تحریر: بدرالدین عمر
ترجمہ: شاداب مرتضی
نوٹ: 89 سالہ بدرالدین عمر بنگلہ دیش کے ایک ممتاز انقلابی مفکر، سیاستدان، محقق اور مصنف ہیں۔ وہ بین الاقوامی اور ملکی کمیونسٹ تحریک، نظریے، سیاست، تاریخ، ثقافت اور سماجیات وغیرہ کے موضوعات پر 100 سے زیادہ کتابیں اور بے شمار مضامین لکھ چکے ہیں۔ 71-1970ء میں وہ مشرقی پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے رکن اور اس کے ہفت روزہ رسالے “عوامی طاقت” کے مدیر بھی رہے ہیں۔
سن 71ء کی جنگ میں کون آزاد ہوا؟
سن 1971ء کی آزادی کی جنگ جسے عام طور پر جنگِ آزادی بھی کہا جاتا ہے وہ قومی جبر کے خلاف اس جدوجہد کے اختتام پر ہوئی جو 1947ء میں ملک کے بٹوارے سے جاری تھی۔ محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر اور سب سے ممتاز لیڈر کے طور پر برطانوی انڈیا میں اپنی آئینی جدوجہد میں ہمیشہ وفاقی نظام کی بات کی، جس کا مطلب ان کی نظر میں ان صوبوں کی خودمختاری تھا جن میں سے کچھ میں مسلمان اکثریت میں تھے۔ دوسری طرف، انڈین نیشنل کانگریس کی تمام قیادت وحدانی نظام (Unitary System) یا مضبوط مرکز کی حامی تھی کیونکہ انڈیا میں مجموعی طور پر غیرمسلم آبادی کثیر اکثریت پر مشتمل تھی۔ اس آئینی جدوجہد کے تلے انڈیا کے سرمایہ داروں کے مفادات پوشیدہ تھے، خصوصا وہ بڑے سرمایہ دار جو ماڑواڑی، گجراتی، پارسی، میمن تھے یا ٹاتا، برلا، اصفہانی اور آدم جی گھرانوں وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ بالآخر ان انڈین سرمایہ داروں اور انڈیا پر حکمرانی کرنے والے برطانوی سرمایہ داروں کے مفادات کے تحت انڈیا کے ٹکڑے کر دیے گئے۔ یہ بات کہ چھوٹے اور بڑے مسلمان سرمایہ داروں کے بنیادی مفادات بھی یہی تھے، بلا شک و شبہ، اس وقت ثابت ہوگئی جب جناح اور مسلم لیگ کی مرکزی قیادت نے مشرقی بنگال کی صوبائی خودمختاری سے مکمل انکار کیا اور وفاقیت کے اس اصول کو غیررسمی انداز سے پسِ پشت ڈال دیا جس کے لیے انہوں نے 1930ء کی دہائی میں اور خصوصا 1940ء کی قراردادِ لاہور کے وقت سے اس قدر دھول اڑائی تھی۔
اس کے نتیجے میں قومی جبر ناگزیر طور پر پاکستان کی مرکزی پالیسی کا ایک جزو بن گیا اور مشرقی بنگال اس کا سب سے بڑا نشانہ بنا۔ لہذا، اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ قومی جبر کے خلاف جدوجہد بٹوارے کے قرببا فورا بعد ہی شروع ہوگئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زور پکڑنے لگی۔ ہندو-مسلم تضاد کی جگہ مشرقی بنگال کے لوگوں اور مغربی پاکستان میں مقیم سرمایہ داروں کے درمیان تضاد بڑھنے لگا۔ لیکن جلد ہی اس تضاد کی جگہ ایک اور قسم کا تضاد ابھر آیا یعنی مغربی پاکستان میں موجود بڑے سرمایہ داروں اور مشرقی بنگال میں آہستہ آہستہ ابھرنے والے سرمایہ داروں کے درمیان تضاد۔
اس تضاد کی نشوونما کی نوعیت نے مشرقی بنگال میں قومی جبر کے خلاف جدوجہد کے کردار پر بہت بڑے پیمانے پر اثر ڈالا۔ درحقیقت، یہ کانگریس اور برطانوی ہند انتظامیہ کے خلاف مسلم لیگ کی جدوجہد سے حیران کن مشابہت رکھتا تھا۔ دونوں ہی میں محنت کش طبقے کی کثیر اکثریت نے سرگرمی سے حصہ لیا اور عظیم ترین قربانیاں دیں مگر ان کے مفادات کو پہلے کی طرح ہی نئے ابھرنے والے حکمران طبقوں نے بھی نظر انداز کیا۔ یہ نئے حکمران طبقے شہروں اور دیہی علاقوں کے کسانوں، مزدوروں اور دیگر پیشہ ور محنت کش لوگوں کے خلاف جبر و تشدد کے اقدامات کرنے میں کبھی نہیں ہچکچائے۔
مشرقی بنگال میں قومی جبر کے خلاف جدوجہد کو مغربی پاکستانیوں، خصوصا پنجابیوں کے خلاف جدوجہد بنا کر پیش کیا گیا یا دوسرے لفظوں میں اس جدوجہد نے بنگالیوں کی غیربنگالیوں کے خلاف جدوجہد کی شکل اختیار کی اور بتدریج شاؤنسٹ رویہ اختیار کر لیا، یعنی یہ نہ صرف مغربی پاکستان سے تضاد میں آئی بلکہ یہ ان اردو بولنے والوں کے بھی خلاف ہوگئی جنہوں نے 1947ء کے بعد مشرقی بنگال میں رہائش اختیار کی تھی۔ پاکستان کی مرکزی حکومت نے بھی پاکستان کے دونوں حصوں میں اس چیز کی حوصلہ افزائی کی۔ پاکستان کے دونوں حصوں کے درمیان معاشی ناہمواری کا احتجاج کرنے والے عناصر جو بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ رجحان رکھتے تھے اور سیاسی طور پر عوامی لیگ کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے یا اس سے وابستہ تھے انہوں نے بھی اس چیز کی حوصلہ افزائی میں اہم کردار ادا کیا۔
مشرقی پاکستان میں لوگوں کے خلاف قومی جبر نے لوگوں میں سیاسی ردعمل پیدا کیا اور سرمایہ دارانہ پروپیگنڈہ کے بہکاوے میں آکر وہ ایسے تنازعے کی طرف بڑھے جو بنیادی طور پر غیرآئینی تھا۔ عوامی لیگ کی قیادت نے بھی اس بات کا ادراک کر لیا تھا جس کی عکاسی ریس کورس میدان میں 7 مارچ 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن کی اشتعال انگیز تقریر نے کی تھی، جس میں اس نے عامیانہ انداز سے لوگوں کو کہا تھا کہ ہر گھر میں (جو کہ زیادہ تر جھونپڑیاں تھیں) قلعہ تعمیر کر لیں اور بانس کی لاٹھیوں جیسے متروکہ ہتھیاروں سے دشمن کی مزاحمت کریں، وغیرہ!
لیکن عوامی لیگ خود پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف آزادی کی جنگ کی لڑائی کا حصہ نہیں تھی، اور ایک آئینی پارٹی کے طور پر، شیخ مجیب الرحمن نے پاکستانی حکومت کے خلاف گاندھی کی طرز کی تحریکِ عدم تعاون کے پروگرام کا اعلان کیا اور لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ مشرقی پاکستان کی حکومت سے متعلق ان کے احکامات پر عمل کریں!
اقتدار کے بھوکے جنونی کی طرح ریس کورس میدان کی تقریر کے بعد، شیخ مجیب الرحمن نے پرامن انداز سے حکومت “چلانا” شروع کردی اس بات کا احساس کیے بغیر کہ اپنی تقریر میں اس نے جو کہا تھا اور کیا تھا اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ اور پھر خوشدلی کے ساتھ اس نے یحیی اور بھٹو جسے مجرموں سے آئینی مذاکرات جاری رکھے۔ اس دوران ڈھاکہ اور مشرقی بنگال کے لوگوں کو حکومت کے مسلح حملے کے خلاف عمومی طور پر عدم تیاری کی حالت میں رکھا گیا اور یحیی نے، وقت ضائع کیے بغیر، مغربی پاکستان سے سپاہی اور اسَحہ بارود ڈھاکہ ایئرپورٹ پر پہنچا دیے۔ عوامی لیگ کی عالیشان “حکومت” کی مہارت یہ تھی کہ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ ڈھاکہ ایئرپورٹ پر ان کی ناک کے نیچے کیا ہورہا تھا! سو، 25 مارچ کی صبح تک “عظیم لیڈر” اور حکومت میں اس کے حصہ دار پر یقین تھے کہ وہ اس گاجر میں سے اپنا حصہ حاصل کر لیں گے جسے یحیی نے ان کے سامنے دو فیصلہ کن ہفتوں سے لٹکایا ہوا تھا۔ پاکستان کی فسطائی فوج نے غیر تیار اور غیر مسلح لوگوں پر مکمل اور بلاامتیاز مسلح حملہ کر دیا اور ہزاروں کی تعداد میں ان کا قتلِ عام شروع کردیا اور نو مہینوں میں یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔ عوامی لیگ کے مرکزی لیڈر اور ان کے پیروکار، دہشت کی حالت میں، جس جانب منہ اٹھا جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے اور کلکتہ پہنچے “جب تک کہ ان کی ٹانگوں نے ان کا ساتھ دیا”! ان کے عظیم لیڈر اور ہیرو، شیخ مجیب الرحمن نے اپنے ہمسفروں کی طرح اپنے پیارے وطن کو چھوڑنے کے بجائے اپنے کنکریٹ کے “قلعے” میں رہنے کا فیصلہ کیا اور چلی کے سلواڈورالینڈے کی طرح لڑنے کے بجائے بزدلانہ انداز سے پاکستانی فوج کے آگے سرنگوں کردیا۔ اسے مغربی پاکستان بھیج دیا گیا جہاں وہ لمبی نیند کی حالت میں رہا جب تک کہ مشرقی پاکستان میں نو ماہ طویل جنگِ آزادی ختم نہیں ہوگئی۔ یہ تھا عوامی لیگ کی قیادت کا اخلاقی کردار کہ وہ سب کچھ کرنے کے بعد جو انہوں نے کیا، انہیں یہ دعوی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی کہ 26 مارچ کی رات کو یہ وہ تھے جنہوں نے جنگِ آزادی کا اعلان کیا تھا اور لوگوں کو یہ جنگ لڑنے کا کہا تھا۔ کیا کسی نے ایسے جرنیل یا عظیم لیڈر کے بارے میں سنا ہے جو دشمن کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے کے بعد بزدلی سے اس کے سامنے سر جھکا دیتا ہے، اور کسی نے کبھی ایسی انقلابی یا محبِ وطن پارٹی کے بارے میں سنا ہے جس کی پوری قیادت جان بچانے کے لیے ملک سے بھاگ جاتی ہے اور عوام کو فسطائی دشمن کے ظالم ترین اور مسلسل جاری مسلح حملے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے؟
اس بات کو فخر کے ساتھ تسلیم کرنا چاہیے کہ مشرقی بنگال کے مزدوروں اور کسانوں اور درمیانے طبقے کے بعض خاندانوں کے جانباز بیٹوں نے عظیم جرآت اور قربانی کے ساتھ جنگِ آزادی لڑی لیکن مجیب نگر کے عظیم “مجاہدینِ آزادی” نے اس دوران کیا کیا وہ سب باعلم لوگوں کو معلوم ہے۔ اس کے باوجود عوامی لیگ کی مفلوک الحال تنظیم اور قیادت 16 دسمبر 1971ء کے بعد انڈین فوج کی چھتری تلے ایک ہیرو کے انداز میں گھر واپس آئی اور وہ غنڈے جو انڈیا بھاگنے اور وہاں سے واپسی پر ان کے ساتھ تھے، انہوں نے ان سب کی مذمت شروع کر دی جو جنگ کے کٹھن دنوں میں اپنی مادرِ وطن کے ساتھ رہے تھے۔
عوامی لیگ کی “جہدِ آزادی” کی تمام تفصیلات میں جانا نہ ہی یہاں ضروری ہے اور نا ہی ممکن ہے لیکن اب تک جو کہا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایک آزاد ریاست کے طور پر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد چیزوں نے جو شکل اختیار کی وہ اس سے مختلف نہیں ہوسکتی تھی جو کہ اس کے بعد ہے۔ لالچی مقامی سرمایہ دار بے کس لوگوں کی دولت پر ٹوٹ پڑے اور لوٹ مار کے دور کا آغاز ہوا۔ لہذا، آزاد بنگلہ دیش میں عام لوگوں نے، ہر طرح کے محنت کش لوگوں نے، خود کو آزاد پانے کے بجائے زنجیروں میں جکڑا پایا۔
سن 1971ء کی جنگِ آزادی کی جنگ تھی، پاکستانی ریاست اور پاکستان کے بڑے سرمایہ داروں کی حکمرانی سے آزادی کی جنگ۔ لیکن عوام کی آزادی ہنوز دور پرے کی بات تھی۔ 1971ء میں بنگالیوں نے اپنی قومی تاریخ میں پہلی بار اپنی ریاست قائم کی اور بالکل درستگی کے ساتھ یہ دعوی لازما کرنا چاہیے کہ یہ ریاست بنگلہ دیش کے عوام نے قائم کی کسی “ہیرو” نے نہیں جیسا کہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی تمام جدوجہدوں میں عوام لڑتی ہے اور لیڈر سازشیں کرتے ہیں، جدوجہد کا پھل کھاتے ہیں اور آزادی کے مزے لوٹتے ہیں۔ چنانچہ، (عوامی لیگ کی) لیڈرشپ کے لیے آزادی کا مطلب ان زنجیروں سے آزادی تھی جو انہیں اپنے ہی عوام کا استحصال کرنے اور انہیں لوٹنے سے اور سامراج کے ساتھ آزادانہ معاہدے کرنے سے روکتی تھیں۔
لیکن محنت کش لوگوں کے لیے، ان کے لیے جو زمین کا نمک ہیں، آزادی ہنوز دور اور غیر حقیقی تھی۔ زرائع پیداوار (کانیں، مشینری، فیکٹریاں وغیرہ) کی ملکیت میں تبدیلی کے بغیر اور پیداواری رشتوں میں تبدیلی کے بغیر، جو ملکیت کی شکل کے شانہ بشانہ وجود رکھتے ہیں، عوام کے لیے کوئی آزادی نہیں ہوسکتی تھی۔ آزاد بنگلہ دیش میں زرائع پیداوار کی ملکیت اور پیداواری رشتے جوں کے توں رہے اور حقیقتا کچھ نہیں بدلا سوائے ظلم اور استحصال کرنے والوں کی قومیت کے۔
مضمون: سن 71ء کی جنگ میں کون آزاد ہوا؟،
ہولیڈے، سالگرہ نمبر، 10 اکتوبر 1999ء۔
انگریزی متن کا لنک
https://www.revolutionarydemocracy.org/archive/war1971.pdf