ملکیت کیا ہے؟ (پہلی قسط)

ملکیت کیا ہے؟ (پہلی قسط)

ملکیت سیاسی معیشت کے بنیادی عناصر میں سے ایک عنصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف پابندِ قانون مراحل کے دوران ملکیت کے ارتقاء کے بارے میں علمی نظریہ تاریخ کے مادی نظریے کا اہم ستون تسلیم کیا جاتا ہے۔

ماضی میں مختلف فلسفیوں، تاریخ دانوں اورمعاشیات کے علم کے ماہرین نے ملکیت کی ماہیت پر روشنی ڈالنے کی کوششیں کی ہیں اور آج بھی یہ کوشش جاری ہے۔ لیکن اشتراکیت (کمیونزم) کے بانی، کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز، ہی اس موضوع کا صحیح تجزیہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ان کے متعدد پیشرؤں کو اس امر کا احساس تھا کہ معاشرے کی صورتِ احوال کا انحصار ملکیت کی صورت احوال پر ہوتا ہے۔ ان میں خوابیدہ اشتراکیت (یوٹوپیائی سوشلزم) کے فرانسیسی ماہرین علوم ،ہنری سینٹ سائمن، چارلس فوریئر، کلاسیکی سرمایہ دار معیشت کے انگریز ماہرین ،آدم اسمتھ اور ڈیوڈ رکارڈو،اور جرمن کلاسیکی فلسفی جارج ولہیم فریڈرک ہیگل شامل ہیں ۔تاہم ان سب نے مادی اقدار کے اکتساب کے عمل اور قانون ملکیت کے آئینے کے عکس میں ظاہر ہونے والے ملکیتی رشتوں کو ایک جان لیا اور اس طرح ملکیت کی ماہیت کو حق ِملکیت میں تحلیل کر دیا ۔

مارکسی فکر کے مطابق لوگوں کے درمیان مادی اقدار (انسانی ضرورت کی چیزوں) کی پیداوار اور تقسیم کے حقیقی معاشی رشتے ہی ملکیت کی ماہیت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملکیت لوگوں کے مابین ایک رشتہ قرار پاتی ہے، نہ کہ فرد کا کسی چیز کے ساتھ وہ رشتہ جس کا اظہار کسی چیز (معروض) پر کسی فرد (موضوع) کے اختیار کے ذریعے ہوتا ہے۔ نہ ہی ملکیت کی یہ تعریف ہوسکتی ہے کہ یہ انسان کی اس فطری صلاحیت کا نام ہے جس کے ذریعے انسان خارجی دنیا کی چیزوں کو اپنا بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دار ماہرینِ معاشیات کی وہ تمام کوششیں علمی اعتبار سے غلط ثابت ہوئیں جن کے تحت وہ ملکیت کو رابنسن کروسو کی (کسی فرد کی) معیشت اور چیزوں کے ساتھ اس کے رشتے سے اخذ کرتے ہیں۔ انسان ایک اجتماعی وجود ہے اور معاشرے سے ہی شکل پذیر ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ ہی اپنی معاشی سرگرمیاں کسی ایک یا دوسرے معاشرے کی حدود کے اندر ہی سرانجام دیتا ہے۔ چنانچہ، ملکیت کسی فرد کی ذاتی زندگی کے بجائے صرف کسی معاشرے کی مادی زندگی کے حالات سے ہی اخذ کی جا سکتی ہے۔

چنانچہ، اگر ہم ملکیت اور اس کی ماہیت کو سمجھنا چاہتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ اس نے کیوں جنم لیا اور وہ کیوں تبدیلیوں کے عمل سے گزری تو ہمیں مادی چیزوں کی اجتماعی پیداوار میں مصروف لوگوں کے مابین حقیقی رشتوں کا تجزیہ کرنا ہوگا، یعنی ان رشتوں کو سمجھنا ہوگا جو ان کے شعور اور ارادے کے پابند نہیں۔

یہ سب کچھ درست ہے مگر مارکسی نظریہ اس امر کا اعتراف بھی کرتا ہے کہ ملکیت کا مسئلہ پیچیدہ اور بسیار پہلو ہے۔ اجتماعی پیداوار میں ہی ملکیت کی معروضی بنیادیں قائم ہیں اور یہی اس کی ماہیت کی تفہیم کے لیے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ تاہم ملکیت خارجی اور ظاہری شکلوں کی حامل بھی ہوتی ہے۔ ان شکلوں میں سے ایک شکل حقِ ملکیت ہے۔

یہ ظاہر ی طور پر حقِ ملکیت کی حقیقی معاشی ماہیت کا عکس ہوتی ہے، یعنی یہ ثانوی ہے اور اس ملکیت سے ماخوذ ہے جو فی الحقیقت ایک سماجی رشتے کے سوا کچھ نہیں۔ علاوہ ازیں، چونکہ ظاہری شکل انسانی شعور میں لوگوں کے درمیان حقیقی معاشی رشتوں کا رسمی اسمی عکس ہوتی ہے اسی لیے یہ حقِ ملکیت بیک وقت ملکیت کی معاشی ماہیت کا اظہار بھی کرتا ہے اور اسے مسخ بھی کرتا ہے۔

مثلا سرمایہ دارقانون یہ فرض کرتا ہے کہ سرمایہ دار معاشرے کے تمام اراکین سرمایہ دار، اجرتی مزدور، اور کسان، سبھی ملکیتوں کے مالک ہیں اور اس طرح وہ عظیم الجثہ کارخانوں اور ہزاروں اجرتی مزدوروں، اور مزدوروں کے مالک سرمایہ داروں اور ان محنت کش افراد کے درمیان کیفیتی فرق کو ابہام کا شکار کر دیتے ہیں جن کے پاس اپنی قوت محنت کے علاوہ کچھ نہیں۔

نیز، ان کسانوں، زمینداروں کو بھی ان سے خلط ملط کر دیتے ہیں جو ایک ایسے چھوٹے سے قطعہِ زمین کے مالک ہیں جن پر وہ خود اور ان کے اہل ِخاندان کاشت کرتے ہیں۔ سرمایہ دار معاشرے کا معاشی لباب اس بات سے متعین ہوتا ہے کہ سرمایہ دار زرائع پیداوار کا مالک ہوتا ہے جبکہ محنت کش کے پاس یہ ذرائع پیداوار بالکل بھی نہیں ہوتے ۔چنانچہ، اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اجرت کے عوض کام کے لیے خود کو پیش کرے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں وہ اس سرمایہ دار کو اپنی قوتِ محنت فروخت کرے جو اسے بیدردی سے استحصال کا نشانہ بناتا ہے۔

چنانچہ، ملکیت انسانی شعور اور ارادے سے آزاد ایک معروضی مظہر بھی ہے اور ایک ایسا موضوعی سطحی مظہر بھی ہے جس کا اظہار قانونِ ملکیت میں ہوتا ہے۔

سیاسی معیشت ملکیت کا مطالعہ ان معروضی رشتوں کے حوالے سے کرتی ہے جو اجتماعی پیداوار میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اجتماعی پیداوار کے دوران افراد کے درمیان رشتے جنم لیتے ہیں اور انہی پیداواری رشتوں کے حوالے سے ملکیت کی ماہیت کا علمی مطالعہ ممکن ہے چونکہ خود پیداواری رشتوں کا انحصار و تعین پیداواری قوتوں کی ترقی اور ارتقا پر ہوتا ہے۔

اس لئے یہ نتیجہ بھی ناگزیر ہو جاتا ہے کہ معاشرے کی ترقی کے نتیجے میں ملکیت کی ایک شکل پابندِ ضابطہ عمل کے ذریعے ملکیت کی دوسری شکل کے قیام کے لیے جگہ خالی کر دیتی ہے۔ قدیم اشتمالی برادری میں ملکیت کی اشکال غلام دارانہ ملکیت کے لیے، پھر غلام دارانہ ملکیت جاگیر دارانہ ملکیت کے لیے، بعد ازاں جاگیردارانہ ملکیت سرمایہ دارانہ ملکیت کے لئے اور سرمایہ دارانہ ملکیت اشتراکی اجتماعی ملکیت کے لیے راستہ چھوڑ کر غائب ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملکیت کا علمی نظریہ اس تصور سے متصادم ہے کہ نجی ملکیت ایک ایسا فطری وصف ہے جو انسان کی ناقابل تغیر فطرت سے مطابقت رکھنے کی وجہ سےخود بھی اتنا ہی ناقابل تغیر اور ازلی و ابدی ہے۔ یہی وہ غلط تصور ہے جو ملکیت کے بارے میں تمام سرمایہ دار نظریوں میں سمایا ہوا ہے اور جس کا طبقاتی مقصد یہ بات ثابت کرنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کا ‘مقدس’ اصول، فطرت کے عین مطابق ہونے کے باعث، ہمیشہ سے قائم ہے اور آخر تک قائم رہے گا۔

اس کے برعکس، مارکسی فکر ملکیت کے تصور کو معروضی پیداواری رشتوں کے حلقے میں منتقل کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح سوال یہ ہے کہ ملکیت کس قسم کا معاشی مظہر ہے؟

تمام دیگر علوم کی مانند سیاسی معیشت بھی اپنی تعلیمات اور نتائج کو ایسے تصورات اور ان کی تعریفوں کے ذریعے بیان کرتی ہے جو اس کی مخصوص زبان و اصطلاحات کو ترتیب دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملکیتی رشتوں کی ماہیت کی واضح تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ قارئین اپنے مصنفین کی اصطلاحات اور تصورات کے مفہوم کے بارے میں ان سے ذہنی ہم آہنگی پیدا کریں اور یہ جانیں کہ مصنف اصطلاحات کو کن معنی میں استعمال کر رہا ہے۔ اس ضمن میں اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ کئی صدیوں پر مبنی کاوشوں کے باوجود سیاسی معیشت کے متعدد مکاتبِ فکر اور فکری رجحانات اس موضوع پر کوئی ایسی علمی زبان مرتب کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے مختلف تصورات ہم آہنگ ہو ں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ سرمایہ دار ماہرینِ معاشیات ایک جیسے تصورات سے مختلف معنی نکالتے ہیں۔

صرف مارکسی-لیننی سیاسی معیشت نے ہی ہم آہنگ اصطلاحاتی محاورات پر مبنی ایک ایسی زبان کی ترویج کی ہے جس کے تصورات اور تعریفیں معاشرے کی معاشی زندگی کے مطالعے کے لیے مادی نقطہِ نظر کی تشریح کرتی ہیں۔

Leave a Comment