کی ‘من موجیوں’ کا نشانہ بنا رہتاتھا۔چنانچہ، قدیم انسان کے خلقی واہموں میں جنم لینے والی ارواح ایک طرح سے ‘عملی’ قدروقیمت اور وقعت و حیثیت کی حامل تھیں۔ ان سے ایک دو کام نکلوائے جاسکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم یونانیوں نے اپنے جنگلات ،کھیتوں اور دریاؤں کو دیویوں او رپری پیکروں سے بھر دیا ۔روسیوں نے انہی میں جل پریاں اور نیک و بد روحیں بسا دیں، اور افریقیوں نے جو ڈک۔

چنانچہ، قدیم انسان کی “بھونڈی فکر” فطری قوتوں کے مقابل ان کی بے بسی اور ان کے علم ،مہارتوں اور تجربے کی کمی کا نتیجہ تھی۔ آج بھی اسے قائم و دائم یعنی سلامت رکھنے کی تمام کوششوں کا مفہوم یہی ہے کہ ایسا کرنے والے لوگ ثقافت کے ارتقا اور بالعموم تمام میدانوں میں انسانی ترقی کی راہ میں مزاحم ہو رہے ہیں

Leave a Comment